• 6 مئی, 2024

حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ

مبلغین برطانیہ کا تعارف

حضرت مولوی عبد الر حیم نیرصاحبؓ دسمبر 1883ء میں ریاست کپورتھلہ میں پھگواڑہ کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد صاحب کا نام (حافظ) محمد سلیمان صاحب تھا جو ضلع کرنال کے رہنے والے تھے۔ آپ کی اہلیہ کا نام مکرمہ محمودہ نیر صاحبہ تھا۔ حضرت نیر صاحب نے ابتدائی تعلیم پھگواڑہ اور بھونگہ میں حاصل کی اور تیسری سے آٹھویں جماعت تک حاجی پورہ میں تعلیم حاصل کی۔ قادیان میں آمد کے بعد آپ نےجے وی کا کور س کیا۔ آپ نے میٹرک کا امتحان یو۔ پی کے ایک سکول سے 1902ء میں پاس کیا۔ 1908ء میں آپ نے سینٹرل ٹریننگ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی۔ ابتدئی تعلیم سے متعلق آپ خود فرماتے ہیں:
’’میری ابتدائی تعلیم میں معمولی مذہبی ضرورتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض فارسی کتب کا بڑا دخل ہے۔ ان میں سے تاریخ میں حدیقۃ الاحباب، فقہ میں مَالَاُبدَّمِنہُ اور تصوف میں ’’کیمیائے سعادت‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔‘‘

اہلیہ وا ولاد

حضرت مولوی عبد الرحیم نیر صاحبؓ کو قبول احمدیت کی سعادت منشی حاجی حبیب الرحمٰنؓ صاحب کپورتھلوی (رئیس حاجی پورہ یکے از رفقاء 313) کے ذریعے حاصل ہوئی۔ آپ پانچویں یا چھٹی جماعت میں تھے کہ حضرت حاجی صاحبؓ نے آپ کو احکام نماز اور دیگر اسلامی تعلیم کے سا تھ ساتھ احمدیت کا تعارف کروایا اور سلسلہ احمدیہ کی بعض کتب مطالعہ کے لئے دیں۔ اس طرح آپ حضرت حاجی صاحبؓ کی تربیت کے نتیجہ میں احمدیت کی طرف مائل ہوئے اور آپ کے ہمراہ قادیان جانے کے مواقع ملے او ر بالآخر 1901ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔

حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحبؓ کی پہلی شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں حضورؑہی کی نظر شفقت اور خصوصی رہنمائی سےحضرت سید عزیز الرحمٰن بریلوی صاحبؓ کی صاحبزادی محترمہ سیدہ عائشہ بانو صاحبہ سے 1905ء میں ہوا۔ لیکن مارچ 1933ء میں آپ کی اہلیہ محترمہ کو نمونیہ کی شکایت ہوگئی اور باوجود علاج معا لجہ کے بیماری کا حملہ بڑھتا گیا اور بالآخر 31مارچ 1933ء بروز جمعۃالمبارک ساڑھے اڑتالیس سال کی عمر میں اپنے مولا کےحضور حاضر ہو گئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

آپ کی پہلی بیوی کے بطن سے خداتعالیٰ نے تین لڑکیاں اور تین لڑکے عطا فرمائے مگر چار بچے یعنی تینوں لڑکے اور ایک لڑکی بچپن میں ہی وفات پاگئی صرف دو بیٹیاں محترمہ مبارکہ بانو صاحبہ اورمحترمہ حمیدہ بانو صاحبہ نے لمبی عمر پائی۔

آپ نے دوسری شادی 1941ءمیں محترمہ محمود ہ کڑک صاحبہ بنت مکرم ڈاکٹر عبد الغنی کڑک صاحبؓ (صحابی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام) سے کی۔ آپ کا نکاح حضرت مصلح موعودؓ نے پڑھا۔ آپ 74سال کی عمر میں 20 اکتوبر 1996ء بقضائے الہٰی وفات پاگئیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں عمل میں آئی۔ ان کے بطن سے دو بیٹیاں اور پھر دو بیٹے ہوئے۔ 1)مکرمہ انیسہ نیروجاہت صاحبہ، 2) مکرمہ بشریٰ راحت نیر صاحبہ 3) مکرم اسماعیل خلیل صاحب 4) مکرم آدم نیر صاحب

(کتاب نیر احمدیت صفحات3،4،7،21،22،23،30،31،32)

خدمات سلسلہ کا آغاز

حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحبؓ 18ستمبر 1905ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خاص اجازت سے اپنی ملازمت بطور سیکنڈ ماسٹر مدرسہ اکونہ ضلع بہرائچ سے ترک کر کے قادیان تشریف لے آئے اور مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں تدریسی خدمات آپ کے سپرد ہوئیں۔

