• 26 اپریل, 2024

اسلام کی اصل اور اس کا خلاصہ

مورخہ 3مئی 2021 ء کے شمارہ الفضل آن لائن میں مکرمہ مریم رحمن ’’آج کی دعا‘‘ کے تحت جو دُعا لائی ہیں اسے آپ نے ’’دین کا خلاصہ‘‘ کا عنوان دے کر یوں لکھا ہے۔

آپﷺ نے اپنی زبان پکڑی، اور فرمایا: اسے اپنے قابو میں رکھو

قَالَ أَلَا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الْأَمْرِ كُلِّهِ وَعَمُودِهِ وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ قُلْتُ بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ رَأْسُ الْأَمْرِ الْإِسْلَامُ وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الْجِهَادُ ثُمَّ قَالَ أَلَا أُخْبِرُكَ بِمَلَاكِ ذَلِكَ كُلِّهِ قُلْتُ بَلَى يَا نَبِيَّ اللَّهِ فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ قَالَ كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا فَقُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بِهِ فَقَالَ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلَّا حَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ

(جامع ترمذی أَبْوَابُ الْإِيمَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ بَاب مَا جَاءَ فِي حُرْمَةِ الصَّلاَةِ حدیث: 2616)

ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں تمہیں دین کی اصل، اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتادوں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ یا رسول اللہ (ضرور بتائیے)۔ آپ نے فرمایا:› دین کی اصل اسلام ہے اور اس کا ستون (عمود) صلاۃ ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے۔ پھر آپ نے فرمایا:› کیا میں تمہیں اس سارے دین کا خلاصہ نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا: جی ضرور بتائیں یا رسول اللہ!۔ آپ نے اپنی زبان پکڑی، اور فرمایا: اسے اپنے قابو میں رکھو، میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی !کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں اس پرپکڑے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا: تمہارا بھلا ہو یا معاذ! لوگ اپنی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتیوں (یعنی اپنے برے بول اور بے موقع باتوں) کی وجہ سے ہی جہنم میں اوندھے منہ گرتے ہیں۔

مقدس الانبیاء آقائے دوجہاں، سید و مولیٰ حضرت محمدﷺ نے اس مبارک حدیث میں عالمگیر، سچے اور پاک مذہب اسلام کی ساری تعلیمات کا خلاصہ بیان فرمایا ہے۔

پوری حدیث کچھ اس طرح ہےکہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک سفر میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، ا یک دن صبح کے وقت میں آپ ﷺ سے قریب ہوا ،ہم سب چل رہے تھے، میں نے آپ سے عرض کیا :اللہ کے رسول ! آپ مجھے کوئی ایسا عمل بتایئے جو مجھے جنت میں لے جائے، اور جہنم سے دور رکھے؟ آپ نے فرمایا: تم نے ایک بہت بڑی اور مشکل بات پوچھی ہے۔ اور بے شک یہ عمل اس شخص کے لیے آسان ہے جس کو اللہ تعالی توفیق دے۔ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، صلاۃ قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج کرو۔ پھر آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں بھلائی کے دروازے (راستے) نہ بتاؤں؟ صوم ڈھال ہے، صدقہ گناہ کو ایسے بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھاتا ہے، اور آدھی رات کے وقت آدمی کا صلاۃ (تہجد) پڑھنا، پھر آپ نے آیت تَتَجَافَی جُنُوبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ کی تلاوت یَعْمَلُونَ تک فرمائی، پھر آپ ﷺ نے مندرجہ بالا ارشاد فرمایا جس میں پورے دین کا خلاصہ بیان فرمایا ہے۔

اس حدیث کے دوحصے ہیں۔ پہلے حصہ میں دین کا اصل اور خلاصہ اور دوسرے میں ارکان اسلام میں بیان عبادات اور اس کی اہمیت نیز صدقہ کی افادیت بیان ہوئی ہے۔ قبل اس کے دین کے کہ اصل ،خلاصہ اور اس میں بیان عبادات پر روشنی ڈالی جائے ۔ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس میں استعمال بعض الفاظ کی وضاحت بیان کردی جائے۔ جیسے

اصل: بنیاد اور جڑ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نیز کھرا ، حقیقت کے بھی معنی ہیں۔

