تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 63
سوال تو تھا مسلمان کی تعریف کیا ہے جواب اتنا ہی ہونا چاہیئے تھا جتنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا مگر کافر کی تعریف بھی ساتھ ہی شامل کر کے مسلمان کی خود ساختہ تعریف بنا دی۔ پھر یہ تعریف کہاں سے لی گئی نہ قرآن کا حوالہ نہ حدیث کا ! گویا اس کے ساتھ کفر کو شامل نہ کر دیں گویا تکفیر کے بغیر نہ اسلام کی تعریف مکمل اور نہ ہی ایمان کی تکفیر مکمل۔ العجب!!!
علماء کی ایسی ہی من گھڑت باتوں سے جن میں اسلام کی تعریف کم اور تکفیر کے بارہ میں زیادہ بیان بازی سے عامۃ المسلمین کی ایک بڑی تعداد اسلامی تعلیمات سے دور جارہی ہیں۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کی تعریف یوں کی ہے کہ جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے۔اور جو شخص ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے (نماز پڑھے) اور جو شخص ہمارے ذبیحہ سے کھائے۔ وہ مسلمان ہے۔
1953ء میں جب پاکستان میں فسادات ہوئے تو ایک انکوائری کمیشن بٹھایا گیا تھا اور فسادات پنجاب کی تحقیقات کے لئے ایک عدالت قائم کی گئی تھی جس میں چیف جسٹس محمد منیر اور جسٹس (M.R) ایم آر کیانی صاحب تھے انہوں نے تمام سیاسی اور مذہبی لیڈروں کو شامل تفتیش کیا اور ایک سوال علماء کے سامنے یہ بھی رکھا کہ مسلمان کی کیا تعریف ہے ؟ جب سارے مذہبی علماء اپنی اپنی تعریف عدالت میں داخل کر چکے تو عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا۔
‘‘ان بہت سی تعریفوں کے پیش نظر جو کہ علماء نے پیش کی ہیں۔ کیا ہمیں کسی تبصرے کی ضرورت ہے؟ سوائے اس کے کہ کوئی بھی دو مقدس عالم اس بنیادی اصول پر متفق نہ تھے۔ اگر ہم خود اسلام کی تعریف پیش کرنے کی کوشش کریں جیسا کہ فاضل عالم دین نے کی ہے اور ہماری تعریف ان سے مختلف ہو جو دوسروں نے کی ہے تو ہم متفقہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج اور اگر ہم کسی ایک عالم کی بتائی ہوئی تعریف کو قبول کر لیں تو ہم صرف ایک عالم کی تعریف کے مطابق ہی مسلمان رہتے ہیں۔ لیکن باقی علماء کی تعریفوں کے مطابق ہم کافر بن جاتے ہیں’’
خاکسار نے یہ لکھ کر علماء کو یہ نصیحت بھی کی ہے کہ پس ہمار ے علماء کو کم ظرف بننے کی بجائے وسعت حوصلہ دکھانا چاہئے اور ایمان کی اتنی ہی حقیقت جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کو حرزِ جان بنانا چاہیئے نہ کہ یہ اپنی خود ساختہ تاویل و تشریح کو ہی حتمی اور آخری سمجھیں۔ جس طرح آپ کو تاویل اور تشریح کرنے کا اختیار ہے ویسا ہی دوسروں کو بھی ہے۔ علماء نے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی کتب کے حوالہ جات اور تعلیمات اور تشریح کو بھی کانٹ چھانٹ کر لکھا اورآپ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا حالانکہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ ‘‘ ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربّانی کتابوں کا خاتم ہے تاہم خدا تعالیٰ نے اپنے نفس پر یہ حرام نہیں کیا کہ تجدید کے طور پر کسی اور مامور کے ذریعہ سے یہ احکام صادر کرے کہ جھوٹ نہ بولو، جھوٹی گواہی نہ دو، زنا نہ کرو، خون نہ کرو، اور ظاہر ہے کہ ایسا بیان کرنابیان شریعت ہے جو مسیح موعود کا بھی کام ہے۔’’(اربعین نمبر 4 صفحہ 6-7)
پس مضمون کے سب سے آخر میں خاکسار نے کشتی نوح (ہماری تعلیم) سے ایک حوالہ درج کیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے متعلق، اللہ تعالیٰ کی توحید سے متعلق، تقویٰ سے متعلق اور آپس میں پیار و محبت اور صلح کرنے سے متعلق اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین سمجھنے اور ایمان لانے سے متعلق ہے۔ اور عقائد کا ذکر ہے۔ درثمین سے کچھ اشعار بھی درج کئے گئے ہیں۔