18جون 1913ء کو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے اخبار ’’الفضل‘‘ جاری کیا۔ الفضل کے اجراء میں آپؓ کے معاون خصوصی اور سٹاف کے سر گرم رکن، جنہوں نے اس سلسلہ میں سب سے زیادہ ہاتھ بٹایا، حضرت قاضی محمد ظہور الدین اکمل صاحبؓ تھے۔ ان کے علاوہ ادارہ میں حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ اور حضرت ماسٹر عبد الرحیم نیر صاحبؓ بھی تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے الفضل میں آپ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’1914ء کا دور جو میرے لئے بھی، الفضل کے لئے اور ساری جماعت کےلئے بھی نیا دور تھا وہ تو غالباً بہتوں کو یاد ہوگا۔ اس دور میں اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود علیہ السلام کی حقیقت کو دنیا پر واضح طور پر ظاہر کیا۔ ہمیں نئے نئے کار کن عطا کئے۔ حافظ روشن علی صاحبؓ، مکرم میر محمد اسحٰق صاحبؓ، عزیز مرزا بشیر احمد صاحبؓ، مکرم شیخ عبدالرحمٰن صاحبؓ مصری، چوہدری فتح محمد سیال صاحبؓ، ماسٹر محمد الدین صاحبؓ، ماسٹر نیر صاحب اسی دور جدید کی یاد گار ہیں اور کئی پودے جڑیں پکڑ رہے ہیں۔‘‘

حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے یورپ تشریف لے جانے پر اپریل 1917ء میں آپ کو حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے افسر ڈاک مقرر فرمایا۔

(کتاب نیر احمدیت صفحات39،42،44،45،49)

حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحبؓ نے انگلستان میں خداتعالیٰ کا پیغام پہنچانے سے قبل سیرالیون، غانا اور نائیجیریا میں دین کی خدمات سرانجام دیں۔

حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحبؓ مؤرخہ21فروری 1921ء کو فری ٹاؤن سیرالیون سے گھانابذریعہ بحری جہاز روانہ ہوئے اور 28 فروری کو سالٹ پونڈ تشریف لائے۔ یہاں آ نے پر آپ نے احباب کے ساتھ مندرجہ ذیل چھ بنیادی اہمیت کے امور کو اپنا ہدف مقرر فرمایا اور انہیں حاصل کرنے کے لئے اپنی کوشش تیز فرمادیں۔ وہ چھ درج ذیل ہیں: 1۔ سالٹ پونڈ میں مستقل قیام 2۔ سالٹ پونڈ میں ایک مرکزی احمدیہ مڈل سکول کا قیام 3۔ مختلف احمدی مراکزمیں پرائمری مدارس 4۔ نظام جماعت کا قیام 5۔ مشنری ٹریننگ سکول کا اجراء 6۔ موجودہ تمام احمدیہ مراکز کے دورہ جات۔ نیر احمدیت کی سالٹ پونڈمیں آمد کے بعد خدا تعالیٰ کے فضلوں کا ظہور اس کثرت سے ہوا کہ صرف چند ماہ کے قلیل عرصہ میں سالٹ پونڈ کا نقشہ ہی بدل گیا اور لوگوں میں ایک پاک تبدیلی ظہور میں آئی۔ حضرت نیر صاحبؓ نے اس پاک تبدیلی کا نقشہ جس پیارے اور حسین انداز میں کھینچا ہے وہ آ پ کے الفاظ میں درج ذیل ہے:

