• 8 مئی, 2024

جلسہ کے مدّعا اور اصل مطلب

شروع میں جب جلسوں کا آغاز ہوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جب یہ پتہ چلا کہ جلسے کے مقصد کو لوگ پورا نہیں کر رہے تو آپ نے بڑی سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اِس سال مَیں جلسہ کا انعقاد نہیں کروں گا اور اُس سال جلسہ منعقد نہیں ہوا۔ اور اس کے ملتوی کرنے کا جو اعلان آپ نے فرمایا وہ ایسا ہے کہ ہر مخلص کو آج بھی بے چین کرنے والا ہے اور بے چین کرنے والا ہونا چاہئے۔ آپ نے فرمایا کہ ’’اس جلسہ سے مدّعا اور اصل مطلب یہ تھا کہ ہماری جماعت کے لوگ کسی طرح بار بار کی ملاقاتوں سے ایک ایسی تبدیلی اپنے اندر حاصل کر لیں کہ ان کے دل آخرت کی طرف بکلّی جھک جائیں اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کا خوف پیدا ہو اور وہ زُہد اور تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری اور نرم دلی اور باہم محبت اور مؤاخات میں دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں اور انکسار اور تواضع اور راست بازی ان میں پیدا ہو اور دینی مہمّا ت کے لئے سرگرمی اختیار کریں۔‘‘

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ394)

پھر فرمایا ‘‘یہ جلسہ ایسا تو نہیں ہے کہ دنیا کے میلوں کی طرح خواہ مخواہ التزام اس کا لازم ہے بلکہ اس کا انعقاد صحتِ نیّت اور حُسنِ ثمرات پر موقوف ہے، ورنہ بغیر اس کے ہیچ۔’’

(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد6 صفحہ395)

اگر نیت صحیح نہیں اور اچھے پھل نہیں حاصل ہو رہے۔ وہ مقصد حاصل نہیں ہو رہا جس کے لئے جلسہ منعقد کیا گیا ہے تو پھر بالکل ہیچ ہے، اس کا کوئی فائدہ نہیں۔

