• 5 مئی, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز

23 مئی 2015ء کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مع قافلہ اٹھارہ روزہ دورہ کے لئے جرمنی روانہ ہوئے جہاں حضور انور نےجلسہ سالانہ جرمنی میں شمولیت فرما کر اعزاز بخشا۔

آخری وفود

شام کے وقت، ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ بلغاریہ، بوسنیا، سربیا، مونٹینگرو اور کوسووو کے وفود نے حضور انور سے ملاقات فرمائی۔

ایک عینی شاہد کے طور پر جب میں نے ان لوگوں کے چہرے دیکھے جو مشرقی یورپ اور Baltic ممالک سے تشریف لائے تھے تو ایسا محسوس ہوا کہ ان میں سے اکثریت نے بہت مشکل حالات کے ساتھ زندگی گزاری ہے۔ اس بات کی تصدیق اس وقت ہوئی جب چند مہمانان نے بتایا کہ کس طرح وہ 1990ء کی دہائی میں سابقہ یوگوسلاویہ کی جنگوں سے گزرے ہیں۔ غالباً ایسے مشکل حالات کا سامنا کرنے کے باعث وہ حضور انور کی محبت اور شفقت کی خوب قدر کر رہے تھے۔

*بوسنیا سے ایک نوجوان خاتون تشریف فرما تھیں جنہوں نے حال ہی میں احمدیت قبول کی تھی۔ انہوں نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا اور بتایا کہ ان کے ذہن میں بہت سے سوالات تھے لیکن جب انہوں نے حضور انور کا خطبہ جمعہ فرمودہ 6 جون بمقام فرنکفرٹ سنا جو خلافت کی اطاعت کے متعلق تھا تو انہیں ایسا محسوس ہوا کہ ان کے جملہ سوالات کے جوابات آ گئے ہیں۔

اگلے روز حضور انور نے خاکسار کو مخاطب کرکے فرمایا کہ آپ کا خطبہ پرانے احمدیوں اور عہدیداران کے حوالہ سے تھا تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس نو مبائعہ نے اس کو کس قدر سنجیدگی اور توجہ سے سنا۔

میں ایک بزرگ بوسنیئن دوست کے رویے سے حیران رہ گیا جب ان کو حضور انور کےساتھ تصویر بنانے کی سعادت نصیب ہوئی تو انہوں نے اپنا سر حضور انور کے کندھے پر رکھ دیا بالکل ویسے ہی جیسے ایک بچہ اپنا سرآرام کی خاطر اپنے والد یا والد ہ کے کندھے پر رکھ دیتا ہے۔ اس بزرگ دوست کا حضرت خلیفۃ المسیح سے محبت کا یہ انداز عرصہ دراز تک میرے ذہن میں رہے گا۔

کوسووو کے وفد سے ایک نو مبائع احمدی نے حضور انور سے عرض کیا کہ ’’دو دن پہلے تک میں احمدیت قبول کرنے کے لئے تیار نہ تھا لیکن کل میرے اندر کچھ ایسا ہوا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مجھے لازماً بیعت کرنی چاہیئے۔ اب میں نے احمدیت قبول کر لی ہے‘‘

حضور انور نے فرمایا ’’ہاں، جب کوئی شخص بیعت کرتا ہے تو اس پر بہت ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور یہ ایسی بات ہے کہ ہر احمدی کو اسے سمجھنا چاہیئے‘‘

اس آخری ملاقات کے بعد میں نے سوچا کہ میں نے کبھی غور ہی نہیں کیاکہ حضور انور کے یہ جرمنی کے دورہ جات کس قدر اہم ہیں۔ کئی طرح سے جرمنی، مشرقی یورپ میں تبلیغ کے حوالہ سے نہایت مؤثر ثابت ہو رہا ہے۔ بہت سےممالک جہاں حضور انور کے لئے سر دست دورہ کرنا ممکن نہیں ہے، وہاں کے لوگ جرمنی آکر براہ راست خلافت کی برکت سے مستفیض ہوتے ہیں۔ میں نے (اس دورہ کے دوران) بہت کچھ سیکھا اور درحقیقت ایک موقع پر حضور انور نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا ’’عابد! یہ تمہارے لئے بھی ایک نیا تجربہ ہوگا۔‘‘ ہمیشہ کی طرح حضور انور نے بالکل درست فرمایا تھا۔

امیر صاحب جرمنی کے
خلافت خامسہ کے بارے میں تاثرات

اگرچہ اس دورہ کے دوران مجھے گاہے بگاہے امیر صاحب جرمنی کے ساتھ گفتگو کا موقع ملتا رہا، میں چاہتا تھا کہ ان کے ساتھ ایک مجلس ہو جس میں ان سے بطور امیر جماعت احمدیہ جرمنی گزشتہ تین دہائیوں کے تجربات پر تبادلہ خیال ہو سکے۔