ستون: س پر پیش کے ساتھ ۔چھت یا کسی چیز کو سہارا دینے کیلئے منار۔ انگریزی میں Pillar استعمال ہوتا ہے۔ اہم رکن ۔ جماعت میں اہم شخصیت۔

چوٹی: اونچی جگہ۔ بلند درجہ۔ Peak چوٹی کی بات ،اعلیٰ درجہ کی بات۔ عمدہ بات پہاڑ کی سب سے اونچی جگہ

ڈھال: پناہ اور بچاؤ کے لئے لوہے کا ہتھیار۔ سِپر
خلاصہ: نچوڑ۔ لب لبالب خلاصہ کلام یعنی حاصل کلام۔
کھیتی: فصل، کاشتکاری، اناج۔

ان معنوں کوسامنے رکھ کر اس حدیث میں بیان امور کوسمجھنا آسان ہوگا۔ اوپر الفضل میں بیان حدیث کی ترتیب کے مطابق سب سے پہلے جس امر کی طرف آنحضور ﷺ نے توجہ دلائی وہ یہ ہے کہ
دین کی اصل اسلام ہے

جب سے مذہبی دنیا کا آغاز ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء بھجوانے کا سلسلہ شروع کیا اور ان کے ذریعہ مذاہب بنے ان سب کا دین اسلام تھا۔ ان سب کے دین کی اصل اسلام تھا۔ چونکہ تمام مذاہب کی بنیادی تعلیم امن، سلامتی اور شانتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حَنِیۡفًا مُّسۡلِمًا ؕ قرار دیا (آل عمران:68) نیز اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو مخاطب ہو کر فرمایا ہُوَ سَمّٰٮکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا (الحج:79) کہ اے ابراہیم! اس اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے اس سے پہلے بھی اور اس قرآن میں بھی۔

چونکہ مذاہب کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بعض پیرو کار شدت پسندی کی تعلیم دیتے رہے جیسا کہ اب اسلام میں مختلف مقامات پر مسلمانوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ توہین مذہب کے نام پر قتل و غارت، شور شرابا اور دنگا فساد روز کا معمول بن چکا ہے۔ جبکہ اسلام کا لفظ سلامتی سے نکلا ہے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ ایک مسلمان اپنے لئے بھی سلامتی کا موجب ہو اور اس کے ہاتھوں دوسرے مسلمان بھی سلامتی میں رہیں جیسا کہ آنحضورﷺ نے فرمایا ہے۔ المسلم من سلم المسلمون من لسا نہ ویدہ

اور جب اسلام پر ایمان لاکر انسان مومن ہوتاہے تو اس کے معانی بھی یہی ہیں کہ اس سے اس کا نفس امن میں آجاتا ہے اور دوسرے لوگ بھی جیسا کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا المومن من یامنہ الناس

آنحضور ﷺ نے ایک سریہ کو بھجواتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ جس جگہ تم مسجد دیکھو یا اذان کی آواز سنو تو وہاں حملہ نہ کرنا اور نہ کسی کو قتل کرنا

(ابو داؤد کتاب الجہاد)

دین کا ستون صلوٰۃ ہے

اس مضمون کو آنحضور ﷺ نے ان الفاظ میں بھی بیان فرمایا ہے کہ الصلٰوۃ عماد الدین

صلوٰۃ کے معنی گو ’درود کے بھی ہیں مگر یہاں اس سے ’’قیام نماز‘‘ مراد ہے جو پانچ اسلامی ارکان میں سے ایک رکن ہے جس طرح عمارت کی چھت ستونوں پر قائم ہوتی ہے ان ستونوں کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح اسلامی عمارت کی مضبوطی کے لئے نماز جیسے ستون کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ جس کا ذکر قرآن کریم اور ارشادات نبوی میں کثرت سے ملتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ نماز کو چھوڑنا انسان کو شرک اور کفر کے قریب کردیتا ہے۔

(مسلم کتاب الایمان)

دیہاتی لوگوں کے ایک گروہ نے آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر نماز میں کمی یا معافی کی درخواست کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا۔ جس مذہب میں عبادت (نماز) نہیں وہ مذہب نہیں۔ پس ہمیں چائیے کہ ہم اپنے دین کو مضبوط سے مضبوط کرنے کے لئے دین کے ستون نماز کو ایمان کے سیمنٹ سے مرمتیں کرتے رہیں اور اپنی اولادوں کو بھی اس طرف راغب رکھیں۔

