آؤ ! اُردو سیکھیں
سبق نمبر 29
گزشتہ سبق سے ہم نے اردو زبان میں صفت کے استعمالات پہ بحث کا آغاز کیا ہے۔ اور یہ واضح کردیا تھا کہ صفت کو انگریزی میں ایڈجیکٹیو Adjective کہتے ہیں۔ صفت کسی اسم یعنی کسی شخص، چیز یا جگہ کے نام میں مزید اضافہ کرتی ہے۔ جیسے سادہ نام ہے لڑکا تو نیک ایک صفت ہے پس جب ہم کہیں گے کہ نیک لڑکا تو ہم اسم لڑکا میں اضافی معلومات دیں گے کہ لڑکا ہے اور نیک ہے وغیرہ۔ اسی طرح صفت کی اقسام ہوتی ہیں جن پہ ہم آئندہ آنے والے اسباق میں بات کرتے چلے جائیں گے۔ اس وقت جس قسم کا ذکر چل رہا ہے وہ ہے ’’صفت ذاتی‘‘ اس وقت ہم اسم صفت کے ساتھ لگ کر معنوں کو مزید بڑھانے والے، مبالغہ پیدا کرنے والے اور درست تصویر کشی میں مدد کرنے والے الفاظ پر بات کریں گے۔ یہ سلسلہ گزشتہ سبق سے شروع ہوا تھا اور بعض الفاظ پہلے ہی بیان کئے جاچکے ہیں۔
بڑا۔ یہ لفظ کسی چیز کے حجم یا جسامت کو بیان کرنے میں اس وقت مدد کرتا ہے جب کسی چیز کا حجم یا جسامت عام حد سے زیادہ بڑی ہو۔ مثلاً لمبا سانپ کو مزید وضاحت دینے کے لئے کہیں گے بڑا لمبا سانپ۔ گہرا تالاب۔ بڑا گہرا تالاب۔
نہایت۔ یہ لفظ فارسی الفاظ کے ساتھ آتا ہے۔ لیکن ایک عام اردو بولنے والے کے لئے ضروری نہیں کہ وہ یہ جانتا ہو کہ کون سا لفظ اردو میں فارسی ہے۔ لہذا مشق اور مطالعہ کسی زبان میں کمال حاصل کرنے کے لئے بہت ضروری ہیں۔ اب مثالیں دیکھتے ہیں۔ نہایت عمدہ، نہایت نفیس۔
ایک۔ بعض اوقات ’’ایک‘‘ کا لفظ بھی زور یا مبالغہ پیدا کردیتا ہے مگر برائی اور مذمت کے معنی میں۔ جیسے ایک چھٹا ہوا یعنی بہت برا، بدنامِ زمانہ شخص۔ ایک بدذات ہے۔ وغیرہ
اسی طرح: اعلیٰ، اعلیٰ درجہ، اوّل نمبر، اوّل درجہ، پرلے درجہ کے الفاظ بھی یہی کام دیتے ہیں۔ جیسے اوّل نمبر کا احمق، پرلے درجے کا بیوقوف۔
سا۔ یہ لفظ بھی صفات کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد کسی چیز کی کسی دوسری چیز سے تھوڑی مشابہت بیان کرنا ہوتا ہے جو صفت میں کمی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جیسے پاگل سا۔ یعنی پاگل نہیں ہے بس پاگلوں جیسی کچھ حرکات ہیں۔ اسی طرح بیوقوف سا، لال سا، کالا سا وغیرہ۔
بعض اوقات ’’سا‘‘ کو ہٹا کر ایک مبالغہ ظاہر کیا جاتا ہے یعنی کمہ کی بجائے ایک زیادتی ظاہر کی جاتی ہے۔ جیسے اس کا چہرہ غصے سے لال انگارہ ہوگیا۔ لال بھبوکا، کالا بھجنگ، کڑوا زہر، ٹھنڈا برف، سوکھا کانٹا، اندھیرا گھپ، میلا چیکٹ، بڈھا پھوس۔
’’سا‘‘ کا استعمال صفت کی زیادتی کے لئے اس طریق سے بھی کیا جاتا ہے۔ جیسے بہت سا آٹا، بڑا سا گھر۔ سا ان معنوں میں سنسکرت جو کہ ہندوستان کی ایک انتہائی قدیم زبان ہے اس کے الفاظ شس بمعنی گُنا (جیسے ایک گنا، دوگنا) اور سما سے نکلا ہے جو مشابہت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں یہ الفاظ ’’سا‘‘ بن گئے۔
منفی صفات ذاتی
اردو زبان میں بعض حروف اور الفاظ ایسے ہیں جن کے لگانے سے صفت میں نفی کے معنی آجاتے ہیں۔ جیسے ا (الف) لگانے سے اٹوٹ (نہ ٹوٹنے والا)، اٹل (نہ بدلنے والا)، امر(نہ مرنے والا) بن جاتے ہیں۔ اسی طرح اَن لگانے سے انجان۔ بے لگانے سے بے دھڑک (نڈر)، بے جوڑ (یعنی جو بے ربط ہو)۔ بِن لگانے سے بن بیاہا، بن بلایا۔ ن لگانے سے جیسے نڈر وغیرہ