’’سات ماہ ہوئے کہ میں ایک نو وارد مسافر کی حیثیت سے سالٹ پونڈ کے غیر مہمان نواز ساحل پر گستاخ امواج بحر سے تھپیڑے کھاتی ہوئی کشتی میں سے اتراتھا۔ اس وقت صرف ایک شخص ساحل پر محبت کے دل کے ساتھ موجود تھا۔ اور دوسرا خاکی وردی میں احکام حکومت کی تعمیل کے لئے حاضر تھا۔ ملک میں مسلمان تھے مگر بت پرستوں سے تھوڑے بہتر۔ لیکن کیا فضل الہٰی ہے کہ اب جو اصلاحات میں نے نا فذکی تھیں ان پر جابجا عمل ہو رہا ہے 1۔ عورتیں لباس پہنتی اور چھاتیاں ڈھانکتی ہیں 2۔ نئے بچوں کے منہ پر صلیب کا نشان نہیں لگایا جاتا 3۔ ختنہ شروع ہو گیا ہے 4۔ پام کے رس کی شراب کوئی مسلمان اب نہیں پیتا 5۔ گھٹنوں کے بل سلام کرنا موقوف ہو گیا ہے اور نہ صرف ان اصلاحات پر عمل شروع ہے بلکہ جماعت کے اخلاص کی یہ کیفیت ہے کہ میری بات ان کے لئے ’’حکم الہٰی‘‘ کی صحیح تفسیر ہے اور ہر جگہ مجھ سے یہی کہا جاتا ہے ہم وہ کرینگے جو آپ سکھا تے ہیں ۔ نماز میں ہاتھ میری طرح خودبخود باندھنے لگے ہیں اور ان سادہ نو احمدیوں کے اخلاص قلب کی یہ کیفیت ہے کہ میں نے مسجد میں سنتیں پڑھیں اور تمام جماعت میرے ساتھ کھڑی ہوگئی اور گو میں نے تکبیر نہیں کہی مگر میری حرکات کو دیکھتے رہے اور برابر جماعت کی طرح رکوع و سجود کیا۔ سات ماہ میں یہ نتائج فضل الہٰی ہیں۔‘‘

آپ نے گھانا کی تمام احمدیہ جماعتوں کا مرکز سالٹ پونڈ میں قائم فرمایا اور یہاں مشن ہاؤس کا افتتاح فرمایا اور ساتھ ہی آ پ نے مشن ہاؤس کے ایک ہال میں مبلغین کلاس کا افتتاح فرمایا اور خود ہی عربی زبان میں قرآن کریم، حدیث، فقہ اور عقائد احمدیہ پر مشتمل مضامین پڑھانے شروع کر دئیے۔ چنانچہ آ پ نے بیرونی جماعتوں کے ساتھ رابطہ اور نئے مقامات پر تبلیغ کی غرض سے دورہ جات کا ایک وسیع سلسلہ شروع فرمایا اور دوسری بار سالٹ پونڈ پہنچنے کے بعد ایک ماہ کے عرصہ میں 22 مقامات کا دورہ فرمایا۔ اس سفر کے دوران آپ نے کل 27پبلک جلسوں میں تبلیغ اسلام اور احمدیت اور مسلمانوں کی اصلاح کے موضوعات کو اپنی تقاریر میں بیان فرمایا۔ حضرت نیر صاحبؓ نے احمدیت کے پیغام کو پہنچانے کے لئے دورہ جات کئے ان میں سے و ینیباہ، ایڈوکروم، سیان براکو، گولڈکوسٹ، اشانٹی ریجن، کیپ کوسٹ، سیکنڈی، آبدانی اور کماسی شامل ہیں۔

(نیر احمدیت صفحات193،194،196،197)

آپ 8 اپریل 1921ء کو نائیجیریا کے دارالحکومت لیگوس پہنچ گئے۔ آپ نے لیگوس آمد کے ساتھ ہی بغیر کسی تاخیر کے کام کا آغاز کیا، جس میں پبلک تقاریر، درس القرآن و حدیث، انفرادی و اجتماعی ملاقاتیں اور مجالس سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سے تمام شہر لیگوس میں ایک نئی روح اور بیداری کی لہر پیدا ہو گئی۔

وہ لوگ جو قرآن کریم کا ناظرہ نہ پڑھ سکتے تھے اور نہ انہیں عربی زبان سے واقفیت تھی ان کے لئے آپ نے قرآن کلاس کا اجراءکیا اور جو لوگ عربی علوم سے کسی قدر واقفیت رکھتے تھے ان کے لئے ان کے علمی معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک دینی کلاس جاری فرمادی۔ حضرت نیر صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’مسجد احمدیہ میں پیر، بدھ اور جمعہ کو ساڑھے سات بجے سے ساڑھے نو بجے شام تک درس قرآن و حدیث اور فتاویٰ احمدیہ دیا جاتاہے۔ درس کے بعد نوجوان عربی زبان پڑھتے ہیں۔ ان ممالک میں عربی بولنے کا اکثر رواج ہے۔ ہمارے بعض دوست اظہار مافی الضمیر عربی میں کر لیتے ہیں۔ گھرپر دو تین نوجوان قرآن پڑھتے ہیں اور متلاشیاں حق کی ملاقاتوں کاسلسلہ دن بھر جاری رہتا ہے۔ اللہ کا احسان ہے کہ جماعت بہت خوش ہے اور درس سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔‘‘

