• 27 اپریل, 2024

’’جو میرے نام آیا‘‘

ہر زمانہ کی چند ایک ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو اُس زمانہ کی پہچان بن جاتی ہیں۔ ہم جب چھوٹے تھے تو وہ زمانہ خط و کتابت کے لحاظ سے اپنی پہچان رکھتا تھا۔ نہ میڈیا اپنی پہچان بنا پایا تھا اور نہ سوشل میڈیا تھا اور Gadgets بھی بالکل نہ ہونے کے برابر تھے۔ ہاں خطوط کا سلسلہ عام تھا۔ اتنا عام کہ غرباء کے لئے Post cards تھے جو کم رقم پر اپنے پیغام کو Convey کرنے کا آسان ترین اور سستا ذریعہ تھے۔

اُدھر تعلیم بھی عام نہ تھی۔ ہماری مائیں یا تو ان پڑھ ہوا کرتیں یا چند جماعتیں پڑھی ہوتی تھیں۔ یہی کیفیت ہمارے بزرگوں کی ہوا کرتی تھی اور جب کبھی خط آتا تو وہ اس کو پڑھانے کی خاطر کسی معمولی پڑھے لکھے کا سہارا ڈھونڈتے تھے اور جب تک اس خط کو پڑھا نہ لیتے تو چین سے نہ بیٹھتے تھے۔ اسی مضمون کو حضرت سید میر محمد اسماعیلؓ نے اپنے ایک منظوم کلام میں اپنی بیٹی حضرت سیدہ مریم صدیقہ المعروف چھوٹی آپا کے نام بہت احسن طریق سے بیان فرما کر مکرمہ چھوٹی آپا اور دیگر بچوں کو قرآن کریم کے مطالعہ اور تلاوت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آپ لکھتے ہیں:

اللہ میاں کا خط ہے جو میرے نام آیا
استانی جی پڑھاؤ جلدی مجھے سیپارہ

اس شعر کا پہلا مصرعہ قابل غور اور سبق آموز ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا خط ہے جو ہر مسلمان کے نام ہے۔ جسے پڑھنا اور پڑھانا اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر ضروری ہے جس طرح کچھ عرصہ پہلے کی مائیں یا بزرگ اپنے نام آئے خطوط کو کسی سے پڑھایا کرتے تھے۔ یہی وہ مضمون ہے جو آنحضور ﷺ نے اس ارشاد میں بیان فرمایا ہے۔

خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ

(بخاری، کتاب فضائل القرآن)

تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید پڑھے اور دوسروں کو پڑھائے۔

کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن کریم پڑھتا، سیکھتا، پڑھاتا اور سکھاتا ہے۔ حضرت سید میر محمد اسماعیلؓ کے شعر میں ’’استانی جی‘‘ سے Teachers یا محلہ کی بزرگ خواتین ہی مراد نہیں بلکہ مائیں بھی مراد ہیں۔ جن کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن کریم سے آراستہ کرنے کے لئے پہلے دن سے ہی سعی کریں بلکہ حضرت مولانا نور الدین خلیفۃ المسیح الاولؓ تو فرمایا کرتے تھے کہ مجھے قرآن سے محبت ماں کے پیٹ سے ہی ہوگئی تھی جب وہ قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کیاکرتی تھیں جب وہ امید سے تھیں۔ ہمیں یاد ہے کہ ہمیں صبح ’’چنگیر‘‘ پر اس وقت تک ناشتہ کے لئے آنے کی اجازت نہ ہوتی تھی جب تک ہم تلاوت قرآن نہ کرلیتے خواہ سکولز سے دیر ہورہی ہوتی۔ بلکہ بعض دفعہ مائیں ان الفاظ سے بچوں کو مخاطب ہوکر پوچھا کرتی تھیں ’’کیا خدا تعالیٰ کا خط جو تمہارے نام آیا ہے پڑھ آئے ہو۔‘‘

آج کل بچے عموماً راتوں کو دیر سے سونے اور صبح دیر سے اٹھنے کی عادت اپناچکے ہیں اور مائیں بھی بچوں کو دیر سے یا عین اُس وقت بیدار کرواتی ہیں جب اسکولزکا وقت ہوچکا ہوتا ہے اور بسا اوقات نماز یا قرآن کی تلاوت رہ جاتی ہے یا بعض گھرانوں میں دوپہر کو تلاوت کروائی جاتی ہے۔ جبکہ سورۃ بنی اسرائیل کے مطابق صبح کی تلاوت آخری روز انسان کے سامنے پیش کی جائے گی۔

لکھا ہے کہ حضرت سر چوہدری محمد ظفر اللہ خانؓ کو کسی جماعت میں خطبہ دینے کی دعوت دی گئی اور درخواست کی گئی کہ قرآن کریم کی تلاوت کی اہمیت پر روشنی ڈالیں۔آپؓ خطبہ جمعہ میں چند عربی فقرے ارشاد فرما کر بیٹھ گئے۔ نماز جمعہ کے بعد حضرت چوہدری صاحبؓ کے اردگرد دوست جمع ہوگئے اور خطبہ کا خلاصہ یا مفہوم پوچھنے لگے۔ آپؓ نے فرمایا۔

آپ لوگ میرے خطبہ کا مفہوم جاننے کے لئے بہت فکر مند ہیں۔جو خطبہ (خط) اللہ تعالیٰ نے 1400 سال قبل قرآن کریم کی صورت میں نازل فرمایا ہے اس کی کوئی فکر نہیں۔

الغرض قرآن کریم کو خطبہ الہٰی سمجھیں یا اللہ کی طرف سے خط اس کا پڑھنا، پڑھانا اور اپنی اولادوں اور نسلوں کو سکھلانا اور اس کی تلاوت اور مفہوم کے سمجھنے کا عادی بنانا بہت ضروری ہے۔

ہماری جماعت میں قرآن کریم کے تراجم قریباً 75 سے زائد زبانوں میں موجود ہیں اور پھر اس کی تفاسیر بھی چند زبانوں میں موجود ہیں۔ اس طرف توجہ دینی اور اپنی اولادوں اور ماتحتوں کو متوجہ کرنا بہت ضروری ہے۔

آج کل بعض مغربی اقوام قرآن کریم کے ساتھ ہتک آمیز رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔اس حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو کثرت سے قرآن کریم کی طرف متوجہ ہونے کی طرف توجہ دلاچکے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ خط میرے نام ہے اور میں نے اِسے خود پڑھنا ہے اور دوسروں کو پڑھانے کا فرض بھی ادا کرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو قرآن کریم کی ایسی محبت عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کی لقا اور اس کی رضا کا موجب بنے۔ آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 فروری 2021