• 17 مئی, 2024

شادی بیاہ پر بیوٹی پارلرز سے تیاری اور بے پردگی

آج کل رمضان کے بعد شادیوں کا موسم شروع ہونے والا ہے۔ جس میں وقت کی پابندی بالعموم نہیں ہوتی اس ضمن میں ایک اداریہ اس سے قبل اخبار کی زینت بن چکا ہے۔ زیر نظر اداریہ میں بیوٹی پارلرز سے تیاری اور بے پردگی زیر بحث لانی مقصود ہے۔

اس ضمن میں خاکسار اپنی گزارشات کا آغاز سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے ارشاد سے کرتا ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان خوشی کے مواقع پر اسلام میں بیان کردہ حدود کو بھی عبور کر جاتا ہے۔ اس لئے اسلامی حدود کو عبور کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے۔ ان حدود میں ایک حد بے پردگی کی ہے۔جس کا آغازبیوٹی پارلر سے ہوتا ہے۔شادی بیاہ کے موقع پر یہ سمجھا جانے لگا ہے کہ اگر پردہ میں کسی حد تک نرمی کر دی جائے تو خیر ہے۔اسی لئے

  1. بیوٹی پارلرز سے تیاری کے بعد اپنی گاڑی تک آنا اور پھر اُتر کر شادی ہال یا مار کی تک بے پردہ جانا یہ بے پردگی کے زمرہ میں آتا ہے۔
  2. بیوٹی پارلرز میں تیاری کے بعد فوٹو سیشن کروانا۔ اور پھر شادی کے موقع پر مہندی پر جسے اب الگ سے ایک فنکشن تصور کیا جانے لگا ہے۔ نکاح پر، پھر ولیمہ پر الگ الگ سے فوٹو سیشن اور غیر مرد فوٹوگرافرز کےسامنے جا کر مختلف پوز بنا کر اور بے پردہ ہو کر فوٹو کھنچوانا بے پردگی ہی ہے۔
  3. کھانا غیر مرد بیروں کے ذریعہ serve کروانا بھی بے پردگی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ اور بعد میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اپنے اپنے ہاں احمدی بچیاں فوٹو گرافی سیکھیں جو احمدی فنکشنز پر فوٹو گرافی کریں اور کھانا بھی احمدی بچیوں، عزیز و اقارب سے serve کروایا جائے۔ چنانچہ لندن میں مَیں نے بار ہا دیکھا ہےکہ جماعتی فنکشنز بالخصوص شادیوں پر احمدی بچیاں profession کے طور پر فوٹو گرافی کرتی ہیں۔ وہی ویڈیو گرافی کے بعد ڈبنگ اور مکسنگ کر کے ایک گلدستہ کی صورت میں البم یا ویڈیو بنا کر دیتی ہیں اور کھانا بھی احمدی بچیاں ہی serve کرتی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا تھا کہ اگر لندن میں ایسا ہو سکتا ہے تو پاکستان میں لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں کیوں نہیں؟بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ٰنے تو بالخصوص انصار کو لجنہ کے فنکشنز پر تعاون کرنے کا مکلف فرمایا تھا۔ اور فرمایا تھا کہ لندن میں انصار عورتوں کے فنکشنز پر تمام انتظامات اپنے ذمہ لے لیتے ہیں بلکہ برتن تک دھودیتے ہیں۔

