• 18 مئی, 2024

مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد مرحوم

ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد مرحوم

غالباً 1989ء یا 1990ء کی بات ہے ہمارے ابا جان ہمیں پہلی بار زیارت مرکز کے لیے ربوہ لے کر آئے۔ میری عمر اس وقت پانچ سال تھی۔ ربوہ دارالضیافت میں ٹھہرے یوں تو اب بھی ربوہ کے گلی کوچے اور در ودیوار خلفا حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی خوشبوئے مبارک سے مہک رہے ہیں مگر اس وقت تو ایک آمر کے مظالم کے نتیجہ میں ہونے والی بظاہر بے بسی کی ہجرت جو بعد کو الٰہی افضال کی کی بارش کا پیش خیمہ بنی صرف پانچ سال پرانی بات تھی۔ اور اس وقت تو اگر ذرا کان لگاؤ تو مسجد مبارک اور اس سے ملحقہ علاقہ میں اس یار طرحدار کے قدموں کی چاپ تک سنائی دیتی تھی۔

قصہ مختصر ہجر وفراق اور اینٹی احمدیہ آرڈیننس کی ظالمانہ مہم کی پرچھائیاں سارے ماحول کو متاثر کیے ہوئے تھیں جس کے نتیجہ میں دردناک دعائیں اور رقت انگیز نمازیں ایک عجیب روحانی ماحول کی غمازی کرتی تھیں اس سب پر مستزاد یہ کہ بیت الکرامہ کے مقیم ایک سفید باریش بزرگ کی جوش گریہ سے بھرپور مترنم آواز صبح شام مہمانان لنگر خانہ مسیح موعود ؑ کا لہو خوب گرماتی تھی:

باب رحمت خود بخود پھر تم پہ وا ہو جائے گا
جب تمہارا قادر مطلق خدا ہو جائےگا

قارئین سے معذرت کہ تمہید قدرے طویل ہو گئی لیکن سوچا اس دور کے ربوہ کے شب وروز کا تذکرہ بھی ہو جائے۔بہرحال اسی سفر کے دوران میں نے اپنے والد صاحب سے فرمائش کر ڈالی کہ مجھے خاندان حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے کسی فرد سے ملنا ہے۔میرے والد صاحب ابھی شش وپنج میں ہی تھے کہ ان کی یہ مشکل ان کے ایک دوست نے یہ کہہ کر آسان کر دی کہ ’’صاحبزادہ مرزا غلام احمد۔ ناظر اصلاح وارشاد مقامی سے ملوا دیں۔‘‘ چنانچہ ابا جان مجھے حضرت میاں صاحب مرحوم و مغفور سے ملوانے لے گئے۔ اور وہ میاں صاحب کی شخصیت وہ با رعب آنکھیں اور آپ کی مردانہ وجاہت آج تک میری آنکھیں خیرہ کیے ہوئے ہے۔ آپ کی شفقت ومحبت کا نرالہ انداز بھی ایک علمی رنگ لیے ہوئے تھا آپ نے بہت شفقت فرمائی اور سیرت اصحاب احمد میں سے ایک کتاب حضرت منشی ظفراحمدؓ عنایت فرمائی۔

پھر 1993ء میں ہم مستقلاً ربوہ منتقل ہو گئے اور وقتاً فوقتاً مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ میں اکثر دور دور سے اور کبھی قریب سے حضرت میاں صاحب کی زیارت نظروں کو اک عجیب تسکین دیا کرتی ۔ ہم نے بچپن سے آپ کو جماعت کے اہم ذمہ داروں میں سے ایک اور خلیفۂ وقت کے خاص ساتھی اور نمائندہ ہی سمجھا اور گو ذہن اور شعور اس حقیقت کو بخوبی سمجھتا ہے کہ الٰہی جماعتیں محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور سہارے قائم ہوا کرتی ہیں لیکن نادان دل نے میاں احمد کو ہمیشہ ایک بُرج اک منارہ ایک ستون اک سہارا سمجھا۔ہر چند کہ حضرت میاں خورشید احمد صاحب کی وفات پر بھی دل بہت دکھی ہوا اور آپ کے چہرہ کی آخری زیارت کے وقت بھی دل شدید احساس زیاں سے چُور تھا کہ ایک قیمتی خزانہ ہم نے کھودیا لیکن دل کو ایک گونہ تسلی ایک ڈھارس تھی کہ ’’میاں احمد ہیں ناں‘‘

لیکن حضرت میاں احمد کی اچانک ناگہانی وفات نے تو جماعت احمدیہ پاکستان کو بالعموم اور ربوہ کے باسیوں کو بالخصوص ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اور اب تک دل یہ ماننےکو تیار نہیں کہ میاں احمد بھی چلے گئے۔اب چند دن پہلے ہی تو قادیان میں ملے تھے اور میرے ایک سکھ دوست سے اس کے گاؤں بیاس کے متعلق سرراہ ہی باتیں چل نکلی تھیں۔آپ کی خدماتِ جلیلہ کا تذکرہ اور احاطہ مجھ نالائق کے ٹوٹے قلم سے کہاں ممکن ہے ہاں اس قدر اظہار کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ خاص وجود ایک خاص نام لے کر پروان چڑھا اور آپ کی خدمات کا اوجِ کمال 28 مئی 2010ء کے سانحۂ لاہور کے بعد کی خدمات ہیں جو تاریخِ احمدیت میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گئیں اور یوں لگا کہ یہ خاص وجود خدائے حکیم وخبیر نے اس خاص وقت کے لیے سنبھال رکھا تھا۔

آپ کی جرأت، آپ کی بہادری، آپ کی موقع شناسی، آپ کی ذہانت، آپ کی فصاحت و بلاغت الغرض کون کون سے جوہر نہیں تھے اس اسم با مسمیٰ غلام احمد کے جو اس موقع پر دنیا کے سامنے کُھل کر سامنے نہیں آئے تھے۔یوں لگا جیسے حضرتِ جری اللہ کا غلام اپنے امام اور خلیفہ کی اقتداء میں ایک جرنیل بن کر ننگی تلوار ہاتھ میں لیے تنِ تنہا میدانِ کارزار میں کود پڑا تھا۔یہ آپ ہی تھے جنہوں نے مردانہ وار دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراپنے امام کی نمائندگی میں ساری جماعت کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔ اپنی گفتگو میں ’’میں اور میری جماعت‘‘ کے الفاظ آپ کی زبان سےخوب جچے۔یوں لگا جیسے 1974ء کے بعد سے لے کر اب تک کی ایذا نصیبیوں کا خراج میاں احمد نے ادا کر دیا۔زندہ باد غلام ِ احمد جس کا دشمن پڑ گیا جھوٹا۔۔۔۔

لیکن آپ یاد بہت آئیں گے میاں صاحب آپ کی خوبصورت کشادہ آنکھیں جو غیرتِ دینی سے لبریز اور عشقِ الٰہی اور محبتِ رسول سے چھلک رہی ہوتی تھیں جن کے جلووں سے مخالفین کے پتے پانی ہو جایا کرتے تھے۔ آپ کے چہرہ کا آخری دیدار کرتے وقت وہ خوبصورت آنکھیں بند دیکھ کر یوں لگا جیسے دیدارِ حبیب کی لذت سے تسکین پا رہی ہوں اور یہی سکون اور قرار آپ کے چہرہ پر پھیل چُکا تھا۔

(محمد اکرام ناصر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