• 18 مئی, 2024

تین سوالات کے جوابات

بعض احباب کے ذہنوں میں سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ ایسے سوالات میں سے تین سوالات کے جوابات پیش ہیں۔

سوال نمبر1: زنا کی سزا کیا ہے؟

کسی کی عزت پر حملہ کا جرم زنا کہلاتا ہے! زنا کی سزا 100 کوڑے مقرر ہیں (نور: 3) زنا ایسا فعل ہے جس کے بیرونی شواہد نہیں ہیں۔ اگر ایک جوڑا لوگوں سے چھپ کر بدکاری کرتا ہے تو کوئی بیرونی شواہد ایسے نہیں ہیں کہ یہ جرم کھل کر سامنے آ جائے۔ اس لئے اس خطرہ کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے کہ انتقام یا مفادات کی خاطر کوئی کسی معصوم پر بدنامی کا داغ لگا دے اور انہیں معاشرے کی نظروں میں گرا کر انکی زندگی اجیرن بنا دے۔ انکے بچوں اور خاندان کے لئے مسائل کھڑے کر دے۔ اس خطرے کے پیش نظر اسلام نے الزام لگانے کے لئے چار عینی گواہوں کی شرط لگا دی ہے۔ ایسے عینی شاہد جو اس فعل کو اپنی نظروں کے سامنے واضح طور پر ہوتا ہوئے دیکھیں اور گواہی دیں تب انہیں سزا ہو سکتی ہے ورنہ نہیں۔ ایک شکایت کرنے والا اور چار گواہ گویا پانچ آدمیوں کا کسی پر جھوٹا اتہام لگانا بہت مشکل ہے کیونکہ جرح میں ایسے لوگ اپنے قدم پر نہیں ٹھہر سکیں گے۔

ریپ یا زنا بالجبر کی سزا

زبردستی کسی کی عزت پامال کرنے کو ریپ یا زنا بالجبر کہتے ہیں۔ چونکہ یہ فعل عورت کی مرضی کے خلاف ہو رہا ہوتا ہے اسکی نیت اس فعل میں شامل نہیں ہوتی اس لئے وہ معصوم بلکہ مظلوم متصور ہو گی۔ سزا صرف مرد کو ملے گی۔ چونکہ اس نے زنا کے ساتھ ظلم بھی کیا ہے اس لئے عام زنا کی سزا سے بڑھ کر اسکا جرم ہے لہذا اسکی سزا بھی زیادہ ہو گی۔ بعض دفعہ معصوم بچیوں پر ظالم اس قدر ظلم ڈھاتے ہیں کہ وہ شادی کے قابل نہیں رہتیں یا ذہنی مریضہ بن جاتی ہیں یا زندگی کی بازی ہی ہار جاتی ہیں اور ایسے واقعات سے سارا معاشرہ متاثر ہوتا ہے گویا یہ فساد فی الارض کے زمرے میں آتا ہے اس لئے قرآن کریم نے اسکی کوئی معین سزا تجویز نہیں کی بلکہ بطور تعزیر عدالت پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ کیس کی نوعیت دیکھ کر اسکے مطابق مجرم کو سزا دے۔ یہ سزا کوڑے، جلاوطنی، ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جانا، صلیب دیا جانا یا عبرتناک موت جیسے سنگساری تک بھی ہو سکتی ہے۔ (مائدہ: 34)

