• 25 اپریل, 2024

سورتوں کا تعارف (آخری قسط)

سورۃ الفیل (105 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 6 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003ء)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورۃ نہایت ابتدائی مکی دور کی ہے۔ اس کا عنوان اصحاب الفیل کے محاورہ سے لیا گیا ہے یعنی ہاتھی والے، جو اس سورۃ کی دوسری آیت میں ہے، ابرہہ کی فوج کو یہ نام دیا گیاہے کیونکہ ان کے پاس ایک یا متعدد ہاتھی تھے۔ اس سورۃ میں ابرہہ اشرم کے مکہ پر حملے کا ذکرہے جو یمن کا والی تھا اور ابی سینیا کے عیسائی بادشاہ کے ماتحت تھا اور کعبہ کو منہدم کرنے کے ارادے سے آیا تھا۔ ابرہہ کے حملے کی ایک وجہ نجاشی کی نظر میں مقام حاصل کرنا بھی تھا جو ابی سینیا کا بادشاہ تھا اور یہ بھی کہ عربوں کے اتحاد اور (خانہ کعبہ سے جڑی) روایات کو توڑا جاسکے اور عربوں کی قومی غیرت اور حمیت کو دبایا جاسکے، جو عنقریب ایک نبی کی بعثت کے انتظار میں تھے اور یہ بھی تاکہ اس حملہ سے عربوں کی توجہ کعبہ سے دور ہٹائی جا سکےاور عربوں میں عیسائیت کا پرچار کیا جاسکے۔ ابرہہ نے اس مقصد کے حصول کے لئے یمن کے دارالحکومت میں صنعاء کے مقام پر ایک گرجہ (قلسوۃ نامی۔مترجم) بھی تعمیر کیا۔ تاہم جب وہ چاپلوسی اور زبردستی دباؤ ڈالنے کے باوجود عربوں کی توجہ اس گرجا کی طرف نہیں پھیر سکا اور وہ کعبہ کی تعظیم کے ہی قائل رہے تو وہ غم و غصہ سے بھر گیا اور بیس ہزار مضبوط فوجیوں کی ایک عظیم فوجی طاقت کے بل بوتے پر مکہ کا رخ کیا، تاکہ وہ کعبہ کو جڑوں سے اکھیڑ دے۔ جب وہ مکہ سے کچھ میل پہلے رکا تو اس نے قریش کے سرداروں سے بات کرنا چاہی تاکہ وہ (اپنے زعم میں) کعبہ کی قسمت کا فیصلہ کرے۔ قریش کی نمائندگی میں سب سے معزز اور قابل احترام حضرت عبد المطلب جو آپ ﷺ کے دادا تھے، ابرہہ کو ملے، جو آپ سے خوب مرعوب ہوا اور بے حد تعظیم کی ۔ مگر ابرہہ کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب بجائے کعبہ پر حملہ نہ کرنے اور اسے بچانے کی بات کرنے کے، آپ نے ابرہہ سے اپنے دو سو اونٹ واپس کرنے کا مطالبہ کیا جو اس کے (جاسوسی کے لئے آنے والے) فوجی چراہ گاہ سے لے گئے تھے۔ جب ابرہہ نے حضرت عبدالمطلب سے کہا کہ اسے اس بات کی امید نہ تھی کہ وہ اس قدر معمولی مطالبہ اس کے سامنے رکھیں گے جبکہ وہ ان کی مقدس عبادت گاہ کو تباہ کرنے کے ارادے سے آیا ہے تو حضرت عبد المطلب نے اپنے دل کا غبار یوں نکالا اور کعبہ کی سلامتی کے متعلق اپنے کامل ایمان کا اظہار ان تاریخ ساز الفاظ میں کیا کہ ‘میں ان اونٹوں کا مالک ہوں اور کعبہ کا بھی ایک مالک ہے جو اس کی حفاظت کرے گا۔ الکامل)۔ بالآخر یہ بات چیت غیر مؤثر ثابت ہوئی اور یہ جان لینے کے بعد کہ ابرہہ کے مقابل پر قریش کوئی مزاحمت نہیں دکھا سکتے حضرت عبدالمطلب نے اپنے ہم وطنوں کو نصیحت کی کہ وہ قریبی پہاڑوں کے دامن کی طرف چلے جائیں۔ مکہ کی بستی کو چھوڑتے ہوئے حضرت عبدالمطلب نے غلاف کعبہ کو پکڑ کر خوب آہ و زاری سے ان الفاظ میں خدا کے حضور دعا کی کہ ’جیسے ایک آدمی اپنے گھر اور جائیداد کی لٹیروں سے حفاظت کرتا ہے، اے خدا تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما اور عیسائیوں کو کعبہ پر غلبہ نہ عطا کر‘ (الکامل، سر ولیم میور)

