• 18 مئی, 2024

آپؑ نے فرمایا کہ ہمارے غالب آنے کے ہتھیار تو یہ باتیں ہیں۔ اگر تم اِن باتوں کو اختیار کر لو تو غلبے میں تم بھی حصہ دار بن جاؤ گے۔ ورنہ نام کے احمدی تو ہو لیکن عملی احمدی نہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پس ہمیں ہمیشہ اِن اہم باتوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہئے۔ یہ نصائح صرف نئے احمدیوں کے لئے نہیں تھیں جو آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے یاجو آج نئی بیعتیں کرتے ہیں بلکہ ہر احمدی کے لئے ہیں اور جتنا پُرانا احمدی ہو اُس کے ایمان میں زیادہ ترقی ہونی چاہئے۔ اس میں اِن باتوں پر عمل کرنے کی کوشش اُن سے بڑھ کر ہونی چاہئے جو نئے آنے والے ہیں۔ استغفار کیا ہے؟ اپنے اگلے پچھلے گناہوں سے بخشش طلب کرنا۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آنا تا کہ گناہوں سے بچتا بھی رہے۔ توبہ یہ ہے کہ جن غلط کاموں میں پڑا ہوا ہے اُن سے کراہت کرتے ہوئے اُن سے بچے رہنے کا پکّا اور پختہ اور مصمّم ارادہ کرنا۔ اور پھر اُس ارادے پر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے کاربند رہنا، اُس پر عمل کرناکہ کوئی بھی چیز اُس کو اُس سے ہلا نہ سکے۔ پھر دینی علوم کی واقفیت ہے۔ اس میں سب سے پہلے قرآنِ کریم ہے۔ پھر قرآن اور صحیح احادیث کی روشنی میں اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام ہے۔ آپ کی کتب ہیں۔ آپ کی مختلف تحریرات و ارشادات ہیں جو اسلام کی حقیقی تعلیم کی برتری دنیا پر دلائل و براہین سے ثابت کرتے ہیں، جس کے مقابل پر کوئی اور دین کھڑا نہیں رہ سکتا کیونکہ اسلام ہی آخری، کامل اور مکمل دین ہے۔ پھر خدا تعالیٰ کی عظمت ہے۔ اگر خداتعالیٰ کی عظمت مدّنظر رہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ یقین اور ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جو ہر چیز کو پیدا کرنے والی ہے اور تمام ضروریات کو پورا کرنے والی ہے اور زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ کے کامل علم نے اُس کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ وہ ہمارا ربّ ہے۔ زندگی اور موت بھی اُس کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ ہر جگہ موجود ہے اور ہر آن ہمیں دیکھ رہا ہے۔ تو پھر ایک انسان کبھی کوئی ایسا کام نہیں کر سکتا جو اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے خلاف ہو۔ اور جب اللہ تعالیٰ کی یہ عظمت دلوں میں قائم ہو جائے گی تو پھر پانچ وقت نمازوں کی طرف بھی خود بخودتوجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ دعاؤں کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ اس بڑھتے ہوئے تعلق کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے پر یقین پیدا ہوتا چلا جائے گا بلکہ اس میں مضبوطی پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ اور نماز کے بارہ میں یہ فرمایا کہ یہ تمام دعاؤں کی کنجی ہے۔ نماز ہی وہ اصل دعا ہے جو خدا تعالیٰ کے قریب کرتی ہے۔ اور بندے کا خدا تعالیٰ سے زندہ تعلق جوڑتی ہے۔ پس نمازوں کو سنوار کر اور وقت پر پڑھنے کی قرآنی تعلیم بھی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی اُمّت کو خاص طور پر اس طرف متوجہ فرمایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اس پر بہت زور دیا ہے۔ پس جب انسان ان باتوں پر عمل کرے گا تو حقوق اللہ ادا کرنے کی طرف بھی توجہ رہے گی اور حقوق العباد ادا کرنے کی طرف بھی توجہ رہے گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر یہ انقلاب تم اپنے اندر پیدا کر لو تو پھر اُس غلبے میں تم بھی حصہ دار بن جاؤ گے جو مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت سے مقدر ہے، جس کا مقدر اس سے جُڑا ہوا ہے۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق مسیح موعود کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ عطا فرمانا ہے لیکن ہمیں نصیحت فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ہمارے غالب آنے کے ہتھیار تو یہ باتیں ہیں۔ اگر تم اِن باتوں کو اختیار کر لو تو غلبے میں تم بھی حصہ دار بن جاؤ گے۔ ورنہ نام کے احمدی تو ہو لیکن عملی احمدی نہیں۔ پس ہم میں سے ہر ایک کو وہ عملی احمدی بننے کی کوشش کرنی چاہئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے غلبے کی مہم کا حصہ بنے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بے شمار جگہ پر اس غلبے کی بشارات دی ہوئی ہیں۔ اور ہر دن جو جماعت پر چڑھتا ہے ہم اِن بشارات کو پورا ہوتے دیکھتے ہیں۔ جس شدت سے جماعت کی مخالفت کی جا رہی ہے اگر یہ کسی انسان کا کام ہوتا تو ایک قدم بھی آگے بڑھنا تو دور کی بات ہے، ایک لمحہ بھی زندہ رہنا مشکل ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں اس لئے تمام روکوں، تمام مخالفتوں کے باوجود جماعت ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو الہامات کے ذریعے اس ترقی کی بشارتیں دی تھیں جیسا کہ مَیں نے کہا۔

ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی بشارات بالکل حق ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کا مقدر یقیناً غلبہ ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ بشارتیں دیتا ہے تو ماننے والوں پر بھی بعض ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، اُن پر بھی کچھ فرائض لاگو ہوتے ہیں جن کا ادا کرنا ضروری ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘۔

(تذکرہ صفحہ260 ایڈیشن چہارم مطبوعہ ربوہ)

یقیناً یہ کام خدا تعالیٰ ہی کر رہا ہے۔ اور آج کل اِس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے ایم۔ ٹی۔ اے کو اس کا بہت بڑا ذریعہ بنایا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام زمین کے کناروں تک پہنچے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جویہ پیغام ہے یہ زمین کے کناروں تک پہنچے اور ایم۔ ٹی۔ اے اس کا حق ادا کر رہا ہے۔ لیکن اگر ہم ایم۔ ٹی۔ اے کی مشینیں لگا کر آرام سے بیٹھ جائیں، کوئی کام نہ کریں، پروگرام نہ بنیں، کسی قسم کی ریکارڈنگ نہ ہو، جو مختلف تبلیغی پروگرام ہوتے ہیں وہ نہ ہوں توجو ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمایا ہے اُس کا استعمال نہ کر کے ہم اپنے آپ کو اس سے محروم کر رہے ہوں گے اور اُس سے فائدہ نہیں اُٹھا رہے ہوں گے۔ جو لٹریچر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مہیا فرمایا ہے اُس سے استفادہ کر کے اگر ہم آگے نہیں پہنچاتے، اُس کو پھیلاتے نہیں تو ہم اپنے فرائض ادا نہیں کر رہے ہوں گے اور پھر گناہگار بن رہے ہوں گے۔ گو اللہ تعالیٰ نے یہ کام تو کرنے ہیں۔ ہمارے سے نہیں تو کسی اور ذریعے سے کروا دے گا۔ لیکن ہم اگر ان ذرائع کو استعمال نہیں کرتے جو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرمائے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم گناہگار ہیں۔ دنیا میں کبھی یہ نہیں ہوا کہ نبی یا اُس کی جماعت نے اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے بعد سب کام چھوڑ دئیے ہوں اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گئے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اور کون اللہ تعالیٰ کا پیارا ہو سکتا ہے؟ لیکن جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے قیصر و کسریٰ کی حکومتوں کے مغلوب ہونے کی بشارت دی تو آپ کے صحابہ کو کوشش بھی کرنی پڑی، قربانیاں بھی دینی پڑیں۔ دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کو حقیر سمجھ کر اُن کو کچلنا چاہاتو دنیا کی نظر میں انہیں بظاہر حقیر لوگوں نے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے جو ایمان کی دولت سے مالا مال تھے، جو توبہ استغفار کرنے والے تھے، جو نمازوں کو اس خوبصور تی سے ادا کرنے والے تھے کہ اُن پر رَشک آتا تھا، جو اللہ تعالیٰ کی عظمت دلوں میں بٹھائے ہوئے تھے، کوئی دنیاوی شان و شوکت اور بادشاہوں کی جاہ و حشمت اُن کے سامنے کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا کرنے کے لئے اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے قیصر و کسریٰ کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اُن کی حکومتوں کو پاش پاش کر دیا۔ محنت کی، قربانیاں کیں تو تب یہ کچھ حاصل ہوا۔ یہ یقین اور ایمان تھا جس نے اُن میں یہ ایمانی مضبوطی پیدا کی کہ بیشک دنیاوی جاہ و حشمت اور طاقتیں ان لوگوں کے پاس ہیں، اِن بادشاہوں کے پاس ہیں۔ کثرتِ تعداد اُن کی ہے لیکن یہ ساری چیزیں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ یہ ملنا ہے اور ہم نے کوشش کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور ہماری مدد فرمائے گا۔ پس ایک پیشگوئی تھی جو پوری ہونی تھی اور ہوئی لیکن اُن کی یہ کوشش تھی کہ اگر ہمارے ہاتھ سے پوری ہو جائے تو ہم اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ پس یہی حالت آج ہماری ہونی چاہئے۔ ہمیں اس بات پر یقین ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے یقیناً پورے ہونے ہیں۔ اگر ہم ان وعدوں کو پورا کرنے میں اپنی حقیر کوشش شامل کر لیں، اگر ہم اپنی ذمہ داری کی اہمیت کو سمجھنے والے بن جائیں تو ہم خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے بن جائیں گے۔ ہر احمدی کو، ہر کارکن کو اس ذمہ داری کو سمجھنے اور اُس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

(خطبہ جمعہ 13؍ مئی 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مئی 2021