ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز
حالیہ دورہٴ امریکہ کی ڈائری
Pizza سے ادائیگی نماز تک
حضور انور کی موجودگی کے بابرکت اثرات محض ان لوگوں پر ہی نہ تھے جو براہ راست آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کر چکے تھے بلکہ کئی رضاکاران اور ایسے احمدیوں پر بھی تھےجو حضور انور کی اقتدا میں نماز پڑھنے کے لیے مسجد آ رہے تھے۔ حضور انور کے گزشتہ دورہٴ امریکہ کے دور رَس نتائج بھی خوب عیاں تھے۔ ایک خادم جس نے حضور انور کے دورہ کے دوران سکیورٹی ڈیوٹی کی تھی اس کا نام ذیشان قمر تھا جو ستائیس سال کا ایک خادم تھا۔ اس شام Zion میں اس نے مجھے بتایا کہ کس طرح حضور انور کے گزشتہ دورہٴ امریکہ 2018ء کے دوران اس کی زندگی بدل گئی۔ ذیشان صاحب نے کہا جیسا کہ میں انیس سال سے بیس سال کی عمر میں قدم رکھ رہا تھا، اگر میں دیانتداری سے کام لوں تو میں ایمان اور مذہب سے دور جا رہا تھا۔ بلکہ جب میں ابھی طفل ہی تھا تو مجھے یاد ہے کہ کبھی کبھار میں مسجد میں کوئی کھیل کھیل رہا ہوتا اور نماز کا وقت ہو جاتا تو میں واش رومز میں جا کر چھپ جاتا تاکہ مجھے نماز نہ پڑھنی پڑے۔ اب اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ میں اکثر نوے منٹ گاڑی چلا کر باجماعت نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں جاتا اور واپس آتا ہوں۔ جب میں اس تبدیلی کے بارے میں سوچتا ہوں تو یہ مجھے بھی حیران کر دیتی ہے۔ ذیشان صاحب نے مزید بتایا کہ حضور انور کا امریکہ کا گزشتہ دورہ 2018ء میرے اندرانقلاب پیدا کرنے والا تھا اگرچہ تب تک مجھے مذہب میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ پھر بھی میں نے فیصلہ کیا کہ (اپنے کام کی جگہ) Pizza Takeout سے رخصت لے کر مسجد جاؤں تاکہ حضور انور کو خوش آمدید کہہ سکوں اور آپ کی اقتدا میں نماز ادا کر سکوں۔ یہ تبدیلی کا لمحہ تھا۔ جونہی میں مسجد میں داخل ہوا میں نے حضور انور کو دیکھا اور آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی تو مجھے سکون اور روحانیت کا ایسا احساس ہوا کہ واپس جانا مشکل ہو گیا۔
ذیشان صاحب نے مزید بتایا کہ انہوں نے حضور انور کے دورہ کے دوران باقاعدہ مسجد آنا شروع کر دیا اور تب سے مستقل اللہ تعالیٰ کے افضال کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ:
’’مجھے پیزا والی نوکری سے نکال دیا گیا کیونکہ میں حضور انور کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کے لیے مسجد جاتا رہا۔ تاہم کسی طرح بغیر ضروری اور لازمی تعلیم کے مجھے بینک میں ایک نوکری مل گئی۔ اور اب سائبر سیکیورٹی میں کام کر رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ حضور انور کی قربت میں رہنے کی وجہ سے تھا اور اپنے عقائد کی بہتر رنگ میں سمجھ بوجھ پیدا کرنے کی وجہ سے تھا کیونکہ اس کے بعد سے میں ہمیشہ اپنی زندگی میں ایسی برکتیں دیکھ رہا ہوں۔‘‘
میں نے ذیشان صاحب سے پوچھا کہ اس دورہ کے دوران ان کی مسجد میں ڈیوٹی کیسی جا رہی ہے؟ جواب میں انہوں نے بتایا کہ:
’’آپ جانتے ہیں کہ بعض اوقات مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں کہیں دوبارہ غیر روحانی راستے پر واپس نہ چلا جاؤں اور ویسا نہ ہو جاؤں جیسا پہلے تھا۔ تاہم الحمدللّٰہ کچھ نہ کچھ ضرور ایسا ہوتا ہے جو ایمان افروز ہوتا ہےقبل اس کے کہ دوبارہ کمزوریاں جڑ پکڑ جائیں۔ گزشتہ روز میں ڈیوٹی کر رہا تھا اور چند منٹوں کے لیے اپنی پوسٹ خالی چھوڑ دی اور ایک جگہ کو صاف کرنے کے لیے چلا گیا جو مجھے لگا تھا کہ بہت گندی تھی۔ میرا خیال تھا کہ اس جگہ کو صاف کر دوں مباداحضور انور اس کے پاس سے گزریں اور اس لیے بھی تاکہ مسجد صاف رہے۔تاہم حفاظت خاص کے میرے کچھ نگرانوں نے میرے پوسٹ چھوڑنے پر ناراضگی کا اظہار کیا جو میرے نزدیک کچھ زیادہ سخت اور غیر ضروری تھا۔ مجھے بعد ازاں مسجد کے دوسرے حصہ میں مقرر کر دیا گیا۔ مجھے پتا نہیں کہ اس کی وجہ کیا تھی لیکن میں اپنے طور پر سمجھ رہا تھا کہ مجھے سزا دی گئی ہے تو میں آگے پیچھے چکر لگا رہا تھا اور اس سب کے بارے میں سوچ رہا تھا جب اچانک حضور انور وہاں تشریف لے آئے جہاں میری ڈیوٹی تھی۔ دس سے پندرہ سیکنڈ کے لیے حضور انور نے میری طرف نظر کرم فرمائی اور مجھے دیکھ کر مسکرائے۔‘‘