حضرت نیر صاحبؓ یہاں وائٹ الفا (White Alfa) کے نام سےمشہور ہوگئے۔ چونکہ سفید آدمی کا یہاں بہت اثر ہے اس لئے یہاں سے حضرت نیر صاحبؓ کو نہایت عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ لیگوس میں ایک زیر تبلیغ انگریز خاتون (جو ایک بڑے افسر کی بیوی تھی) نے حضرت نیر صاحبؓ سے کہا:

‘‘Now Nayyar is on the tongue of everyone in Lagos’’

یعنی ہر شخص کی زبان پر مسٹر نیر ہے۔ حضرت نیر صاحبؓ کو ہزرائل ہائی نس پرنس الیکو (His Royal Highness Prince Eleco) نے از خو د اپنے شاہی محل کے سامنے وعظ کر نے کی دعوت دی۔ تبلیغ کےساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں نومبائعین کی تربیت کی عظیم ذمہ داری کا بوجھ بھی آپ کے کندھوں پر آپڑا جسے آپ نے نہایت احسن رنگ اور منظم طورپر نبھایا۔ آپ نے ایک مسیحی بادشاہ (King Alake Ademala II) کو پیغام حق پہنچایا جو آپ کی تبلیغ سے بہت متاثر ہوئے اور ایک شاندار Turbey بطور نذرانہ پیش کی۔ حضرت نیر صاحبؓ نے نائیجیریا سے واپس تشریف لانے سے قبل نائیجیریا میں باقاعدہ نظام جماعت کو مستحکم کیا ا ور عہد یداران مقرر فرمائے۔ آپ نے اس مقصد کےلئے تین مجالس قائم کیں۔

1)مجلس ناظم 2)مجلس اکابر 3)مجلس علماء۔ آپ نے عہد یداران کی اس رنگ میں تربیت فرمائی کہ آپ کی روانگی کے بعد یہاں دعوت الی اللہ اور دیگر تربیتی پروگرام بد ستور جاری رہیں۔ حضرت نیر صاحبؓ نائیجیریا میں احمدیت کی آئندہ ترقی کے بارہ میں فرماتےہیں:
’’میں اللہ تعالیٰ کا خاص شکریہ ادا کر تا ہوں کہ میری محنت پھل لارہی ہے۔ بہت سے نوجوان شراب سے تائب ہوگئے ہیں اورنصف شہر اندر ہی اندر احمدی ہے۔ نوجوان اپنے والدین سے خائف ہیں اور لیگوس کا ہرنو جوان احمدی ہے ۔ ۔ ۔ ایک بوڑھے مسیحی پادری نے ایک نوجوان سے پوچھا کیا تم احمدی ہو؟ اثبات میں جواب پاکر کہنے لگا:

‘‘Ahmadiyya movement is the hope of our country’’

یعنی سلسلہ احمدیہ ہمارے ملک کی امید ہے۔ حضرت نیر صاحبؓ 21 دسمبر 1922ء تک لیگوس میں رہے اور پہلے چار ماہ کے قیام کے دوران لیگوس سے باہر جاکر تبلیغ کر نے کا موقع بہت کم ملالیکن اس بار آپ نے لیگوس سے باہر ملک کے دور دراز علاقوں تک پیغام حق پہنچانے کے لئے طویل دورے کئے۔ اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں اور ان تک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچایا۔ آپ نے جولائی 1922ء میں ایک رسالہ What is the Ahmadiyya Movement یعنی سلسلہ احمدیہ کیا ہے؟ کے نام سےطبع کیا۔ مغربی افریقہ میں سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی ہدایات کے ماتحت پہلا تبلیغی مشن آپ نے ہی قائم کیا۔

حضرت نیر صاحبؓ نے شمالی نائیجیریا میں بھی تبلیغ اور احمدیت کا پیغام پہنچایا اس میں کاڈونا اور زاریہ شامل ہیں۔ شمالی نائیجیریا کے کامیاب اور اعصاب شکن دورہ سے واپسی پر آپ شدید بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ اس شدید بیماری کے باعث آپ طبی مشورہ کے مطابق 6جنوری 1923ء کو واپس انگلستان تشریف لے آئے۔ انگلستان آنے کے بعد محض دو ہفتہ کے قلیل عرصہ میں آپ کی صحت بحال ہوگئی اور آپ نے دیگر مبلغین کےساتھ مل کر کام کا آغاز کردیا۔