ابرہہ کی فوج نے ابھی پیش قدمی شروع ہی کی تھی کہ خدائی عذاب نے انہیں آلیا۔ میور کےمطابق ایک مہلک وبا ان میں پھوٹ پڑی۔ اس وبا کے باعث ان کے جسموں پر مہلک آبلے (پھنسی) اور پھوڑے نکل آئے جو ممکنہ طور پرچیچک کی ایک مہلک قسم تھی۔ پریشانی اور مایوسی کے باعث اس کی فوج نے پیچھے ہٹنا شروع کردیا۔ جب فوج کا کوئی راہنما نہ رہا تو وہ ان (بیابان) وادیوں میں ہلاک ہونے لگے اور ایک سیلاب نے انہیں سمندر کی طرف دھکیل دیا۔ سیلاب میں بہنے والوں میں شاذ کے طور پر ہی کوئی زندہ بچ سکا۔ جہاں تک ابرہہ کا تعلق ہے تو وہ بھی اس مہلک بیماری میں گرفتار ہوا اور اسکے جسم پر بدبودار زخم نمایاں ہوگئے اور صنعاء واپس پہنچنے پر نہایت قابل رحم حالت میں مرا۔ معین طور پر اس واقع کا ذکر اس سورۃ میں کیا گیاہے۔ اس حقیقت کی تصدیق کہ ابرہہ کا لشکر چیچک سے تباہ ہوا تھا ، مستند مؤرخ ابنِ اسحاق نے بھی کی ہے۔ ابن اسحاق نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کی ہے، جو آپ ﷺ کی نیک اور ذہین زوجہ مطھرہ تھیں کہ آپ ؓ نے مکہ میں دو نابینا بھکاری دیکھے اور پوچھنے پر کہ یہ دونوں کون ہیں آپ ؓ کو بتایا گیا کہ وہ ابرہہ کے ہاتھیوں کے رتھ بان ہیں۔

سورۃ قریش (106 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 5 آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورۃ اپنی سابقہ سورۃ (الفیل) کی طرح نبوت کے ابتدائی سالوں میں مکہ میں نازل ہوئی۔ اگرچہ یہ ایک الگ اور ہر لحاظ سے مکمل سورۃ ہے تاہم اس کے مضامین سورۃ الفیل سے اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ بعض مفسرین نے غلطی سے اس کو سورۃ الفیل کا حصہ ہی قرار دے دیا ہے۔ سورۃ الفیل میں ایک واضح اور پر زور تفصیل ابرہہ کی فوج کی تباہی کی بیان ہوئی تھی(جو کعبہ کو تباہ کرنے کے لئے آیا تھا) اور یہ تباہی ایک الٰہی وبا کے ذریعہ ہوئی جس نے بعد ازاں چیچک کا روپ دھار لیا۔

موجودہ سورۃ میں اللہ تعالیٰ قریش کو یاد کرواتا ہے کہ انہیں واجب ہے کہ اس کی عبادت کریں (جو خانہ کعبہ کا رب ہے) کیونکہ اس گھر کی حفاظت کی ذمہ داری خدا نے خود لی ہےجو انہیں بھوک اور خوف سے بچائے گا۔ سابقہ سورۃ میں کعبہ کے دشمن کا ذکر کیاگیا تھا اور اس الٰہی عذاب کا جس نے انہیں اپنی پکڑ میں لیا جب اس (دشمن) نے خدا کے گھر پر حملے کا ارادہ کیا۔ موجودہ سورۃ میں یہ بیان کیا گیاہے کہ کس طرح مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں خدا نے اس گھر کے والیوں کے لئے ہر طرح کا پھل مہیا کیا اور انہیں ہر خوف سے امن بخشا۔

