• 20 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 2؍دسمبر 2022ء

خلاصہ خطبہ جمعہ

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 2؍دسمبر 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

اللہ اکبر! ان دونوں (ابوبکرؓ و عمرؓ) کے صدق و خلوص کی کیا بلند شان ہے، وہ دونوں ایسے (مبارک) مدفن میں دفن ہوئے کہ اگر موسیٰؑ اور عیسیٰؑ زندہ ہوتے تو بصد رشک وہاں دفن ہونے کی تمنا کرتے لیکن یہ مقام محض تمنا سے تو نہیں حاصل ہو سکتا اور نہ صرف خواہش سے عطاء کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو بارگاہ ربّ العزت کی طرف سے ایک ازلی رحمت ہے

حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت کے بعد بسلسلہ محاسن و مناقب حضرت ابوبکر صدیق ؓمزید بیان فرمایا۔

لوگوں میں سب سے بہتر اور محبوب

حضرت ابن عمر رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم لوگوں میں سے ایک کو دوسرے سے بہتر قرار دیا کرتے تھے اور سمجھتے تھے اُس وقت کہ حضرت ابوبکر ؓسب سے بہتر ہیں، پھر حضرت عمر ؓبن خطاب، پھر حضرت عثمان ؓبن عفّان۔

اظہارِ عجز

حضرت جابر ؓبن عبد الله نے بیان کیا: حضرت عمر ؓنے حضرت ابوبکر ؓسے کہا کہ اے لوگوں میں سے سب سے بہتر رسول اللهؐ کے بعد! تو حضرت ابوبکر ؓنے کہا! اگر تم ایسا کہتے ہو تو مَیں نے رسول اللهؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سورج طلوع نہیں ہوا کسی آدمی پر جو عمر سے بہتر ہو۔

معیار اطاعت و محبّت رسول اللهؐ 

حضرت عائذ ؓبن عَمرو سے روایت ہے: حضرت سلمان ؓ، حضرت صہیب ؓاور حضرت بلال ؓچند لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے کہ ابوسفیان آئے، اُس پر اُن لوگوں نے کہا: الله کی قسم! الله کی تلواروں نے الله کے دشمن کی گردن کے ساتھ ابھی تک اپنا حساب چُکتا نہیں کیا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر ؓنے کہا! کیا تم قریش کے بڑے سرداروں کے بارہ میں اِس طرح کہہ رہے ہو؟ پھر آپ ؓخود نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ بات بتائی تو آپؐ نے فرمایا کہ اے ابوبکر! شاید تم نے اُن لوگوں یعنی سلمان، صہیب اور بلال کو ناراض کر دیا ہے، اگر تم نے اُنہیں ناراض کیا تو سمجھ لو کہ تم نے اپنے ربّ کو ناراض کیا۔ اِس پر آپ ؓ اُن تینوں حضرات کے پاس آئے اور کہا کہ پیارے بھائیو! کیا مَیں نے آپ ؓکو ناراض کر دیا ہے؟ تو اُنہوں نے کہا: نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، اے ہمارے بھائی! الله آپ ؓکو معاف کرے۔

حفظِ قرآن

حضرت المصلح الموعود ؓبیان فرماتے ہیں: ابو عُبیدہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللهؐ کے مہاجر صحابہ ؓمیں سے مندرجہ ذیل کا حفظ ثابت ہے۔ ابوبکر ؓ، عمر ؓ، عثمان ؓ، علی ؓ، طلحٰہ ؓ، سعد ؓ، ابن مسعود ؓ، حُذیفہ ؓ، سالم ؓ، ابو ہریرہ ؓ، عبدالله ؓبن سائب، عبدالله  ؓبن عمر ؓ، عبدالله ؓبن عبّاس ؓ اور عورتوں میں سے عائشہ ؓ، حضرت حفصہ ؓ اور حضرت امّ سلمیٰ ؓ۔ اِن میں سے اکثر نے تو آپؐ کی زندگی میں ہی قرآن شریف حفظ کر لیا تھا اور بعض نے آپؐ کی وفات کے بعد۔

ثانی اثنین کے بارہ میں حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کی روایت

حضرت انس ؓنے حضرت ابوبکر ؓسے روایت کی: وہ کہتے تھے کہ مَیں نےنبی ؐ سے کہا اور مَیں اُس وقت غار میں تھا کہ اگر اِن میں سے کوئی اپنے پاؤں کے نیچے نگاہ ڈالے تو ہمیں ضرور دیکھ لے گا تو آپؐ نے فرمایا! ابوبکر آپ کا کیا خیال ہے اِن دو شخصوں کی نسبت جن کے ساتھ تیسرا اَلله ہو۔