ذیشان صاحب نے مزید بتایا کہ:
’’اس لمحہ جب شاید میں کچھ تلخی اختیار کرتا تو وہ سزا مجھے اللہ کے مزید قریب کرنے کا باعث بن گئی۔ اس واقعہ سے میں نے جانا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نیتوں کو جانتا ہے وہ جانتا ہے کہ میرا دل صاف تھا اسی لیے اس نے مجھے بہترین جزا عطا فرمائی کہ مجھے حضور انور کو اس قدر قریب سے دیکھنے کا موقع مل گیا۔‘‘
مجھے ذیشان صاحب کے ساتھ وقت گزارنے کا بہت مزہ آیا اور اس دورہ کے دوران میں ان کو دیکھتا رہا کہ وہ نہایت خوش اسلوبی سے ڈیوٹی سر انجام دیتے رہے اور جب وہ دوسرے احمدیوں کے ساتھ لائن میں کھڑے ہو کر حضور انور کو دیکھتے تو نہایت خوشی سے حضور انور کی طرف دیکھ کر ہاتھ اٹھا کر سلام کرتے تھے۔
کبھی ترجیحی سلوک کی توقع نہ کریں،
اپنی فیملی کی رہنمائی
دورہٴ امریکہ کے دوران میری ملاقات کئی رشتہ داروں سے ہوئی جن میں خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افراد بھی شامل تھے جو امریکہ یا کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان میں سے چند سیکیورٹی اور انتظامیہ کی ڈیوٹیاں دے رہے تھے۔ بعض مواقع پر مجھے ان میں سے بعض کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا خاص طور پر ان کے ساتھ جو میرے ہم عمر تھے اور دورہ کے متفرق پہلوؤں پر گفتگو ہوتی رہی۔
ایک شام ایسے ہی ایک رشتہ دار نے بتایا کہ وہ اکثر حضور انور کا بیان فرمودہ خطبہ جمعہ 3؍ستمبر 2021ء سنتے ہیں۔ جس میں آپ نے میرے بھتیجے سید طالع احمد شہید کا ذکر خیر فرمایا تھا اور خاص طور پر خطبے کے اس حصے کا ذکر کیا جس میں حضور انور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے افرادِ خاندان کو مخاطب فرمایا اور انہیں تلقین فرمائی کہ ان کا حساب کتاب ان کے اچھے اعمال پر منحصر ہے اور محض ایک نیک اور بزرگ شخص کی اولاد میں سے ہونا ان کے لیے کسی شرف یا سعادت کی وجہ نہیں ہے۔ انہوں نے نہایت افسوس سے اس بات کا اظہار کیا کہ بجائے خلافت کے سلطانِ نصیر بننے کے، چند افراد خاندانِ مسیح موعود علیہ السلام ایسے ہیں جنہوں نے اپنے غلط رویہ اور مادہ پرستی کی وجہ سے حضور انور کو تکلیف پہنچائی ہے۔
جب وہ یہ الفاظ کہہ رہے تھے تو میرے پاس یہ تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا اور ان لمحات کے بارے میں سوچ رہا تھا جب حال ہی میں حضور انور نے ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا کہ مسیح موعود علیہ السلام کے افرادِ خاندان میں سے چند دین کو دنیا پر مقدم کر نے والے نہیں ہیں۔
یہ ایسی بات ہے جس پر سوشل میڈیا اور دیگر حلقوں میں اعتراض کیا جاتا ہے کہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض افراد کو جماعتی سطح پر نیز حضور انور کی طرف سے امتیازی سلوک سے نوازا جاتا ہے۔ اس کے برعکس میں نے یہ چیز بار بار دیکھی ہےکہ حضور انور کی خواہش اور توقعات، افراد خاندانِ مسیح موعود علیہ السلام سے یہ ہیں کہ وہ عاجزی اور اخلاقیات کا عملی نمونہ بنیں۔