سورۃ الماعون (107 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 8 آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورۃ نہایت ابتدائی مکی دور کی ہے۔ سابقہ سورۃ (قریش) میں یہ ذکر ہے کہ خدا نے قریش کو ہر طرح کے خطرے سے امن بخشاہے اور تمام ضروریات زندگی مہیا کی ہیں جو اس کے خاص فضلوں کی وجہ سے ہے نہ کہ ان کے کسی عمل کی وجہ سے ہے اور نہ اس لئے کہ وہ ان نعمتوں کے حقدار تھے۔ انہیں بتایا گیا تھا ان نعمتوں کے حصول پر انہیں شکرانے کے طور پر اپنے رحمٰن خدا کی مخلص ہو کر عبادت کرنی چاہیئے تھی جبکہ انہوں نے دنیاداری کو ترجیح دی اور بت پرستی میں مشغول ہو گئے۔ موجودہ سورۃ میں یہ بیان کیا گیاہے کہ دنیا کی محبت، قوموں میں آخرت پر ایمان کو کمزور کردیتی ہے اور خدا کی محبت فراموش ہوجاتی ہے۔ یہ سورۃ دو بنیادی اسلامی احکامات کو بیان کرتی ہے جن کا انکار خود مذہب کے انکار پر منتج ہوتا ہے یعنی خدا کی عبادت اور حقوق العباد کی ادائیگی کرنا۔

سورۃ الکوثر (108 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 4 آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

قرآن کریم کی نہایت ابتدائی وحی ہونے کی وجہ سے یہ سورۃ اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کریم خدا کا کلام ہے اور یہ بھی کہ اس کی ترتیب بھی الہامی ہے اور الٰہی ہدایت پر مبنی ہے۔ کیونکہ یہ سورۃ نہایت ابتدائی مکی دور کی ہے، ممکنہ طور پر نبوت کے پہلے چار سالوں میں اس کا نزول ہوا مگر اس کو قرآن کریم کے تقریباً اختتام پر رکھا گیاہے۔ جس ترتیب سے قرآن کریم نازل ہوا تھا آج اس سے مختلف ترتیب میں محفوظ ہے۔ یہ یقینی طور پر قرآن کریم کا معجزہ ہےکہ جس ترتیب سے یہ نازل ہوا ہے وہ اس زمانے کی ضرورت کے مطابق تھی۔ مگر اس کی موجودہ ترتیب انسانی ضرورتوں کے عین مطابق ہے اور قیامت تک کے لئے موزوں ہے۔

اس سورۃ میں جو وعدہ کیا گیا ہے وہ اس زمانے میں کیا جارہا تھا جب آپ ﷺ کو مکہ سے باہر شاید ہی کوئی جانتا تھا اور آپ کا دعویٰ کہ آپ انسانیت کے آخری نجات دہندہ کے طور پر مبعوث ہوئے ہیں، کو آپ کے ہم وطن سنجیدگی سے نہیں لے رہے تھے۔ یہ وعدہ نہایت پر زور الفاظ میں تھا اور الفاظ یوں تھے کہ ’ہم نے تجھے خیر (بھلائی) کی کثرت عطا کی ہے‘، جن سےپتہ چلتا ہے کہ آپ ﷺ کو پہلے ہی بھلائی مل چکی ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا منجانب اللہ ہونے کا ثبوت فراہم کرنے کے لئے اس سورۃ کو ایسے وقت میں نازل کیا گیا جب دنیاوی لحاظ سے اس وعدہ کا پورا ہونا محال تھا اور ترتیب کے لحاظ سے اس سورۃ کو آخر میں رکھا گیا ہے جبکہ (قاری قرآن کے لئے) یہ وعدہ پہلے ہی پورا ہو چکا ہوتا ہے۔ اس سورۃ کا اپنی سابقہ سورۃ (الماعون) سے تعلق یوں ہے کہ سابقہ سورۃ میں منافقوں کی چند ظاہری بدیاں بیان کی گئی تھیں اور موجودہ سورۃ میں مؤمنوں کی چند گرانقدر نیکیوں کا ذکر ہےجن میں سخاوت، نمازوں کی باقاعدگی سے ادائیگی، خدا کے لئے مخلص ہونا اور قومی ترقی کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہونا شامل ہیں۔

سورۃ الکافرون (109 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 7 آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

