• 4 مئی, 2024

اردو زبان کے رموز اوقاف

ہمارے بعض مضمون نویس جب مضمون کمپوز کرکے بھجواتے ہیں یا ہمارے کمپوزر حضرات و خواتین کمپوزنگ کرتے وقت بلاوجہ بعض علامات اور رموز لگا دیتے ہیں۔ جو غیر ضروری تو ہوتے ہی ہیں مضمون دکھنے میں آنکھوں کو بوجھل بوجھل سا لگنے لگتا ہے۔ خاکسار کی درخواست پر مکرم محمد انور شہزاد صاحب نے رموز و علامات کی کئی مسند کتب کے مطالعہ کے بعد یہ مضمون الفضل کے لئے کمپوزنگ کرنے والے دوست و خواتین کے لئے تیار کیا ہے جو ہدیہ قارئین ہے۔ امید ہے احباب و خواتین کمپوزنگ کرتے وقت ان علامات اور رموز کا درست اور بر موقع استعمال کریں گے۔ ایڈیٹر

رموز

رموز، رمز کی جمع ہے جس کا مطلب ہے علامت یا اشارہ۔

اوقاف

اوقاف، وقف کی جمع ہے جس کے معنی ٹھہرنے یا رکنے کے ہیں۔

رموزِ اوقاف کا استعمال

رموزِ اوقاف یا علامات وقف ان اشاروں یا علامتوں کو کہتے ہیں جو کسی عبارت کے ایک جملے، یا جملے کے ایک حصے کو اس کے باقی حصوں سے علیحدہ کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ اردو، انگریزی یا دوسری زبانوں کے قواعد میں ان اوقاف اور علامات کو بہت اہمیت حاصل ہے، اگر ان کاخیال نہ رکھا جائے تو مفہوم کچھ کا کچھ بلکہ بعض اوقات تو اس کے بالکل الٹ ہو جاتاہے۔الفاظ کو صحت املا کے ساتھ لکھنے کے بعد جملے یاعبارت کو صحیح طور پر لکھنے کی منزل آتی ہے۔ عبارت کے صحیح لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ اسے صحیح طور پر پڑھا جاسکے۔ اس کے لئے چند علامتیں مقرر ہیں۔ انہیں اصطلاحی زبان میں رموزِ اوقاف (Punctuation) کہا جاتاہے۔ ان اوقاف کی مدد سے عبارت کامطلب سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اردو زبان میں اوقاف کی مستعمل اور مروج علامتیں یہ ہیں:

نمبر شماراردو نامعلامتانگریزی نام
1.ختمہ
(پورا ٹھہراؤ)
۔Full stop
2.سکتہ
(چھوٹا ٹھہراؤ)
،Comma
3.وقفہ (ٹھہراؤ)؛Semi colon
4.رابطہ:Colon
5.تفصیلیہColon dash
6.خط——Dash
7.سوالیہ؟ Interrogation Point
8.فحائیہ اور ندائیہ!Exclamation
9.قوسین( )Bracket
10.واوین‘‘ ’’Inverted comma

رموزِاوقاف کا محل استعمال
(1)ختمہ۔(FULL STOP)

یہ نشان درج ذیل جگہوں پر استعمال ہو گا:

(الف) جملے کے خاتمے پر جیسے؛

  1. ہمارے گھر کے سامنے ایک پارک ہے۔
  2. یہ پارک بہت خوبصورت ہے۔
  3. ایک مالی اس کی دیکھ بھال کے لئے مقرر ہے۔

(ب) مخففات کے بعد جیسے؛

  1. ایم۔ اے۔ پی ایچ۔ڈی
  2. بی اے۔بی ایڈ
  3. ایم۔بی۔ بی۔ایس
  4. م۔ن۔راشد

(2)سکتہ، (COMMA)