حضرت نیر صاحبؓ جماعت کے اخلاص و محبت کاذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’جس اخلاص و محبت کے ساتھ جماعت لیگوس نے عاجز کو رخصت کیا وہ میرے قلب سے کبھی محو نہیں ہوسکتا۔ مستورات کا اخلاص اور محبت سے آنسو بہانا، امام اور الفاؤں کی دعائیں اور مدرسہ کے طلباء کا بندرگا ہ پر صفوں میں اپنے جھنڈے کے ساتھ کھڑے ہونا میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس جھنڈے پر ’’خدا حافظ مولوی‘‘ لکھا تھا اور بچوں نے،جن کی تعداداب مدرسہ میں 550 ہے، پہلے عربی نعت پڑھی پھر یوروبا اور اس کے بعد انگریزی میں برطانیہ کا قومی ترانہ گایا اور اساتذہ نے تین ماہ کے اندر جو کچھ عمدہ کام کیا اور بچوں کو ضبط سکھایا اور دین کی طرف متوجہ کیاہے وہ ان کی طرف سے نہایت خوش کرنے والا تحفہ تھا جس کے لئے میں نے ان کا شکر یہ ادا کیا۔‘‘

(نیر احمدیت صفحات 226،228،229،240،241،244،250،253،255،257،275)

انگلستان میں نیر احمدیت

اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیرالیون ،گھانا اور نائیجیریا میں احمدیہ جماعتیں قائم ہو چکی تھیں۔ حضرت نیر صاحبؓ کے دل میں یہ شدید خواہش تھی کہ وہ انگریز اقوام تک پیغام حق پہنچا ئیں ا ور اس غرض کے لئے آپ باہر کھلے میدانوں میں جاکر انگریزی تقاریر کی مشق کیا کرتے تھے۔ آپ نے انگلستان میں اور افریقہ میں نہایت مصروف وقت گزارا اور دن رات خدمت اسلام میں مشغول رہے اور اسی شوق کی بناء پر ہی آپ نے عیسائی مشنریوں کے مقابلہ میں اسلام کے جھنڈے گاڑ دئیے اور بت پرستوں اور تثلیث پرستوں کو کلمہ توحید پڑھایا اورآج آپ کے لگائے ہوئے شجر اسلام پر وقت بہار ہے اور لاکھوں بند گان خدائے واحد ویگانہ کی توحید کا اقرار کرتے اور اس کے پیارے رسول پاک ﷺپر درود بھیجتے ہیں۔

حضرت نیر صاحبؓ نے 1923ء کو انگلستان آکرحضرت مولوی مبارک علی صاحب سے چارج لیا۔ آپ نومبر 1924ء تک کام کرتے رہے۔ حضرت نیر صاحبؓ نے لندن میں وارد ہونے کے بعد ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے کام کا آغاز بھر پور انداز سے کیا۔ آپ نے وہاں کے معاشرتی، ثقافتی، سیاسی، تمدنی اور مذہبی حالات کا بغور مطالعہ کیا اور ہر طبقہ فکر تک احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے کوشاں ہوگئے اور انگلستان کے گلی کوچوں سے شاہی ایوانوں تک رسائی حاصل کی اور نہایت احسن رنگ اور مؤ ثر پیرایہ میں پیغام حق پہنچانے کی توفیق پائی اور قیام انگلستان کے دوران کبھی آرام کاخیال تک نہ لاتے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں اس کا خادم ہوں جس نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے سوال ’’حضرت آپ کوپنکھا کروں‘‘ کے جواب میں فرمایا ’’مجھے آرام سے مطلب نہیں ایک دن آرام کا آتا ہے۔ خوب آرام ملے گا‘‘ اب کام کام اور اسلام کا پیغام اور ایک اللہ کانام ہر وقت ہر گھڑی ہر پل تن من دھن کے ساتھ پھیلانے کا وقت ہے۔ 1924ء میں ویمبلے انٹر نیشنل نمائش منعقد ہوئی اور اس موقع پر ایک عظیم مذہبی کانفرنس کا بھی انتظام کیا گیا۔ حضرت نیر صاحبؓ کو منتظمین کا نفرنس نے دین حق کے موضوع پر لیکچر کی دعوت دی۔ آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ حضور بنفس نفیس تشریف لا کر کانفرنس کوخطاب فر ما ئیں۔ حضور نے آ پ کی درخواست منظور فرمائی۔ اگست 1924ء میں حضور دمشق ، مصر، اٹلی، سو ئٹزر لینڈ اور فرانس سے ہوتے ہوئے انگلستان تشریف لائے۔ لندن کے وکٹوریہ سٹیشن پر حضرت نیر صاحب ؓ اور انگلستان کے بعض نامی گرامی شرفاء نے آپ کا استقبال کیا۔ وکٹوریہ سٹیشن سے حضور سینٹ پال چرچ کے سامنے لڈگیٹ برج پر تشریف لے گئے اور وہاں احمدیت کی ترقی کے لئے دعائیں کیں۔