دین کی چوٹی جہاد ہے

پھر اس فرمان رسول ﷺ میں دین کی بلندی کو جہاد قرار دیا گیا ہے۔ جہاد دو طرح کا ہے ایک تو تلوار کا جہاد ہے جس کےلئے امام کا ہونا ضروری ہے۔ دوسرا جہاد تعلیم و تربیت کا جہاد ہے جو زیادہ بڑا جہاد ہے۔ جیسا کہ آنحضور ﷺ نے ایک دفعہ تلوار والے جہاد سے واپسی پر فرمایا۔ رجعنا من الجہاد الاصغر الی الجہاد الاکبر کہ ہم اب چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد یعنی تعلیم و تربیت اور اصلاح احوال کے جہاد کی طرف لوٹ رہے ہیں اور یہی وہ جہاد ہے جسے ہم دین کی چوٹی یعنی بلندی قرار دے سکتے ہیں۔ جو ہمہ وقت تاقیامت جاری و ساری ہے۔

اس کی وضاحت آنحضور ﷺ نے مختلف مقامات پر فرمائی ہےجیسے ایک موقع پر فرمایا کہ بہترین جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے حق و انصاف کی بات کرنا ہے۔ (ترمذی کتاب الفتن) ایک موقع پر فرمایا۔ مشرکوں سے اپنے اموال ‘اپنی جانوں اور اپنی زبانوں کے ذریعہ جہاد کرو۔ (ابو داؤد کتاب الجہاد) جنگ بدر کے موقع پر آنحضور ﷺ کی الحاح و تضرع سے کی ہوئی یہ دعا۔ اللہم ان تھلک ھذا العصابۃ من اھل الاسلام لا تعبدنی الارض ابدا (ترمذی کتاب التفسیر) بھی جہاد اکبر کے زمرے میں آتی ہے اس لئے ہم میں سے ہر ایک کو اپنی اور اپنے اہل خانہ اور ماحول میں بسنےوالے احمدیوں کی اصلاح و تربیت کے لئے بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ ان کے لئے دعائیں کرنا بھی ضروری ہے۔

دین کا خلاصہ

زیر بحث فرمان میں آنحضور ﷺ نے زبان کو روک کر رکھنے کو دین کا خلاصہ قرار دیا ہے اور فرمایا جس طرح انسان اپنے کھیت میں بیج بوتا ہے اگر بیج اچھا اور عمدہ ہوگا تو اچھی فصل کاٹے گا اور اگر بیج معیاری نہ ہوگا تو فصل بھی اچھی نہ ہوگی۔ اور پھر بعض اوقات کھیت میں جڑی بوٹیاں اور کھاس پھوس اُگ آتا ہے اچھی اور عمدہ فصل کے حصول کے لئے ان کو تلف کرنا ضروری ہے۔

یہ خوبصورت مثال دے کر آنحضورﷺ نے کیا ہی اعلیٰ اور عمدہ رنگ میں مسلمانوں کو سمجھایا ہے کہ اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھنا ضروری ہے ورنہ آپ اپنے نیک اعمال کی کھیتی میں اچھی فصل نہیں اُگا سکتے۔ آنحضورﷺ نے زبان کے غلط استعمال سے پیدا ہونے والی بیماریوں اوربدیوں کا ذکر فرمایا ہے جیسے چغل خور جنت میں داخل نہیں ہو سکتا (بخاری کتاب البروالصلۃ) پھر فرمایا۔ طعنہ زنی، فحش کلامی، یا وہ گو اور زبان دراز مومن نہیں ہو سکتا (ترمذی کتاب البروالصلۃ) جہاں تک اچھے معنوں میں زبان کے استعمال کا تعلق ہے ۔اوپر یہ فرمان رسول ﷺ گزر چکا ہے کہ زبان سے جہاد کرو۔ نیکی کا، دعوت الی اللہ کا، تعلیم و تربیت و اصلاح و احوال۔ اچھی بات کہو ورنہ خاموش رہو۔ خاکسار نے کچھ عرصہ قبل زبان پر یکے بعد دیگرے دو آرٹیکلز تحریر کئے تھے۔ ایک میں خاکسار نے تحریر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ انسان کو پیدائش کے ساتھ ہی زبان عطا کردیتا ہے لیکن جب زبان بولنے کے قابل ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ دانتوں کے ذریعہ اس کی حفاظت کرتا ہے جو فلٹر کا کام کرتے ہیں اسی لئے کہتے ہیں بتیس دانتوں میں زبان ہے۔ جو زبان کو معمولی سا کاٹ کر اسے سبق بھی دیتے رہتے ہیں۔

