• 29 اپریل, 2024

تعدد ازواج اور بیویوں میں اعتدال

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’پہلی بیوی کی رعایت اور دلداری یہاں تک کرنی چاہئے کہ اگر کوئی ضرورت مرد کو ازدواج ثانی کی محسوس ہو۔ لیکن وہ دیکھتا ہے کہ دوسری بیوی کے کرنے سے اس کی پہلی بیوی کو سخت صدمہ ہوتا ہے اور حد درجہ کی اس کی دل شکنی ہوتی ہے تو اگر وہ صبر کر سکے اور کسی معصیت میں مبتلا نہ ہوتا ہو۔ یعنی کسی گناہ میں مبتلا نہ ہواور نہ کسی شرعی ضرورت کا اس سے خون ہوتا ہو تو ایسی صورت میں اگر ان اپنی ضرورتوں کی قربانی سابقہ بیوی کی دلداری کے لئے کر دے اور ایک ہی بیوی پر اکتفا کر ے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اسے مناسب ہے کہ دوسری شادی نہ کرے۔‘‘

نیز فرمایا:
’’یہ شادیاں صرف شادیوں کے شوق میں نہ کرو۔ بعض مردوں کو شوق ہوتا ہے ان لوگوں کو بھی جواب دے دیا جو کہتے ہیں کہ اسلام ہمیں چارشادیوں کی اجازت د یتا ہے۔ فرمایا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ جو تمہاری پہلی بیوی ہے اس کے جذبات کی خاطر اگر صبر کر سکتے ہو تو کرو۔ ہاں اگرکوئی شرعی ضرورت ہے تو پھر بے شک کرو۔ ایسے حالات میں عموماً پہلی بیویاں بھی اجازت دے دیا کرتی ہیں۔ تو بہرحال خلاصہ یہ کہ پہلی بیوی کے جذبات کی خاطر مرد کو قربانی دینی چاہئے اور سوائے اشد مجبوری کے شوقیہ شادیاں نہیں کرنی چاہئیں۔‘‘

مزید فرمایا:
’’ہمیں جو کچھ خداتعالیٰ سے معلوم ہوا ہے وہ بلاکسی رعایت کے بیان کرتے ہیں۔ قرآن شریف کا منشاء زیادہ بیویوں کی اجازت سے یہ ہے کہ تم کو اپنے نفوس کوتقویٰ پر قائم رکھنے اور دوسرے اغراض مثلاً اولاد صالحہ کے حاصل کرنے اور خویش و اقارب کی نگہداشت اور ان کے حقوق کی بجا آوری سے ثواب حاصل ہواور اپنی اغراض کے لحا ظ سے اختیار دیا گیا ہے کہ ایک دو تین چار عورتوں تک نکاح کر لو۔ لیکن اگر ان میں عدل نہ کر سکو تو پھر یہ فسق ہو گا اور بجائے ثواب کے عذاب حاصل کرو گے کہ ایک گناہ سے نفرت کی وجہ سے دوسرے گناہوں پر آمادہ ہوئے۔‘‘

(ملفوظات جلد ہفتم۔ صفحہ63-65)

اسی طرح ایک اور موقع پرحضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’یتیم لڑکیاں جن کی تم پرورش کرو ان سے نکاح کرنا مضائقہ نہیں۔ لیکن اگر تم دیکھو کہ چونکہ وہ لاوارث ہیں، شاید تمہارا نفس ان پر زیادتی کرے تو ماں باپ اور اقارب والی عورتیں کرو جو تمہاری مؤدّب رہیں اور ان کا تمہیں خوف رہے۔ ایک دو تین چار تک کر سکتے ہو بشرطیکہ اعتدال کرو۔ اگر اعتدال نہ ہو تو پھر ایک ہی پر کفایت کرو۔ گو ضرورت پیش آوے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی۔ روحانی خزائن جلد 10صفحہ 337)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اکتوبر 2020