ضرورت رشتہ ایک ایسا موضوع ہےجو آج کے دور کی ایک تلخ حقیقت بن گیا ہے۔ ہم نے شادی کے اہم فریضہ کو کٹھن ترین بنا دیا ہے، اس موضوع کو زیر بحث لانا بے حد ضروری ہے ورنہ رشتوں کی تلاش کے حالات مزید خراب ہوتے جائیں گے۔
وہ والدین جن کے بچے شادی کے قابل ہیں وہ بچوں کے رشتہ کے لئے انتہائی پریشان نظر آتے ہیں خاص طور پر والدہ زیادہ پریشانی کا اظہار کرتی ہیں۔ اکثر والدین بچوں کے مناسب رشتے مسترد کرتے کرتے خوب سے خوب تر کو تلاش کرتے کرتے بچوں کی شادی کی مناسب عمر ہی گنوادیتے ہیں۔
ہمیں رشتہ ناطہ کے مسائل کو خاص طور پر توجہ دیتے ہوئے سوچنا پڑے گا اور بچوں سے زیادہ ان کے والدین کی کونسلنگ کرنی ہوگی۔ بعض دفعہ رشتوں کے مسائل میں گھرے ہوئے ماں باپ کے ساتھ بات کرتے وقت بہت تکلیف دہ کیفیت ہوتی ہے سمجھ نہیں آتی کہ ان کی مدد کیسے کی جائے ان کے مسائل کیسے حل کئے جائیں۔ ان کو سمجھانا بھی مشکل ہو جاتا ہے، کہ آپ نے رشتہ کے لئے شرائط ہی بہت رکھ دی ہیں آپ توخود بھی ان شرائط پر پورے اترتے نظر نہیں آرہے کوئی اور کہاں ان شرائط کے مطابق ہو سکے گا۔
رشتہ دیکھنے کے لئے دین کی تعلیم تو بہت سادہ ہے، کہ ہم کفو دیکھو اور نیک دیکھو، یعنی تقوی دیکھو سنت رسول بھی یہی ہے، تقوی وہیں ملے گا جہاں دین کی پابندی ہوگی۔
اسی طرح خدا تعالی نے محرم رشتے بھی الگ سے بیان فر ما دئے جن کے ساتھ نکاح نہیں ہو سکتا، باقی کوئی شرط نہیں۔
اب ان مسائل کی طرف آتے ہیں جو خود ساختہ ہیں اگر ان باتوں کو نظر انداز کر دیا جائے توبڑی حد تک پریشانی کم ہو جائے گی
پہلے لڑکے کی والدہ کے بارے میں بات کرتے ہیں وہ کیا چاہتی ہیں، لڑکی گوری ہو، لمبی ہو، پتلی ہو، اعلی تعلیم یا فتہ ہو خاندان اچھا ہو، لڑکے سے 5 سال چھوٹی ہو، گھر سنبھالنے والی ہو۔
اس کو کفو ملانا تو نہیں کہتے یہ تو شرائط ہیں، ان سب شرائط کے مطابق اگر رشتہ مل جائے تو پھر بچوں کے تعلیمی ادارے دیکھے جاتے ہیں اگرچہ ڈگری ایک جیسی بھی ہو اداروں کا فرق یعنی بچی کی ڈگری کس ادارے کی ہے؟ اگر لڑکے نے ڈگری کسی اچھی یونیورسٹی سے لی ہے اور لڑکی کسی کم درجے کی یونیورسٹی سے پڑھی ہے تو پھر بھی رشتہ مسترد ہو جاتا ہے کہ کوئی مطابقت نہیں۔ پھر اگر کسی دیندار گھرانے کی باپردہ بچی ان سب شرائط پر پوری اتر رہی ہو تو یہ کہہ کر بات ختم کر دی جاتی ہے کہ ہمارا اتنےپردے دار گھرانے سے گزارا نہیں ہمارے جیسے درمیانہ سا پردہ کرنے والے ہوں، دین اور تقویٰ کی بات کم ہی کوئی کرتا ہے۔
لڑکی والوں کی شرائط بھی کچھ کم نہیں ہوتیں۔ لڑکا خوبصورت ہینڈسم ڈاکٹر انجنئیر یا کوئی بھی اعلیٰ درجے کی ڈگری ضروری ہے عمر 28 سال سے 30 سال کے درمیان ہی ہو گھر اپنا ہو گاڑی بھی ضروری، تنخواہ بھی اچھی ہو اتنی چھوٹی عمر میں یہ سب چیزیں بچے کے پاس کیسے ممکن ہے کہ ہونگی۔ پھر اگر کم تعلیم کے ساتھ اعلیٰ بزنس ہو تو پھر یہ مسئلہ نکل آئے گا کہ ہماری بچی کی تعلیم زیادہ ہے لڑکے کی تعلیم کم ہے پھر اس بات پر رشتہ مسترد ہوجاتا ہے، آجکل ایک اور رجحان بہت زیادہ ہو گیا ہے لڑکے والے اور لڑکی والے دونوں پارٹیاں ہی چھوٹے گھرانے ڈونڈھتی ہیں یعنی گھر کے افراد کم ہوں اگر بہن بھائی زیادہ ہیں تو پھر بھی بات پسند نہیں آتی اگر قسمت سے سب باتیں کہیں مل جائیں تو پھر استخارہ کی باری آجاتی ہے استخارہ کے بارے میں بھی بہت غلط فہمی ہے استخارہ کا مطلب خدا سے خیر مانگنا ہے خبر مانگنانہیں خیر ما نگتے ہوئے اگر دل کو اطمینان ہے تو بس اس کو ہی شرح صدر کہتے ہیں۔ استخارہ کے بارہ میں کم علمی کی وجہ سے بعض والدین نے اپنے بچے بوڑھے کر دئے ہیں۔ لیکن کہیں استخارہ ہی صحیح نہیں آ رہا روک ہی پڑ رہی ہوتی ہے دس دس سال میں کوئی بھی مناسب رشتہ نہیں ملتا، ایسے لوگوں کو بھی اپنی اصلاح کی ضرورت ہے ان کو چاہئے استخارہ کے بارے میں کسی عالم دین سے راہنمائی لیں۔
اتنی باریک بینی سے رشتہ تلاش کرنے والے ماں باپ سے اگر کبھی پوچھیں کہ آپ کا رشتہ بھی آپکے والدین نے اسی طرح ڈھونڈنا تھا ؟ تو اکثر یہ جواب ملتا ہےکہ ہمارے ماں باپ نے تو کچھ دیکھا ہی نہیں تھا جو رشتہ آیا اللہ توکل پر کر دیا بس ہم نےبھی گزارا کر ہی لیا اب اگر آپ نے گزارا کر لیا تو آپ کی اولاد نے یہ بات کیوں نہیں سیکھی کہ وہ بھی کچھ کم پر اکتفا کر لیں۔
بچوں کے ذہن بھی ایسے بنانے چاہئیں اور ان کی تربیت بھی ایسے انداز سے کریں کہ وہ سمجھوتا اور قربانی سے اپنے رشتے نبھا سکیں۔
اب آتے ہیں سب سے بڑے مسئلہ کی طرف کہ جو کفو کا ہے کفو کیا ہے؟ اور وہ کون سا کفو ہےجس کی تلاش کرتے کرتے ہم نے اللہ کی بنائی ہوئی تخلیق میں خرابیاں نکالنی شروع کر دیں رشتہ ڈھونڈنے کے چکرمیں لوگوں کے وزن اور قد ماپنے شروع کر دئے کفو ا س کو نہیں کہتے۔
ہم اپنی ساری عمر اپنے ہم کفو لوگوں کے ساتھ ہی بیتاتے ہیں۔ لیکن اس بات کو سمجھتے نہیں، ہمارے دوست ہمارے ہم کفو ہی ہوتے ہیں، ہمارے ملنے جلنے والے بھی ہم کفو ہوتے ہیں، پھر اپنے خاندان میں بعض ایسے قریبی رشتے دار جن کے ساتھ ہم بے تکلفی سےاٹھتے بیٹھتے ہیں ایک دوسرے کی دعوتیں کرتےہیں، ان کو اپنے دکھ سکھ میں شامل کرتے ہیں، وہی ہمارے ہم کفو ہیں ان کے ساتھ ہی اپنے تعلق بڑھانے چاہئیں ان کی اچھائیاں خامیاں ہمارے سامنے ہوتی ہیں ان کی اچھائی کے ساتھ ان کی کمزوری کو بھی ہم پہلے سے برداشت کر رہے ہوتے ہیں اس لئے بعد میں کوئی ایسی بات سامنے نہیں آتی جو تکلیف دہ بنے اجنبی لوگوں کا تو کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا رشتہ کے بعد بعض دفعہ بہت مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں اس لئےاگر دل مطمئن ہے تو پھر خدا پر توکل کرتے ہوئے اپنے ہم کفو لوگوں میں رشتہ دیکھنا چاہئے (بیجا شرائط عمر کا فرق قوم کا فرق تعلیم کا فرق سب بیکار باتیں ہیں) توکل ہی کامیابی کی کنجی ہے، توکل کی کمی دنیا کے بکھیڑوں میں اور وہموں میں الجھائے رکھتی ہے بندہ ناشکرا بن جاتا ہے خدا کے گلے شکوے شروع کر دیتا ہے۔
خدا رازق ہے اگر آپکے گھر میں بچے کو رزق مل رہا ہے تو اگلے گھر بھی وہی خدا رزق دے گا۔
خدا اور رسول کے حکم و سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی شرائط کو کم کرتے ہوئے بچوں کے فرائض سے سبکدوش ہوں ان کے نصیب کے لئے بچپن سے دعائیں شروع کریں اللہ سب کے بچوں کو دائمی خوشیوں والے نیک جوڑ عطا فر مائے۔ آمین
(سعدیہ طارق)