• 18 جولائی, 2025

دعا اور اخلاق

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں
’’جب تک انسان مجاہدہ نہ کرے گا، دعا سے کام نہ لے گا، وہ غمرہ جو دل پر پڑجاتا ہے دُور نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ؕ (الرعد: 12)۔

یعنی خدا تعالیٰ ہر ایک قسم کی آفت اور بلا کو جو قوم پرآتی ہے دُور نہیں کرتا ہے جب تک خود قوم اس کو دُور کرنے کی کوشش نہ کرے۔ ہمت نہ کرے۔ شجاعت سے کام نہ لے تو کیونکر تبدیلی ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ایک لاتبدیل سنّت ہے جیسے فرمایا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًا (الاحزاب: 63) پس ہماری جماعت ہو یا کوئی ہو وہ تبدیل اخلاق اسی صورت میں کر سکتے ہیں جبکہ مجاہدہ اور دعا سے کام لیں ورنہ ممکن نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ137۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
ہر احمدی کے اخلاق کا معیار انتہائی اعلیٰ ہونا چاہئے۔ اس کی بارہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تلقین فرمائی ہے۔ اس بارے میں آپ کا اپنا نمونہ کیا تھا اور مخالفین سے بھی آپ کس طرح حسن سلوک فرمایا کرتے تھے اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ ایک دوست نے سنایا کہ ایک دفعہ ہندوؤں میں سے ایک شخص شدید مخالف کی بیوی سخت بیمار ہو گئی۔ طبیب نے اس کے لئے جو دوائیں تجویز کیں ان میں مُشک بھی پڑتا تھا۔ جب کہیں اور سے اسے کستوری نہ ملی تو وہ شرمندہ اور نادم سا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آیا اور آ کر عرض کیا کہ اگر آپ کے پاس مُشک ہو تو عنایت فرمائیں۔ غالباً اسے ایک یا دو رَتّی مُشک کی ضرورت تھی مگر اس کا اپنا بیان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مُشک کی شیشی بھر کر لے آئے اور فرمایا آپ کی بیوی کو بہت تکلیف ہے یہ سب لے جائیں۔

(مأخوذ از خطبات محمود جلد15 صفحہ124)

اشتعال انگیزی سے بچنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کیا تعلیم ہے۔ حضرت مصلح موعود ؓفرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ طاعون طعن سے نکلا ہے اور طعن کا معنی نیزہ مارنا ہیں۔ پس وہی خدا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت آپ کے دشمنوں کے متعلق قہری جلوہ دکھایا وہی اب بھی موجود ہے اور اب بھی ضرور اپنی طاقتوں کا جلوہ دکھائے گا اور ہرگز خاموش نہ رہے گا۔ ہاں ! ہم خاموش رہیں گے اور جماعت کو نصیحت کریں گے کہ اپنے نفسوں کو قابو میں رکھیں اور دنیا کو دکھا دیں کہ ایک ایسی جماعت بھی دنیا میں ہو سکتی ہے جو تمام قسم کی اشتعال انگیزیوں کو دیکھ اور سن کر امن پسند رہتی ہے۔

(مأخوذ از حالات حاضرہ کے متعلق جماعت احمدیہ کو اہم ہدایات۔ انوار العلوم جلد13 صفحہ511-512)

یہ دعا کا قصہ پہلے بھی سنا چکا ہوں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام درد سے دعا کرتے تھے تو ایک تو بددعا نہیں دینی۔ دوسرے ہر فتنے کی صورت میں ہم نے امن پسند رہنا ہے۔ دعا میں خاص حالت پیدا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک رہنمائی فرمائی ہے۔ حضرت مصلح موعود کہتے ہیں کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھے کہ دعا کے وقت حقیقی تضرع اس میں پیدا نہیں ہوتا تو وہ مصنوعی طور پر رونے کی کوشش کرے اور اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کے نتیجہ میں حقیقی رقّت پیدا ہو جائے گی۔‘‘

(خطبات محمود جلد15صفحہ166)

