• 25 اپریل, 2024

قرآن کریم کی حکیمانہ ترتیب

تبرکات: حضرت میر محمد اسحاق رضی اللہ عنہ
(قسط نمبر4)

قرآن مجید یقینا خدا کی کتاب ہے اور یقیناً وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یا کسی اور انسان کی تصنیف نہیں اور اس دعویٰ کے ہمارے پاس بیسیوں نہیں سینکڑوں دلائل اور ثبوت ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس پاک و بزرگ کتاب میں آئندہ زمانہ کی خبریں دی گئی ہیں اور کوئی شخص خواہ وہ زمین کے تمام انسانوں سے افضل ہو جیسے مکہ کا رسول امینؐ یا آسمان کے تمام فرشتوں کا سردار ہو۔ جیسے ساتویں آ سمان کا جبریل امین۔ آئندہ کی خبر دینے سے عاجز بلکہ آئندہ کی خبر معلوم کرنے سے بھی ہمہ تن عاجز ہے۔ چنانچہ عجیب اتفاق ہے کہ ایک دفعہ بیسیوں بلکہ غالباً سینکڑوں صحابہ کی موجودگی میں آسمان کا جبریل امین اور زمین کا رسول امین دونوں ایک مجلس میں استاد شاگرد کی طرح آمنے سامنے بیٹھ کر سوال و جواب کرنے لگے۔ جب آئندہ کی خبروں کے علم کا ذ کر چلا تو مجیب نے سائل کو یوں جواب دیا کہ
مَا الْمَسْئُوْلُ عَنْھَا بِاَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ۔ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب سؤال جبریل النبیؐ عن الایمان) اے جبریل! آئندہ کی باتیں نہ میں جانتا ہوں نہ تُو جانتا ہے۔

بارگاہ الٰہی میں انتہائی عجز کا اظہار

سبحان اللّٰہ عاجزی کا کیسا اظہار ہے اور بے چارگی کی کیسی نمایاں مثال ہے کہ آسمان کا سب سے بڑا شخص اور زمین کا سب سے افضل انسان دونوں مل کر نہایت عاجزانہ اور خاشعانہ لہجہ میں اقرار کرتے ہیں کہ گو ہمیں اور سب کچھ آتا ہے۔ دین ہمیں سے تھا۔ ہمیں نے ایمان کا بیج بویا۔ ہمارے ہاتھ سے ہی وہ بار آور ہوا۔ سارے فرشتے اور تمام انسان ہماری اطاعت کے مکلف ہیں۔ خدا کے بعد اے جبریل تو فرشتوں میں اور میں انسانوں میں سب سے افضل و اکمل ہیں۔ مگر اس علام الغیوب کے آگے کیسے عاجز اور بے چارہ ہیں کہ کل کی خبر بلکہ کل کیا ہمیں تو اگلے گھنٹہ بلکہ اگلے منٹ بلکہ اگلے سیکنڈ کا بھی علم نہیں۔ سبحان اللہ۔ کیسی عاجزی اور کیسے خشوع اور کس درجہ تذلل کا اقرار ہے۔ خدا کی قسم مجھے رونا آتا ہے جب میں اس حدیث کو پڑھتا ہوں اور تصور میں لاتا ہوں کہ تمام فرشتوں کا سردار انسانی شکل میں مجسم ہو کر مدینہ میں تمام انسانوں کے سردار کے سامنے دوزانو ہو کر سوال و جواب کرتے ہوئے پوچھتا ہے کہ حضور! قیامت کب ہو گی؟ اور حضور جواب دیتے ہیں کہ اے پوچھنے والے یہ تو غیب کی خبر ہے جو نہ تجھے معلوم اور نہ مجھے معلوم۔ مجھے رونا اس لئے آتا ہے کہ جب سب سے افضل اور سب کا سردار اور سب سے بہتر اور سب سے نیک اور سب سے عالم اور خدا کو سب سے زیادہ پیارا خدا کی بارگاہ میں عاجزی کا اقراری اور تذلل کا اظہار کرنے والا ہے تو ہم نالائق کس گنتی میں ہیں؟ مگر افسوس کہ باوجود جہالت، کم علمی اور نالائقی کے اپنا علم جتانے اور اپنی قابلیت کا سکہ جمانے میں ہم سب سے آگے ہوتے ہیں۔ کیا ہی سچ فرمایا حضرت امام مالک نے کہ حقیقی عالم وہ ہے جو سو سوالوں میں سے ننانوے کے جواب میں یوں کہے کہ مجھے ان کا جواب نہیں آتا۔ مگر ہماری یہ حالت ہے کہ کسی سائل سے یہ کہنا کہ ہمیں یہ مسئلہ نہیں آتا مر جانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے اور عالم کی یہ نشانی سمجھی جاتی ہے کہ ہر سوال کا جواب ضرور دے۔ خواہ جواب آتا ہو یا نہ آتا ہو۔ خواہ جواب صحیح ہو یا غلط۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