اس علامت کا انگریزی نام ’’کاما‘‘ زیادہ مشہور ہے ’’کاما‘‘ کا استعمال بہت ضروری ہے۔ اس سے بڑا فائدہ یہ ہوتاہے کہ عبارت کے ٹکرے ایک دوسرے سے اس طرح مل نہیں پاتے کہ مطلب خبط ہو جائے۔جب بھی ایسے لفظ یک جا ہو جائیں جن کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ضروری ہو تو وہاں ’’کاما‘‘ کو ضرور استعمال کرنا چاہیے مثلاً؛ ٹھہرو مت جاؤ: اس فقرے کا مطلب واضح نہیں ہے کہ رکنا ہے یا جانا ہے، لیکن اگر کامے کا استعمال کیا جائے تو مطلب واضح ہو جاتاہےجیسے؛

  1. ٹھہرو، مت جاؤ: اس کا مطلب ہے رکنا ہے جانا نہیں ہے۔
  2. ٹھہرومت، جاؤ: اس کا مطلب ہے کہ رکنا نہیں ہے بلکہ جانا ہے۔

یہ علامت خاص طور پر ایسے موقعوں پر استعمال میں آتی ہے:
(الف) جب کسی جملے یا فقرے میں اعداد اور اسما وصفات کا ذکر اس طرح کیا جائے کہ آخری دو عدد یا اسموں کے درمیان ’’اور‘‘ یا ’’یا‘‘ کا لفظ لانا پڑے تو اس سے قبل کے ہر عدد اور اسم کے بعد، بطور عطف سکتہ کا نشان لگایا جائے گا جیسے؛

  1. حامد، محمود، راشد، ماجداور امجد پانچوں بہت ذہین ہیں۔
  2. بازار جاکر ایک قلم، دو سرخ پنسلیں، ایک ربڑ، دو پیڈ یا کاپیاں لائیے۔
  3. مولانا محمد علی جوہر سچے مسلمان، مخلص سیاستدان۔شعلہ بیان مقرر، نامور صحافی اور ممتاز شاعر تھے۔
  4. مولانا حسرت موہانی نے شاعری کو عارفانہ، نافعانہ، فاسقانہ، عاشقانہ اور متصوفانہ وغیرہ کےخانوں میں تقسیم کیاہے۔
  5. اس سلسلے میں ادبی، تاریخی، معاشی، نفسیاتی، سیاسی، اور ثقافتی پہلو بھی زیرِبحث آئیں گے۔
  6. 7,6,5,4,3,2 اور 9 نمبر کے کمرے خالی ہیں۔

(ب) ایک ہی قسم کے مرکبات اور لمبے جملہ کے اجزا کے بعد جیسے؛

  1. میرا، آپ کا، شاہد کا، رشید کا، اور وحید کا نام کامیاب امیدواروں کی فہرست میں شامل ہے۔
  2. آپ کا قلم، میری گھڑی، اسلم کا ریڈیو اور قدیر کا ٹی وی، چاروں جاپانی ہیں۔
  3. حامد کب آیا، کب گیا، کیاکہا، کیاسنا، کس کس سے ملاقات کی مجھے کچھ نہیں معلوم۔

(ج)ایک ہی طرح کے جملوں کے بعد بطور حرف عطف جیسے؛

  1. میں نے اس کو بلایا، اونچ نیچ سمجھایا، برابھلاکہا، خوف دلایا، لیکن کسی بات کا کچھ اثر نہ ہوا۔
  2. آؤ بیٹھ کر، کچھ میری سنو، کچھ اپنی سناؤ۔

(س) ایسے جملوں کے بعد جن میں تکرار سے بچنے کے لئے فعل کو محذوف کر دیا گیا ہو جیسے؛

  1. امتحان میں حامد نے پہلی، محمود نے دوسری، راشد نے تیسری اور ماجد نے چوتھی پوزیشن حاصل کی۔
  2. حامد کو تمغا، محمود کو گھڑی، راشد کو قلم اور ماجد کو ایک کتاب انعام میں ملی۔