  1. یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض اوقات خواتین نا واقفیت میں شادی کے مواقع پر بے پردہ ہو کر ہال، پنڈال يامارکی سے باہر بلکہ سٹرک پر آکر بارات کا استقبال کر رہی ہوتی ہیں اور دولہے اور باراتی خواتین پر گل باشی بھی کرتی ہیں۔
  2. دلہن کو برقعہ میں یا چادر اوڑھ کر الوداع کرنا ہمارا شعار رہا ہے۔ اب چادر کیا دوپٹہ کو بھی خیر باد کہا جا رہا ہےکہ بال خراب ہو جاتے ہیں۔ پھر دلہن کو گاڑی تک رخصت کرنے کے لئے اس کے ماں باپ و دیگر خواتین جاتی ہیں اور وہاں اس وقت تک بے پرد کھڑی رہتی ہیں جب تک دلہن روانہ نہ ہو جائے۔ اکثر اوقات تو فوٹوز اور ویڈیو گرافرز کی وجہ سے الوداع میں نصف گھنٹہ بھی لگ جاتا ہے۔ جو وقت کے ضیاع میں آتا ہے۔
  3. پھر بے پردگی کی ایک صورت آج کل گاڑی میں بے پرد بیٹھنا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نےفرمایا تھا کہ یہ بھی بے پردگی کی ایک صورت ہے۔
  4. آج کے دور میں ایک نحوست ایشیائی ممالک میں ڈرون کی صورت میں ہمارے معاشرے پر لاگو کی جارہی ہے۔ ایک تو ڈرون کا لفظ ذہن میں آتے ہی ’’خفیہ حملے‘‘ آتے ہیں۔ وہ باپردہ عورتوں کی خفیہ انداز میں فوٹو بنا کر لے جاتا ہے۔ اور ہم بڑے فخریہ انداز میں اس امر کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں کہ شادی میں ڈرون بھی موجود تھا۔ بلکہ ایک بچے نے تو ڈرون کو ہوا دیتے دیکھ کر اس امر کا اظہار کر دیا کہ دیکھو! گرمی کی وجہ سے انہوں نے ہوائی پنکھے کا بھی انتظام کر رکھا تھا۔ یہ تمام چونچلے اپنی ناک بلند کرنے، خاندان کی کبریائی کےلئے کئے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا تو‘‘ پھر لوگ کیا کہیں گے’’؟۔ وہ یہ نہیں جانتے کہ کبریائی توصرف زیبا ہے ربِّ غیور کو۔
  5. شادی کے موقع پر فوٹو گرافی اور فوٹو سیشن کے after shocks کے ذریعہ جو بے پردگی ہوتی ہے وہ بہت تکلیف دہ،ہو لناک اور مستقبل کے لئے بہت خطرناک ہے۔ جیسے

I. فوٹو گرافی کے لئے مختلف کیمرے استعمال ہوتے ہیں۔ ان تمام کیمروں کی ویڈیو کو مکسنگ اور ڈبنگ کےمراحل سے جب گزارا جاتا ہے تو غیر محرم عورتوں کی تمام اداؤں اور حر کتوں کو نوٹ کرتے، تبصرے کرتے اور بسا اوقات بار بار Reverse کر کے دیکھتے ہیں۔ پھرمکسنگ کے سٹوڈیو میں مالک اور دیگر کارندوں کے ساتھ ان کے دوست احباب بھی آ کر بیٹھتے ہیں اور وہ بھی کمپیوٹر کی سکرین سے بے پر دعورتوں کو دیکھتے ہیں۔ اور یوں بےپردگی کا دائرہ جہاں بڑھ رہا ہوتا ہے وہاں متاثرہ خاندان پر یہ خطرات بھی منڈلا رہے ہوتے ہیں کہ کہیں کوئی فوٹو ہی اپنے cell فون یا کمپیوٹر میں بلیک میل کرنے کے لئے محفوظ نہ کرلے۔

II.STILL کیمروں سے لی گئی فوٹوز کو بھی سٹوڈیو میں انہی مراحل یاقدرے کم میں سے گزارا جاتا ہے۔ ان فوٹوز کو دھلائی کے بعد enlarge کروایا جاتا ہے۔ جس میں بسا اوقات دوسرے سٹوڈیوز اور کارندے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اور ان تمام سے بے پردگی ہورہی ہوتی ہے۔

III. آج کل انڈین البم متعارف ہو رہی ہیں۔ اور ان میں دولہا، دلہن، ان کے عزیز و اقارب اور بعض دیگرمدعووین کی فوٹوزان کی اجازت کے بغیر مختلف اسٹائلز کے ساتھ چسپاں کروائی جاتی ہیں۔ اور ان تمام مراحل کے لئے سٹوڈیو والے اور دیگر افراد کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ جن سے بےپردگی ہوتی ہے۔

IV. آج کل بڑے شہروں میں فوٹوز کو فریم کروا کر گھروں میں لگا یا جا تا ہے۔ جس کے لئے الگ سے ایک اور شعبہ کی خدمات لی جاتی ہیں۔ جو بےپردگی کا موجب بنتی ہے۔

V. شادی والے گھر میں شادی کے بعد آنے والے مہمانوں کو بڑے فخر سے وہ تمام البم، پورٹریٹ اور دیواروں پر زینت بنی فریم شدہ فوٹوز دکھلائی جاتی ہیں۔ اور یوں بے پردگی ہوتی ہے۔

