• 5 مئی, 2024

مسلمانوں میں تو یہ بڑا عام ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
عام مسلمانوں میں تو یہ بڑا عام ہے۔ اور اسی وجہ سے خاص طور پر لڑکوں کی پیدائش کے لئے بڑی توجہ دی جاتی ہے کہ لڑکا پیدا ہو جائے اور لڑکے جو ہیں وہ اپنی بہنوں کو اور اپنے والدین، اپنی بیٹیوں کو جائیداد نہیں دیتے اور ساری جائیداد کا وارث لڑکوں کو بنا دیتے ہیں جو اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے اور پھر وہ لڑکے بھی اس جائیداد کو ضائع کر دیتے ہیں۔ تو یہ تو دنیا میں ہم دیکھتے ہیں اور آج بھی مثالیں ملتی ہیں۔ بہرحال جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ خاص طور پر جو واقفین نو کے ماں باپ ہیں ان کو اپنے بچوں کی تربیت کی طرف خاص طور پر توجہ دینی چاہئے اور ان کے لئے دعا بھی اس مقصد کے لئے کرنی چاہئے کہ وہ بڑے ہو کر دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔ وقف کرنے والے ہوں۔ یہ نہیں کہ صرف وقف نو کا ٹائٹل لگا دیا اور بڑے ہو کر کہہ دیا کہ ہم تو اپنے کام کر رہے ہیں۔ بلکہ جو واقفین نَو ہیں وہ پہلے جماعت سے پوچھیں کہ جماعت کو ضرورت ہے کہ نہیں اور اگر جماعت ان کو اپنے کام کرنے کی اجازت دیتی ہے تو کریں ورنہ ان کو خالصتاً اپنے عہد کو پورا کرتے ہوئے اور والدین کے عہد کو پورا کرتے ہوئے اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کرنا چاہئے۔

پس اولاد کے لئے دعا اور خواہش اس سوچ کے ساتھ اور اس دعا کے ساتھ ہونی چاہئے کہ ایسی اولاد ہو جو دین کو دنیا پر مقدم کرنے والی ہو۔ جو ہماری یعنی ماں باپ کی اور خاندان کی عزت قائم کرنے والی ہو۔ اپنے دادا پڑدادا کے نام کی عزت قائم کرنے والی ہو۔ بہت سے ایسے خاندان ہیں جن کے باپ دادا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سے تھے۔ صرف ان کی اولاد ہونا ہی کافی نہیں۔ بڑے لوگ بڑے فخر سے بتاتے ہیں۔ اچھی بات ہے۔ لیکن فخر تب ہونا چاہئے کہ وہ نیکیاں بھی جاری ہوں۔ اولاد ہونا کافی نہیں ہے بلکہ ماں باپ کا یہ بھی کام ہے کہ اپنی اولاد کے لئے یہ بھی دعا کریں کہ وہ ان کی نیکیاں، باپ دادا کی نیکیاں قائم کرنے والے بھی ہوں اور جب یہ دعا ماں باپ کر رہے ہوں گے تو اپنے پر بھی نظر رکھیں گے کیونکہ ہم اپنے باپ دادا کے نام کو زندہ رکھنے والے تبھی بن سکتے ہیں جب ہم اپنے اعمال پر بھی نظر رکھنے والے ہوں۔ پس اپنے جائزوں کے ساتھ ہر ایک کو آخری وقت تک بچوں کی نیک فطرت اور صالح ہونے کے لئے دعائیں کرتے رہنا چاہئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’خدا تعالیٰ کی نصرت انہی کے شامل حال ہوتی ہے جو ہمیشہ نیکی میں آگے ہی آگے قدم رکھتے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’ایک جگہ ٹھہر نہیں جاتے اور وہی ہیں جن کا انجام بخیر ہوتا ہے۔‘‘ اور انجام بخیر کے لئے آپ نے فرمایا کہ ’’اپنے لئے اور اپنے بیوی بچوں کے لئے مستقل دعا کرتے رہنا چاہئے۔‘‘

پھر آپ ہمیں نصیحت فرماتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’وہ کام کرو جو اولاد کے لئے بہترین نمونہ اور سبق ہو۔‘‘ (یہ والدین کا کام ہے۔) فرمایا ’’اور اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے اوّل خود اپنی اصلاح کرو۔ اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پرہیز گار بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا‘‘۔ فرمایا کہ ’’قرآن شریف میں خضر اور موسیٰ علیہما السلام کا قصہ درج ہے کہ ان دونو نے مل کر ایک دیوار کو بنا دیا جو یتیم بچوں کی تھی۔ وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَکَانَ اَبُوْھُمَا صَالِحًا (الکہف:83) ان کا والد صالح تھا۔ یہ ذکر نہیں کیا کہ وہ آپ کیسے تھے۔‘‘ (بچے کیسے تھے، بلکہ ماں باپ کا ذکر کیا۔) فرمایا کہ ’’پس اس مقصد کو حاصل کرو۔ اولاد کے لئے ہمیشہ اس کی نیکی کی خواہش کرو‘‘ (ملفوظات جلد8 صفحہ110۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) تو پھر اللہ تعالیٰ اولاد کی بہتری کے لئے اور ان کے رزق کے لئے بھی سامان پیدا فرماتا رہے گا۔

پس یہ وہ بنیادی اصول ہے جس کی طرف بار بار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توجہ دلائی ہے اور یہ قرآنی تعلیم کی ہی وضاحت ہے کہ ماں باپ کا اپنا نمونہ ہی بچوں کی تربیت میں کردار ادا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم میں سے ہر ایک اولاد کے لئے بہترین نمونہ بننے والے ہوں۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا کرنے والے ہوں۔ بعض لوگوں کی عادتیں ہوتی ہیں کہ دوسروں کی طرف دیکھتے رہتے ہیں کہ وہ کیسا ہے تو دوسروں کی طرف نظر رکھنے کی بجائے اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینے والے ہوں اور تقویٰ پر چلنے والے ہوں۔ تبھی ہم آگے نیک نسل بھی چلا سکتے ہیں۔ اپنی اولاد کے لئے مستقل دعائیں کرنے والے ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ ہماری اولاد کو بھی ہمیشہ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے رکھے اور پھر یہ سلسلہ آگے بھی چلتا چلا جائے۔

(خطبہ جمعہ 14؍ جولائی 2017ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 3 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اکتوبر 2020