(ف) جب کسی اسم کی تعریف یا وضاحت میں کوئی بات کہی جائے تو اسم اور وضاحتی فقرے کے بعد سکتہ آئے گا جیسے؛

  1. اسلم، محمود کا بڑا بھائی، امریکہ سے واپس آگیا ہے۔
  2. میری کتاب، غالب شاعر امروزوفردا، 1969ء میں چھپی تھی۔
  3. داستانِ تاریخ اردو، مولانا حامد حسین کی مشہور تصنیف ہے۔

(ک) اشعار میں ایسے مقامات پر ’’کاما‘‘ ضرور لگانا چاہیے جہاں ٹکڑوں کو الگ الگ کر دینے سے، مفہوم واضح ہو سکتا ہو جیسے؛

1. خدائے من، خدائے من، دوائے من، شفائے من
قبائے من، ردائے من، رجائے من، ضِیائے من

2. میں بندہ ہوں ترا غریب، تو ہے مرا خدا عجیب
میں دور ہوں تو ہے قریب، میں مانگتا ہوں اے مجیب

3. فنون دے، علوم دے، فتوح دے، رقوم دے
جو نسل بالعموم دے، وہ مہر ومہ، نجوم دے

4. نوا، صدا، دعا، بکا، حیا، وفا، غنا، سخا
عطا، جزا، ہدی، تقیٰ، فنا، بقا، لِقا، رضا

(ل)کسی فعل کے بعد ’’کر‘‘ یا ’’کے‘‘ محذوف ہونے کی صورت میں جیسے؛

  1. وہ کتاب بغل میں دبا، نہ جانے کدھر نکل گیا۔
  2. وہ بھی عجیب آدمی ہے، صبح اٹھ، یہ جا، وہ جا، ذرا دیر میں غائب۔

(م) شرط و جزا کے درمیان بشرطیکہ حرف محذوف ہو جیسے؛

  1. جو تمہاری طرح، تم سے کوئی جھوٹےوعدے کرتا۔تم ہی، انصاف سے کہو، تمہیں اعتبار ہوتا۔
  2. جو تمہاری باتوں میں آیا، وہ کام سے گیا۔
  3. اگر تم پر کوئی مشکل آئی، میں ساتھ دوں گا۔

(ن) جملہ موصولہ میں صلہ و موصول کے اجزاکے درمیان جیسے؛

  1. یہ بات، جس نے بھی آپ سے کہی، غلط کہی۔
  2. چپ بھی رہو، جو بھی سنے گا، کیا کہے گا۔
  3. جس جس سے ملاقات ہوئی، سب نے آپ کا ذکر کیا۔

(و) حرف استثناء، حرف استددراک، حرف توجیہ سے پہلے جیسے؛

  1. وہ ذہین و محنتی سہی، لیکن قابل اعتماد نہیں۔
  2. جلسے میں سبھی پہنچ گئے، مگر آپ کو پہنچنا تھا نہ پہنچے۔
  3. اسے اپنے پاکستان میں ہی اعلیٰ درجے کی ملازمت مل گئی، پھر باہر کیوں جاتا۔
  4. خوب محنت کرو، تاکہ امتحان میں اچھے نمبر حاصل کر سکو۔

(ہ) جب دو یا زیادہ ایک ہی قسم کے ’’کامے‘‘ ایک ساتھ آئیں ایسی صورت میں عام طور پر یہ ہوتاہے کہ پہلے لفظوں کے بیچ ’’کاما‘‘ آتا ہے اور آخری لفظ سے پہلے ’’اور‘‘ یا ’’با‘‘ آتاہے جیسے؛

  1. یہ کتاب مفید، نصیحت آموز اور آسان ہے۔
  2. ملتان، لاہور، کراچی، اور پشاور میں بھی میں نے اسے تلاش کیا۔
  3. وہ بہت سمجھدار، ذہین، اور بااخلاق ہے۔

(3)وقفہ؛ (SEMI COLON)