ایسا عمل جو جنت میں لے جائے اور جہنم سے دور رکھے

پانچویں بات میں حضرت معاذ بن جبل ؓ نے آنحضور ﷺ سے سوال کیا کہ جنت میں جانے اور جہنم سے بچنے کا کوئی عمل بتائیں تو آنحضور ﷺ نے فرمایا:
اللہ کی عبادت کرو۔ اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ نماز قائم کرو۔ زکوٰۃ دو۔ رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو۔

مذکورہ بالااحکامات دراصل ارکان اسلام ہیں جن کی طرف آنحضورﷺ نے توجہ دلائی ہے۔ اس سے آگے حدیث کےالفاظ میں آنحضورؐ نے صوم کو ڈھال یعنی سپر، صدقہ گناہوں کو ایسے مٹا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو نیز نماز تہجد کا ذکر فرمایا ہے۔ اسے دین کا خلاصہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ تمام مضمون کسی نہ کسی رنگ میں اوپربیان ہو چکا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تمام عبادات کو ان کے فلسفہ اور حکمت کو سامنے رکھ کر بجا لائیں تو عبادات کا مزا بھی دوبالا ہو جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے حضور قبولیت کا درجہ پاتی ہیں۔ جیسے آپؐ نےفرمایا:
روزہ ڈھال ہے۔

جس طرح لوہے کی ڈھال انسان کو تلوار کی دھار سے بچا لیتی ہے اسی طرح روزہ ڈھال ہے تمام بدیوں سے جو تلوار کی طرح انسان پر حملہ آور ہوتی ہیں۔ روزہ اس کو روک کر رکھتا ہے۔ صوم کے معنیٰ بھی رکنے یا روکنے کے ہیں۔ پھر آخر پر آنحضور ﷺ نے مندرجہ بالا تمام عبادات کی اعلیٰ رنگ میں بجا آوری کے لئے راتوں کو اٹھ کر تنہائی میں جب آپ کو کوئی نہ دیکھ رہا ہو، شرمندگی اور ندامت کے آنسو تہجد کی نماز میں بہانےکا ارشاد فرمایا ہے۔ اور اپنے خداسے ان عبادات کو اچھے طریق پر بجالانے کی مدد مانگنے کی تاکید فرمائی ہے۔ یہ کامیابی کا گر ہے جو آنحضور ﷺ نے بیان فرمایا ہے۔ اور اسی سے مقام محمود حاصل ہوگا۔

نوافل کی بہت اہمیت ہے۔ نوافل تو فرائض میں کمی کو پورا کرتے ہیں (ترمذی کتاب الصلوٰۃ) ویسے بھی ہر نیکی کے کام میں نوافل ہوتے ہیں جو بجالائے جائیں تو ہر نیکی چمک اٹھتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’نوافل سے مومن میرا مقرب ہو جاتا ہے ایک فرائض ہوتے ہیں دوسرے نوافل یعنی ایک تو وہ احکام ہیں جو بطور حق واجب کے ہیں اور نوافل وہ ہیں جو زائد از فرائض ہیں اور وہ اس لئے ہیں کہ فرائض میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہونوافل سے پوری ہو جاوے۔ لوگوں نے نوافل صرف نماز ہی کے نوافل سمجھے ہوئے ہیں نہیں یہ بات نہیں۔ ہر فعل کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں۔ انسان زکوٰۃ دیتا ہے تو کبھی زکوٰۃ کے سوا بھی دے۔ رمضان میں روزے رکھتا ہے کبھی اس کے سوا بھی رکھے قرض لے تو کچھ ساتھ زائد دے کیونکہ اس نے مروّت کی ہے۔ نوافل متمم فرائض ہوتے ہیں‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ79-80)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جون 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جون 2021