• 26 اپریل, 2024

احسان اور اس کے مختلف مدارج

آج تلاوتِ قرآن اور ترجمہ کے دوران انبیاء علیہم السلام کے ذکر میں ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی نعماء اور افضال کا بار بار ذکر کرنے اور ان احسانات پر شکر الہٰی کا مضمون گزرا جس میں یہ آیت بھی تھی ۔

اِنَّ رَ حْمَتَ اللّٰہِ قَرِ یْبٌ مِّنَ المُحْسنِینَ

(الاعراف: 57)

کہ یقیناً اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب رہتی ہے۔

ان آیات کی تلاوت اور انبیاء کے تذکرہ میں احسان کے ذکر سے یہ خیال ذ ہن میں گزرا کہ احسان جیسے اہم مضمون پر روشنی ڈ الی جائے ۔ جس کا ذکر ہمارے پیارے رسو ل حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی زندگی میں بار بار ملتا ہے۔ آ پؐ اِس پر عمل پیرا بھی رہے اور اپنی تقاریر ، خطبات و خطابات کے آغاز پر جوتشہد پڑھتے اُس میں عدل و احسان کی تعلیم پر عمل کرنے کی یاد دہانی بار بار کرواتے ۔ کہ اِنَّ اللّٰہُ یَاْ مُرُ کُمْ بِا لْعَدْلِ وَ ا لْاِحْسَانِ کہ اللہ تم کو عدل اور احسان کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو برابری کے سلوک کی تلقین تو فر مائی ہے لیکن اپنے ساتھ ہونے والے نیک اور عمدہ سلوک سے کہیں اچھا اور بڑھ کر سلوک کرنے کی تلقین ’’احسان‘‘ کے لفظ میں کردی ۔ جیسے ماں ہمیشہ اپنے ساتھ کئے گئے سلوک سے کہیں بڑھ کر بغیر کسی غرض اور لالچ کے اولاد کے ساتھ سلوک کرتی ہے ۔ اِ سے احسان کے لفظ سے یاد کیا گیا ہے ۔

احسان کے مضمون کو مختلف پہلوؤں سے اللہ تعالیٰ نے الہٰی کتاب قرآن کریم میں 200 کے لگ بھگ بیان فر مایا ہے۔ احسان موٹے طور پر تین حصوں میں تقسیم ہو سکتا ہے ۔

  1. اللہ تعالیٰ کے احسانوں اور نعماء کا ذکر اور شکر الہٰی ۔
  2. انسان کا انسان پر احسان اور اس کےبدلہ میں بہترین عطا کرنا ۔
  3. نباتات ، جمادات اور حیوانوں سے اچھا سلوک کرنا ۔

جہاں تک اللہ کے احسانوں کا ذکر کر کے اس کا شکریہ ادا کرنے کا تعلق ہے تو اس ضمن میں سب سے پہلے انسان کی صورت میں اس کی تخلیق ہے ۔ اُس اللہ نے ہم سب کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ۔ پھر تمام اعضاء کے ساتھ مکمل اور صحیح سالم انسان بنایا یعنی معذور نہیں بنایا ۔معاشرہ میں مقیم انسانوں کو بعض اوقات جو متعدی اور موذی بیماریاں لاحق ہیں اُن سے محفوظ رکھا ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اسلام اور جماعت احمدیہ میں پیدا کیا یا بعض کو احمدیت قبول کرکے اس نعمت سے مالا مال کیا۔

اللہ تعالیٰ نے بھوک جیسے عذاب سے محفوظ رکھا ، دوسری مخلوق سے بہتر بنایا ، بُری عادات سے محفوظ رکھا ۔ ہسپتال میں پڑے مریضوں کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کرنے کو دل کرتا ہے کہ اُس نے ایسی بیماریوں سے بچایا۔ بعضوں کو سانس کی تکلیف ہے اللہ نے اس سے ہم کو بچایا ۔ انسان بنایا ، جانور اور چرند پرند نہیں بنایا ۔ پاکستان میں ایک آدمی کی دسیوں شوگر ملز ہونے کے باوجود وہ چینی کے ایک دو دانے نہیں چکھ سکتا ۔ یورپ میں ہم کو اللہ تعالیٰ نے ہر ضرورت سے مستفیض فر مایا ہے ۔خلافت جیسی عظیم نعمت عطا فر مائی ، نیک صالح ساتھی اور اولاد سے نوازا ۔ علیٰ ھذا القیاس۔ ہر انسان کو اپنے اپنے دائرہ کے حساب سے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے اوپر ہونے والی نعماء الہٰی کا سوچ کر اپنے اللہ کے حضور جھکنا ، اس کی عبادت کرنا ، اس کا شکریہ ادا کرنا ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے اصول اِنْ شَکَرْ تُمْ لَاَزِیدَنَّکُمْ کے تحت شکر الہٰی کرنے پر اللہ تعالیٰ ان نعماء کو لا زوال بنائے گا اور مزید نعماء و افضال سےنوازے گا ۔ اس پر مزید مہربان ہوگا اور مزید نیک کاموں کی توفیق ملتی رہے گی ۔ یہ مضمون اللہ تعالیٰ نے سورة النساء آیت 79 میں ان الفاظ میں بیان فر مایا ہے ۔ اِنۡ تُصِبۡہُمۡ حَسَنَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ (النساء: 79)