جب زیادہ ٹھہراؤ کا محل ہو، تو ’’وقفہ‘‘ استعمال کرنا چاہیے۔ ’’وقفہ‘‘ کا استعمال حسب ذیل مقامات پر ہوگا:

(الف) جملوں کے لمبے لمبے اجزا کو ایک دوسرے سے علیٰحدہ کرنے کے لئےسکتوں کے ساتھ ساتھ وقفوں کا استعمال ہونا ضروری ہے کہ خلط مبحث نہ ہو جائے جیسے؛

I. حق یہ ہے کہ اس زمانے میں، جبکہ قومی تپش نما کا پارا ہر گھڑی گھٹتا بڑھتا رہتاہے؛ جبکہ باوجود تعلیمی کاموں کی کثرت کے، قومی تعلیم کا کوئی صحیح خاکہ ہمارے سامنے نہیں ہے؛ جب کہ سیاسی تارو پود سارے ملک میں پھیلا ہوا ہے مگر کوئی طریقہ قومی فلاح کا ایسا نہیں ہے، جس پر تمام جماعتیں متفق ہو سکیں؛ جب کہ مصلحت اور اصول، چال اور صداقت، تلون اور استقامت میں اکثر مغالطہ ہو جاتاہے؛ جبکہ باوجود سادگی کے، ادعائے عیش پرستی کے بہت سے چور دروازے کھلے ہیں؛ جبکہ باوجود ایثار اور قربانی کے دعوؤں کے حقیقی ایثار نفس اور ضبط نفس بہت کم نظر آتاہے۔

(ب) جہاں جملوں کے مختلف اجزا پر زیادہ تاکید دینا مدنظر ہوتاہے وہاں بھی وقفہ کا نشان استعمال ہوتاہے مثلاً؛

  1. جو کرے گا، سو پائے گا؛ جو بوئے گا، سو کاٹے گا
  2. آنا، تو خفا آنا؛ جانا تو رلا جانا
  3. تم روئے اور ہمارا دل بے چین ہوا؛ تمہاری انگلی دکھی تو ہمارے دل پر چوٹ لگی؛ مصیبتیں ہم نے بھریں؛ تکلیفیں ہم نے اٹھائیں؛ راتوں کو اٹھ اٹھ کر ہم ٹہلے؛ کندھے لگایا، چمکارا، لوریاں سنائیں؛ غرض کہ جان، مال، آرام سب کچھ تمہارے لئے تج دیا؛ کیا اس کا یہی صلہ ہے؟

(ج) جن جملوں کے بڑے بڑے اجزاکے درمیان، ورنہ، اس لئے، لہٰذا، اگرچہ، چہ جائیکہ، درآں حالیکہ، لیکن اور اس قسم کے رابطے دینے والے دوسرے الفاظ آئیں، وہاں ذہن کو سمجھنے کا موقع دینے کے لئے ان لفظوں سے پہلے وقفے کی علامت لگاتے ہیں۔ واضح رہے کہ جب مذکورہ بالا الفاظ چھوٹے چھوٹے جملوں کو ملاتے ہوں تو یہ علامت نہ لگائی جائے گی بلکہ سکتہ ہی کافی ہو گا جیسے؛

  1. اگر چہ آج کل نقادان فن اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کسی خاص غرض کو پیش نظر رکھ، یا کسی خیال یا ررائے کی اشاعت کے لئے کوئی ڈراما لکھا جائے؛ لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں زندگی کا ہر پہلو قابل اصلاح ہے، اور معاشرے کے ہر شعبے میں تذبذب اور انتشار بپا ہے، فن کی بعض نازک اور خیالی خوبیوں کو قربان کر سکتے ہیں؛ بشرطیکہ وہ سلیقے سے لکھا جائے۔
  2. چونکہ نکاح سے قبل ہی نسبت توڑ دی گئی، اور لڑکی چچا سے علیٰحدہ کر لی گئی؛ اس لئے ایسی شادی سے جو مذموم اور دردناک نتائج پیدا ہوتے ہیں ان کا موقع ہی نہیں آیا۔