قیام لندن کے دوران آپ کی مصروفیات ایک محور مشن ہاؤ س میں تشریف لانے والے متلاشی حق سے ملاقاتیں، تألیف قلب، مہمانوں کی مسیح موعودؑ کے لنگر سے ضیافت اورلنگر کا انتظام، نومبائعین کی تعلیم و تربیت کے لئے تعلیمی اورقرآن کلاسوں کا اجرا، ہائیڈپارک میں پبلک تقاریر، مشن ہاؤس میں اجلاسات، مختلف سوسائٹیوں کے پروگراموں میں شمولیت کے ذریعہ پیغام حق، اشاعت لٹریچر، وزراء اور ممبران پارلیمنٹ کو تبلیغ، انگلستان کے علاوہ نائیجیریا، گھانا، جرمنی، ہالینڈ، ناروے اور امریکہ سے نوواردین کو حقیقی اسلام سے آگاہی اور خط و کتابت کے ذریعہ اندرون اور بیرون ملک اشاعت اسلام کا کام تھا۔اشا عت لٹریچر کے سلسلہ میں آپ بازاروں، پارکوں، شاہراہوں، گلی کوچوں، ٹرین، بس میں یا بس کی چھت پرلٹریچر کا تھیلہ ہاتھ میں لئے لوگوں میں تقسیم کرتے نظر آتے۔ تقسیم لٹریچر کے یہ واقعات قیام لندن کے تمام عرصہ پر محیط ہیں تا ہم بطور نمونہ چند ایک واقعات درج ذیل ہیں۔

ایک دفعہ ایک بڑھیا عورت کو آپ نے Call of truth یعنی صداقت کی طرف دعوت کا ایک نسخہ پیش کیا۔ اس نے لینے سے انکار کر دیا اور بولی ’’میں کیتھولک ہوں اور میرا مذہب سچا ہے‘‘ اس پر نیر صاحب نے جواباً کہا کہ آپ کا مذہب کچا اور بودا ہے جسے سچائی کے حملہ کا فکر ہے بلآخر وہ پمفلٹ لئے بغیر چلی گئی۔ اس قسم کے انکار کے باوجود آپ نے کبھی ہمت نہ ہاری اور نہ ہی دلبر داشتہ ہوئے بلکہ خداتعالیٰ پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھا۔ یورپ کےاس کامیاب دورہ سے واپسی پر حضور نے لندن مشن کا انچارج حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب دردؓ اور ا ن کا نائب ملک غلام فرید صاحب ایم اے کو مقرر فرمایا اور مولانا عبد الرحیم نیر صاحبؓ فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد حضرت صاحب کے ارشاد پر حضور کے ساتھ ہی 24 نومبر 1924ء کو واپس قادیان تشریف لے آئے۔

(ایضاًص87، 145)

حضرت نیر صاحبؓ کے حالات زندگی کا مطالعہ کرنے سے یہ بات نمایاں طور پر اجاگر ہوتی ہے کہ آپ ہر جگہ اور ہر ملک میں عوام الناس سے پیار، محبت اور خلوص کے تعلقات رکھنے کے ساتھ ساتھ صاحب اقتدار طبقہ سے بھی اچھے مراسم اور تعلقات پیدا کر لیتے اور مناسب مواقع پرا نہیں پیغام حق نہایت احسن پیرایہ میں پہنچاتے۔