قرآن خدا تعالیٰ کی کتاب ہے

غرض ایک دلیل اس امر کی کہ قرآن خدا کی کتاب ہے کسی انسان کی تصنیف نہیں یہ ہے کہ اس میں قیامت تک کے واقعات اور خبریں بیسیوں نہیں سینکڑوں درج ہیں جو تیرہ سو برس سے آج تک پوری ہوتی چلی آئیں۔ اور آج سے قیامت تک پوری ہوتی چلی جائیں گی۔ لیکن اگر یہ کتاب کسی انسان کی تصنیف ہوتی تو اس میں غیب کے واقعات نہ ہوتے اور اگر ہوتے بھی تو وہ اپنے وقت پر پورے نہ ہوتے۔ اسی طرح قرآن مجید کی بے نظیر فصاحت اس کی بے مثال بلاغت اس کا نزول کے وقت عرب میں ایک غیر معمولی انقلاب برپا کر دینا۔ اس میں کسی صحیح علم کے خلاف کسی بات کا نہ ہونا، اس کی غیرمعمولی حفاظت، اس کی شریعت کا کامل ہونا، اس کی تعلیم کا عالمگیر ہونا اور باوجود ہزاروں متخالف حالات وارد ہونے کے اس میں اختلاف نہ ہونا۔ غرض بے شمار دلائل اس کے الہامی ہونے اور انسانی تصنیف نہ ہونے پر دیئے جا سکتے ہیں جو دنیا کی کسی آسمانی کتاب کو نصیب نہیں۔

قرآن کریم کی ترتیب

اس وقت جو مضمون میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ اس پاک و برتر صحیفہ کی ترتیب ہے۔ خدا کے پاک و وجیہ منہ کی قسم کہ اس بے نظیر کتاب کے ہر مضمون میں ایسی ایسی دلربا اور عجیب و غریب مسحور کن اور موزوں و لطیف ترتیبیں نظر آتی ہیں کہ انہیں دیکھ کر انسان عش عش کر اُٹھتا ہے اور اسے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ کتاب یقینا خدا ہی کے پاک اور مقدس منہ سے نکلی ہے۔ کیونکہ انسانی دماغ اس کے خیال سے، آدم زاد کا منہ اس کے بولنے سے اور بشر کا قلم اُسے معرض تحریر میں لانے سے سراسر قاصر ہے۔ قرآن مجید کی ترتیبوں پر جب غور کیا جائے تو ایک عجیب عالم نظر آتا ہے کہ کہیں تو اس کی ترتیب زمانہ کے لحاظ سے ہوتی ہے یعنی جو واقعہ پہلے ہوا ہے اس کا ذکر پہلے ہوتا ہے اور جو واقعہ بعد میں وقوع پذیر ہوتا ہے اس کا ذکر بعد میں کیا جاتا ہے۔ لیکن کبھی ترتیب یوں نہیں ہوتی بلکہ واقعات کی اہمیت کے لحاظ سے دی جاتی ہے۔ یعنی پہلے اہم پھر اس سے کم پھر اس سے کم۔ لیکن کبھی اس کے برعکس ادنیٰ سے اعلیٰ اور غیر اہم سے اہم کی طرف قدم اُٹھایا جاتا ہے۔ پھر کبھی محسوسات سے غیر محسوسات اور کبھی غیر محسوسات سے محسوسات کی طرف راہ اختیار کی جاتی ہے۔ یا کبھی زمین سے پہاڑ، پہاڑ سے بادل اور بادل سے آسمان تک یعنی انتہائی پستی سے انتہائی بلندی تک اور کبھی اس کے برعکس اوپر سے نیچے تک راہ دکھائی جاتی ہے۔ غرض ایسی ایسی دلرُبا ترتیبیں اس کتاب اقدس میں ہیں کہ پڑھ کر بے اختیار اسے چومنے کو دل چاہتا ہے۔ کیا خوب فرمایا قرآن مجید کے جواہرات کو پرکھنے والے ایک جوہری نے ؎

دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے

ایک مثال

اس مضمون میں بطور نمونہ قرآن مجید کی ایک ترتیب جو ازبس لطیف اور ازحد دلچسپ ہے پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الضحیٰ میں فرماتا ہے۔

اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی O وَ وَجَدَکَ ضَآلًّا فَھَدٰیO وَ وَجَدَکَ عَآئِلًا فَاَغْنٰیOفَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلاَ تَقْھَرْO وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلاَ تَنْھَرْO وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْO (الضحٰی:7-12)

کیا خدا نے تجھے بغیر سرپرست کے پا کر تجھے بہتر سے بہتر سرپرست عطا نہیں فرمائے؟ اور تجھے صحیح راستہ کا متلاشی پا کر ایک صحیح راستہ تجھے نہیں دکھایا؟ اور تجھے بے سرو سامان پا کر ہم نے تجھے امیر کبیر اور سروسامان والا نہیں بنا دیا؟ پس جب یہ سب کچھ سچ ہے تو تیرے عہد میں یتیموں پر قہر نہ ہو۔ اور کسی سائل کو دھتکارا نہ جائے۔ اور جو انعامات تجھ پر خدا نے کئے ہیں ان کا خوب چرچا کر۔

ان آیات میں خداتعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مخاطب کر کے آپ کی زندگی کے تین واقعات بیان کئے ہیں اور تینوں واقعات پر تین نصیحتیں حضور کو کی ہیں۔ اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ خدا کے کلام کے اس حصہ میں کونسی ترتیب پائی جاتی ہے؟ کیا اہم سے غیر اہم۔ اعلیٰ سے ادنیٰ یا ادنیٰ سے اعلیٰ اور غیر اہم سے اہم کا طریق اختیار کیا گیا ہے۔ یا روحانیات سے جسمانیات کی طرف یا جسمانیات سے روحانیات کی طرف قدم اُٹھایا گیا ہے۔ غرض ہمیں غور کرنا چاہئے کہ اس کلام میں یہ ترتیب ہے۔

سو جاننا چاہئے کہ باقی قرآن کی طرح یہ حصہ بھی بے ترتیب نہیں بلکہ نہایت اعلیٰ اور دلکش ترتیب پر مشتمل ہے اور وہ زمانی ترتیب ہے یعنی واقعات اپنے وقوع کے زمانہ کے لحاظ سے ذکر کئے گئے ہیں جو واقعہ پہلے ہوا وہ پہلے بیان کیا گیا ہے اور جو پیچھے ہوا وہ پیچھے بیان کیا گیا ہے اور اسی طرح تینوں نصیحتوں کی بھی یہی ترتیب ہے کہ پہلے وہ نصیحت کی گئی ہے جو پہلے واقعہ سے تعلق رکھتی ہے۔ اور دوسری نصیحت دوسرے واقعہ سے اور تیسری نصیحت تیسرے واقعہ سے۔ پس کیا یہ کلام اور اس کی عجیب و غریب اور نہایت دلکش ترتیب دلالت نہیں کرتی کہ یہ کلام زمین کے ایک انسان کا نہیں بلکہ آسمان کے ذوالجلال والاکرام قادر مطلق بادشاہ کا ہے۔

اجمال کی تفصیل

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ حضور علیہ السلام کی زندگی کے تین بڑے دور ہیں۔ اول پیدائش سے دعویٰ نبوت تک۔ دوم دعویٰ نبوت سے ہجرت تک۔ سوم ہجرت سے وفات تک۔ چنانچہ بڑے بڑے مؤرخ اپنی کتابوں میں تاریخی واقعات بیان کرتے وقت یہی موٹی تقسیم اختیار کرتے ہیں اور حضور کی زندگی کے تین دور تجویز کر کے ہر دور کے واقعات الگ الگ بیان کرتے ہیں۔ پس حضور کی زندگی کے تین بڑے دور ہیں اور ان آیات میں انہی تین دوروں کو مدنظر رکھ کر ہر دور کے حالات خلاصۃً بیان کئے گئے ہیں۔