محاسن اور خصوصی فضائل میں سے ایک خاص بات

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: حضرت ابوبکر صدیق ؓکے محاسن اورخصوصی فضائل میں سے ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ سفرِ ہجرت میں آپ ؓکو رفاقت کے لئے خاص کیا گیا اور مخلوق میں سے سب سے بہترین شخص یعنی آنحضرتؐ کی مشکلات میں آپ ؓاُن کے شریک تھے اور آپ ؓمصائب کے آغاز سے ہی حضورؐ کے خاص انیس بنائے گئے تھے تاکہ محبوب خدا کے ساتھ آپ ؓکا خاص تعلق ثابت ہو اور اِس میں بھید یہ تھا کہ الله تعالیٰ کو یہ خوب معلوم تھا کہ صدیق اکبر صحابہ میں سے زیادہ شجاع، متقی اور سب سے زیادہ آنحضرتؐ کے پیارے اور مردِ میدان تھے اور یہ کہ سیّد الکائناتؐ کی محبّت میں فناتھے۔ آپ ؓابتداء سے ہی حضور کی مالی مدد کرتے اور آپؐ کے اہم امور کا خیال فرماتے تھے، سو الله نے تکلیف دہ وقت اور مشکل حالات میں اپنے نبیؐ کی آپ ؓکے ذریعہ تسلی فرمائی اور الصّدیق کے نام اور نبی ثقلین کےقرب سے مخصوص فرمایا اور الله تعالیٰ نے آپ ؓکو ثانی اثنین کی خلعتِ فاخرہ سے فیضیاب فرمایا اور اپنے خاص الخاص بندوں میں سے بنایا۔

ایچ جی ویلز کی مبالغہ آرائی کی بصیرت افروز تصریح

حضرت ابوبکر ؓکے بارہ میں غیرمسلم مصنّفین کے تذکرۂ خراج عقیدت کے تناظر میں ایک انگریز مصنّف ایچ جی ویلز کی مبالغہ آرائی : یہ کہا جاتا ہے کہ اسلامی سلطنت کی اصل بنیاد رکھنے والے محمدؐ سے زیادہ ابوبکر تھے جو آپؐ کے دوست اور مددگار تھے۔ اگر محمدؐ اپنے متزلزل کردار کے باوجود ابتدائی اسلام کا دماغ اور تصور تھے (نعوذبالله) تو ابوبکر ؓاِس کا شعور اور عظم تھے، جب کبھی محمدؐ متزلزل ہوتے تو ابوبکر ؓاُن کی ڈھارس بندھاتے تھے، حضور انور ایدہ الله نے اِسے فضول گوئی اور لغو باتیں قرار دیتے ہوئے اِس بصیرت افروز پیرائے میں تصریح فرمائی۔چونکہ یہ لوگ آنحضرتؐ کے اِس اعلیٰ و ارفع مقام نبوت کی حقیقت کا ادراک اور شعور نہیں رکھتے تھے اِس لئے یہ حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمر ؓوغیرہ کی تعریف میں اِس حد تک مبالغہ آمیزی سے کام لے جاتے ہیں کہ جو کسی بھی طور پر درست نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ حضرت عمر ؓہوں یا حضرت ابوبکر ؓ، یہ سب اپنے آقا و مطاع حضرت محمد رسول اللهؐ کے وفادار اور کامل متبع اور عاشق تھے، یہ لوگ حضرت محمدؐ کے شعور نہ تھے بلکہ خادمانہ رنگ میں حضرت محمدؐ کےلئے ہاتھ اور پاؤں تھے۔ ایسا ہی دینِ اسلام آنحضرتؐ کے دماغ کا نام یا کام نہ تھا (یہ جس طرح اِس نے لکھا ہے) بلکہ سراسر خدائی رہنمائی اور وحی الٰہی کے نتیجہ میں ایک کامل اور مکمل شریعت اور دین کا نام اسلام ہے اور نہ ہی کسی بھی گھبراہٹ یا تزلزل کے موقع پر حضرت ابوبکر ؓ آنحضرتؐ کے لئے ڈھارس بنے بلکہ اوّل تو اِس اشجع النّاس، جرّی اور بہادر نبیؐ کی ساری زندگی میں ہم کبھی کسی گھبراہٹ یا تزلزل کو دیکھ نہیں سکتے اور اگر کوئی پریشانی کا موقع آیا بھی ہو تو خدائے قادر و توانا اُن کے لئے ڈھارس بنتا رہا۔ پس مصنّف نے تو لکھا ہے کہ ابوبکر ؓآپؐ کی ڈھارس بندھاتے تھے جبکہ اِس کے بالکل اُلٹ ہم نے دیکھا ہےکہ اگر حضرت ابوبکر ؓکی زندگی میں کسی پریشانی یا گھبراہٹ کا وقت آیا بھی تو آنحضرتؐ اُن کے لئے ڈھارس بنا کرتے تھے جیسا کہ ہجرت کے موقع پر جب حضرت ابوبکر ؓسخت پریشان ہوئے اور گھبرائے (بے شک یہ گھبراہٹ آنحضرتؐ کی محبّت میں آپؐ کے لئے ہی تھی) لیکن آپ ؓکی اِس گھبراہٹ کے موقع پر آنحضرتؐ اُن کی ڈھارس بنے جب آپؐ نے حضرت ابوبکر ؓسے یہ کہا! لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا کہ اے ابوبکر تم گھبراؤ نہیں، الله ہمارے ساتھ ہے۔۔۔پس یہ ایک واقعہ ہی آپؐ کے عظم، توکّل اور الله تعالیٰ کے خاص نبی ہونے کی واضح دلیل ہے۔لیکن بہر حال یہ عقل کے اندھے اگر ایک بات میں مجبور ہوتے ہیں سچ کہنے میں تو کچھ نہ کچھ بیچ میں گند ملانے کی ضرور کوشش کرتے ہیں