پھر دعا میں کیسی حالت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ ’’ہماری بعض معاملات میں ناکامیاں اور دشمنوں میں اس طرح گھرے رہنا صرف اس لئے ہے کہ ہمارا ایک حصہ ایسا ہے جو دعا میں سستی کرتا ہے۔ (اور آج بھی یہ حقیقت ہے) اور بہت ایسے ہیں جو دعا کرنا بھی نہیں جانتے۔ اور ان کو یہ بھی نہیں پتا کہ دعا کیا ہے؟ (انقلاب انقلاب کی باتیں تو ہم کرتے ہیں لیکن اس میں بہت کمزوری ہے۔) اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ دعا موت قبول کرنے کا نام ہے۔ اور آپ فرمایا کرتے تھے جو منگے سو مر رہے مرے سو منگن جا۔ یعنی کسی سے سوال کرنا یا مانگنا ایک موت ہے اور موت وارد کئے بغیر انسان مانگ نہیں سکتا۔ جب تک وہ اپنے اوپر ایک قسم کی موت واردنہیں کر لیتا وہ مانگ نہیں سکتا۔ پس دعا کا یہ مطلب ہے کہ انسان اپنے اوپر ایک موت طاری کرتا ہے کیونکہ جو شخص جانتا ہے کہ مَیں یہ کام کر سکتا ہوں وہ کب مدد کے لئے کسی کو آواز دیتا ہے۔ کیا یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کپڑے پہننے کے لئے محلّے والوں کو آوازیں دیتا پھرے کہ آؤ مجھے کپڑے پہناؤ یا تھالی دھونے کے لئے، (پلیٹ دھونے کے لئے) دوسروں سے کہتا پھرے کہ مجھے آکے پلیٹ دھلوا دو یا قلم اٹھانے کے لئے دوسرے کا محتاج بنتا ہے۔ انسان دوسروں سے اس وقت مدد کی درخواست کرتا ہے جب وہ جانتا ہے کہ یہ کام میں نہیں کر سکتا۔ ورنہ جس کو یہ خیال ہو کہ میں خود کر سکتا ہوں وہ دوسروں سے مدد نہیں مانگا کرتا۔ وہی شخص دوسروں سے مدد مانگتا ہے جو یہ سمجھے کہ میں یہ کام نہیں کر سکتا۔ اسی طرح خدا تعالیٰ سے بھی وہی شخص مانگ سکتا ہے جو اپنے آپ کو اس کے سامنے مرا ہوا سمجھے اور اس کے آگے اپنے آپ کو بالکل بے دست و پا ظاہر کرے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان میرے رستے میں جب تک مر نہ جائے اس وقت تک دعا دعا نہ ہو گی کیونکہ پھر تو بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک شخص قلم اٹھانے کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہو دوسروں کو مدد کے لئے آوازیں دے۔ کیا اس کا ایسا کرنا ہنسی نہ ہو گا۔ جب ایک شخص جانتا ہو اس میں اتنی طاقت ہے کہ قلم اٹھا سکے تو اس کی مددنہیں کرے گا۔ اسی طرح جو شخص یہ سمجھتا ہے کہ میں خود فلاں کام کر سکتا ہوں وہ اگر اس کے لئے دعا کرے تو اس کی دعا دراصل دعا نہیں ہوگی۔ دعا اسی کی دعا کہلانے کی مستحق ہو گی جو اپنے اوپر ایک موت طاری کرتا ہے اور اپنے آپ کو بالکل ہیچ سمجھتا ہے۔ جو انسان یہ حالت پیدا کرے وہی خدا کے حضور کامیاب اور اسی کی دعائیں قابل قبول ہو سکتی ہیں۔‘‘

(مأخوذ از خطبات محمود جلد9 صفحہ104)

اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے، تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو، اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو اور بے جا غصہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔ میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصے کا نقص اب تک موجود ہے۔ تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بغض پیدا ہو جاتا ہے اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اول اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہئے کہ ابتداء میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بد گوئی کرے اس کے لئے درد دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے ہی خدا کا بھی قانون ہے، جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔ پس جب تک تبدیلی نہیں ہو گی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں، خداتعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے ان باتوں سے صرف شماتت اعداء ہی نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ خود ہی قریب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ سب انسان ایک مزاج کے نہیں ہوتے اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہے کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ (بنی اسرائیل: 85) بعض آدمی کسی قسم کے اخلاق میں اگر عمدہ ہیں تو دوسری قسم میں کمزور، اگر ایک خلق کا رنگ اچھا ہے تو دوسرے کا برا، لیکن تا ہم اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اصلاح ناممکن ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ100-101 ایڈیشن 1988ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’انسان کے اخلاق ہمیشہ دو رنگ میں ظاہر ہو سکتے ہیں یا ابتلا کی حالت میں اور یا انعام کی حالت میں۔ اگر ایک ہی پہلو ہو اور دوسرا نہ ہو تو پھر اخلاق کا پتا نہیں مل سکتا۔ چونکہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق مکمل کرنے تھے اس لئے کچھ حصہ آپ کی زندگی کا مکی ہے اور کچھ مدنی۔ مکہ کے دشمنوں کی بڑی بڑی ایذا رسانی پر صبر کا نمونہ دکھایا اور باوجود ان لوگوں کے کمال سختی سے پیش آنے کے پھر بھی آپ ان سے حلم اور بردباری سے پیش آتے رہے اور جو پیغام خدا تعالیٰ کی طرف سے لائے تھے اس کی تبلیغ میں کوتاہی نہ کی۔ پھر مدینہ میں جب آپ کو عروج حاصل ہوا اور وہی دشمن گرفتار ہو کر پیش ہوئے تو ان میں سے اکثروں کو معاف کر دیا۔ باوجودقوتِ انتقام پانے کے پھر انتقام نہ لیا۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ195-196۔ ایڈیشن 1984ء مطبوعہ انگلستان)

(انعام احمد ججہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