(د) کسی عبارت یا پیراگراف کے آخر میں لفظ ’’مثلاً‘‘ اور ’’جیسے‘‘ کے بعد بھی وقفے کا نشان آئے گا:

(4)رابطہ: (COLON)

حسب ذیل مقامات پر استعمال ہوگا:

(الف) جب جملے کے کسی سابقہ خیال یا بات کی تشریح یا تصدیق کی جائے جیسے؛

1. سفر ہو یا حضر، دن ہو یا رات، کام ہو یا تفریح، ہمیشہ اور ہر جگہ اپنی صحت کا خیال رکھو:اگر کوئی نعمت ہے تو یہی ہے۔

2. کیا خوب سودانقد ہے:
اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔

3. یہ خاموشی کہاں تک؟ لذت فریاد پیدا کر
زمین پر تو ہو، اور تیری صدا ہو آسمان پر:

4. کاو کاو سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا: لانا ہے جوئے شیرکا

5. انسان کو بعض کاموں کی قدرت ہے بعض کی نہیں: وہ چل سکتاہے دوڑ سکتاہے؛ مگر اڑ نہیں سکتا۔

(ب) جب کسی مختصر مقولے یا کہاوت وغیرہ کو بیان کرنا ہو تو تمہیدی جملے اور اصل جملے کے بیچ میں نیم وقفہ یا رابطہ لاتے ہیں جیسے؛

  1. کسی حکیم کا قول ہے: آپ کاج مہاکاج
  2. بقول شاعر: تیری روزی شہر وچ تے ساڈے دانے پنڈ
  3. سچ ہے: گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں

(ج) ایسے دوجملوں کے بیچ میں بھی رابطہ لاتے ہیں جو آپس میں متقابل یا ایک دوسرے کی ضد ہوں اور دونوں مل کر پورے خیال کو ظاہر کریں جیسے؛

  1. من چلتا ہے: ٹٹو نہیں چلتا

(د) جب دو جملوں میں سے ایک، دوسرے کی توجیہ کرے مگر کوئی حرف توجیہ ان کے بیچ میں نہ ہو تو ان کے درمیان میں رابطہ لاتے ہیں جیسے؛

  1. بچوں کو تنہائی میں نصیحت کرنا چاہیے: سب کے سامنے نصیحت کرنے کا اثر الٹا ہوتاہے۔

(5)تفصیلیہ :۔(COLON DASH)

مندرجہ ذیل مقامات پر استعمال ہوگا:

(الف) کسی طویل اقتباس یا فہرست کے اظہار کے لئے جیسے؛

  1. اسم معرفہ کی قسمیں ہیں:۔ اسم علم۔ اسم خطاب۔اسم لقب۔اسم کنیت۔اسم عرف۔
  2. اردو میں خاص عربی حروف یہ ہیں:۔ ث، ح، ذ، ص، ض، ط، ظ، ع، ق۔

(ب) کسی اصول یا قاعدے کو پیش کرتے وقت جبکہ ایسے موقع پر ’’مثلاً‘‘ یا ’’جیسے‘‘ کا لفظ محذوف یا مقدر ہو مثلاً؛

  1. اسم وہ کلمہ ہے جو نام، کسی شخص، جگہ، یا چیزکا:۔حامد، محمود، کتاب، قلم، باغ، کراچی۔