اللہ کے احسانوں کے ذکر میں ایک حدیث بیان کرنی ضروری ہے جس میں احسان کی جامع تعریف بیان ہوئی ہے ۔ ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام ، بارگاہ رسالت مآب حضرت محمد ﷺ میں انسا نی شکل میں حاضر ہوئے اور ایمان ، اسلام اور احسان کے حوالے سے آ نحضرت ﷺ سے سوالات کئے ۔ احسان کے سوال پر آ نحضرت ﷺ نے جواباً فر مایا :
’’احسان یہ ہے کہ تُو اللہ کی عبادت اس طریق پر کرے گویا تو اُسے دیکھ رہا ہے ۔ اگر تُو اللہ کو نہیں دیکھ رہا تو کم از کم تمہارا یہ یقین ہو کہ اللہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘ (متفق علیہ)

ایک مومن کی اپنے ربّ کی خاطر ہر حرکت، ہر ادا ، ہر نیکی اور ہر عمل عبادت کا ہی ایک رنگ رکھتا ہے ۔ اس ناطے ہر عمل ، ہر حرکت اور اسلام کی خاطر ہر ادا کے وقت ایک مومن کی یہ کیفیت اور سوچ ہونی چاہئے کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں یا کم از کم یہ سوچ ہو کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے ۔ انسان کی اس اعلیٰ کیفیت کا نام احسان ہے اور یہی احسان کی جامع و مانع تعریف ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ تم اپنے اللہ کی ایسی بندگی کرو کہ تم اللہ کو دیکھ رہے ہو ۔

2۔ انسانوں کے ساتھ احسان مندی کا سلوک

i۔یہ مضمون بہت وسعت لئے ہوئے ہے ۔اور اس کے آگے کئی مدارج ہیں۔ ہر انسان خود بھی انسانوں کے زُ مرے سے ہے اس لئے احسان کا مضمون انسان کے اپنے آپ سے، اپنے نفس سے شروع ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔:

اِن اَ حْسَنْتُمْ اَ حْسَنْتُمْ لِاَ نْفُسِکُمْ وَ اِنْ اَ سَاْ تُمْ فَلَھَا

(بنی اسرائیل :8)

کہ اگر تم اچھے اعمال بجا لاؤ تو اپنی خاطر ہی اچھے اعمال بجا لاؤ گے اور اگر تم بُرا کرو تو خود اپنے لئے ہی بُرا کرو گے ۔

انسان کی سوچ سے یہ چیز بسا اوقات باہر ہوتی ہے کہ انسان اپنے لئے بھی بُرا سوچ سکتا ہے ۔ یہ مضمون اتنا گہرا ہے کہ انسان بالعموم غیروں کے شر سے بچنے کے لئے خود دعا بھی کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کرواتا ہے لیکن اپنے نفس کے شر سے بچنے کی دعا تو کیا اس کاسوچتا بھی نہیں ۔ جبکہ ہر انسان کے اندر ایک اور انسان موجود ہو تا ہے جو ظاہر ی طور پرنظر آنے والے انسان سے نیکیاں کروا کر اُسے راہِ راست پر بھی رکھتا ہے اور بعض اوقات اُسے پُھسلا کر بُرے اور قبیح کام کروا کر دوزخ کی طرف بھی لے جاتا ہے ۔ اس لئے ہم میں سےہر انسان کو اوامر پر عمل کرنا اور اُن نواہی سے بچنا چاہئے جو ’’فَلَھَا‘‘ کے تحت آتے ہیں جیسے جھوٹ ، چغلی، غیبت، تجسس وغیرہ وغیرہ۔

ii۔ والدین سے حسن سلوک ۔

اشرف المخلوقات کے حوا لے سے احسان کے دائرے یا مدراج میں دوسرا نمبر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ہے ۔ جیسا کہ اللہ فر ماتا ہے :