یہ جو آپ نے فرمایا کہ بار بار کی ملاقاتوں سے ایسی تبدیلی پیدا کریں۔ یہ کس کی ملاقاتیں ہیں۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ملاقاتیں ہیں۔ پس اگر ایسے لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں اپنی کچھ کمزوریوں کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ناراضگی کا مورد بنے تو آجکل تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ تعداد کے لحاظ سے ہم کتنے ہیں اور ہماری کیا حالت ہے جو اس زُمرہ میں آتے ہیں۔ ان لوگوں میں آتے ہیں جن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ پس اس لحاظ سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ اگر وہ معیار نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام چاہتے ہیں تو پھر ہم جلسہ میں شامل ہونے کے حق دار بھی نہیں ہیں۔ یا یہ دیکھیں کہ ہم حق دار ہیں بھی کہ نہیں؟ یا صرف اس لئے کہ پیدائشی احمدی ہیں یا پرانے احمدی ہو گئے، کئی سالوں سے بیعت کر کے یا بزرگ آباؤ اجداد کی اولاد ہیں اس لئے شامل ہو رہے ہیں تو پھر وہ مقصد پورا نہیں کر رہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔ یا اس نیت سے نہیں آئے کہ ہم نے یہ مقصد حاصل کرنے کی اپنی تمام تر صلاحیتوں سے کوشش کرنی ہے یا کرتے رہے ہیں یا کر رہے ہیں تو پھر اگر یہ نہیں تو پھر جلسوں پر آنا ایک میلے پر آنا ہی ہے۔ پس اس بات سے ہر مخلص احمدی کے دل میں ایک فکر پیدا ہونی چاہئے۔ اب تو ہر سال دنیا کے مختلف ممالک کے جلسے ہوتے ہیں بعض میں مَیں شامل ہوتا ہوں۔ بعض پر ایم ٹی اے کے ذریعہ سے شرکت ہو جاتی ہے۔ یورپ کے بعض جلسوں میں آپ میں سے بہت سے شامل ہوتے ہیں۔اس وقت بھی میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں جو کئی جلسوں میں شامل ہوئے۔ یُوکے کے جلسہ کے بعد جرمنی کے جلسہ میں بہت سے شامل ہو کر آئے ہیں اور ہر جلسہ پر جلسہ کے مقاصد اور دینی علمی اور روحانی ترقی کی باتیں ہوتی ہیں اور تقاریر ہوتی ہیں اور بہت سےلوگ مجھے لکھتے ہیں کہ ایک خاص ماحول تھا اس میں روحانیت کے نظارے ہم نے دیکھے۔آپس میں بہت پیار اور بھائی چارے کے نظارے ہم نے دیکھے۔لوگ یہ بھی لکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ بعض مہمان گئے ہوئے تھے وہ بھی یہ ماحول دیکھ کر بڑے متاثر ہوئے۔ پس ان باتوں کی وجہ سے اور ایک سال میں ایک سے زیادہ جلسوں میں شامل ہونے کی وجہ سے ایک انقلاب ہماری حالتوں میں آ جانا چاہئے۔ کہاں تو وہ زمانہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ سال میں ایک دفعہ جلسہ میں شامل ہوں تا کہ تمہارے اندر ایسی پاک تبدیلی ہو کر سفر آخرت مکروہ معلوم نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے کی طرف ایک خاص توجہ پیدا ہو۔ اور کجا اب یہ حالت ہے کہ بعض لوگ سال میں ایک سے زائد جلسوں میں شامل ہوتے ہیں۔ پس جائزہ لیں کہ پھر ایسے حالات میں کیسا انقلاب آ جانا چاہئے۔ بیشک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک ملاقات ہی کئی جلسوں پر بھاری تھی اور آپ سے مل کے ایک انقلاب آ جاتا تھا۔ بہرحال نبی کا ایک مقام ہوتا ہے۔ لیکن اب مسلسل کئی جلسوں کو دیکھنا اور شامل ہونا کچھ تو پاک تبدیلی پیدا کرنے کا باعث ہونا چاہئے۔ باتیں تو اب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ہی بیان کی جاتی ہیں۔الفاظ تو آپ علیہ السلام کے ہی بیان کئے جا رہے ہیں اور پھر اس سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ ہیں اور باتیں ہیں جو مختلف تقریروں میں بیان کی جاتی ہیں اور اس سے بھی بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے کلام کی تفسیریں بیان کی جاتی ہیں۔ تو اگر انسان کا ارادہ ہو اور نیک نیت ہو تو پاک تبدیلی کے سامان اب بھی موجود ہیں۔ خلیفہ وقت آپ سے کچھ کہتا ہے تو وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نمائندگی میں ہی کہتا ہے۔ خلافت کے جاری رہنے اور اس کے ساتھ منسلک ہو کر آپ علیہ السلام کی برکات کا تسلسل قائم رہنے کی خوشخبری بھی تو اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہی دی تھی بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ان برکات کے یعنی خلافت کی برکات کے جاری رہنے کا وعدہ تمہاری نسبت ہے۔ پس اس لحاظ سے آج مَیں اس موقع سے اس مضمون سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایم ٹی اے سننے کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں۔

(خطبہ جمعہ 14؍ ستمبر 2018ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

۔۔۔۔۔۔جلسہ کے دنوں میں جو اصل مقصد ہے دعاؤں کا اس کو بھی سامنے رکھیں۔ درود پڑھتے رہیں۔ ذکر الٰہی سے اپنی زبانوں کو تر کریں۔

(خطبہ جمعہ 14؍ ستمبر 2018ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اکتوبر 2021

اگلا پڑھیں

چھوٹی مگر سبق آموز بات