رسول کریمؐ کی زندگی کا پہلا دور

پہلا دور پیدائش سے دعویٰ نبوت تک کا ہے۔ اس کے متعلق صرف ایک فقرہ میں سارا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا اور فرمایا۔ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰیO (الضحٰی:7) یعنی اے نبی! تو یقینا خدا کا مقبول بندہ ہے اور خدا کو منظور ہے کہ تو باوجود سر پرستوں کے نہ رہنے کے پھر دنیا میں موجود رہے کیونکہ ازل سے تیرے مقدر میں تھا کہ تو دنیا کا آخری اور کامل نبی ہو۔ تیرے بغیر دنیا میں ظلمت اور اندھیرا ہے۔ تو ہی ہے جس نے ساری دنیا کو روشن کرنا اور نجات دینا ہے اور ثبوت اس امر کا یہ ہے کہ اگر تیری زندگی خدا کو پیاری نہ ہوتی اور تیرا باقی رکھنا خدا کو مقصود نہ ہوتاتو کیا وجہ ہے کہ باوجود گوناگوں مصیبتوں کے خدا نے ہر چکر سے تجھے باہر نکالا اور ہر مصیبت سے تجھے مخلصی بخشی۔ اور تیری ہر مشکل کو اس نے دُور کیا۔ اس جگہ خدا نے یتیم کا لفظ استعمال کیا ہے اور یتیم اسے کہتے ہیں جس کا باپ اسے بچپن میں چھوڑ کر فوت ہو جائے اور باپ چونکہ سرپرست ہوتا ہے اس لئے حقیقت اس لفظ کے مفہوم کی یہ ہے کہ بچہ اپنے سرپرستوں سے محروم ہو جائے۔ پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی! تو کبھی ضائع نہ ہو گا۔ تیرے مخالف تجھے اور تیرے سلسلہ کو کبھی معدوم نہ کر سکیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت تیرے مشن کو فنا نہ کر سکے گی۔ یہ ہمارا دعویٰ ہے اور اس دعویٰ کا ثبوت یہ ہے۔ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰیO (الضحٰی:7)

دادا کی سرپرستی میں

یعنی اگر تو ضائع ہونے والا وجود ہوتا تو تیری زندگی میں بیسیوں ایسے واقعات پیش آئے کہ تو ضائع ہونے لگا تھا۔ مگر ہم نے تجھے بچا لیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تو ضائع ہونے کے لئے پیدا نہیں ہوا اور نہ معدوم ہونے کے لئے تو ظہور پذیر ہوا اور نہ تباہ و برباد ہونے کے لئے تیری ذات منصہ شہود پر آئی۔ کیونکہ ہم نے دعویٰ نبوت سے پہلے چالیس سالہ زندگی میں تجھے ہر ہلاکت سے بچایا۔ ہر مصیبت سے چھڑایا اور ہر مشکل کو دور کیا۔ مثلاً تو اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تو تیرا باپ دو ماہ قبل تجھے حمل ہی میں چھوڑ کر فوت ہو چکا تھا۔ مگر کیا تو یتیمی میں ضائع ہو گیا۔ نہیں بلکہ فَاٰوَیٰ ہم نے تیرے دادا عبدالمطلب کو تیرا سرپرست بنایا اور سرپرست بھی ایسا کہ تو مکہ کے اس سب سے بڑے بارُعب رئیس کے ساتھ اس کی پُرہیبت مسند پر اس کے پہلو بہ پہلو بیٹھتا۔ مگر تیرے جوان چچوں کو یہ جرأت نہ ہوتی کہ وہ اپنے باپ کی مسند پر قدم بھی رکھ سکیں۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ بِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم۔

تاریخوں میں لکھا ہے کہ حضور کے پیدا ہوتے ہی عبدالمطلب جو مکہ کا واحد مختار کل رئیس تھا۔ خود سیدہ آمنہ کے کمرہ میں جا کر اپنے نورانی پوتے کو اپنی گودی میں اٹھا کر سیدھا خانہ کعبہ میں لے گیا۔ وہاں خود اپنے ہاتھ سے گھٹی دی اور حضور کا نام محمدؐ تجویز کیا۔ پھر بڑے بڑے اکابر اور عمائد جمع ہوئے اور دادا نے اپنے پیارے پوتے کی مبارکبادیاں ان سے لیں۔ اور حضور کو آٹھ برس کی عمر تک براہ راست اپنی نگرانی میں لیا۔ حالانکہ عبدالمطلب کے گیارہ جوان بیٹے موجود تھے مگر جو پیار و محبت اور قرب پوتے کو حاصل تھا۔ وہ حقیقی بیٹوں کے لئے بھی جائے رشک تھا۔ لکھا ہے کہ اگر کوئی ناواقف شخص حضور سے کہتا کہ آپ دادا کی مسند پر نہ بیٹھیں تو عبدالمطلب اسے روک دیتے اور کہتے کہ اسے میرے پاس آنے سے مت روکو۔ پس کیسی آب و تاب سے یہ آیت حضور کی زندگی پر چسپاں ہوتی ہے کہ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰی O یعنی ہم نے تجھے بغیر سرپرست کے پایا۔ مگر یہ حالت قائم نہ رہی بلکہ تجھے فوراً بہتر سے بہتر سرپرست عطا فرمایا۔