وَ قَضٰی رَ بُّکَ اَ لَّا تَعْبُدُوْٓا اِ لَّٓا اِ یَّا ہُ وَ بِا لْوَا لِدَیْنِ اِ حْسَا ناً

(بنی اسرائیل:24)

کہ تیرے ربّ نے صرف اپنی بندگی کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنے والدین کے ساتھ احسان کرو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی توحید اور بندگی اختیار کرنے کے ساتھ والدین سے احترام کا تعلق روا رکھنے اور ان کے ساتھ احسان سے پیش آنے کا ذکر فر مایا ہے۔

اس کی بڑی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ جب اللہ کسی نفس کو زمین میں لانے کا فیصلہ کرتا ہے تو والدین کو ذریعہ بناتا ہے جن کی اطاعت و احترام لازم ہے ۔

iii۔ عزیزو اقارب اور رشتہ داروں کے ساتھ احسان کرنا:

اللہ تعالیٰ انسان کے اس درجہ کا ذکر سورة البقرہ آیت 84 میں یوں فر ماتا ہے ۔

وَ اِذْ اَ خَذْ نَا مِیْثَا قَ بَنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِ لَّا اللّٰہ وَ بِا لْوَا لِدَیْنِ اِ حْسَا نًا وَّ ذِی ا لْقُرْ بٰی وَ ا لْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ قُوْلُوْ ا لِلنَّاسِ حُسْنًا

اور جب ہم نےبنی اسرائیل کا میثاق (اُن سے) لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے اور والدین سے احسان کا سلوک کرو گے اور قریبی رشتہ داروں سے اور یتیموں سے مسکینوں سے بھی اور لوگوں سے نیک بات کہا کرو۔

خاکسار نے اس دائرہ سے تعلق رکھنے والوں کا تفصیل سے ذکر اپنی کتاب خاندانی منصوبہ بندی میں کیا ہے۔ (وہاں سے استفادہ کیا جا سکتا ہے)

iv۔معاشرہ میں غریب اور مستحق طبقہ کے ساتھ احسان کرنا :

اسلام، سلامتی کا مذہب ہے اور یہ سلامتی اپنوں سے نکل کر غیروں کی طرف جاتے اپنے دائرہ کو وسیع کرتی جاتی ہے اور معاشرہ میں بسنے والے کمزور لاغر اور مستحق لوگوں کو اپنا حصہ بناتی ہے ۔ اللہ تعا لیٰ نے اس دائرہ سے متعلقہ لوگوں کے ساتھ احسان سے پیش آ نے کا ذکر سورة النساء آیت 37 میں کیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے ۔

وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِ حْسَا نًا وَّ بِذِی الْقُرْ بٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَا رِ ذِی الْقُرْ بٰی وَا لْجَارِا لْجُنُبِ وَا لصَّا حِبِ بِا لْجَنْبِ وَابْنِ السَّبِیْلِ

(ترجمہ ملخص ہے) کہ والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں، یتیموں، مسکین لوگوں ،رشتہ دار ہمسائیوں اور غیر رشتہ دار ہمسائیوں، اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی احسان کرو۔

اللہ تعالیٰ نے یہاں کمال حکمت سے ہمسایہ میں قریب اور دور کے ہمسائے سے حسن سلوک کی تلقین فر مائی ہے ۔ ایک حدیث میں 40 گھروں تک ہمسایہ کا درجہ دیا ہے بلکہ ایک موقع پر آ نحضرت ﷺ نے ہمسائے کے لئے سالن میں پانی ڈالنے کی بھی تلقین فر مائی اور فر مایا :