انگلستان سے واپسی پر خدمات

انگلستان اور مغربی افریقہ سے خدمات دینیہ بجالانے کے بعد واپسی پر پانچ سال تک بھوپال اور حیدرآباد کے علاقہ میں مربی رہے۔ حضرت مولوی عبد الرحیم صاحب نیرؓ کو نائب ناظردعوت و تبلیغ قادیان مقرر کیا گیا۔ آپ پہلی بار 1925ء کی مجلس شوریٰ میں بطور ’’نائب ناظر دعوت و تبلیغ قادیان‘‘ (مرکزی نمائندہ) شامل ہوئے اور آپ کو سب کمیٹی برائے دعوت و تبلیغ (جو 15ممبران پر مشتمل تھی) میں مرکزی نمائندہ کے طور پر شامل ہونے کی توفیق ملی۔ حضرت مولوی محمد الدین صاحب بی اے (مبلغ امریکہ )کی زیر ادارت دسمبر 1926ء میں اخبار ’’سن رائز‘‘ شائع ہوا اور حضرت مولوی عبد الرحیم نیر صاحبؓ اس کے نائب مدیر مقرر ہوئے۔ آپ کی مخلصانہ اور شاندار خدمات کے باعث حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو 1936ء میں دوبارہ پرائیویٹ سیکرٹری کے عہدہ پر مأمور فرمایا۔ آپ بحیثیت ’’سیکرٹری لوکل انجمن احمدیہ‘‘ (قادیان) کے عہدہ پر بھی فائز رہے اور خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت سے اپنی ذمہ داریوں کو باحسن طریق ادا فرمایا۔ اکتوبر اور نومبر 1938ء میں آپ نے یوپی، بہار، بنگال، اڑیسہ اور دکن کا ایک طویل تبلیغی و تربیتی دورہ فرمایا دوران دورہ برہمن بڑیہ کی صوبائی سالانہ احمدیہ کا نفرنس میں شمولیت فرمائی اور خطاب فرمایا۔ 46۔1947ء میں آپ کی تقرری بحیثیت مبلغ انچارج بمبئی ہوئی۔ آپ کے یہاں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ کے فضل سے مشن ہاؤس کی عمارت خریدی گئی ۔ محترمہ محمودہ نیر صاحبہ اہلیہ حضرت نیر صاحبؓ آپ کے قیام بمبئی کے بارے میں بیان کرتی ہیں کہ:
’’میں ان دنوں بمبئی میں آپ کے ساتھ تھی۔ ہم حضرت سیٹھ اسماعیل آدم صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ نیر صاحب اکثر صبح ناشتہ کئے بغیر ہی گھر سے روانہ ہوتے اور سارا دن اخبارات، اشتہارات دیکھنے کے علاوہ مختلف اصحاب اور وکلاء سے ملاقاتیں کرنے میں گذارتے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ آپ کام میں اس قدر منہمک ہوتے کہ ناشتہ اور پھر دوپہر کا کھانا تناول کرنا ہی بھول جاتے اور شام کو جب گھر تشریف لاتے توآپ نے صبح سے کچھ نہ کھایا ہوتا۔‘‘

تقسیم پاکستان سے چند ماہ قبل حضرت نیر صاحبؓ شدید علیل ہوگئے اور آپ اپنے داماد مولوی عبد الکریم صاحب کے ہمراہ واپس قادیان تشریف لے آئے۔

(نیر احمدیت صفحہ 50، 290، 289، 318، 326)

واقعہ

آپ کو انگلستان اور افریقہ میں لمبا عرصہ تبلیغ کا موقعہ ملا۔ آپ کے بعض ایمان افرو ز واقعات درج ذیل ہیں:
مسٹر جیمز سٹوئرٹ (ایک انگریز مصنف) نے ہائیڈپارک میں تقا ریر سے متعلق ایک کتاب بعنوان Hyde park orators and audience (ہائیڈ پارک کے مقرر ین اور سامعین) شائع کی۔ مصنف موصوف ہائیڈ پارک میں حضرت نیّر صاحبؓ اور دیگر مقررین کی تقاریر میں شامل ہوتے اور ان تقاریر کے نوٹس لیتے تھے۔ مصنف نے اپنی اس کتاب میں حضرت نیّر صاحب ؓکی تقاریر اور اس سوال وجواب کا خاص طور پر ذکر کیا۔ مسٹر سٹوئرٹ لکھتےہیں:
’’وہ سبز عمامہ پوش کون ہے؟ جو ایک اجنبی زبان میں دلکش کلام پڑھ رہا ہے۔ اور جسکے گرد لوگ اِدھر ادھر سے آکر جمع ہورہے ہیں۔ ہمارا یہ دوست ہندوستانی ہے۔ غیر ملکی زبان کا سریلاکلام ختم ہو چکا ہے۔ اب ہمارا مقرر فصیح انگریزی میں اپنا مذہب بیان کرنے لگا ہے۔‘‘

