• 20 مئی, 2024

سیلاب تھا دل میں اشکوں کا

نم آلود تھے میرے نینا اور سیلاب تھا دل میں اشکوں کا
باہر بھی تھا سیلِ بلا اور سیلاب تھا دل میں اشکوں کا

تھے وہ کیسے عالی ہمت جو اوروں کے غم خوار بنے
خود تھے حزیں وہ حد سے سوا اور سیلاب تھا دل میں اشکوں کا

جب دن میں پھول سے چہرے پر اک قطرہ دیکھا آنسو کا
پھر آخر شب تھی میں تھا اور سیلاب تھا دل میں اشکوں کا

وہ ناؤ جو ڈوبی خستہ تھی اور کشتی بان بھی ناداں تھے
تھے راہی بھی درماندہ اور سیلاب تھا دل میں اشکوں کا

صد حیف ہے ایسے نیتا پر مُسکان تھی جس کے ہونٹوں پر
جب جان بلب تھی جنتا اور سیلاب تھا دل میں اشکوں کا

(م م محمودؔ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 اکتوبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