• 3 مئی, 2024

’’اخلاق کو مرے ہوئے بہت دن ہوگئے ہیں‘‘

سیاست اور اخلاقیات
’’اخلاق کو مرے ہوئے بہت دن ہوگئے ہیں‘‘

ایک سیاست دان جو ہمیشہ دعویدار رہتے ہیں کہ وہ چالیس سال سے سیاست میں ہیں، سولہ بار وزیر رہ چکے ہیں، سب سے زیادہ تجربہ کار ہیں، ہمیشہ ختم نبوت کا علم بلند رکھنے کا عزم رکھتے ہیں، سیاسی جلسوں میں ختم نبوت کے نعرے لگواتے دکھائی دیتے ہیں اور قال اللہ و قال الرسول کے داعی ہونے کے دعویدار ہیں کاگزشتہ دنوں ٹیلیویژن پر ایک بیان سنا جو انہوں نے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا۔ صحافی نے سیاست اور اخلاقیات کے بارہ میں سوال کیا تو موصوف کہنے لگے کہ۔ اخلاق کو مرے ہوئے بہت دن ہوگئے ہیں۔ یہ کہنے کو تو ایک جملہ ہے مگر اس سے بہت سارے حقائق واضح ہوتے ہیں۔ اس سے جہاں ان سیاست دانوں کے دوغلے رویوں، منافقانہ طرز عمل، قول وفعل میں تضاد، بناوٹ، تصنع، لفاظی، غلط بیانی، مفاد پرستی، موقع پرستی (یہ لسٹ بہت طویل ہے) وغیرہ کا اظہار ہوتا ہے وہیں اس بات پر بھی مہر تصدیق ثبت کرتی ہے کہ یہ سیاست دان اپنے ذاتی مفاد کی خاطر مذہب کی آڑ لے رہے ہوتے ہیں اور مذہبی کارڈ کا بے دریغ اور ظالمانہ استعمال کرتے ہیں ورنہ انہیں نہ مذہب اور نہ ہی مذہبی اقدار سے کوئی تعلق ہے۔

یہاں یہ بات بھی واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس تحریر کا مطلب کسی کے مذہب کو جاننا یا کسی کے مذہبی عقائد پر کوئی فتویٰ صادر کرنا نہیں اور نہ ہی یہ کسی انسان کا کام ہے۔ مذہب خالق اور مخلوق یعنی خدا اور انسان کےمابین معاملہ ہے اس لئے کسی کے مذہب اور خداسے تعلق کے بارہ میں کوئی بیان دینا مجھ ناچیز اور حقیر کی بساط اور domain میں نہیں ہے۔ مقصد صرف یہ بیان کرنا ہے کہ کیا سیاست میں اخلاقیات کو کوئی دخل ہے یا سیاست ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہر طرح کی اخلاقیات سے مبرا کسی فعل کا نام ہے، یا سیاست ہر طرح کے رطب و یابس کا نام ہے، یا سیاست ہر طرح کے داؤ پیچ کا نام ہے اور اس سے اخلاقیات اور معاشرتی قدروں کا دور کا بھی تعلق نہیں۔

اس جملہ سے ہمارے معاشروں کی اقدار کا بھی کھل کر پتہ چلتا ہے کہ کس قدر معاشرے اخلاقی گراوٹ اور انحاط کا شکار ہوچکے ہیں۔ اسی طرح سیاسی لیڈران جنہیں قوم اپنے راہنماء اور نجات دہندہ سمجھے بیٹھے ہیں ان کے اخلاقی معیار کس طرح مسخ ہوچکے ہیں۔ جنہیں وہ اپنی تقدیر بدلنے اور راہبر سمجھ بیٹھے ہیں وہ تو دراصل۔بھیڑ کی کھال میں بھیڑئیے۔ کی مانند ہیں جن کو ظاہر و باطن یکسر مختلف ہے۔ کہاں سیاست خدمت اور عبادت کا نام تھا اور کہاں آج اس میں موجود اخلاقیات اور اقدار کومرے ہوئے بہت دن ہوگئے ہیں۔ اخلاقیات سے عاری اور اقدار سے ناپید سیاست کیا عبادت یا خدمت کا درجہ پاسکتی ہے؟ کیا ایسی دو رخی یا کئی رخی سیاست، خدمت یا عبادت کہلا سکتی ہے؟

سیاست کیا ہے؟

قدرتی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سیاست آخرہے کیا؟

جب اس مضمون پر غور کیا تو فوری توجہ اس قرآنی آیت کی طرف مبذول ہوئی۔ کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَتَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَتُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ (آل عمران: 111) یعنی تم بہترین امّت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو۔ تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔

یعنی تم ایک ایسی امت ہو جو اعتدال پر قائم ہو جو تمام لوگوں کے نفع کے لئے پیدا کی گئی ہو۔ تمہارے خیر امت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ کہ تم انسانیت کے فائدہ اور فلاح و بہبود کے لئے پیدا کئے گئے ہو۔ یعنی قیام امت مسلمہ کا مقصد اصلاح معاشرہ اور خدمت انسانیت ہے۔ اور یہی دراصل حقیقی سیاست ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت، ان کے دکھ درد کا مداوا، ان کی زندگیوں میں آسانی اور ان کی فلاح و بہبود۔ اگر حقیقی رنگ میں، ذاتی مفادات سے بالہ تر ہوکر، سچائی، دیانت، خلوص، محنت و لگن، جانفشانی اور مشن سمجھ کر مخلوق خدا کی خدمت کی جائے تو اسے سیاست سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اگر سیاست ان اصولوں اور اخلاقی قدروں سے خالی اور بے بہرہ ہے تو نہ وہ خدمت ہے نہ عبادت۔ بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ خدمت کے نام پر مفادپرستی، ظلم، ظلم اور صرف ظلم ہے۔ اور رہبر نہیں بلکہ بھیڑ کی کھال میں بھیڑیئے ہیں جو عوام الناس کا استحصال کرتے ہیں۔

جس سیاست میں اخلاق کو مرے ہوئے بہت دن ہوگئے ہوں کیا وہ سیاست کہلانے کے قابل ہے؟ کیا وہ خدمت کے معیار پر پورا اترتی ہے؟ کیا اسے عبادت کہا جاسکتاہے؟

اخلاقیات اور اسوہٴ رسولؐ

آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ آپ نے اخلاق کی تعلیم دی اور اخلاق کے اعلیٰ معیار پر قائم رہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیۡمٍ (القلم: 5) یقیناً تو بہت بڑے خُلق پر فائز ہے۔

آنحضرت ﷺ اپنی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل بیان فرماتے ہیں۔

عنْ اَبِی ہُرَیرَةَ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰہ ﷺ اِنَّمَا بُعِثْتُ لِاُ تَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ۔ حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا مجھے تو اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے معبوث کیا گیا ہے۔

(سنن کبریٰ للبیھقی۔ کتاب الشہادات بیان مکارم الاخلاق جلد10صفحہ192۔ مطبع دائرہ المعارف العثمانیہ۔ حیدرآباد دکن 1355ھ)

اخلاق از روئے حدیث

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ درشت زبان نہ تھے اور نہ تکلف سے درشتی کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے۔ تم میں بہتر وہی ہیں جو تم میں سے اخلاق میں اچھے ہیں۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ قیامت کے دن تم میں سے سب سے زیادہ مجھے محبوب اور سب سے زیادہ میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے۔ اور تم میں سے سب سے زیادہ مبغوض اور مجھ سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو ثرثار یعنی منہ پھٹ، بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے، متشدق یعنی منہ پھلا پھلا کر باتیں کرنے والے اور متفیہق یعنی لوگوں پر تکبر جتلانے والے ہیں۔

(منقول از حدیقہ الصالحین، جدید ایڈیشن صفحہ541-543)

اخلاقی ترقی کریں

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

ہماری جماعت کو مناسب ہے کہ وہ اخلاقی ترقی کریں۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ87)

یاد رکھو کہ اخلاق انسان کے صالح ہونے کی نشانی ہیں۔

(صفحہ110)

ساری ہمت اور قوت تبدیل اخلاق میں صرف کرو کیونکہ یہی حقیقی قوت اور دلیری ہے۔

(صفحہ121)

یہ ایک مدامی اور زندہ کرامت ہے کہ انسان اخلاقی حالت کو درست کرے کیونکہ یہ ایسی کرامت ہے جس کا اثر کبھی زائل نہیں ہوتا بلکہ نفع دور تک پہنچتا ہے۔ مومن کو چاہئے کہ خَلق اور خالق کے نزدیک اہل کرامت ہوجاوے۔

(صفحہ122)

اچھے اخلاق ظاہر کرنا اپنی کرامت ظاہر کرنا ہے۔۔۔کرامتیں (معجزے) انواع و اقسام کی ہوتی ہیں۔ منجملہ ان کے ایک اخلاقی کرامت (معجزہ) بھی ہے جو ہر میدان میں کامیاب ہے۔

(صفحہ 126)

میرے آنے کی اصل غرض اور مقصد یہی ہے کہ توحید، اخلاق اور روحانیت کو پھیلاؤں۔

(ملفوظات جلد2، صفحہ297)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 7 ستمبر 2018ء میں فرماتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میزان میں حُسنِ خلق سے زیادہ وزن رکھنے والی کوئی چیز نہیں ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی حسن الخلق حدیث 4799) وزن کرو، تکڑی میں تولو تو اعلیٰ اخلاق جو ہیں ان کا وزن سب سے زیادہ ہو گا کیونکہ اعلیٰ اخلاق ہی ہیں جو دنیا کے فسادوں کو ختم کرنے والے ہیں۔ اعلیٰ اخلاق ہی ہیں جو پھر اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی لے جاتے ہیں۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ بعض حالات میں حقوق العباد حقوق اللہ سے بڑھ جاتے ہیں۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد10 صفحہ290۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

