• 26 اپریل, 2024

؎ بدي پر غير کي ہر دم نظر ہے

؎بدي پر غير کي ہر دم نظر ہے
مگر اپني بدي سے بے خبر ہے

’’ہماري جماعت کو چاہئے کہ کسي بھائي کا عيب ديکھ کر اس کے لئے دعا کريں۔ليکن اگروہ دعا نہيں کرتے اور اس کو بيان کرکے دُور سلسلہ چلاتے ہيں تو گناہ کرتے ہيں۔ کون سا ايسا عيب ہے جو کہ دُور نہيں ہو سکتا۔ اس لئے ہميشہ دعا کے ذريعے سے دوسرے بھائي کي مدد کرني چاہئے۔

ايک صوفي کے دو مريد تھے۔ ايک نے شراب پي اور نالي ميں بيہوش ہو کر گرا۔ دوسرے نے صوفي سے شکايت کي۔ اس نے کہا توُ بڑا بے ادب ہے کہ اس کي شکايت کرتا ہے اور جا کر اٹھا نہيں لاتا۔ وہ اُسي وقت گيا اور اسے اٹھا کر لے چلا۔ کہتے تھے کہ ايک نے تو بہت شراب پي ليکن دوسرے نے کم پي کہ اسے اٹھا کر لے جا رہاہے۔ صوفي کا يہ مطلب تھا کہ توُ نے اپنے بھائي کي غيبت کيوں کي۔

آنحضرت ﷺ سے غيبت کا حال پوچھا تو فرمايا کہ کسي کي سچي بات کا اس کي عدم موجودگي ميں اس طرح سے بيان کرنا کہ اگر وہ موجود ہو تو اسے برا لگے غيبت ہے۔ اور اگر وہ بات اس ميں نہيں ہے اور توبيان کرتا ہے تو اس کا نام بہتان ہے۔ خداتعاليٰ فرماتا ہے: وَ لَا يَغۡتَبۡ بَّعۡضُکُمۡ بَعۡضًا ؕ اَيُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ يَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِيۡہِ مَيۡتًا (الحجرات: 13) اس ميں غيبت کرنے کو ايک بھائي کا گوشت کھانے سے تعبيرکيا گيا ہے۔ اور اس آيت سے يہ بات بھي ثابت ہے کہ جو آسماني سلسلہ بنتا ہے ان ميں غيبت کرنے والے بھي ضرور ہوتے ہيں۔ اور اگر يہ بات نہيں ہے تو پھريہ آيت بيکار جاتي ہے۔ اگر مومنوں کو ايسا ہي مطہّر ہونا تھا اور ان سے کوئي بدي سرزد نہ ہوتي تو پھر اس آيت کي کيا ضرورت تھي؟۔

 بات يہ ہے کہ ابھي جماعت کي ابتدائي حالت ہے۔ بعض کمزور ہيں جيسے سخت بيماري سے کوئي اٹھتا ہے۔ بعض ميں کچھ طاقت آگئي ہے۔ پس چاہئے کہ جسے کمزور پاوے اسے خفيہ نصيحت کرے۔ اگر نہ مانے تو اس کے لئے دعا کرے۔ اور اگر دونوں باتوں سے فائدہ نہ ہو تو قضاء و قدر کا معاملہ سمجھے۔ جب خداتعاليٰ نے ان کو قبول کيا ہوا ہے تو تم کو چاہئے کہ کسي کا عيب ديکھ کر سردست جوش نہ دکھلايا جاوے۔ ممکن ہے کہ وہ درست ہو جاوے۔ قطب اور ابدال سے بھي بعض وقت کوئي عيب سرزد ہو جاتا ہے۔ بلکہ لکھا ہے اَلْقُطْبُ قَدْ يَزْنِيْ، قطب سے بھي زنا ہو جاتا ہے۔ بہت سے چور اور زاني آخر کار قطب اور ابدال بن گئے۔ جلدي اور عجلت سے کسي کو ترک کر دينا ہمارا طريق نہيں ہے۔ کسي کا بچہ خراب ہو تو اس کي اصلاح کے لئے وہ پوري کوشش کرتا ہے۔ ايسے ہي اپنے کسي بھائي کو ترک نہ کرنا چاہئے بلکہ اس کي اصلاح کي پوري کوشش کرني چاہئے۔ قرآن کريم کي يہ تعليم ہرگز نہيں ہے کہ عيب ديکھ کر اسے پھيلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو۔ بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ (البلد: 18) کہ وہ صبر اور رحم سے نصيحت کرتے ہيں۔ مَرْحَمَۃ يہي ہے کہ دوسرے کے عيب ديکھ کر اسے نصيحت کي جاوے اور اس کے لئے دعا بھي کي جاوے۔ دعا ميں بڑي تاثير ہے۔ اور وہ شخص بہت ہي قابل افسوس ہے کہ ايک کے عيب کو بيان تو سَومرتبہ کرتا ہے ليکن دعا ايک مرتبہ بھي نہيں کرتا۔ عيب کسي کا اس وقت بيان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم چاليس دن اس کے لئے رو رو کر دعا کي ہو……..‘‘

 (ملفوظات جلد چہارم صفحہ60 – 61 ايڈيشن 1988ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 نومبر 2021

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