الانتشار العربی نے اپنی اشاعت کے انگریزی سیکشن میں 20 اپریل 2011ء میں صفحہ 24 پر ایک تصویر کے ساتھ ہماری یہ خبر شائع کی ہے کہ ‘‘احمدی مسلمان عیسائیوں کے ایک فرقہ مارمن کے فلاحی کاموں اور محبت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ’’
اخبار نے لکھا کہ جماعت احمدیہ مسلمہ چینواور مارمن چرچ کے لوگوں کے درمیان ایک لمبے عرصہ سے آپس میں بھائی چارہ اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی روح قائم ہے۔ اور ہر دو گروپس کی عبادت گاہیں بھی ایک دوسرے کے نزدیک واقع ہیں۔ جماعت احمدیہ نے مارمن چرچ کے لوگوں کے لئے ایک ڈنر کا اہتمام کیا تھا جو مسجد بیت الحمید میں 8 اپریل 2011ء کو کیا گیا ڈنر کے اختتام پر مسجد بیت الحمید کے امام اور ریجنل مشنری سید شمشاد احمد ناصر نے تمام حاضرین جن کی تعداد ستّر70 تھی کو خوش آمدید کہا۔ اور مارمن چرچ نے جو جماعت احمدیہ کے ساتھ برادرانہ سلوک کیا اس پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
یاد رہے کہ 2003ء میں جب مسجد بیت الحمید چینو کو آگ لگی اور مسجد کا بہت سا حصہ جل گیا تھا اس وقت مسجد کو ہر قسم کی کارروائی کے لئے بند کر دیا تھا۔ اس وقت مارمن چرچ کے لوگوں نے اپنے چرچ کو ہمیں نمازوں کے لئے دے دیا۔ اور یہ چند دن کی بات نہ تھی بلکہ ایک لمبے عرصہ کے لئے۔ شروع میں جب مسجد بند کی گئی اس وقت پھر ایک وقت کے بعد مسجد میں عبادت کا حصہ کونٹی کی اجازت سے کھل گیا اور نمازیں اور دیگر مساعی کی جانے لگی۔ اس وقت بھی مارمن چرچ نے ہمیں عبادت کے لئے جگہ مہیا کی۔ پھر 2007ء میں جب ہماری مسجد از سر نو تعمیر ہونےلگی اس وقت بھی ایک لمبے عرصہ 2009ء تک کے لئے نماز جمعہ اور دیگر تقریبات کے لئے ہم ان کے چرچ کا استعمال کرتے رہے۔ اور چرچ کی انتظامیہ ہمارے ساتھ ہر قسم کا تعاون کرتی رہی اور ہمیں ہر قسم کی سہولت مہیا کرتی رہی۔
چنانچہ اس موقعہ پر جماعت احمدیہ نے 3 ٹرافیاں بنوائیں جو مارمن چرچ کے صدر Mr Danial Stevenson کو اور دو اور چرچ کے ممبران کو جو ہر جمعہ کو ہمیں سہولت مہیا کرتے، دی گئیں۔ ایک ٹرافی پر قرآن کریم کی آیات کا ترجمہ بھی لکھ کر پیش کیا۔ انہیں مسلم سن رائز کی کاپیاں بھی تحفہ دی گئیں۔ اس کے بعد مارمن چرچ کے صدر جناب ڈانیل سٹیون سن (Danial Stevenson) نے شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ جس طرح جماعت احمدیہ کا عقیدہ ہے، ہمارا بھی وہی ہے کہ خدا تعالیٰ اب بھی بولتا ہے اور جس پر چاہے وحی نازل کر سکتا ہے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی سے ایک اقتباس بھی پڑھ کر سنایا۔ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ کچھ عرصہ ہوا پاکستان اور انڈونیشیا میں جماعت احمدیہ کے سو سے زائد افراد کو قتل کیا گیا ہے جس پر وہ افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے۔
تقریب کے اختتام پر سوال و جواب بھی ہوئے۔ مارمن چرچ کے ایک دوست نے اسلام میں عورت کے مقام پر سوال بھی کیا جس کا امام شمشاد نے تفصیل سے جواب دیا۔ اخبار نے تصویر بھی شائع کی جو کہ سب کا ایک گروپ فوٹو ہے۔
نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 22 تا28 اپریل 2011ء میں صفحہ 13 پر ہماری ایک خبر اس عنوان سے شائع کی ہے۔ ’’کیلی فورینا کی مسجد بیت الحمید چینو میں جلسہ سیرت النبی (صلی اللہ علیہ وسلم)‘‘
جلسہ کی صدارت نائب امیر امریکہ نسیم مہدی نے کی، امام سید شمشاد ناصر نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر بات کی۔ اخبار نے لکھا کہ مسجد بیت الحمید چینو میں جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم 13 فروری بروز اتوار صبح 11 بجے سے لے کر نماز ظہر تک منعقد کیا گیا۔ جلسہ کی صدارت مکرم مولانا نسیم مہدی صاحب نے کی۔ تلاوت اور نظم کے بعد مکرم عاصم انصاری صاحب نے پہلی تقریر کی۔ اور جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریبات کا تاریخی پس منظر بیان کیا۔ کہ ہندوستان میں عیسائیوں، آریوں اور ہندوؤں نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ کے بارے میں غلیظ باتیں کیں۔ اور کتب شائع کیں۔اس وقت جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ صاحب نے کہا کہ اگر لکھنے والوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اس سے ہمارے دلوں کو کس قدر تکلیف پہنچی ہے تو وہ ہرگز ایسا نہ کرتے اور پھر اپنی جماعت کو حکم دیا کہ ’’ملک بھر میں سیرت کانفرنسوں کا انعقاد کریں۔‘‘
اس موقعہ پر علاقہ کے میئر نے بھی جلسہ میں شرکت کی انہوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ مجھے اس موقعہ پر مدعو کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کے بارے میں لوگ اچھی باتیں کرتے ہیں اور آپ کا یہ نعرہ بہت ہی عمدہ ہے کہ ’’محبت سب کے لئے، نفرت کسی سے نہیں‘‘ کاش سب اس پر عمل کرنے لگیں۔
آج کے جلسہ کے دوسرے مقرر محترم رضوان جٹالہ صاحب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیّبہ پر روشنی ڈالی۔ جلسہ کے آخر پر صدر مجلس مولانا نسیم مہدی صاحب نے تقریر کی اور کہا کہ میں آپ کو 1400 سال پہلے جنگ تبوک کا واقعہ سناتا ہوں۔ اس وقت صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب پر 30 ہزار صحابہ اس کے لئے تیار ہوگئے اور بے شمار مالی قربانی بھی پیش کی۔ اس سے قبل امام شمشاد ناصر نے دیباچہ تفسیر القرآن سے آپ کی سیرت کا ایک پہلو پیش کیا جس کا تعلق تحمل سے تھا۔ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ نے لکھا کہ ’’آپ ہر ایک کی بات سنتے اگر وہ سختی بھی کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوجاتے اور کبھی سختی کرنے والے کا جواب سختی سے نہ دیتے۔‘‘
نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 22 تا 28 اپریل 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’مفتی حرم کے دلچسپ فتوے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا۔
خاکسار نے اس مضمون میں اس بات کا ذکر کیا کہ میں نے ہیوسٹن کے لئے اردو میں ریڈیو پر ایک پروگرام کیا کہ احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟ خاکسار نے اس ضمن میں بتایا کہ بانی جماعت احمدیہ جو حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں تشریف لائے، نے قرآنی دلائل سے ثابت کیا کہ ہمارا خدا کائنات کا حاکم ہے اور ہماری کتاب قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے۔ آپ نے ہمیں عبادتوں کے لئے اسلوب سکھائے امن، پیار اور محبت سے اسلامی تعلیم پھیلانے کی تلقین کی۔
خاکسار نے مزید بتایا کہ اسلام میں کسی قسم کا جبر اور اکراہ بھی نہیں ہے۔ ابھی بات یہاں تک پہنچی تھی کہ ایک شخص نے سوال کیا کہ آپ جو بات بتا رہے ہیں وہ درست نہیں ہے۔ بلکہ جب امام مہدی تشریف لائیں گے تو بہت خون خرابہ ہوگا پھر جو بچ جائیں گے وہ اسلام لے آئیں گے۔
خاکسار نے انہیں بتایا کہ ہمارا مذہب ایسا نہیں ہے بلکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں دنیا کو پیار اور محبت اور امن کا پیغام دیتے ہیں جس طریق سے آپ نے اسلام کا پیغام پہنچایا۔ ہم بھی وہی طریق اختیار کرتے ہیں۔ ہم قتل و غارت اور بغاوت کے نہ حق میں ہیں اور نہ کرتے ہیں کیوں کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ مگر وہ دوست بار بار یہی کہتے رہے کہ جب امام مہدی آئیں گے تو وہ بہت لڑیں گے (یعنی خون خرابہ، قتل و غارت) پھر یہ لوگ درست ہوں گے۔
میں نے عرض کی کہ جناب خون خرابہ تو پہلے ہی مسلمان بہت کر رہے ہیں، کون سی کسر باقی رہ گئی ہے جو امام مہدی پوری کریں گے؟
ایک وقت تھا کہ جب حضرت عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلے مگر ایک آیت سن کر ہی ایمان لے آئے۔ مگر اب مسلمان سارے کا سارا قرآن بھی پڑھ لیں تو اثر نہیں ہوتا۔ اس کی کیا وجہ ہے؟دراصل اس میں عوام الناس کا قصور بھی نہیں۔ جب وہ اپنے علماء سے فتوے ہی ایسے سنتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان ایسا نہ کرے تو اسے قتل کر دو۔ اور اگر غیر مسلم ایسا کرے تو اسے بھی قتل کر دو۔ جب اس قسم کے واقعات سنائے جائیں گے۔ تو ایک مسلمان جس کا علم سطحی ہے وہ یہی سمجھتا ہے کہ اسلام میں صرف قتل و غارت ہی ہے اور پھر یہی اس کا مذہب ہوجاتا ہے۔ خاکسار نے بتایا کہ ہم ہفتہ میں دو بار ریڈیو پر پروگرام کرتے ہیں۔ اور لوگوں کو اسلام کی صحیح تعلیمات بیان کی جاتی ہیں اور ان کے سوالوں کے جواب بھی دیئے جاتے ہیں۔
خاکسار نے بتایا کہ مسلمان اسلام کے بارے میں کیوں اتنے شدت پسندی رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہر دوسرے فرقہ والا غیر مسلم اور کافر ہے۔ اور پھر فوراً مارنے اور مرنے پر تُل جاتے ہیں۔ بات کرتے ہیں تو منہ سے جھاگ آنا شروع ہوجاتی ہے۔ برداشت بالکل نہیں ہے۔ کیا یہی اسلام ہے؟ جب ہم لوگوں کو بتاتے ہیں کہ اسلام امن اور محبت اور پیار والا مذہب ہے۔ تو لوگ پوچھتے ہیں کہ بتائیں کس جگہ، کس اسلامی ملک میں امن ہے اور وہ پیار و محبت سے رہ رہے ہیں۔ اس کا کیا جواب دیا جائے؟
خاکسار نے ایک کتاب ’’فتاویٰ‘‘ کا ذکر کیا جو شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز کے فتاویٰ پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب 1995ء میں شائع ہوئی۔ کتاب کے شروع میں جناب شیخ عبدالعزیز کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ مملکت سعودی عرب کے مفتی اعظم، دارالافتاء کے رئیس اور بے شمار اسلامی اداروں کے سربراہ ہیں اور فتاویٰ کتاب کا اردو ترجمہ پاکستان کے مشہور عالم دین جناب مولانا عبدالرحمان کیلانی نے کیا ہے۔ اس کتاب میں بڑے دلچسپ فتوے درج ہیں۔ مثلاً کتاب کے صفحہ 100 پر یہ فتویٰ درج ہے
سوال: میرا بھائی نماز ادا نہیں کرتا۔ کیا اس سے صلہ رحمی کروں یا نہیں؟
جواب: جو شخص دیدہ دانستہ نماز چھوڑتا ہے وہ کافر ہے۔ تارک نماز اس لئے بھی کافر ہے کہ وہ اللہ، اس کے رسول اور اہل علم و ایمان کے اجماع کو جھٹلانے والا ہے۔ لہٰذا اس کا کفر اکبر و اعظم ہے۔ بخلاف اس کے کہ جو نماز کو معمولی سمجھتے ہوئے اس کا تارک ہے۔ دونوں صورتوں میں حکام پر لازم ہے کہ وہ تارک نماز سے توبہ کرائے اگر وہ توبہ کرے تو ٹھیک ………ورنہ اسے قتل کر دیا جائے۔ کیوں کہ اس بارہ میں دلائل موجود ہیں۔ نماز کے تارک سے بائیکاٹ لازم ہے۔ اور جب تک وہ اس کام سے باز نہ آجائے۔ اس کی دعوت بھی قبول نہ کی جائے۔
سوال: میرا دوست ہے جو نماز نہیں پڑھتا اور نہ ہی روزہ رکھتا ہے۔ کیا میں اس سے صلہ رحمی کروں یا نہ؟
جواب: اس شخص اور اس جیسے دوسرے لوگوں سے اللہ کی خاطر بغض و عناد رکھنا لازم ہے تا آنکہ وہ توبہ کرلیں……… لہٰذا آپ پر لازم ہے کہ آپ اللہ کی خاطر اس دوست سے نفرت کریں۔ اور اس وقت تک مقاطعہ کریں جب تک وہ اللہ کے حضور توبہ نہ کرے۔ اور مسلمان حکام پر واجب ہے کہ جن لوگوں کے متعلق انہیں معلوم ہوجائے کہ وہ تارک نماز ہیں ان سے توبہ کرائیں اگر توبہ کر لیں تو خیر ورنہ قتل کر دیں۔
ایک اور سوال تھا کہ کیا علماء کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی انسان کو کافر کہہ دیں۔ اور اس پر کفر کا الزام لگا دیں۔
جواب میں مفتی حرم نے فرمایا کہ کسی معین شخص کو اس صورت میں کافر کہا جاسکتا ہے جب وہ کسی ایسی چیز کا انکار کرے جس کا جزو دین ہونا ہر خاص و عام کو معلوم ہو مثلاً نماز، زکوٰۃ یا روزہ وغیرہ۔ جوشخص اس کا علم ہونے کے بعد بھی انکار کرتا ہے اسے کافر کہنا واجب ہے، لیکن اسے نصیحت کرنی چاہیئے اگر توبہ کر لے تو بہتر ہے۔ ورنہ اسلامی حکمران اسے سزائے موت دیں۔
یہ چند فتاویٰ آپ کی خدمت میں پیش کئے گئےہیں۔ تا آپ کو معلوم ہو کہ اسلامی تعلیمات کے بارے میں مفتی حرم نے کیا فتاویٰ صادر کئے ہیں۔ ان فتاویٰ کی موجودگی میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت کتنے مسلمان ممالک میں کتنے مسلمانوں کا قتل عام صحیح ہوگا۔ یہ خود ہی فیصلہ فرمائیں۔
ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 22 اپریل 2011ء میں صفحہ 9 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’ایمان کی حقیقت‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ یہ مضمون وہی ہے جو اس سے قبل دوسرے اخبار کے حوالہ سے پہلے گذر چکا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے۔
چینو چیمپئن نے اپنی اشاعت 23 تا 29 اپریل 2011ء میں صفحہ A8 پر ہماری اس عنوان سے خبر دی ہے کہ ’’مسلمانوں کے اجتماع کا انعقاد‘‘۔ ساؤتھ کیلی فورنیا کے ریجن میں جماعت احمدیہ مسلمہ کی کمیونٹی نے 27 مارچ کو مسجد بیت الحمید میں ’’یوم مسیح موعود‘‘ منایا۔ یہ ان کا سالانہ فنکشن ہوتا ہے جو ہر سال ان تاریخوں میں منایا جاتا ہے۔ اس موقعہ پر 350لوگ اس جلسہ میں شامل ہوئے۔ جلسہ یوم مسیح موعودکی صدارت عاصم انصاری صاحب نے کی جو کہ اس حلقہ کے صدر جماعت ہیں۔ عاصم انصاری نے اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے عقائد بیان کئے اور حضرت مرزا غلام احمد قادیانی (مسیح موعود علیہ السلام) کے آنے کی غرض و غایت بیان کی۔ آپ نے 23 مارچ 1889ء کو جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی۔
پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 29 اپریل 2011ء میں صفحہ 13 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’بدعات اور بدرسومات سے بچیں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ خاکسار نے اس مضمون کی ابتداء اس واقعہ سے کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن بھجوایا تو اس موقعہ پر خاص طور پر آپؐ نے انہیں نصائح کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’لوگوں کے لئے آسانی مہیا کرنا، انہیں مشکلات میں نہ ڈالنا۔ آپ نے یہاں تک نصیحت فرمائی کہ لوگوں کا جو امام بنے وہ لمبی لمبی نمازیں نہ پڑھائے بلکہ کمزور، بوڑھوں، بیماروں، بچوں اور خواتین کا بھی خیال رکھے‘‘ اور اس ضمن میں آپ نے اپنا عملی نمونہ بھی پیش فرمایا کہ جب آپ نماز پڑھارہے ہوتے اور کسی بچے کی رونے کی آواز آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ہلکی کر دیتےیہ تھا رحمۃ للعالمین کا نمونہ۔
لیکن افسوس آج اس آسان مذہب کو دین متین کو مولوی نے بہت ہی مشکل بنا دیا ہے۔ دین میں بدعات، رسومات داخل ہوچکی ہیں اور شرک اپنی انتہاء کو پہنچ رہا ہے۔ پیروں کے سامنے سجدہ کرنا تو عام سی بات ہے مزاروں پر عرسوں میں صاحب قبر کی مٹی ماتھے پر لگاتے ہیں اور منتیں مانگی جاتی ہیں۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ یہ حالت مسلمانوں نے اسلام کی کر دی ہے۔
اس سے زیادہ مصیبت کا وقت اسلام پر اور کون سا آئے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہود و نصاریٰ پر خدا کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ آج وہی کام جس سے مسلمانوں کو منع کیا گیا تھا۔ خیر سے مسلمان ہی کر رہے ہیں۔ یہ باتیں خدا کے غضب اور غصہ کو بھڑکانے والی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا تصور بھی عجیب قسم کا ہے۔ وہ زبان سے خدا خدا تو کہتے ہیں مگر خدا تعالیٰ پر نہ ہی توکل اور نہ ہی ایمان۔ پھر بے ایمانی، ہیرا پھیری، رشوت، بد دیانتی، دوسروں کا مال لوٹ لینا، کسی کے مال پر ناجائز قبضہ ان کے نزدیک بڑائی کا نشان ہے۔
خاکسار نے لکھا کہ ہم یورپ اور امریکہ کو کوستے رہتے ہیں لیکن یہ لوگ مسلمانوں سے کہیں زیادہ بہتر ہیں دیانتداری اور محنت سے کام کرتے ہیں۔ احترام کرتے ہیں جو باتیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے لئے بیان کی تھیں یہاں کی اکثریت ان پر عمل کرتی ہے۔ ان شاء اللہ ایک دن یہ لوگ شرف بہ اسلام ہوں گے۔ اس کے بعد خاکسار نے چند بدعات کا ذکر کیا ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا یہ حوالہ درج کیا ہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں:
’’آج ہم کھول کر باآواز بلند کہہ دیتے ہیں کہ سیدھا راستہ جس سے انسان بہشت میں داخل ہوتا ہے یہی ہے کہ شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑ کر اسلام کی راہ اختیار کی جائے۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 67-71)
حضرت امام جماعت احمدیہ (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) فرماتے ہیں:
’’آج کے دور میں جدید ذرائع ابلاغ نے جہاں انسانوں کوترقی کی راہوں پر ڈالا ہے وہاں انٹرنیٹ اور ٹی وی چینلز سے بہت سی برائیاں بھی ماحول کا حصہ بن گئی ہیں، آئے دن نئے نئے فیشن متعارف ہو رہے ہیں اور اُن میں سے بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو ایک مہذب قوم ہرگز اختیار نہیں کر سکتی۔اپنے بچوں پر بچپن سے نگاہ رکھیں اور ان کی سوچیں اور طرز زندگی اسلامی اقدار کے مطابق بنائیں۔
(روزنامہ الفضل 3 مارچ 2010ء صفحہ2)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مزید فرمایا
’’بہت سے والدین اپنی اولاد کے لئے فکر مند اور پریشان رہتے ہیں اور معاشرے کی برائیوں سے اپنی اولاد کو محفوظ رکھنے کی راہیں تلاش کرتے ہیں۔قرآن شریف نے ان کی اس پریشانی کا حل نماز بتایا ہے۔ یعنی نماز بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔‘‘
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’خدا کے حکموں کو بے قدری سے نہ دیکھو، موجودہ فلسفہ کا زہر تم پر اثر نہ کرے ایک بچےکی طرح بن کر اس کے حکموں کے نیچے چلو، نماز پڑھو، نماز پڑھو کہ وہ تمام سعادتوں کی کنجی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خواتین کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا:
’’پھر تلاوت قرآن کریم ہے اس میں بھی باقاعدگی ہونی چاہیئے روزانہ صبح کے وقت ہر احمدی گھر سے تلاوت کی آواز اٹھنی اور سنائی دینی چاہیئے……… تلاوت قرآن کریم یقیناً ایک ایسا بابرکت اور با اثر عمل ہے کہ جس سے انشاء اللہ آپ کی آئندہ نسلیں سنور جائیں گی۔‘‘
پس بدعات کا دروازہ اس زمانے میں اتنا کھل چکا ہے کہ مسلمانوں کی حالت دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتا ہے اور اس کے علاج کی طرف لوگ آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ پس اللہ کی وحدانیت پر ایمان لاؤ۔ نمازیں باقاعدہ پڑھو، تہجد بھی پڑھو، اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کو مقدم رکھو جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے ہر حکم کو مقدم رکھا۔ لوگوں کے ساتھ اخلاق، نرمی اور حسن سلوک سے پیش آؤ۔ برداشت اور تحمل پیدا کرو، لوگوں کے دل جیتنے والی باتیں کریں۔ نہ کہ ہم خونی مہدی کا انتظار کر رہے ہیں۔ بدرسومات جنہوں نے معاشرے میں جڑ پکڑ ی ہے سے توبہ کریں۔ اس کی جگہ وہ نیکیاں اختیار کریں جن کے کرنے کا اللہ اور اس کے رسول نے حکم دیا ہے۔ قرآن کریم پرپورا پورا عمل کریں۔ یہ نہیں کہ جب مصیبت پڑ جائے پھر لوگوں سے پوچھتے پھریں کہ ہمیں کون سا وظیفہ کرنا چاہیئے۔ کون سی سورت پڑھیں وغیرہ۔
ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت 29 اپریل 2011ء میں صفحہ A12 پر ہماری ایک خبر اس عنوان سے شائع کی ہے۔
’’چینو کی مسجد 8 مئی کو خون کے عطیہ دینے کا پروگرام منعقد کر رہی ہے‘‘
اخبار لکھتا ہے کہ 8 مئی کو مسجد چینو میں خون کے عطیہ جات اکٹھے کرنے کے لئے امریکہ کی دو آرگنائزیشن کے ساتھ مل کر پروگرام کر رہی ہے۔ جو بھی خون کا عطیہ دے گا یہ آرگنائزیشن ان کے بچوں کے لئے واٹر پارک کا ٹکٹ مفت مہیا کرے گی۔ خون کے عطیہ جات کے لئے پروگرام دوپہر ایک بجے سے شام 6 بجے تک ہوگا۔ جو صحت مند نوجوان ہیں اور جن کی عمر 15 سال سے اوپر ہے ان کو ترغیب دی گئی ہے کہ اس کارِ ثواب میں حصہ لیں۔ اس آرگنائزیشن کا نام Life Steam ہے۔
نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 5 تا 11 مئی 2011ء میں صفحہ 12 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’توہین رسالت اور مرتد کی سزا۔ قرآن و سنت و حدیث نبوی کی روشنی میں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون میں خاکسار نے لکھا ہے کہ اسلام قبول کرنے کے بعد کفر کی طرف لوٹ جانا انتہائی مکروہ اور قبیح فعل ہے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کسی کلمہ گو سے ناممکن ہے۔ اسلام تو ایک امن پسند، اخوت اور محبت کا درس دینے کا مذہب ہے۔ اسلام نے ہر ایک کے لئے ضابطہ اخلاق بھی مقرر کئے ہیں۔ اگر کچھ قوانین اسلام کو ماننے والوں کے لئے ہیں تو پھر کچھ قوانین کفر اختیار کرنے والوں کے لئے بھی مقرر ہیں۔ لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیئے کہ اسلام ایک بین الاقوامی مذہب ہے۔ اس کی تعلیمات سب کے لئے اور سب جہانوں کے لئے اور سب وقتوں کے لئے ہیں۔
مغرب آج اسلام پر معترض ہے کہ اسلام مذہبی آزادی نہیں دیتا۔ اور اس پر سب سے بڑی مصیبت خود مسلمانوں کی طرف سے ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اسلام جبر و اکراہ روا رکھتا ہے۔ بلکہ بعض مکتبہ فکر تو یہی کہتے ہیں کہ اسلام پھیلا ہی تلوار کے زور سے ہے۔ نہ کہ اپنی خوبصورت تعلیم کی وجہ سے یا روحانی تعلیم کے اثرات کی وجہ سے۔ مغرب کا یہ نظریہ مسلمانوں کی بعض قرآنی آیات کی غلط معانی اور تشریح کی وجہ سے ہے۔ حالانکہ قرآن کریم یہ تعلیم دیتا ہے۔
سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’دین میں کوئی جبر نہیں‘‘
یہ آیت بڑے زور سے اعلان کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نےمذہب کے بارے میں جبر جائز نہیں رکھا۔ ہر شخص کو مکمل مذہبی آزادی دی ہے۔ کیونکہ یہ انسان اور بندے کا معاملہ ہے۔ زبردستی کسی کا ایمان بدلنے کا اشارہ تک نہیں ہے۔
سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
’’یقیناً وہ لوگ جنہوں نے اپنے ایمان لانے کے بعد کفر کیا پھر کفر میں بڑھتے گئے۔ اُن کی توبہ ہرگز قبول نہیں کی جائے گی اور یہی وہ لوگ ہیں جو گمراہ ہیں‘‘
اس آیت میں ایمان لانے کے بعد کفر اختیار کرنے اور پھر کفر میں بڑھتے چلے جانے کا ذکر ہے۔
آپ بتائیں کہ اگر ایمان لانے کے بعد کوئی کافر ہوجائے اور اس کی سزا گردن زنی ہے تو پھر وہ کیسے کفر میں بڑھتے چلے جائیں گے۔ اس کے صاف معانی یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص مرتد ہوجائے تو اس کی سزا گردن زنی نہیں ہے۔
سورۃ النساء کی آیت میں یہ ارشاد ربانی ہے:
’’یقیناً وہ لوگ جو ایمان لائے پھر انکار کردیا۔ پھر ایمان لائے پھر انکار کر دیا۔ پھر کفر میں بڑھتے چلے گئے۔ اللہ ایسا نہیں کہ انہیں معاف کردے اور انہیں راستہ کی ہدایت دے‘‘
یہ آیت بھی باقی آیات کی طرح اس عقیدہ کی نفی کرتی ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے۔ اس کا فیصلہ اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ جاہل مولویوں اور ان کے پیروکاروں کو اختیار نہیں دیا گیا کہ اس پر ہلّہ بول دیا جائے اور اسے قتل کر دیا جائے۔ پس قرآن کریم تو علی الاعلان یہ بات واضح کررہا ہے کہ ایک تو مذہب میں جبر و زیادتی نہیں دوسرے یہ کہ اگر کوئی شخص مسلمان ہو کر پھر کافر ہوجائے۔ تو اس کی سزا قتل اور گردن زنی ہرگز نہیں ہے۔
دوسری بات مضمون کے عنوان میں یہ ہے کہ ’’توہین رسالت‘‘ بات یہ ہے کہ اگر کوئی شخص حقیقی مسلمان ہے تو وہ ایسی بے ہودہ اور لغو حرکت نہیں کرے گا۔ لیکن اگر کسی نے اپنی جہالت اور ناسمجھی میں کوئی ایسا کلمہ منہ سے نکال دیا ہے تو اس بارے میں قرآن کریم کا کیا یہ ارشاد ہے کہ اُسے کوڑے مارے جائیں۔ اور اسے بھی قتل کردیا جائے؟
سب سے پہلے تو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ کو دیکھنا ہوگا۔ کیونکہ آپؐ کی زندگی میں بے شمار ایسے واقعات ہوئے کہ لوگ ہتک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب ہوئے۔ کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مروا دیا؟ طائف کا واقعہ کون نہیں جانتا؟
پھر ایک حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی اپنے نفس کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا۔ انسان انتقام اسی وقت لیتا ہے جب اس کی ہتک کی جائے اسے بے عزت کیا جائے۔ قرآن کریم میں تو آپ کے عمدہ اخلاق کو ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ وہ بڑھیا جو آپؐ پر گند پھینکتی تھی۔ کیا یہ ہتک رسول کی مرتکب نہ تھی؟ لیکن آپؐ نے کیا نمونہ اختیار کیا؟
پھر حدیبیہ کی صلح کے موقعہ پر جب کفار نے کہا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دو۔ اور حضرت علیؓ نے مٹانے سے انکار کردیا تھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ’’رسول اللہ‘‘ کا لفظ مٹادیا۔ کیا نعوذ باللّٰہ یہ ہتک رسول نہ تھی؟
پھر منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی بن سلول نے کتنی مرتبہ آپؐ کی ہتک فرمائی؟ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مروا دیا؟
میں کہاں تک آپؐ کے اس اخلاق محمدی کا تذکرہ کروں۔ یہ اخلاق کا سمندر تو ختم ہونے والا نہیں ہے۔ مگر مولویوں کی عقل اور سمجھ میں یہ بات نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ نے توقرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرمایا ہے کہ یہ لوگ جو باتیں کرتے اور ہتک کرتے ہیں اس پر تو صبر کر۔
پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو صبر کی تعلیم ہے۔ آپؐ کے ماننے والے کیسے بے صبری دکھائیں گے؟اور اگر خدانخواستہ کسی سے آپؐ کی شان میں گستاخی ہوجائے تو اس پر دکھ، ملال، تکلیف اور بےچینی تو ضرور ہوگی مگر ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونے کونہیں چھوڑ سکتے۔ کیونکہ ہمیں بھی حکم ہے کہ آپؐ کے نمونہ کو اختیار کریں۔
(بقیہ آئندہ بروز بدھ ان شاء اللہ)
(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)