اس کے بعد مصنف نے حضرت نیّر صاحبؓ کی ایک تقریر کا خلاصہ اور سوال و جواب درج کئے۔

ایک اور واقعہ ملتاہے کہ افریقہ میں سفر کی مشکلات اور صعوبتیں آپ کے بلند ارادوں کو متزلزل نہ کر سکیں۔ ضعیف و ناتواں جسم ان پیش آمدہ ہزاروں مشکلات کے سامنے کوہ ثبات کاپیکر تھا۔ کیسی ہی مشکلات پیش آتیں آپ اپنے پروگراموں کو پا یہ ٔ تکمیل تک پہنچا کر دم لیتے۔ ذیل میں ایک تبلیغی دورہ کی کیفیت حضرت نیّر صاحبؓ کی تحریر سے پیش ہے۔ آپ فرماتےہیں:
’’ان دنوں مشن کی اپنی موٹر ہے کیونکہ روز 75روپیہ خرچ کرنا امکان سے باہر تھا۔ اس لئے 1000روپیہ پر ایک موٹر گوری رکھ لی ہے۔ 75 روپیہ ماہوار پر ڈرائیور، ساڑھے ستائیس روپے ماہوار پر میٹ رکھا ہے۔ ان کے علاوہ باورچی اور خادم 75روپے ماہوار پر رکھے ہیں۔ یہ تمام سٹاف موٹر میں میرے ساتھ دورہ پر جاررہا تھا کہ موٹر بگڑ گئی۔ اب یہ تمام سٹاف چھوڑنا پڑا اور تنہا مع ایک خادم کے کرایہ کی لاری پر عزم سفر کیا۔ راستہ میں دریا پڑتا تھا اور کشتیوں کے پل پر سے لاری جاتی تھی۔ پل کا رسہ ٹوٹ گیا تھا۔ ملاح انکاری تھے کہ وہ پل کو درست کریں۔ ان کووعظ کیا اور وہ نرم ہوئے اور گاؤں سے رسے لا کر پارا تا را، مگر لاری پھر کیچڑ میں پھنس گئی۔ جس طرح پنجاب میں زمیندار گڈوں کو کیچڑ سے نکالتے ہیں، اسی طرح لاری کو کھینچ کر نکالنے میں مجھے بھی حصہ لینا پڑا۔ ایک نالہ آیا۔ اس میں عین پانی کی دھار میں لاری کے پہیےاٹک گئے۔ یہ خطرناک موقع تھا کیونکہ ہر وقت زیادہ پانی آنے کا خطرہ تھا ۔ مسافروں کی ایک جماعت نے آکر اس مشکل کا حل کیا۔ ا ب ایسا راستہ آیا کہ پیدل چلنا پڑا۔ افریقہ کے تین میل ہمارے 5یا6میل ہوتےتھے۔ کھانے کا کوئی سامان نہ تھا۔ بھوک کی شدت تھی ۔ تھکان کے مارے جسم ٹوٹ رہا تھا۔ پسینہ زوروں کے ساتھ آرہا تھا۔ یہ منزل کٹھن ختم کی اور منزل مقصود پر پہنچ کر چائے مانگی اور ملازم سے کہا وہ چھوٹا بسکٹوں کا بکس ہے اس کو کھولو۔ بڑے شوق سے بکس کا ڈھکنا اٹھایا گیا اور انتظار تھا کہ اب عیسیٰ بسکٹ دے گا مگر اس بکس میں سے بجائے بسکٹ، بوٹ برش، ٹوتھ برش وغیرہ اشیاء نکلیں اور وہاں کوئی چیزنہ مل سکتی تھی۔ ان حالات میں میں نے یہ شعر پڑھا:

ہوتے ہیں بہت رنج مسافر کو سفر میں
آرام نہیں ہے کوئی دم آٹھ پہر میں

اور عزم کر کے تقریر کے لئے روانہ ہوا۔ جسم میں طاقت نہ تھی مگر ہمت و استقلال اور ایمان اگر ساتھ ہوتو اللہ طاقت دیتاہے۔ تقریر کے لئے کھڑا ہوا۔ ۔ ۔ یہ ہے ایک ورق اس باب مشکلات سے جو مبلغ کو پیش آتی ہیں۔ مگر ایمان ہمیشہ فضل ساتھ لاتا ہے اور میں نے ہر موقع پرا س فضل سے حصہ لیا ہے چنانچہ ان مشکلات کے ناقابل برداشت ہونے اور ایسے وقت میں جبکہ میں بالکل مضمحل ہوگیا تھا میں نے اپنے ہینڈبیگ کو کھولا۔ اس میں لیموں کا رس اور انگلستان سے آئے ہوئے کیک کا ٹکڑا اور بادام تھے جو اتفاقاً اس بیگ میں رہ گئے تھے۔ میری کیا حالت تھی۔ اور اس نعمت غیر متر قبہ کے ملنے پر کیا حالت ہوئی اس کا اندازہ ناظرین خود کریں میں تو الحمد اللہ کہتا ہوں۔

(واقفین زندگی کے ساتھ الہٰی تائیدات و نصرت کے ایمان افروز واقعات صفحات252 تا 254)

وفات

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا یہ درخشندہ ستارہ 17ستمبر 1948ء کو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے سایہ میں ہمیشہ کے لئے چھپ گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون

(ماخوذ از کتاب ’’نیّر احمدیت مصنفہ: نعمت اللہ بشارت صاحب‘‘)

(ندیم احمد بٹ۔ مربی سلسلہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 ستمبر 2020