(ج) ایسے جملے کے بعد جس کے آگے کسی واقعہ کی تفصیل بیان کی جائے جیسے؛

  1. پانی کے فوائدکیا کیا بیان کئے جائیں:۔ اس سے کھانا پکاتے ہیں، غسل کرتے ہیں، کپڑے دھوتے ہیں، کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں، جانوروں کو پلاتے ہیں، ہم خود پیتے ہیں، پانی کے بغیر نہ کوئی پودالگ سکتا ہے، نہ کوئی جاندار زندہ رہ سکتاہے۔
  2. بابائے اردو مولوی عبدالحق کی زندگی کا حال سنو:۔صبح سویرے اٹھے، ضروریات سے فارغ ہوئے، ڈاک دیکھی اگر موسم خوشگوار ہے تو چھڑی لے کر ٹہلنے چلے گئے، ورنہ گھر ہی میں رہے اور لکھنے پڑھنے بیٹھ گئے۔

(د) کسی عبارت، واقعہ یا مضمون کی تلخص کرتے وقت جبکہ جملے کے آخر میں ’’غرضیکہ‘‘ یا ’’مختصر یہ ہے‘‘ یا ’’حاصل کلام یہ ہے‘‘ کہ الفاظ آئے ہوں جیسے؛

  1. صبح کے منظر کی کیفیت مختصراً یہ تھی:۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، پھول اور پودے جھوم رہے تھے، گویا ایک دوسرے کا منہ چوم رہے تھے، چڑیاں مہک رہی تھیں، کلیاں مہک رہی تھیں، سورج گلابی رنگ بستر پر انگڑائیاں لے رہا تھا، ستارے ڈر کے مارے کہیں چھپ گئے تھے۔چشموں کی روانی کیا تھی ایک طرح کی نغمہ خوانی تھی، ایسی نغمہ خوانی جو روح کو سکون بخشتی ہے۔
  2. ’’قائد اعظم کی شخصیت اور کارنامے‘‘ کے عنوان سے ایک مصنف کا طویل مضمون آپ کی نظر سے بھی گزرا ہوگا۔ حاصل کلام ٖیہ ہے:۔ بہت کم شخصیات تاریخ کے دھارے کوقابل ذکر انداز سے موڑتی ہیں۔اس سے بھی کم وہ افراد ہیں جو دنیا کا نقشہ بدلتی ہیں اور ایسا تو شاید ہی کوئی ہو جسے ایک قومی ریاست تخلیق کرنے کا اعزاز حاصل ہو۔جناح نے یہ تینوں کام کر کے دکھائے۔

(6)خط —(DASH)

کے استعمال کے مواقع یہ ہیں:

(الف) کہتے کہتے جب بات کے رخ کو اچانک بدل دیا جائے جیسے؛

1. میں سوچتا ہوں کہ اب کے اس سے عید ملنے جاؤں—لیکن میں کیوں جاؤں، وہ مجھ سے عمر میں چھوٹا ہے، رشتے میں چھوٹا ہے، اسے چاہیے کہ وہ مجھ سے ملنے آئے۔

(ب) کسی بات کی مزید وضاحت کے لئے جیسے؛

2. راستے میں اس کا سارا سامان لٹ گیا—ریڈیو، گھڑی، زیور، نقدی، کپڑے، بستر، کچھ بھی تو باقی نہ رہا۔

(7)سوالیہ؟(INTERROGATION)

سوالیہ نشان کے استعمال کے مواقع یہ ہیں:

(الف) ’’سوالیہ نشان‘‘ سوالیہ جملوں کے بعد آئے گا جیسے؛

  1. آپ صبح کس وقت اٹھتے ہیں؟
  2. لاہور میں کس کس سے ملے اور کیا کیا دیکھا؟
  3. کیا حامد کے ساتھ محمود بھی جارہاہے؟
  4. آخر دونوں جاکیوں رہے ہیں؟

(8)فجائیہ و ندائیہ!
(EXCLAMATION)

فجائیہ و ندائیہ کے استعمال کے مواقع یہ ہیں:

ایسے کلمات و فقرات کے بعد جو غصہ، خوف، نفرت، افسوس، حیرت، تحسین اور خوشی وغیرہ کے اظہار کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔منادی کے بعد بھی آتاہے بشرطیکہ اس سے قبل حرف ندا بھی آیا ہو جیسے؛

1. پیدا کہاں ہیں ایسے پراکندہ طبع لوگ
افسوس!تم کو میرؔسے صحبت نہیں رہی

2. اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ!
اس قدر دشمن اربابِ وفا ہو جانا!