جاننا چاہئے کہ فَاٰوٰ یکی ف عربی زبان کی رُو سے یہ معنی دیتی ہے کہ غیر سرپرستی کی حالت دیر تک نہ رہی بلکہ اِدھر غیر سرپرستی ہوئی اور اُدھر بہتر سے بہتر سرپرست دے دیا گیا۔ چنانچہ واقعات بھی یہی بتاتے ہیں کہ حضور ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تو چونکہ باپ فوت ہو چکا تھا اس لئے حضور کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہ تھا۔ مگر اِدھر پیدائش ہوئی اُدھر دادا جیسا مالدار رئیس محبت کرنے والا سرپرست آیا اور گود میں اٹھا کر خانہ کعبہ میں لے گیا۔

چچا کی سرپرستی میں

پھر جب حضور کی عمر آٹھ برس کی ہوئی تو دادا کا سایہ سر سے اُٹھ گیا اور حضور پھر ایک دفعہ بغیر سرپرست کے رہ گئے۔ مگر یہ حالت بھی فوراً دور ہو گئی اور حضور کو آپ کا سب سے بڑا چچا جو عبدالمطلب کے بعد مکہ کا رئیس چنا گیا تھا اپنے گھر لے گیا اور حضور کی وہ سرپرستی کی کہ ہم مسلمانوں کا رواں رواں قیامت تک اس کا شاگرد رہے گا۔ ابوطالب کو حضور سے ایسی محبت تھی کہ ابھی حضور 9 برس کے تھے کہ ابوطالب کو ملک شام کا سفر درپیش ہوا۔ ابوطالب نے اس سفر میں اپنے کسی بیٹے کو ہمراہ نہ لیا بلکہ صرف حضور کو اپنے ہمراہ لیا۔ چنانچہ حضور ہر سفر و حضر میں اپنے شفیق و مشفق چچا کے ساتھ رہے اور چچا کو اپنے بیٹوں سے وہ محبت نہ تھی جو اسے حضور سے تھی۔ اور ابوطالب کی یہ سرپرستی دعویٰ نبوت بلکہ اس کے بعد کئی سال تک جاری رہی۔

مالی سرپرستی

لیکن باوجود رئیس ہونے کے ابو طالب کی مالی حالت اچھی نہ تھی۔ اس لئے خدا نے حضور کی مالی سرپرستی کا بھی انتظام کر دیا اور وہ اس طرح کہ طیبہ طاہرہ مقدسہ خدیجہ جو ایک نہایت عقلمند اور نہایت مالدار بیوہ تھیں۔ انہوں نے پہلے تو حضور کو اپنی تجارت کے سلسلہ میں منسلک کیا۔ پھر حضور کی خوبیاں دیکھ کر حضور سے شادی کر لی۔ جبکہ وہ چالیس سالہ اور حضور پچیس سال کے تھے۔ اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایسی مالی سرپرستی فرمائی کہ حضور معاش کی طرف سے بالکل فارغ و سبکدوش ہو گئے اور سیدہ خدیجہ نے اپنی زندگی بھر یعنی دعویٰ نبوت کے آٹھ سال بعد تک حضور پر اپنا بے شمار مال خرچ کر کے کبھی حضور کو گزارہ کی طرف سے متفکر نہ ہونے دیا۔ پس اس نہایت مالدار خاتون نے 23 سال تک حضور کی وہ مالی سرپرستی کی کہ ہم مسلمانوں کی ہڈیاں بھی قبر میں اس کی شکر گزار ہوں گی۔ غرض پیدائش سے دعویٰ نبوت تک یعنی چالیس سال کے لمبے عرصہ تک خداتعالیٰ نے سرپرستی فرمائی۔ اور جب کوئی سرپرست غائب ہوا فوراً بلاتوقف ایک دوسر اسرپرست بلکہ پہلے سے بہتر سرپرست حضور کو عطا فرمایا۔ کیوں نہ ہو جبکہ وہ خود فرماتا ہے۔ اَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیْمًا فَاٰوٰیO یعنی جب کبھی تو بغیر سرپرست کے ہوا ہم نے فوراً بلاتوقف تجھے بہتر سے بہتر سرپرست عنایت فرمایا۔

(روزنامہ الفضل 2اکتوبر 1941)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 نومبر 2020