جمہور اتفاق رائے کے مطابق یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی۔ حضرت حسنؓ، حضرت عکرمہؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ کی یہی رائے ہے۔ نوڈلکے نے اس سورۃ کا وقت نزول چار نبوی رکھا ہے۔ اس سورۃ کا سابقہ سورۃ (الکوثر) سے گہرا تعلق ہے۔ سابقہ سورۃ میں بتایا گیاتھا کہ روحانی اور مادی افضال اور نعمتیں آپ ﷺ کو اس کثرت سے عطا ہوں گی کہ انسانی تاریخ میں اس کی نظیر نہ ملے گی۔ موجودہ سورۃ میں ایسے کفار جن کے بارے میں الٰہی فیصلہ صادر ہو چکا ہے اور اب وہ اسلام قبول کرنے والے نہیں ہیں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ آپ ﷺ کی تائید و نصرت میں ایسے واضح نشانات مشاہدہ کرنےکے بعد انہوں نے آپ ﷺ کو جھٹلایا ہے تو وہ کیونکر مسلمانوں سے یہ امید رکھ سکتے ہیں کہ وہ اپنے عقائد سے منہ موڑ لیں گے اور ان کے بے وقوفانہ عقائد کو قبول کرلیں گے؟

آپ ﷺ نے فرمایا کہ سورۃ الاخلاص قرآن کریم کے ایک تہائی کے برابر ہے اور موجودہ سورۃ (الکافرون) قرآن کریم کے ایک چوتھائی کے برابر ہے اور جو کوئی بھی ان سورتوں کی کثرت سے تلاوت کرے گا اور ان کے مضامین میں سنجیدگی سے غور و فکر کرے گا تو اس کی عزت اور مرتبہ میں غیر معمولی اضافہ ہوگا۔ یعنی سورۃ الاخلاص جو بنیادی اسلامی عقیدہ توحید کو بیان کرتی ہے اور موجودہ سورۃ میں مومنوں کو حکم دیا گیاہے کہ پوری بہادری سے اپنے ایمان پر قائم رہیں خواہ حالات کیسے تکلیف دہ اور بد ترین کیوں نہ ہوں۔ اس لئے جو کوئی بھی ان دونوں سورتوں کی اہمیت کو سمجھ لے گا وہ ضرور معزز ٹھہرے گا۔

سورۃ النصر (110 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ (بعد از ہجرت)، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 4 آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورۃ مدنی ہے اس لحاظ سے کہ یہ ہجرت کے بعد نازل ہوئی، مگر ساتھ ہی یہ سورۃ مکی بھی ہے اس لحاظ سے کہ یہ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ آپ ﷺ کی وفات سے 70 یا 80 دن قبل۔ جملہ مستند تاریخی مواد، ثقہ روایات اور مستند راویوں جن میں حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ، جو آپ ﷺ کے اکابر صحابہ میں شمار کئے جاتے ہیں، کی اس سورۃ کے وقت نزول کے بارے میں یہی رائے ہے۔ یہ آخری مکمل نازل ہونے والی سورۃ ہے گو سب سے آخری قرآنی وحی سورۃ المائدۃ کی آیت نمبر چار ہے۔

سابقہ سورۃ میں کفار کو بتایا گیا تھا کہ انکا زندگی کا نظریہ، اصول و ضوابط، مذہبی رسومات اور عبادت کے طریق مؤمنوں سے بالکل الگ ہیں اور ان دونوں کے درمیان سمجھوتے کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے۔ انہیں اپنے بد اعمال کا نتیجہ بھگتنا پڑے گاجبکہ مسلمان اپنے نیک اعمال کے بدلے اچھے پھل پائیں گے۔ موجودہ سورۃ میں مؤمنوں کو بتایا گیاہے کہ ان کی فتح کا وعدہ آچکا ہے اور لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہو رہے ہیں لہٰذا انہیں اور خاص طور پر آپﷺ کو اپنے رب کا شکر گزار ہونا چاہیئے، اس کی تسبیح کرنی چاہیئے اور اپنی کوتاہیوں پر اس کی حفاظت طلب کرنی چاہیئے اور ان اخلاقی کمزوریوں پر بھی جو عموماً کسی بھی جماعت میں اس وقت راہ پا جاتی ہیں جب لوگ کثرت سے شامل ہوتےہیں کیونکہ بڑی تعداد میں نئے شاملین کواس جماعت کی تعلیمات کو سمجھنے اور ذہن نشین کرنے میں کمی رہ جاتی ہے اور وہ پہلی روح باقی نہیں رہتی۔

سورۃ اللھب (111 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 6 آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