صفات نسبتی
صفات نسبتی وہ صفات ہیں جن سے کسی دوسری چیز سے تعلق، دلچسپی یا رشتہ ظاہر ہو۔ مثلاً ہند یا ہندوستان سے ہندی، عرب سے عربی فارس سے فارسی، آب یعنی پانی سے آبی جیسے مچھلی ایک آبی جانور ہے۔ پیاز سے پیازی یعنی پیاز کے چھلکوں کے رنگ کا کپڑا وغیرہ۔
1۔ عموماً یعنی عام اصول یہ ہے کہ صفاتی نسبت یا تعلق کے اظہار کے لئے اسم کے آخر پہ ’’ی‘‘ لگادیتے ہیں جیسے پہلے بیان ہوا کہ ہند سے ہندی اور پیاز سے پیازی۔
2۔ اگر کسی اسم یعنی چیز وغیرہ کے نام کے آخر پہ ’’ی، ہ یا الف‘‘ ہو تو ’’ی، ہ اور الف‘‘ کو واؤ سے بدل کر ’’ی‘‘ بڑھا دیتے ہیں۔ جیسے موسیٰؑ سے موسوی، عیسیٰؑ سے عیسوی، دہلی سے دہلوی وغیرہ۔
3۔ بعض اوقات ’’ہ‘‘ کو غائب کرکے یہ صفت بنا لی جاتی ہے جیسے مکہ سے مکی، مدینہ سے مدنی اور قادیان سے قادیانی وغیرہ۔
ایک بات غور طلب ہے کہ اگر صفات نسبتی بغیر کسی اسم کے آئے تو بجائے خود اسم کا کام دیتی ہے جیسے بنگالی بڑے ذہین ہوتے ہیں۔ باقی آئندہ ان شاء اللّٰہ۔
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
تقویٰ کا مضمون باریک ہے۔ اس کو حاصل کرو۔ خدا کی عظمت دل میں بٹھاؤ۔ جس کے اعمال میں کچھ بھی ریاکاری ہو خدا اس کے عمل کو واپس الٹا کر اس کے منہ پر مارتا ہے۔ متقی ہونا مشکل ہے۔ مثلاً اگر کوئی تجھے کہے کہ تو نے قلم چرایا ہے تو، تُو کیوں غصہ کرتا ہے۔ تیرا پرہیز تو محض خدا کے لئے ہے۔ یہ طیش اس واسطے ہوا کہ روبحق نہ تھا۔ جب تک واقعی طور پر انسان پر بہت سی موتیں نہ آجائیں وہ متقی نہیں بنتا۔ معجزات اور الہامات بھی تقویٰ کی فرع ہیں۔ اصل تقویٰ ہے۔ اس واسطے تم الہامات اور رؤیا کے پیچھے نہ پڑو بلکہ حصولِ تقویٰ کے پیچھے لگو۔ جو متقی ہے اسی کے الہامات بھی صحیح ہیں اور اگر تقویٰ نہیں تو الہامات بھی قابلِ اعتبار نہیں۔ ان میں شیطان کا حصہ ہوسکتا ہے۔ کسی کے تقویٰ کو اس کے ملہم ہونے سے نہ پہچانو بلکہ اس کے الہاموں کو اس کی حالت تقویٰ سے جانچو اور اندازہ کرو۔ سب طرف سے آنکھیں بند کرکے پہلے تقویٰ کی منازل کو طے کرو۔ انبیاء کے نمونہ کو قائم رکھو۔
(ملفوظات جلد2 صفحہ173 ایڈیشن 2016)
مشکل الفاظ کے معنی
باریک مضمون: پیچیدہ، مشکل، عام فہم نہ ہونا، بلکہ غور طلب ہونا
ریاکاری: دکھاوا کرنا، صرف لوگوں میں عزت حاصل کرنے کے لئے کوئی کام کرنا
واپس الٹانا: یعنی برعکس نتیجہ نکلنا، بجائے خدا تعالیٰ کو راضی کرنے کے ناراض کرلینا۔
پرہیز: سیاق و سباق کے مطابق اس کا مطلب ہے کسی بدزنی، بدگمانی کا جواب دینے کی بجائے محض خدا تعالیٰ کی خاطر خاموش رہنا اور غصے کے وقت غصہ نہ کرنا۔
طیش: سخت غصہ
رو بحق: رو کا معنی ہے چہرہ یا توجہ اور حق سے مراد ہے اللہ تعالیٰ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ نہ ہونا۔
معجزات: معجزہ کی جمع
الہامات: الہام کی جمع
فرع: قِسم، نوع، شاخ، حصّہ، شعبہ
ملہم: جسے الہام ہو
جانچو: سمجھنا، پرکھنا
منازل: منزل کی جمع
سب طرف سے آنکھیں بند کرکے: محاورہ ہے یعنی پوری توجہ سے۔
(عاطف وقاص۔ ٹورنٹو کینیڈا)