VI. ڈرون کے ذریعہ بنائی گئی وڈیو کو پھر عام فوٹو گرافر کھول کر فنکشنل میں نہیں لا سکتا۔ اس کے لئے الگ سے ایک ادارہ یا شعبہ کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں۔ الغرض فوٹو گرافی سے ایک لامتناہی بے پردگی کا دروازہ کھلتا ہے جس کو بند کرنایا دوباره lock کرنا بہت مشکل نظر آتا ہے۔ جیسے کسی خوفناک جِنّ کو کسی بوتل میں بند کرنا محال ہو تا ہے۔

ہم فوٹو گرافی پر بے جا اسراف کرتے ہیں مگر یہ بات بالعموم دیکھی گئی ہے کہ مکسنگ اور ڈبنگ کے بعد جب CD یا کیسٹ گھر آتی ہے تو دیکھنے کے لئے وقت بھی میسر نہیں ہوتا اور دیکھے بغیر ہی کیسٹ گھر میں پڑی رہتی ہے۔ ہزاروں لاکھوں کی یہ رقم اگر کسی غریب فیملی کی بچی کی شادی پر لگا دی جائے تو موجب ثواب ہو گی۔

اگر اسلام میں ہونے والی شادیوں کو دیگر مذاہب میں ہونے والی شادیوں سے موازنہ کیا جائے تو ایک عجیب و غریب تجزیہ سامنے آتا ہے۔ اسلام میں ہونے والی شادیوں میں بالعموم باپردہ خواتین بے پرد نظر آتی ہیں جبکہ غیر مذاہب کی شادیوں میں بے پرد خواتین باپردہ نظر آتی ہیں۔ ان کے نہ بال خراب ہو رہے ہوتے ہیں اور نہ میک اپ وغیرہ۔

اب تو گزرتے زمانہ میں مردوں کے بیوٹی پارلرز الگ سے کھل گئے ہیں۔ جہاں نوجوان نسل شادی و دیگر فنکشنز سے قبل تیار ہوتے اور بے جا وقت اور رقم ضائع کرتے ہیں۔اگر شادی بیاہ کے موقع پر حکومتی پابندیوں کو ہم اپنے اوپر لاگو کرتے ہیں۔ رات دس بجے سے قبل ہم فنکشنز کو ختم کرتے بلکہ ون ڈش کی بھی پابندی کرتے ہیں۔ تو پھرحاکم اعلیٰ، اللہ تعالیٰ جس نے ہم کو پیدا کیا۔ صحتمند جسم دیا،صلاحیتیں دیں اور نعماء عطا کیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان نعماء کا درست استعمال کرتے ہوئے اس حاکم اعلىٰ کے وضع کردہ تمام اصول و ضوابط اور تعلیمات کی پابندی بھی اپنے اوپر لازم کریں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احمدیت میں داخلے کے لئے جو 10شرائط مقرر فرمائیں۔ ان میں سے تیسری شرط یوں ہے۔

’’یہ کہ اتباع رسم و متابعت ہوا و ہوس سے باز آجائے گا اور قرآن کریم کی حکومت کو بکلی اپنے سر پر قبول کرے گا اور قال اللہ و قال الرسولؐ کو اپنے ہر ایک راہ میں دستورالعمل قرار دے گا۔‘‘

کیمرہ کے ذریعہ اچھی، عمدہ اور اسلامی با تیں ریکارڈ کی جا سکتی ہیں۔ لیکن کیمرہ سے لوگ بچتے بھی ہیں۔ جیسے بڑی شاہراہوں پر سفر کریں تو ہم کیمروں پر نظر رکھتے ہیں۔ بعض جگہوں پر لکھا بھی ہوتا ہے کہ آپ کو کیمرے کی آنکھ دیکھ رہی ہے۔ اگر ہم شادی بیاہ کے موقعوں پر اس کو مد نظر رکھیں تو کافی حد تک ہم ویڈیو گرافی اور بے پردگی سے بچ سکتے ہیں۔ ویسے بھی ہر انسان کو اپنے اندر کے کیمرےپر بھی نظر رکھنی چاہئے کہ کہیں وہ ہماری غلط، بُری اور غیر اسلامی حرکات کو تو ریکارڈ نہیں کر رہا جو ہماری عارفانہ خور و بین، اللہ تعالیٰ کے سامنے ان اعمال کو بڑا کر کے پیش کرے گی اور ہمارے پاس اس وقت کوئی جواب نہ ہو گا۔ اس وقت سے ڈرنا چاہئے اور ان معاملات میں اپنی اور اپنے اہل خانہ کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