اس سورۃ کے ابتدائی مکی دور کے ہونے کے حوالہ سے جملہ مسلم علماء کی رائے اور مفسرینِ قرآن میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔ نوڈلکے اور میور نے بھی اسی رائے سے اتفاق کیاہے۔ چند علماء کی رائے ہے کہ یہ سورۃ زمانی اعتبار سے پانچویں نازل ہونے والی سورۃ ہے اور اس سے قبل نازل ہونے والی چار سورتیں بالترتیب سورۃ العلق، سورۃ القلم، سورۃ المزمل اور سورۃ المدثر ہیں۔ جیساکہ اس سورۃ کے عنوان سے ظاہر ہے اس میں سخت غصہ کرنے والے اور بھڑکیلے مزاج لوگوں کا ذکر ہےجو شعلہ بیان ہوں۔ سورۃ الکوثر میں آپ ﷺ سے دو طرح کے وعدے کئے گئے تھے ایک تو آپ کے ماننے والوں کا کثرت سے اضافہ ہونا اور دوسرا اسلام کے دشمنوں کا نیست و نابود ہوجانا۔ سابقہ سورۃ (النصر) میں پہلے وعدے کے پورا ہونے کا بیان تھا اور موجودہ سورۃ میں دوسرے وعدے کا پورا ہونا بیان کیا گیاہے۔

سورۃ الاخلاص (112 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 5 آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

حضرت حسنؓ، حضرت عکرمہ ؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ جو آپ ﷺ کے ابتدائی صحابہ میں سے ہیں، کے نزدیک یہ سورۃ نہایت ابتدائی مکی دور کی ہے۔ تاہم حضرت ابن عباسؓ جو اگرچہ حضرت ابن مسعود ؓ سے تو کافی چھوٹی عمر کے ہیں اور صحابہ میں علم و عرفان میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں، کے نزدیک یہ سورۃ مدینہ میں نازل ہوئی۔ یوں آپ ﷺ کے دو نہایت اکابر اور معتبر صحابہ میں اختلاف کے باعث بعض مفسرین قرآن کا خیال ہے کہ یہ سورۃ دو مرتبہ نازل ہوئی تھی، پہلے مکہ میں پھر دوسری مرتبہ مدینہ میں۔

اس سورۃ کے مضامین کی اہمیت کے حوالہ سے اس سورۃ کے کئی نام ہیں جن میں زیادہ اہمیت کے حامل درج ذیل ہیں:

التفرید، التجرید، التوحید، الاخلاص، المعرفۃ، الصمد، الاحد، النور وغیرہ۔ کیونکہ اس سورۃ کے مضامین کا تعلق اسلام کے بنیادی عقیدہ توحید سے ہے۔ اس سورۃ کی غیر معمولی شان یہ ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ قرآن کریم کی سب سے بڑی (شان والی) سورۃ ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ رات کو سونے کے لئے بستر پر جانے سے پہلے آپ ﷺ اس سورۃ کی اور آخری دو سورتوں (مُعَوِّذَتَیْنِ) کی تلاوت تین مرتبہ فرماتے تھے (داؤد)۔

اس سورۃ کا عنوان اخلاص ہے کیونکہ اس کی تلاوت اورمضامین پر غور و فکر اس کے قاری کو خدا کے قریب لے آتا ہے۔ جو بات اس سورۃ کی اہمیت کو اور بھی زیادہ بڑھا دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جیسے سورۃ الفاتحہ کو پورے قرآن کا خلاصہ سمجھا جاتا ہے اسی طرح یہ سورۃ اور اس کے بعد آنے والی دو سورتیں (مُعَوِّذَتَیْنِ) سورۃ الفاتحہ کےمضامین کا اعادہ ہیں۔ یہ سورۃ اللہ تعالیٰ کی چار بنیادی تنزیہی صفات کو بیان کرتی ہے جبکہ سورۃ الفاتحہ چار تشبیہی صفات کو بیان کرتی ہے۔

سورۃ الفلق (113 ویں سورۃ)
(مدنی سورۃ تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 6 آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

موجودہ سورۃ اور قرآن کریم کی آخری سورۃ (الناس) آپس میں اس قدر مربوط ہیں کہ اگرچہ دونوں اپنی ذات میں مکمل اور آزاد ہیں پھر بھی سورۃ الناس اور موجودہ سورۃ (مضامین کے اعتبار سے) آپس میں لازم وملزوم ہیں۔ موجودہ سورۃ اپنے مضامین کے ایک حصہ پر روشنی ڈالتی ہے تو اگلی سورۃ دوسرے حصہ پر۔ یہ دونوں سورتیں معوذتین کہلاتی ہیں یعنی دو ایسی سورتیں جن میں اللہ کی پناہ طلب کی گئی ہےکیونکہ یہ دونوں ایک ہی محاورہ سے شروع ہوتی ہیں یعنی اَعُوْذُ بِاللّٰہِ سے۔ ان دونوں سورتوں کے وقت نزول کے بارے میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ چند علماء جن میں حضرت ابن عباسؓ اور حضرت قتادہؓ شامل ہیں، ان سورتوں کو مدنی قرار دیتے ہیں جبکہ حضرت حسن ؓ، حضرت عکرمہؓ، حضرت عطاؓ اور حضرت جابر ؓ ان کو مکی قرار دیتے ہیں۔ یوں جملہ حقائق اور تاریخی مواد کو جانچنے کے بعد اکثریت مسلم علماء اور مفسرین کی رائے میں یہ مکی سورتیں ہیں۔

