• 20 اپریل, 2024

آہستہ آہستہ

سمجھ آئے محبت کے امور آہستہ آہستہ
اتر آیا طبیعت میں سرور آہستہ آہستہ

محبت جب قدم رکھ دے کسی بھی دل کے آنگن میں
نکل جاتا ہے اس دل سے غرور آہستہ آہستہ

بساتے ہیں جو شہروں کو محبت سے عقیدت سے
وہی آباد کرتے ہیں قبور آہستہ آہستہ

ہدایت ساتھ نہ ہو تو زر و دولت کی کثرت سے
دماغوں میں اتر آئے فتور آہستہ آہستہ

اسے بس وقت کا مرہم شفایابی دلائے گا
ہوا جو وقت کے زخموں سے چور آہستہ آہستہ

بہت دلکش بھی ہو منظر گھٹن جب بڑھتی جاتی ہے
تو اُڑ جاتے ہیں باغوں سے طیور آہستہ آہستہ

کوئی دکھ دل میں بو کر آبیاری روز کرنے سے
وہ بنتا ہے شجر اک دن ضرور آہستہ آہستہ

تعلق ٹوٹ جائے جب کسی دیرینہ ہمدم سے
تو ہو جاتا ہے یادوں سے بھی دور آہستہ آہستہ

جو اک تحریر لکھی تھی حرم کے پاسبانوں نے
وہ اب مٹنے لگی ہیں سب سطور آہستہ آہستہ

اندھیری رات بالآخر ہوئی ہے ختم صدیوں کی
مگر ہو گا اجالے کا ظہور آہستہ آہستہ

بہت تسکین ملتی ہے روایت جب یہ سنتا ہوں
معاف ہو جائیں گے آخر قصور آہستہ آہستہ

بظرفِ استطاعت، التجا ہے آپ سے میری
کرم مجھ پر کریں لیکن حضور آہستہ آہستہ

یہ ممکن ہی نہیں لمحوں میں حاصل سب مہارت ہو
کسی بھی فن پہ ہوتا ہے عبور آہستہ آہستہ

نجیب احمد نے رکھا ہے قدم شعروں کی دنیا میں
سمجھ جائے گا غزلوں کی بحور آہستہ آہستہ

(نجیب احمد فہیم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