سمجھ آئے محبت کے امور آہستہ آہستہ
اتر آیا طبیعت میں سرور آہستہ آہستہ
محبت جب قدم رکھ دے کسی بھی دل کے آنگن میں
نکل جاتا ہے اس دل سے غرور آہستہ آہستہ
بساتے ہیں جو شہروں کو محبت سے عقیدت سے
وہی آباد کرتے ہیں قبور آہستہ آہستہ
ہدایت ساتھ نہ ہو تو زر و دولت کی کثرت سے
دماغوں میں اتر آئے فتور آہستہ آہستہ
اسے بس وقت کا مرہم شفایابی دلائے گا
ہوا جو وقت کے زخموں سے چور آہستہ آہستہ
بہت دلکش بھی ہو منظر گھٹن جب بڑھتی جاتی ہے
تو اُڑ جاتے ہیں باغوں سے طیور آہستہ آہستہ
کوئی دکھ دل میں بو کر آبیاری روز کرنے سے
وہ بنتا ہے شجر اک دن ضرور آہستہ آہستہ
تعلق ٹوٹ جائے جب کسی دیرینہ ہمدم سے
تو ہو جاتا ہے یادوں سے بھی دور آہستہ آہستہ
جو اک تحریر لکھی تھی حرم کے پاسبانوں نے
وہ اب مٹنے لگی ہیں سب سطور آہستہ آہستہ
اندھیری رات بالآخر ہوئی ہے ختم صدیوں کی
مگر ہو گا اجالے کا ظہور آہستہ آہستہ
بہت تسکین ملتی ہے روایت جب یہ سنتا ہوں
معاف ہو جائیں گے آخر قصور آہستہ آہستہ
بظرفِ استطاعت، التجا ہے آپ سے میری
کرم مجھ پر کریں لیکن حضور آہستہ آہستہ
یہ ممکن ہی نہیں لمحوں میں حاصل سب مہارت ہو
کسی بھی فن پہ ہوتا ہے عبور آہستہ آہستہ
نجیب احمد نے رکھا ہے قدم شعروں کی دنیا میں
سمجھ جائے گا غزلوں کی بحور آہستہ آہستہ
(نجیب احمد فہیم)