اور یوں نماز کے بعد، اس آخری شام میں نے محترم امیر صاحب سے درخواست کی کہ اگر وہ چند منٹس نکال سکیں جسے انہوں نے از راہ شفقت قبول فرما لیا۔میں نے امیر صاحب سے پوچھا کہ خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں جو برکات انہوں نے ملاحظہ کی ہیں ان کے بارے میں بتائیں۔

انہوں نے بتایا کہ حقیقت میں خلافت کی برکات بے شمار ہیں لیکن خاص طور پر تین جہات ایسی ہیں جس میں انہوں نے حضور انور کی راہنمائی اور حوصلہ افزائی کی بدولت جماعتی غیر معمولی ترقی دیکھی ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے وصیت کا ذکر کیا اور بتایا کہ حضور انور کی رہنمائی میں جرمن جماعت کو موصیان کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کی توفیق ملی ہے۔

دوسرے انہوں نے اس بات کا ذکر کیا کہ کس طرح حضور انور نے جماعتوں کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے کہ وہ مساجد بنائیں اور حضور انور کی توجہ کی برکت سے اب ہر سال کئی مساجد کا افتتاح عمل میں آرہاہے یا سنگ بنیاد رکھا جا رہاہے۔

تیسری بات جو امیر صاحب نے بیان فرمائی وہ یہ تھی کہ جماعت کے پبلک ریلیشن میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور خلافت خامسہ میں غیر احمدی احباب سے روابط غیر معمولی طور پر بڑھے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خلافت احمدیہ کا تعارف اب جرمنی کے ہر کونے میں ہے۔

امیر صاحب نے فرمایا کہ یہ جملہ ترقی محض حضور انور کی راہنمائی اور توجہ کی برکت سے ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ
’’کبھی کبھار ہم سوچتے ہیں کہ کوئی چیز ناممکن ہے لیکن حضور انور ہمیں فرماتے ہیں کہ اسے کریں اور آپ ہمیں اس قدر اعتماد سے بھر دیتے ہیں کہ ہم آپ کی خواہش کو پورا کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔‘‘

جب ہماری میٹننگ آخری مراحل میں تھی تو امیر صاحب نے مجھے اپنی آفس کی کرسی دکھائی اور فرمایا۔
’’یہ کرسی بہت پرانی ہے لیکن یہ بہت بابرکت کرسی ہے کیونکہ یہ تین خلفاء کے زیر استعمال رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں اس کو اپنی آفس کی کرسی کے طور پر استعمال کرتا ہوں۔‘‘

Starbucks میں تشریف آوری

احمد بھائی نے حضور انور کے پاس جا کر بتایا کہ ابھی کچھ وقت باقی ہے اس لئے اگر حضور انور اور خالہ سبوحی پسند فرمائیں تو Starbucks کی کافی شاپ پر کچھ وقت گزار سکتے ہیں۔

دوبارہ یہ نہایت خوش کن وقت تھا کہ حضور انور اور خالہ سبوحی کو کچھ دیر بیٹھنے اور آرام کرنا کا موقع مل رہاتھا اور گرم Cappuccino اور Cheesecake نوش فرمانےکا موقع دیگر احباب کی طرح میسر آرہا تھا۔ حضور انور اور خالہ سبوحی نے اپنا سارا وقت جماعت کے لئے وقف کیا ہوا ہے اس لئے آپ کو ایسے فرصت کے لمحات کم ہی میسر آتے ہیں۔

میں قریب ہی کھڑا تھا اور حضور انور نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ جملہ قافلہ ممبران کو حضور انور کی طرف سے کافی پیش کی جائے۔ میں بہت خوش تھا کیونکہ مجھے Starbucks کی کافی بہت پسند ہے اور اکثر میں لندن میں پی لیتا ہوں یوں چند ہفتے کے بعد مجھے میری من پسند کافی حضور انور کی طرف سے بطور تحفہ مل رہی تھی جس کی اپنی خاص اہمیت تھی۔ میں نے حضور انور کا پیغام جملہ قافلہ ممبران کو پہنچایا اور وہ بھی کافی کے (حضور انور کی طرف سے بطور تحفہ) ملنے پر خوش تھے۔

مکرم عبد الماجد صاحب شاذ و نادر ہی کافی پیتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ کافی سے ان کا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے لیکن جب انہوں نے سنا کہ حضور انور نے جملہ قافلہ ممبران کو کافی پینے کی ہدایت فرمائی ہے تو انہوں نے بھی نہایت خوشی سے ایک کپ کا آڈر دے دیا، اس خیال سے کہ حضور انور کا دیا ہو اہر تحفہ محض برکات کا ہی متحمل ہو سکتا ہے۔

(حضور انور کا دورہ جرمنی مئی-جون 2015ء اردو ترجمہ از ڈائری مکرم عابد خان)

(مترجم: ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