الزام لگانے والا ثبوت دے گا

رسول اللہ ﷺ نے ایک خطبہ میں ارشاد فرماتے ہوئے امت کو یہ تعلیم دی کہ البَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي (ترمذی ابواب الاحکام باب البینۃ علی المدعی) کہ ثبوت مہیا کرنا دعویدار کے ذمہ ہے۔ نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر بغیر ثبوت کے فیصلے ہونے لگیں لَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْوَاهُمْ لذَهَبَ دِمَاءُ قَوْمٍ وَأَمْوَالُهُمْ (صحیح بخاری کتاب التفسیر بَابُ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ) تو لوگوں کی جان، مال، عزت وآبرو کچھ بھی محفوظ نہیں رہے گا آپ ﷺ کے زمانہ میں ایک مرد نے اپنی بیوی پر کسی غیر شخص سے تعلقات کا الزام لگایا۔ آپ نے لعان کروا کر ان میں علیحدگی کروا دی اور دعا کی کہ اے اللہ! یہ معاملہ کھول دے چنانچہ جب بچہ پیدا ہوا تو ہو بہو اسی مشکوک شخص کی شباہت پر تھا گویا وہ عورت بدکار نکلی اسکے باوجود نبی کریم ﷺ نے اسے سزا نہیں دی کیونکہ اس نے اس الزام کو رد کر دیا تھا۔ آپ ﷺ نے اس موقعہ پر فرمایا لَوْ رَجَمْتُ أَحَدًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ، رَجَمْتُ هَذِهِ (صحیح بخاری باب لَوْ كُنْتُ رَاجِمًا بِغَيْرِ بَيِّنَةٍ) اگر میں کسی کو بغیر ثبوت کے سزا دینا چاہتا تو اس عورت کو سزا دیتا۔ جب حضرت عائشہ ؓ قافلے سے الگ ہو گئیں اور بعد میں حضرت صفوان بن معطل ؓ کے ہمراہ قافلے سے آ کر ملیں تو منافقین اور شرپسندوں نے نہایت گندے الزام لگائے اور آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اگر آج ایسا واقعہ کہیں ہوا ہوتا تو شائد وہ معصوم غیرت کے نام پر قتل کر دیئے جاتے یا جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔ نبی کریم ﷺ بغیر ٹھوس ثبوت یا گواہوں کے فیصلہ نہ فرماتے تھے۔ آپ ﷺ نے نہ ہی حضرت عائشہ ؓ کو طلاق دی،نہ ہی کوئی سزا دی یہاں تک کہ ایک ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے انکی بریئت ظاہر فرما دی۔ پس بغیر ٹھوس ثبوت یا گواہوں کے محض الزام لگانے کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں۔ ریپ کا جھوٹا الزام لگانے کے تعلق میں قرآن کریم نے حضرت یوسف علیہ السلام کا واقعہ بھی بطور عبرت ہمیشہ کے لئے محفوظ فرما دیا اور ہمیشہ کے لئے یہ سبق دے دیا کہ اگر بغیر ٹھوس ثبوت یا گواہوں کی گواہی کے فیصلے ہونے لگے تو انصاف کا خون ہو گا۔

ریپ کے واقعات میں عورت کے شور مچانے پر قریب سے گزرنے والوں کو اسکا علم ہو جاتا ہے وہ اسکے گواہ بن جاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں ایک عورت پر چادر ڈال کر کسی نے ریپ کیا اور بھاگ گیا موقعہ پر ایک اور شخص وہاں سے گزر رہا تھا عورت نے شور مچا دیا کہ اس نے ظلم کیا ہے لوگ اسے نبی کریم ﷺ کے پاس لے آئے۔ اس عورت کی گواہی پر آپ نے ملزم کے خلاف فیصلہ دے دیا جب اسے سزا ہونے لگی تو اصلی مجرم سامنے آ گیا اور اعتراف جرم کر لیا اس پر پہلے ملزم کو چھوڑ کر اسے سزا دی گئی (ابوداؤد کتاب الحدود بَابٌ فِي صَاحِبِ الْحَدِّ يَجِيءُ فَيُقِرُّ) اس سے ثابت ہوا کہ ریپ کی شکل میں چار گواہوں کی شرط نہیں ہے۔ ہاں دیگر جرائم کی طرح اگر گواہ دستیاب ہوں تو الزام کے درست یا غلط ثابت ہونے میں مدد مل سکتی ہے۔حضرت عائشہ ؓ پر جھوٹا الزام لگانے پر نبی کریم ﷺ نے چند قریبی لوگوں سے اس بارے میں گواہی لی (صحیح بخاری کتاب المغازی باب حدیث الافک) ریپ کی شکل میں اگر مدعیہ کے پاس گواہ نہیں تو اسے دیگر ثبوت دینے ہوں گے جیسے DNA ٹیسٹ رپورٹ وغیرہ اگر ایسے ثبوت بھی نہیں تو دیگرقرائن سے عدالت فیصلہ کر سکتی ہے۔سورہ یوسف میں زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام پر نعوذ باللّٰہ ریپ کا الزام لگایا تو ایک شخص نے کہا کہ دیکھو اگر یوسف علیہ السلام کا کرتہ آگے سے پھٹا ہوا ہے تو الزام سچا ہے اگر کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو الزام غلط ہے (یوسف: 27۔28) پس اگر گواہ موجود نہیں تو موقعہ کے قرائن کو جانچتے ہوئے عدالت فیصلہ دے سکتی ہے۔ مثلاً کیمروں کی ریکارڈنگ، پہلے سے تعلقات کی نوعیت، جائے وقوعہ پر توڑ پھوڑ، کپڑوں پر ہاتھوں یا انگلیوں کے نشانات، مدعیہ کے جسم پر نشانات۔ آجکل DNA ٹیسٹ کا ثبوت بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ اگروہ چھوٹی معصوم بچی ہے تو اسکے والدین کو علم ہو جاتا ہے وہ ثبوت کے ساتھ معاملہ عدالت میں لے جا سکتے ہیں۔ پس گواہ یا ثبوت میں سے کوئی بھی مدعیہ پیش کر سکتی ہے۔ اگر عدالت تک کیس پہنچتے پہنچتے قرائن اور شواہد مٹ چکے ہوں یا وقوعہ کے وقت سرے سے کوئی عینی گواہ موجود ہی نہ ہو تو اسکا نقصان مدعیہ کو ہو گا۔خلاصہ یہ کہ کسی بھی جرم کو ثابت کرنے کے لئے دنیا بھر میں دو ہی طریق ہیں ایک گواہوں کا بیان دوسرا دیگر ثبوت و قرائن۔ اسکے علاوہ اگر ملزم خود اقرار جرم کر لے تو بھی فیصلہ ہو جاتا ہے۔