وَ اَ حْسِنْ جِوَارَ مَنْ جَا وَرَ کَ تَکُنْ مُسْلِمًا

ہمسایہ کے ساتھ عمدہ ہمسائیگی کرو تا تم کامل مسلم بنو ۔ اس طبقہ کے ساتھ حسن سلوک اور اُن کے ساتھ احسان کرنا معاشرہ کے وقار کو بلند کرنا ہے اور اس کو اسلامی معاشرہ کا نام دیا جا سکتا ہے ۔ مجھے جماعت میں ایسے ایسے حسین اور نیک لوگ ملتے ہیں جو اپنی شب و روز دعاؤں میں ایسے لوگوں کو بھی شامل رکھتے ہیں جو اُجرت پر گھروں میں کام کرتے ہیں ۔ مجھے ایک ایسی خاتون کا علم ہے جو گھر میں دودھ مہیا کرنے والے (دودھی) کو ، جمعدار اور گھر میں کام کاج کرنے والی ماسی کو اپنی تہجد کی دعاؤں میں شامل رکھتی ہیں ۔ ان سے کسی دوسری خاتون نے کہا کہ وہ تو آپ سے اجرت لیتے ہیں پھر بھی آپ ان کے لئے بہت دل سے دعا کرتی ہیں تو اس بزرگ خاتون نے جواباً کہا کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے ہماری خدمت کے لئے ما مور کیا ہے ۔ خواہ رقم لے کر یہ خدمت کرتے ہیں اگر یہ نہ ہوں تو ہماری زندگی بہت مشکل ہو جائے۔

مجھے 1947ء کا وہ دور یاد آ گیا جب پارٹیشن کے وقت قادیان میں مقامات مقدسہ کی حفاظت کرنے والوں کی فہرستیں تیار ہو رہی تھیں تو حضرت مصلح موعودؓ نے ان فہرستوں میں موچی، قصائی، دودھی اور دوسرے کام کرنے والے لوگوں کو شامل فر مایا تھا تا اگر احمدی مسلمانوں کو حصار میں رہنا پڑے تو ایک ہی جگہ میں ہر انسانی ضرورت پوری کرنے والے لوگ میسر آ سکیں ۔ تو ایسے لوگ ہماری دعاؤں کے جہاں مستحق ہوتے ہیں وہاں ہمارے پیار ، محبت اور احسان و مروت کے بھوکے بھی ۔

اللہ تعالیٰ نے یہ دائرہ اس حد تک بڑھا یا ہے کہ طلاق یا خلع کے وقت عورتوں کو احسان کے ساتھ رخصت کرنے کی تعلیم تَسۡرِیۡحٌۢ بِاِحۡسَانٍ (البقرہ:230) کے الفاظ میں دی ۔ نیز غصہ پی جانے والوں ،لوگوں کو معاف کرنے والوں کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے وَ اللّٰہُ یُحِبُّ اْلمُحْسِنِیْن کے الفاظ کو استعمال فر ما کر سبق دیا کہ غصہ پینا اور لوگوں سے نرمی کا سلوک بھی احسان کرنا ہی ہے ۔ یہ تعلیم آج کے دور میں اس لئے ضروری اور اہم ہے جبکہ عدم برداشت نام کی کوئی چیز دنیا کے معاشرہ میں پائی نہیں جاتی ۔

v۔ عقیدہ و مذہب سے بالا ہو کر احسان کرنا :

اللہ کی مخلوق جو اس کی ’’عیال اللہ‘‘ ہے سے احسان و مروّت سے پیش آنے کا ایک دائرہ بلا تمیز مذہب و عقیدہ کے پیار و محبت سے ملنا اور سلامتی کی فضا بر قرار رکھنا ہے ۔ جس کی آج دنیا بھر میں تمام مذاہب کو اپنانے کی بہت ضرورت ہے جبکہ ان مذاہب میں جنگ کی سی کیفیت ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سورة المائدہ آیت 14 میں ان کے ساتھ جو مخالفت کرتے ، دشمنی کرتے اور مذہب اور اس کے ماننے والوں کو نقصان پہنچاتے ہیں احسان کا سلوک روا رکھنے کی تلقین فر مائی ہے ۔ اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے:

فَا عْفُ عَنْھُمْ وَ ا صْفَحْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ ا لْمُحْسِنِیْن

پس ان سے در گزر کر اور صرف ِنظر بھی ۔ یقیناً اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے

3۔نباتات جمادات اور حیوانات کے ساتھ احسان کرنا

اسلام ایک عا لمگیر مذہب ہے ۔ اس کی تعلیمات بھی عا لمگیر اور تا قیامت قا بل عمل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ، ہر جگہ اصلاح کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ اور فساد سے نفرت کی تعلیم دی ہے۔ اشرف المخلوقات کے ساتھ حسنِ سلوک اور احسان و مروّت ، محبت سے پیش آنے کی تعلیم اوران سے متعلق احکامات دینے کے بعد ضروری تھاکہ دنیا میں دوسری پائی جانے والی مخلوق اور دیگر مرئی اور غیر مرئی اشیاء کے ساتھ احسان کے سلوک کا ذکر ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے جنگوں میں درختوں اور نباتات اور دیگر اشیاء کو تباہ نہ کرنے کا حکم دیا ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے اونٹ اور گدھوں پر اُن کی طاقت سے زیادہ بوجھ لادنے سے صحابہؓ کو منع فرمایا۔

ایک صحابی نے پرندے کے انڈے گھونسلے سے نکال لئے ۔ آپؐ نے انہیں دوبارہ گھونسلے میں رکھنے کو فر مایا ۔ آگ اور پانی کے عذاب یعنی ان سے کسی کو تباہ و بر باد کرنے سے منع فر مایا ۔ زمین میں اصلاح کرنے اور فساد سے باز رہنے کے بعد فر مایا :

اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ

(الاعراف: 57)

کہ اللہ کی رحمت محسنوں کے قریب ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جابجا لکھا ہے کہ ’’میں احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہوں‘‘ یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے جو احسان برتنے والوں کو دیا جاتا ہے۔ ہم سب پر لازم ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں احسان کے مضمون کو پھیلائیں۔ آ نحضور ﷺ نے فرمایا ہے : اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْاِحْسَانَ عَلٰی کُلِ شئیٍ (مسلم) کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کی ہر چیز میں احسان کو ضروری قرار دیا ہے ۔ لہٰذا ہمیں زندگی کے ہر موڑ پر احسان کو ملحوظ رکھنا چاہئے صرف اپنےنفس کے ساتھ ہی نہیں، اپنی صحت ، اپنے علم، اپنی عقل، اپنی روح ، اپنے کارو بار ، اپنی عبادت ، اپنے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بالخصوص دفاتر میں اپنی مُفوضہ ذمہ داریوں اور ڈیوٹی کی ادائیگی میں احسان کو مد نظر رکھناہوگا ۔ ہمارے ایشیائی معاشرے میں دفاتر کے حقوق کماحقہ ادا نہیں کئے جاتے ۔ وقت کی پابندی کا خیال رکھا جائے کام بر وقت کیا جائے ۔ آج کا کام کل پر نہ ڈالا جائے ،استاد بھی ٹیچنگ میں احسان کو مدّ نظر رکھیں ۔ الغرض اپنے ذمہ ہر ڈیوٹی کو باحسن طریق سر انجام دیا جائے ، اس ضمن میں احسان کا یہ اصول مدّنظر رہے کہ خدا ہمیں دیکھ رہا ہے ۔ اور اردو زبان میں احسان کے معنی ایک دو یا تین لئے جاتے ہیں جبکہ یہ عربی کالفظ ہے اور عربی زبان میں احسان کے بہت وسیع معانی ہیں ۔ ان تمام معانی کو مدّنظر رکھ کر احسان کے بارے میں اس آرٹیکل میں تفصیل بیان کرنے کی کو شش کی گئی ہے۔

ایک دفعہ ایک عورت اپنی دو بچیوں کے ہمراہ در بار رسالتؐ میں حاضر ہوئیں ۔ آ نحضور ﷺ گھر پر نہ تھے ۔ حضرت عائشہ ؓ کے پاس ایک ہی کھجور تھی جو آپ نے ماں کو دے دی ۔ اس ماں نے اسے دو بچیوں میں نصف نصف تقسیم کر دیا اور خود کچھ نہ کھایا ۔ آ نحضور ﷺ جب گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے یہ قصہ آپؐ کو سنایا ۔آپؐ نے فر مایا کہ :
اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو بچیوں سے آزمایا اور اس باپ نے اُن کے ساتھ احسان کا سلوک کیا تو اس سے جہنم دور کردی جائے گی ۔

اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو احسان کے باریک معنوں کو سامنے رکھ کر اس کا لبادہ اوڑھنے کی تو فیق عطا فرما تا رہے ۔ اور شکر الہٰی کے بہترین طریق پر عمل کرنے والا بنائے اور الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن کی تسبیح کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائے اور اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنَ کے مطابق شکرالٰہی کرنے والا بنائے آ مین ثم آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جنوری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جنوری 2021