آج ساری دنیا اُن کا ادب اور احترام کے ساتھ نام لیتی ہے

حضرت المصلح الموعود ؓبیان فرماتے ہیں: حضرت ابوبکر ؓکو دیکھو، آپ ؓمکہ کے ایک معمولی تاجر تھے، اگر محمد رسول اللهؐ مبعوث نہ ہوتے اور مکہ کی تاریخ لکھی جاتی تو مؤرّخ صرف اتنا ذکر کرتا کہ ابوبکر ؓعرب کا ایک شریف اور دیانتدار تاجر تھا مگر محمد رسول اللهؐ کی اتباع سے ابوبکر ؓکو وہ مقام ملا تو آج ساری دنیا اُن کا ادب اور احترام کے ساتھ نام لیتی ہے۔

جو محمدؐ کے دَر کا غلام ہو گیا تو اُس کی ہر چیز ہمیں پیاری لگنے لگ گئی

حضرت المصلح الموعود ؓبیان فرماتے ہیں: اسلام کی خدمت اور دین کے لئے قربانیاں کرنے کی وجہ سے آج حضرت ابوبکر ؓکو جو عظمت حاصل ہے وہ کیا دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل ہے؟ آج دنیا کے بادشاہوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جسے اتنی عظمت حاصل ہو جتنی آپ ؓکو حاصل ہے بلکہ آپ ؓتو الگ رہے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی اتنی عظمت حاصل نہیں جتنی مسلمانوں کے نزدیک آپ ؓکے نوکروں کو حاصل ہے بلکہ حق یہ ہے کہ ہمیں آپ ؓکا کتّا بھی بڑی عزتوں والوں سے اچھا لگتا ہے، اِس لئے کہ وہ محمدؐ کے دَر کا خادم ہو گیا۔جو محمدؐ کےدَر کا غلام ہو گیا تو اُس کی ہر چیز ہمیں پیاری لگنے لگ گئی اور اب یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اب اِس عظمت کو ہمارے دلوں سے محو کر سکے۔

سعید ہدایت پا کر کامل ہو گئے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: مکہ کی مٹی ایک ہی تھی جس سے ابوبکر ؓاور ابو جہل پیدا ہوئے۔۔۔ اوّل الذکر اپنی سعادت اور رُشد کی وجہ سے ہدایت پا کر صدیقوں کا کمال پا گیا اور دوسرا شرارت، جہالت بے جاء، عداوت اور حق کی مخالفت میں شہرت یافتہ ہے۔ یاد رکھو! کمال دو ہی قسم کے ہوتے ہیں، ایک رحمانی، دوسرا شیطانی۔ رحمانی کمال کے آدمی آسمان پر ایک شہرت اور عزت پاتے ہیں، اِسی طرح شیطانی کمال کے آدمی شیاطین کی ذریّت میں شہرت رکھتے ہیں۔ غرض ایک ہی جگہ دونوں تھے، پیغمبر خداؐ نے کسی سے کچھ فرق نہیں کیا، جو کچھ حکم الله تعالیٰ نے دیا، وہ سب کا سب یکساں طور پر سب کو پہنچا دیا مگر بد نصیب، بد قسمت محروم رہ گئے اور سعید ہدایت پا کر کامل ہو گئے۔

(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ الفضل آن لائن جرمنی)

پچھلا پڑھیں

انڈیکس مضامین نومبر 2022ء الفضل آن لائن لندن

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی