زمیں سجدہ گاہوں کی تر کر چکے ہیں
فدا اپنا سب مال و زر کر چکے ہیں
ہو صحرا کی آندھی، سمندر کا طوفاں
مقابل پہ ان کے، سفر کر چکے ہیں
یہ دل جب نہ مانیں، سمجھ لینا پھر تم
دلوں پر زمانے اثر کر چکے ہیں
یہ زہریلی باتیں، یہ طنزوں کے نشتر
یہ چھلنی ہمارے جگر کر چکے ہیں
تماشے پہ اپنے نچائے یہ دنیا
ہوا و ہوس دل میں گھر کر چکے ہیں
کروڑوں بھٹکتے ہیں راہوں میں لیکن
مبارک جو منزل کو سر کر چکے ہیں
ہے ثاقب کی باتوں سے جانا یہ ہم نے
وہ اب زندگی کی سحر کر چکے ہیں
(ثاقب محمود)