اشاعۃ فاحشہ کی سزا

ریپ کے معاملہ میں بھی امکان ہے کہ کوئی عورت کسی پر جھوٹا الزام لگا دے جیسے زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام پر جھوٹا الزام لگا دیا۔ اس لئے ایسی باتوں کی پبلک میں تشہیر کرنے کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا بلکہ اسے اشاعۃ فاحشہ کا مجرم قرار دیتا ہے کیونکہ یہ ایسا سنگین گناہ ہے کہ جس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ معصوم لوگوں کی عزتیں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔ بری باتوں کی تشہیر سے معاشرے کی اخلاقی اقدارمتاثر ہوتی ہیں۔ مشہور واقعہ افک میں جب حضرت عائشہ ؓ پر الزام لگایا گیا جس کا کوئی ثبوت مدعی نے نہ دیا اور اس کی خوب تشہیر کی تو تشہیر کرنے والوں کو حد قذف یعنی 80 کوڑوں کی سزا دی گئی۔ (نور: 5) حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں ’’دنیا میں ہزاروں ایسے بے حیاء لوگ مل سکتے ہیں جو کسی بغض یا غصہ کی وجہ سے یا دوسروں کے کہے کہلائے اپنے ساتھ دوسرے مردوں یا عورتوں کے ملوث ہونے کا اقرار کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ چنانچہ عرب میں تشبیب کا ایک عام رواج تھا یعنی وہ اپنی بے حیائی میں کسی عورت پر الزام لگا دیتے کہ میرا اس کے ساتھ ناجائز تعلق ہے اور ان کی غرض یہ نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنا تقویٰ ظاہر کریں بلکہ اس سے ان کی غرض یہ ہوتی تھی کہ دوسری عورت کو بدنام کریں رسول کریم ﷺ نے تشبیب کرنے والے کو واجب القتل قرار دیا ہے۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد6 صفحہ264)

سوال نمبر 2: جماعتی پروگراموں میں
نابالغ بچوں کی حفاظت

دوسرا سوال یہ ہے کہ جماعتی پروگراموں یعنی اجلاسات، اجتماعات اور جلسوں میں نابالغ بچوں کے تحفظ کی کیا ضمانت ہے جماعت اس سلسلہ میں کیا اقدامات اٹھاتی ہے؟