حاصل مضمون

حاصل مضمون حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فرمان ہے کہ ’’یاد رکھو کہ اخلاق انسان کے صالح ہونے کی نشانی ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اول صفحہ110)۔ یعنی اگر اخلاق نہیں تو کچھ نہیں۔ اگر سیاست دانوں کے اخلاق کو مرے ہوئے دن، مہینے اور سال بیت گئے ہیں تو پھر ایسے عوام کا اللہ ہی حافظ۔ یہ اخلاق ہی تو ہیں جن سے انسان human being سے حقیقی انسان ہونے being humane کا سفر طے کرتا ہے۔ یہ اخلاقی قدریں ہی ہیں جو انسان کے نیک اور صالح ہونے کی نشانی ہیں۔ یہ اخلاقیات کا ہی ترازو ہے جو انسان کے کردار اور اعمال کی حقیقی تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ حسن اخلاق یعنی اچھے اور عمدہ اخلاق ہی ہیں جو دشمن کو بھی دوست بلکہ سچا اور وفادار دوست بنا دیتے ہیں۔

حسن اخلاق ایک قابل اعتماد اور پائیدار ہتھیار اور معجزہ ہے جو کبھی خطا نہیں جاتا۔ یہی وہ ہتھیار ہے جس پر اسلام کو ناز ہے۔ یہی وہ ذریعہ ہے جس نے عرب کے وحشی اور درندہ صفت لوگوں میں زندگی اور روحانیت کی روح پھونک دی۔ یہ آنحضرت ﷺ کے عمدہ اخلاق کانمونہ ہی تو تھا جس نے خون کے پیاسوں کو حقیقی دوست بنا دیا، جس نے وحشیوں کو خدانما وجود بنا دیا، جس نے عربوں کی ایسی کایا پلٹی کہ وہ ساری دنیا کے سردار بن گئے۔ یہ ہمارے آقا ومولیٰ کے خلق عظیم کا ہی کرشمہ تھا کہ اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے والے، اسی اسلام اور بانی اسلام کی خاطر جانوروں کی طرح ذبح ہونے کو اپنے لئے فخر سمجھنے لگے اور فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَة کی فلک بوس صدائیں دینے لگے، یہ آپ ﷺ کے اخلاق کی ہی کرشمہ سازی تھی کہ آپ کے خون کے پیاسے آپ کے وضو کے پانی کو بھی زمین پر نہ گرنے دیتے، کہاں اس طاق میں رہتے کہ موقع پا کر آپ ﷺ کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے کہاں فداک امی و ابی کے نذرانے پیش ہونے لگے۔ بلاشبہ یہ عجیب ماجرہ آنحضرت ﷺ کی اندھیروں راتوں کی دعاؤں اور آپ کے اعلیٰ اخلاق کا کرشمہ تھا۔

اس لئے اگر معاشروں کو زندہ رکھنا ہے، اگر دین و دنیا میں ترقی کرنی ہے، اگر سیاست کو عبادت کا درجہ دینا ہے، اگر اسلام کی تبلیغ کرنی ہے اور دنیا کو اسلام احمدیت کی آغوش میں لانا ہے تو پھر اخلاق کو مرنے نہیں دینا بلکہ اخلاق کونہ صرف زندہ رکھنا ہے بلکہ اعلیٰ اخلاقی معیار دنیا میں قائم کرنے ہیں، حسن اخلاق کے نمونے دنیا کے سامنے پیش کرنے ہیں، قرآن کریم کی تعلیمات اور اسوہ رسول ﷺ کو اپنا دستور العمل بنانا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم سب غلامان مسیح محمدی ﷺ کو اخلاقیا ت کے مضمون کو سمجھنے اور اسے ہمیشہ زندہ رکھنے اور اعلیٰ اخلاقی قدروں کو ہمیشہ قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہمارے اعلیٰ اخلاق ہمیں ہمیشہ ہمارے غیر سے ممتاز کرنے کا باعث ہوں۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم قرآن کریم کی تعلیمات اور اسوہ رسول ﷺ کو اپنا دستور العمل بنانے والے ہوں اور اس ہتھیار کے ذریعے ہم دنیا میں عظیم الشان اخلاقی، روحانی اور معاشرتی معجزہ برپاکرنے والے بنیں۔ آمین یارب العالمین

(لئیق احمد عاطف۔ مبلغ وصدر جماعت مالٹا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