مضامین کا خلاصہ

ان دونوں سورتوں کا سورۃ الاخلاص سے تعلق یوں بنتا ہے کہ سورۃ الاخلاص میں مؤمنوں کو حکم دیا گیاہے کہ پوری دنیا میں پرچار کریں کہ خدا ایک ہے اور بے نیازہے اور کسی بھی چیز کی دسترس سے باہر ہے اور کسی بھی انسان میں اس کی ہمنوائی کی طاقت نہیں۔ ان دونوں سورتوں میں مؤمنوں کو بتایا گیاہے کہ انہیں کسی ظالم، آمر یا حکمران سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے اور انہیں اپنے ایمان پر کہ خدا اس کائنات کا اکیلا راہنما اور چلانے والا ہے، مضبوطی سے قائم رہنا چاہیئے اور یہ کہ خدا طاقت رکھتا ہے کہ اپنے جانثاروں کو ہر طرح کی تکلیف اور مصیبت سے بچائے، جو ظلمت کی طاقتیں انہیں پہنچانا چاہتی ہیں۔

اگرچہ یہ دونوں سورتیں قرآن کریم کا لازمی حصہ ہیں تاہم ان دونوں کو قرآن کریم کا اختتامیہ (اختتامی حصہ) قرار دیا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم کا اصل متن یوں لگتا ہے جیسے سورۃ الاخلاص پر ختم ہو جاتا ہے جو ایک خلاصہ کے طور پر بنیادی قرآنی تعلیمات کو بیان کرتی ہیں اور ان دونوں (آخری) سورتوں میں مؤمنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ سیدھے راستے پر رہنے کے لئے خدا کی پناہ طلب کریں اور ان بدیوں اور برائیوں سے بھی جو ان کی مادی ترقیات کے ساتھ ساتھ روحانی ترقی کو بھی بری طرح سے متاثر کر سکتی ہیں۔ آپ ﷺ ان تینوں سورتوں (الاخلاص، الفلق اور الناس) کو سونے سے پہلے تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

سورۃ الناس (114 ویں سورۃ)
(مدنی سورۃ تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 7 آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

یہ سورۃ جو مُعَوِّذَتَیْنِ میں سے دوسری ہے، اپنی سابقہ سورۃ (الفلق) کے مضمون کو جاری رکھتی ہے اور یوں دونوں لازم و ملزوم بن جاتی ہیں۔ اس طرح کہ سورۃ الفلق میں مؤمنوں کو حکم دیا گیا تھا کہ دنیاوی زندگی میں اپنی تکلیفوں اور مشکلات میں خدا سے پناہ طلب کریں جبکہ موجودہ سورۃ میں ایسی آزمائشوں اور ابتلاؤں سے خدا کی پناہ طلب کرنے کا حکم ہےجو انسان کی روحانی ترقی پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔ یہ پناہ محض زبانی دعاوی سے طلب کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ ایسے اعمال سے بھی جو خدا کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوں۔ یہ وہ اہم ترین حکم ہے جس کی طرف ’قُلْ‘ کے لفظ میں اشارہ کیا گیاہےیعنی کہہ دے۔ اس سورۃ کا عنوان نہایت موزوں طور پر الناس رکھاگیاہے جیساکہ (الناس) لوگوں کے رب، بادشاہ اور پیدا کرنے والے سے پناہ طلب کی گئی ہے، انسانوں اور جنوں میں سے دھوکہ دینے والوں اور وسوسہ پیدا کرنے والوں سے، جو لوگوں کے دلوں میں برے خیالات اور وسوسہ ڈالتے ہیں۔ یہ سورۃ، اپنی سابقہ سورۃ (الفلق) کے ساتھ ہی نازل ہوئی تھی اور اس سورۃ کےساتھ مل کر قرآن کریم کا موزوں ترین اختتام کرتی ہے۔

تَمَّتْ بِالْخَیْرِ

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اگست 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اگست 2021