تعجب ہے کہ یہ سوال کیوں پیدا ہوا؟ اس دور میں بے حیائی اپنے عروج پر ہے گذشتہ سال کے جائزہ کے مطابق صرف امریکہ میں قریباً ہر ایک منٹ میں ایک ریپ ہو رہا تھا۔ جہاں معاشرہ اتنا گندا ہو جائے کہ اسکول، کالج، یونیورسٹی سب اسکی لپیٹ میں ہوں اور ہر جگہ بے حیائی کا جن انسانیت کو نگل رہا ہے۔ احادیث میں درج وہ پیشگوئیاں پوری طرح کھل کر سامنے آ گئی ہیں کہ اُس زمانے میں بدکاری پھیل جائے گی۔ انہی بیماریوں کے علاج کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسیحا بھیجا جس کی نیابت میں خلافت کا نظام پوری طرح سرگرم عمل ہے تعلیم و تربیت کے لئے خلیفہ وقت اور نظام جماعت دن رات کام کر رہے ہیں۔ اجلاسات اجتماعات اور جلسہ سالانہ جیسی تقریبات اسی غرض کے لئے ہیں۔ جن کے روحانی ماحول میں جا کر دل پاک ہوتے ہیں اور باہر کے زہریلے اثرات مٹنے لگتے ہیں۔ یہ پروگرام تو اس زہر کا تریاق ہیں۔ انہی تقریبات کی وجہ سے جماعت کا عمومی معیار دوسری دنیا سے بدرجہا بہتر ہے۔ہاں اگر اکا دکا کہیں کوئی واقعہ ہو جائے تو اس پر جماعت ایکشن لیتی ہے۔ اسکی مثال تو یوں ہے کہ خوش نما پھلوں سے لدے ہوئے درخت کا اگر ایک یا دو پھل خراب نکل آئیں تو دنیا کا کوئی عقلمند انسان ہزاروں پھلوں کو چھوڑ نہیں دیتا۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق جو بچے جماعتی پروگراموں میں شامل ہوتے ہیں انکے اخلاقی معیار ان سے بہت بلند ہیں جو ان پروگراموں میں شامل نہیں ہوتے۔

اپنے بچوں کی حفاظت کے لئے جماعت کیا تعلیم دیتی ہے؟ اگر ہم حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات اور مجالس سوال و جواب باقاعدگی سے سنیں تو اس موضوع پر کئی گھنٹوں کی نصائح جماعت کو دی گئی ہیں۔ جنکا خلاصہ یہ ہے کہ بچوں کی دینی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دیں۔ انہیں سوشل میڈیا کے بد اثرات سے حتی المقدور بچائیں۔ والدین گھروں میں اپنے نمونہ سے پاکیزہ ماحول بنائیں اور بچوں سے دوستانہ تعلق رکھیں۔ تاکہ بچے باہر گزرنے والے اچھے برے واقعات بغیر کسی ہچکچاہٹ کے والدین سے شئیر کریں۔ اگر والدین بچوں کے ساتھ ایسے تعلقات قائم کریں گے تو صرف جماعتی پروگراموں میں ہی نہیں بلکہ اسکولوں کالجوں باہر کے ماحول کی ہر اچھی بری خبریں والدین کو فوری ملتی رہیں گی۔ اس طرح شکایات کا فوری ازالہ ممکن ہو سکے گا۔

سوال نمبر :3 ان جرائم کی سزا

تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا جماعت کے اندر کوئی نظام موجود ہے جو ان جرائم کی تحقیق کر کے ایسوں کو سزا دے۔ اور کیا اس میں عام احمدی اور عہدیدار میں فرق بھی کیا جاتا ہے۔

جو فوجداری نوعیت کے جرائم ہیں ملکی قوانین کی وجہ سے جماعت ان میں دخل نہیں دیتی۔ یعنی جو شریعت نے سزائیں مقرر کی ہیں اور حدود کہلاتی ہیں جیسے چوری میں ہاتھ کاٹنا قصاص یعنی قاتل کو قتل کرنا وغیرہ ایسی سزائیں جماعت نہیں دیتی ہاں کسی بھی قسم کے جرائم میں ملوث افراد کو جب جرم ثابت ہو جائے حسب موقعہ جو جماعتی سزائیں ہیں وہ دی جاتی ہیں اور انکا مقصد اصلاح ہے۔ جماعتی سزاؤں میں عہدے سے برطرف، ووٹ کے حق سے محرومی، جماعتی پروگراموں سے محرومی، چندہ نہ لینا اور اخراج از نظام جماعت وغیرہ کی سزائیں ہیں۔ ظاہر ہے اس میں امیر یا غریب اور عہدیدار یا غیر عہدیدار کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہ بھی پوچھا جاتا ہے کہ ایسے معاملات میں بدنامی سے بچانے کے لئے کیا اقدامات کئے جاتے ہیں۔ اس کا جواب آ چکا ہے کہ ایسی بری باتوں کی تشہیر سے نظام جماعت بھی اور شریعت بھی منع کرتی ہے کیونکہ اشاعت فاحشہ خود ایک سنگین جرم ہے۔

(در عجم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