حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
حضرت بہاول شاہ صاحب ولد شیر محمد صاحب جو انبالہ کے تھے، لکھتے ہیں کہ اس عاجز کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح ومہدی سے کیونکر ملایا اور مل کر ان سے کیا فیض حاصل ہوا، اس کے متعلق خاص حالات ہیں۔ میں اپنے وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک خدا کو حاضر ناظر جان کر جس کے آگے جھوٹ بولنا کفر وضلالت اور جہنم حاصل کرنا ہے، بیان کرتا ہوں کہ مجھے خدا کے فضل سے دین کے ساتھ بچپن سے ہی محبت تھی۔ تقریباً 30سال کی عمر میں ایک سنت نبوی پر عمل کرنے اور اس میں کچھ کج روی پیدا ہونے کے باعث ایک فوجداری مقدمہ تین سال تک رہاجس میں تنگی وتکلیف کی کوئی حدنہ تھی۔ میرے سے زیادہ گاؤں والوں کو تکلیف تھی کیونکہ اس کج روی کا وہی باعث تھے۔ بچپن ہی سے مجھے کسی سچے رہبر و راہنما کی دل میں خواہش تھی۔ کئی بزرگوں کی طرف نظر تھی دل کو اطمینان نہ تھا۔ آخر میاں جی امام الدین صاحب چک لوہٹوی کی معرفت جو میرے استاد اور مولوی عبدالحق صاحب کے جو اس وقت زندہ، لیکن مسیح موعود سے منحرف ہیں کے والد تھے(جو اس وقت زندہ ہیں لیکن مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نہیں مانا، ان کے والد تھے) یعنی عبد الحق کے والد تھے۔ جو میرے احمدی ہونے کے بعد احمدی ہوکر فوت ہوئے۔ یعنی بیٹا احمدی نہیں ہوا۔ والد احمدی ہوئے لیکن ان کے بعد۔ ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے۔ کہتے ہیں کہ مسیح موعودؑ کے دعاوی کی نسبت باتیں سننے میں آتیں اور فرمایا کرتے کہ زمانہ امام کو چاہتا ہے اور واقعی مرزا صاحب سچے امام ہیں۔ لوگ ان کو برا کہتے ہیں۔ میری طرف اور مولوی عبد الحق صاحب کی طرف مخاطب ہوکر فرماتے کہ دیکھنا تم ان کو کبھی برانہ کہنا۔ جب مولوی محمد حسین دہلی میں مولوی نذیر حسین صاحب کے پاس حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام پر کفر کا فتویٰ لگانے کے لئے گئے تھے۔ اس وقت میں اور مولوی عبد الحق، مولوی نذیر حسین کے پاس تعلیم حاصل کرنے کے لئے دہلی ہی میں تھے۔ مَیں تو چھ، سات ماہ کے بعد واپس اپنے استاد کی خدمت میں چک لوہٹ حاضر ہوگیا لیکن مولوی عبد الحق صاحب دہلی میں پڑھتے رہے۔ مولوی محمد حسین نے دہلی سے واپس آکر ہمارے اردگرد کے گاؤں میں حضرت صاحب کو لوگوں سے کافر کہلوانے کی خاطر دورہ شروع کیا۔ میاں جی امام الدین صاحب کے پاس بھی پہنچے لیکن انہوں نے ہرگز برا نہ کہااور یہ جواب دیا کہ آپ نے جو کفر کا محل تیار کیا ہے اس میں میرے لئے اینٹ لگانے کو کونسی جگہ خالی ہے۔ آپ عالم ہیں۔ آپ ہی کو مبارک ہو۔ آخر محمد حسین ناامیدہوکر چلا گیا۔ مجھے منشی عبد اللہ صاحب سنوری جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سچے خادم تھے اور ان کا ذکر خیر اکثر مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتابوں میں نہایت خوبی سے کیا ہے، اُن سے محبت تھی۔ جب مقدمہ نے زیادہ طول پکڑا تومولوی عبد اللہ صاحب سنوری اور مولوی عبد الحق صاحب نے حضور مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دعا کروانے کے لئے بھیجا۔ جب مَیں بٹالہ سے چلا اور لوگوں سے مسیح موعود علیہ السلام کی نسبت حالات دریافت کرنے شروع کئے تو جو بھی ملتا وہ یہی کہتا کہ وہاں مت جاؤ۔ وہ ایسے ہیں ویسے ہیں۔ مولوی برا کہتے ہیں تم بھی برے یعنی کافر ہو جاؤگے۔ مگر مَیں ان کو کہتا کہ اب تو مَیں آگیا ہوں جو بھی خدا کرے۔ اگر سچ ہوا پھر تو میں خدا کے فضل سے مولویوں سے ہرگز نہیں ڈرتا۔ آخر میں 11؍ستمبر 1898ء کو دارالامان پہنچا۔ تھوڑا سادن باقی تھا۔ حضور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد مبارک کے اوپر تشریف فرما تھے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مفتی صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اور بھی چند اصحاب خدمت میں حاضر تھے۔ ایک مولوی عبدالقادر صاحب مرحوم لدھیانوی سیڑھیوں کے قریب مسجد مبارک کے اوپر کھڑے تھے۔ یہ مولوی عبد الحق صاحب کے صرف ونحو کے استاد تھے اور مجھ سے بھی واقف تھے۔ وہ بڑی خوشی اور تپاک سے مجھ سے ملے اور مجھے انہیں دیکھ کر بڑی خوشی حاصل ہوئی۔ انہوں نے فرمایا کہ تم بیعت کرنے کے لئے آئے ہو۔ مَیں نے کہا۔ دعا کروانے کے لئے آیا ہوں۔ پھر فرمایا کہ تم مولویوں سے ڈرتے ہو۔ مَیں نے کہا نہیں۔ مولویوں سے تو نہیں ڈرتا۔ حضور کی سچائی تو مجھے حضورکے چہرہ مبارک کو دیکھنے سے ہی ظاہر ہوگئی کہ یہ منہ جھوٹ بولنے والا نہیں ہے۔ اتنے میں سورج غروب ہونے کے قریب چلا گیا۔ ایک اور شخص کئی روز سے حضور کی خدمت میں بیعت کے لئے آیا ہوا تھا۔ اس نے عرض کیا کہ حضور میری بیعت لے لیں۔ میں نے گھر کو واپس جانا ہے۔ حضور نے جواب فرمایا کہ ٹھہرو، خوب تسلی کرنی چاہئے۔ پھر اور باتوں میں مشغول ہوگئے۔ مولوی عبد القادر صاحب نے میری نسبت حضور کی خدمت میں خود ہی عرض کیا کہ یہ شخص بیعت کرنا چاہتا ہے۔ حضور اسی وقت جو کسی قدر اونچے بیٹھے تھے، نیچے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ آؤ جس نے بیعت کرنی ہے (وہ شخص تو پہلے ہی پاس بیٹھا تھا جو پہلے بیعت کرنا چاہتا تھا)۔ میں سیڑھیوں پر سے کھڑا حضور کی طرف چلا۔ دو تین ہاتھ کے فاصلہ پر رہا تو میرے دل پر ایسی کشش ہوئی جیسے کوئی رسّہ پاکر اپنی طرف کھینچتا ہے۔ میری چیخیں نکل گئیں اور بے اختیار ہوکر حضور کے پاس بیٹھا۔ اور خوشی سے حضور کے ہاتھ میں ہاتھ دیئے اور ہم دونوں شخصوں نے بیعت کی اور بعد میں حضور سے مقدمہ کے بارے میں دعا کے لئے عرض کی۔ حضور نے دعا فرمائی اور میں اس کے بعد دس دن وہاں ٹھہرا۔ کہتے ہیں کہ حضور سے اور قادیان سے ایسی محبت ہوگئی کہ واپس گھر جانے کو جی نہ چاہتا تھا۔ قادیان بالکل بہشت کا نمونہ دکھائی دیتا تھا۔ یہاں ہر وقت سوائے خدا کے ذکر کے دنیا کے ذکر وفکر کی آواز تک سنائی نہ دیتی تھی۔ ہر طرف سے سلاماً سلاماً کی آواز آتی تھی۔ میرے سارے غم واندوہ دور ہوگئے۔ اس وقت حضور علیہ السلام پر قتل کا جھوٹا مقدمہ جو پادریوں کی سازش سے ایک لڑکے کے ذریعہ تھا چل رہا تھا یا چل چکا تھا۔ اس کے بعد کہتے ہیں کہ مَیں اجازت لے کر پھر آ گیا لیکن کہتے ہیں کہ بیعت کرنے پر میری حالت بالکل تبدیل ہوگئی۔ خدا کے ساتھ ایسی محبت اور عشق پیدا ہوگیا کہ رات دن سوائے اُس کے ذکر کے سونے کو بھی دل نہ چاہتا تھا۔ اگر سوتا تھا تو دھڑ دھڑا کر (یعنی گھبرا کر) اٹھتا تھا جیسے کوئی اپنے پیارے سے علیحدہ ہوگیا ہوتا ہے۔ میرے دل کی عجیب حالت تھی۔ گاہ گاہ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی دل کو پکڑ کر دھوتا ہے۔ خشوع خضوع ہر روز بڑھتا جاتا تھا۔ یہ حضور کی توجہ کا اثر تھا۔ ایک دن خشوع کی حالت میں ایسا معلوم ہوا کہ میرا دل چیراگیا اور اس کو دعا کرکے دھودیا گیا اور ایک نئی روح اس میں داخل ہوگئی ہے۔ جسے روح القدس کہتے ہیں۔ میری حالت حاملہ عورت کی طرح ہوگئی۔ مجھے اپنے پیٹ میں بچہ سا معلوم ہوتا تھا۔ میرا وجود ایک لذت سے بھر گیا اور نورانی ہوگیا اور نور سینے میں دوڑتا معلوم ہوتا تھا۔ ذکر کے وقت زبان میں ایسی لذت پیدا ہوتی تھی جو کسی چیز میں وہ لذت نہیں۔ میرے پیچھے نماز پڑھنے والوں کو بھی نمازوں میں بہت لذت آتی تھی۔ اور خوش ہوکر کہتے تھے کہ کیسی اچھی نماز پڑھائی ہے۔ یہ حالت اصل میں میری حالت نہ تھی بلکہ مسیح موعود کی حالت کا نقشہ تھا۔ مقدمہ تو خدا کے فضل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں سے میرے دارالامان ہوتے ہی جاتا رہا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچانے کا یہ سبب بنایا تھا جس کے ذریعہ اپنے ناچیز بندے کو آسمانوں کی سیر کرائی اور اپنے دیدار سے مشرف فرمایا۔ مَیں مسیح موعودؑ کی کتابوں اور مخالفوں کی کتابوں کو لے کر اکیلا مسجد میں بیٹھتا اور خوب غور سے سب کا مطالعہ کرتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دلائل کو قرآن شریف کی آیتوں کے مطابق پاتا۔ ایک دن میں ایک مخالف کی کتاب دیکھ رہا تھا اور دل میں حیران ہورہا تھا کہ یہ کیسے عالم ہیں جو ایسی کتابیں لکھ رہے ہیں۔ یہ خیال آتے ہی نیند آگئی اور سوگیا اور الہام ہوا۔ بَلْ عَجِبُوْا اَنْ جَاءَ ھُمْ قَوْمٌ مُنْذِرٌ یہ الہام میرے دل پر ایسا داخل ہوا جیسے کوئی چیز نالی کے راستے داخل ہوتی ہے۔ دل پر آتے ہی زبان پر جاری ہوگیا۔ اور اس الہام کے یہ معنی سمجھائے گئے کہ یہ عالم (یہ مولوی لوگ جو ہیں) ایک ایسی قوم ہیں جب ان کے پاس ڈرانے والی قوم آئی۔ یعنی نبی، تو یہ تعجب ہی کرتے رہے ہیں۔ مَیں اپنے الہاموں اور خوابوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھتا رہتا تھا۔ جب کوئی کسی قسم کا اعتراض مسیح موعود علیہ السلام پر کرتا، اس کے جواب کے لئے جھٹ قرآنِ شریف کی آیت میرے سامنے آ جاتی اور میں قرآن شریف سے اس کا جواب دیتا۔ ایک دفعہ ایک مولوی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی موت قرآن شریف سے دکھاؤ۔ جہاں موت کا لفظ آیا ہو۔ مَیں نے کہا۔ دیکھو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ (النساء: 160)۔ یعنی اب کوئی بھی اہل کتاب قرآن شریف کے اس فیصلہ کو پڑھ کر کہ عیسیٰ علیہ السلام سولی اور قتل کی موت سے نہیں مرے بلکہ اپنی طبعی موت سے مرے ہیں۔ طبعی موت پر ایمان لانے سے پہلے ایسی بات پر ایمان لائیں گے کہ سولی اور قتل کی موت سے نہیں مرے۔ بِہٖ کی ضمیر وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ کی طرف ہے۔ مَوْتِہٖ سے عیسیٰؑ کی طبعی موت مراد ہے جس کی عیسیٰؑ قیامت کو گواہی دیں گے کہ مَیں سولی اور قتل کی موت سے نہیں مرابلکہ قرآن شریف کے فیصلہ کے مطابق طبعی موت سے مرا ہوں۔ وہ مولوی اس بات کو سن کر جھٹ بھاگ گیا۔ اور اس وجہ سے وہاں کے گاؤں کی اکثریت احمدی ہو گئی تھی لیکن بعد میں پھر مولویوں کے ورغلانے پر اور ڈرانے پر کچھ لوگ پِھر بھی گئے۔
(ماخوذ از رجسٹر روایات صحابہ نمبر 4 صفحہ 107 تا 112 روایت حضرت بہاول شاہ صاحبؓ۔ غیر مطبوعہ)
(خطبہ جمعہ 17؍ دسمبر 2010ء)