3. یارب! زمانہ مجھ کو مٹاتاہے کس لئے
لوحِ جہان پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں

4. شدت غم میں کچھ کمی کر دے
اب تو اے غمگسار! آدھی رات

5. صبح ہونے کو ہے مضطرؔ ! آئیے
مطلعِ انوار کی باتیں کریں

6. یہ گھڑی پھر نہ ہاتھ آئے گی
باخبر، ہوشیار! آدھی رات

7. باایں ہمہ دلداری، باایں ہمہ ستاری
مضطرؔ! وہ کہیں تم سے ہو جائیں نہ رنجیدہ

8. موت کے بعد تو لوگو! چین سے سونے دو
خاک میں جا لیٹے ہیں، آنکھیں سی لی ہیں

9. مضطر ؔ جی ! اک کام کرو نا
صبح کو رو رو شام کرو نا

10. میرا نام چرانے والو!
واپس میرا نام کرو نا

11. عیب تراشو! غیب شناسو!
تم بھی کبھی آرام کرو نا

12. جی اٹھوں مضطرؔ! ہمیشہ کے لئے
مسکرا کر آج مر جاؤں اگر!

(9)قوسین’’()‘‘(BRACKET)

مندرجہ ذیل جگہوں میں قوسین کا نشان استعمال ہوگا:

(الف) کسی لفظ کے معنی، تذکیر و تانیث، واحد، جمع یا تلفظ کی وضاحت کے لئے جیسے؛

  1. شعر کے لئے میٹر (وزن) اور ردم (آہنگ) دونوں ضروری ہیں۔
  2. معلم (میم مضموم ماقبل آخر مکسور) عربی مصدر، تعلیم کا اسم فاعل ہے۔
  3. جنس (تذکیر وتانیث) کی دو قسمیں ہیں ایک مصنوعی (غیر حقیقی) دوسری حقیقی۔
  4. ’’آب‘‘ (پانی کے معنوں میں) مذکر ہے۔

(ب) جملہ معترضہ کے آغاز خاتمے پر جیسے؛

  1. ہمارے سیاسی رہنما (آپ ان میں سے ایک دو کو چھوڑ دیجئے) باتیں بنانے کے سوا اور کچھ نہیں کرتے۔
  2. غالب کی شاعری کے متعلق میری رائے (اول تو میری رائے کیا اور رائے کی اہمیت کیا) بہر حال یہ ہے کہ اس کی شاعری بنیادی طور پر جذبے کی نہیں فکر و نظر کی شاعری ہے۔

(10)واوین ’’ ‘‘
(INVERTED COMMAS)

مندرجہ ذیل جگہوں میں استعمال ہوگا:

کسی حوالہ، کسی قول، یا کسی اقتباس کے نقل کرنے پر اس کے آغاز و اختتام پر واوین کا نشان استعمال ہوتاہے جیسے؛

  1. سقراط کہتا ہے:۔ ’’میں ہمیشہ سے ہی اس قسم کا انسان ہوں کہ میں کسی بات سے قائل نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ گہرے غور وفکر کے بعد کوئی نظریہ بہترین نظر آئے۔‘‘
  2. افلاطون کہتاہے:۔ ’’چونکہ انسانی فطرت میں آسمانی ہدایت کی کسی قدر چنگاری موجود ہے اس لئے اگر انسان چاہے تو عقل کے ذریعہ مناسب جستجو کے بعد عالم غیب کے حقائق کا مشاہدہ کر سکتا ہے۔‘‘
  3. نیوٹن کے متعلق آر۔ ایس۔ ویسٹ فال لکھتا ہے:۔ ’’وہ حضرت عیسیٰؑ کو بندہ اور خدا کے درمیان ایک الٰہی وسیلہ سمجھتا تھا جو خود اپنے پیدا کرنے والے آسمانی باپ کے ماتحت تھا۔‘‘

بعض دیگر علامات

نمبر شمارعلامتاستعمال
1ایضاً’’ایضاً‘‘ جیسا کہ داغ دہلوی کے اس شعر سے ظاہر ہے:
جو تم کو ہم سے نفرت ہے تو ہم کو تم سے ایضاً ہے
جو تم نظریں بدلتے ہو تو ہم بھی دل بدلتے ہیں
’’ایضاً‘‘ کے لغوی معنی ہیں ’’نیز‘‘ یا ’’وہی‘‘ لیکن اردو میں ان معنوں کے علاوہ ’’دہرانا‘‘ اور ’’منظور کرنا‘‘ کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔
2الخالیٰ الآخرہٖ (اس کے آخر تک) کا مخفف ہے پوری عبادت نقل کرنے کے بجائے جب ابتدائی کلمات یا ٹکڑے لکھ کر اس کے آگے الخ بنا دیتے ہیں تو مفہوم یہ ہوتا ہے کہ جس عبارت کا حوالہ دیا گیا ہے اسے آخر تک دیکھا یا سمجھا جائے مثلاً؛ نقش فریادی ہے۔۔۔الخ اس کا مطلب یہ ہے کہ غالب کے ا س شعر کو پورا دیکھا جائے۔
3ج۔س۔م۔ف’’جواب سے مطلع فرمائیے‘‘ کا مخفف ہے۔ صاحب کیفیہ نے اس کے لئے ’’جواب عنایت ہو‘‘ کا مخفف ’’جع‘‘ تجویز کیا تھا لیکن مقبول نہ ہوا۔ج۔س۔م۔ف کا رواج ہو گیا ہے اور اب یہی لکھنا چاہیئے۔
4رح’’رحمة اللہ علیہ‘‘ کا مخفف ہے۔ بزرگانِ دین و ملت کے ناموں کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔
5ؓ’’رضی اللہ عنہ‘‘ یا ’’رضی اللہ عنہا‘‘ کا مخفف ہے۔ صحابہ کرام اور ازواج مطہرات کے ناموں کے آگے لکھا جاتا ہے۔
6سعلمی وادبی کتابوں میں ’’سطر‘‘ کے لئے بطور مخفف لکھتے ہیں۔
7سنہتقویمی سال کا نشان ہے۔
8سنہ ءسن عیسوی مراد ہے۔
9سنہ ھسن ہجری مراد ہے۔
10سنہ فسن فصلی مراد ہے۔
11سنہ شسن شمسی مراد ہے۔
12صصفحہ کی نمائندگی کرتا ہے۔
13ص یا صلعم’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کی علامت ہے۔
14عمصرع کی علامت ہے جب کسی عبارت میں کوئی مصرعہ درج کرنا ہوتو مصرع سے پہلے ع لکھ دیتے ہیں۔
15علیہ’’علیہ السلام‘‘ کا مخفف ہے۔
16کرمکرم اللہ وجہہ کا نشان ہے۔
17کذاکذا لک (معنی ہیں اس طرح) کا مخفف ہے جب نثریا نظم کے کسی لفظ یا ٹکڑے پر ’’کذا‘‘ لکھا ہو تو سمجھنا چاہیئے کہ وہ اصل کے عین مطابق ہے یعنی جس طرح اصل نسخے میں موجود ہے بالکل اسی طرح منقول ہے۔
18؀نمبر کا نشان ہے۔
19؂یہ نشان اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ اس کے بعد کوئی شعر نظم یا نظم کا کوئی ٹکڑا درج کیا جائے گا۔
20واورق الیٹے کا نشان ہے۔
21معمزید عبارت کی علامت ہے جو مضمون یا خط کے آخر میں بطور اضافہ لکھی جاتی ہے۔

(محمد انور شہزاد)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