اپنے دور خلافت میں حضور انور نے بارہا خاندان مسیح موعود کے افراد کو ان کے ایمان کی بابت فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے اور حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خواہشات کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ کس طرح حضور انور کے دورہٴ امریکہ سے چند ہفتے پہلے حضور انور کے علم میں یہ بات آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے ایک فرد کو مسجد مبارک اسلام آباد میں نماز پڑھنے کے لئے داخلے کی اجازت نہ مل سکی کیونکہ جگہ کم تھی اور ان سے درخواست کی گئی کہ باہر نماز ادا کریں۔
اس بارے میں حضور انور نے خاکسار سے تفصیل سے گفتگو فرمائی کہ خاندان حضرت مسیح موعودؑ کے کسی فرد کو اپنے تئیں کوئی خاص مقام یافتہ یا خاص نہیں سمجھنا چاہیے۔ حضور انور نے فرمایا:
’’اگر مسجد میں جگہ نہیں ہے، تو نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد یا سینئر عہدیداران کو اپنے لیے خاص قوانین کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ کسی بھی شخص کو دوسرے سے بہتر سلوک ملنے یا سہولیات لینے کا حق نہیں ہے کیونکہ ان کا تعلق خاندان مسیح موعود یا خلیفہ وقت سے ہے۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ اپنے بچوں کو اسی امرپر رہنمائی فرماتے تھے اور انہیں بتاتے تھے کہ انہیں کسی بھی قسم کے ترجیحی سلوک کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ باقی خلفاء نے بھی اپنی فیملیز کو ایسا ہی بتایا ہوگا۔ یقیناً یہ ایسی چیز ہے جو میں اپنے بچوں کو بھی بتاتا ہوں اور باقاعدگی سے یاد دہانی کرواتا رہتا ہوں۔‘‘
حضور انور نے مزید فرمایا ’’اس معاملہ میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خوب وضاحت فرمائی ہے اور لوگوں کے سامنے اپنی فیملی کو نصیحت فرماتے اور احمدی احباب کو بتاتے کہ وہ ان کے بچوں کو صاحبزادہ کہہ سکتے ہیں اگر وہ واقعی متقی ہیں لیکن اگر ان کے اخلاق اچھے نہیں تو پھر جو بھی ہو، وہ اس عزت کے لائق نہیں ہے۔‘‘
آپ نے مزید فرمایا ’’اگر ایک مخلص احمدی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت کی وجہ سے یا خلیفہ وقت کی محبت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان میں سے کسی کی عزت کرتا ہے تو وہ ایک الگ بات ہے۔ لیکن کسی کو کبھی بھی یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ کہ ان سے خاص سلوک کیا جائے یا ایسی سوچ بھی نہیں ہونی چاہئے۔‘‘
اسی ملاقات میں حضور انور نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک واقعہ کا ذکر فرمایا کہ وہ کس طرح احباب جماعت کی تربیت کرتے تھے۔ حضور انور نے فرمایا:
’’قادیان میں ایک وقت تھا جب جماعت کو مختلف سیکیورٹی خدشات تھے۔ اس لیے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہدایات سے نوازا کہ سیکیورٹی بڑھائی جائے اور آپ نے خاص ہدایت فرمائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبر کے قریب کسی کو جانے کی اجازت نہ ہوگی جب تک اس کو سیکیورٹی کوڈ کا علم نہ ہو۔‘‘
آپ نے مزید فرمایا ’’ایک رات حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود مزار مبارک پر تشریف لے گئے اور ایک خادم ڈیوٹی پر تھا۔ جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہشتی مقبرہ میں داخل ہونے لگے تو اس خادم نے آپ کو روکا اور کوڈ بتائے بغیر اندر جانے سے روک دیا۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے اس خادم سے استفسار فرمایا کہ کیا وہ جانتا ہے کہ آپ کون ہیں۔ اس خادم نے جواب دیا کہ جی حضور! میں آپ کو جانتا ہوں اور میں اپنی زندگی آپ پر قربان کرنے کو تیار ہوں لیکن کوڈ کے بغیر میں آپ کو داخلے کی اجازت نہیں دے سکتا۔‘‘
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ یہ خادم باقیوں کے لیے مثال ہے۔
حضور انور نے فرمایا ’’میں نے تمہیں پہلے بھی بتایا تھا کہ جب میں ربوہ میں ناظر اعلیٰ تھا تو ڈیوٹی پر مامور ایک خادم نے پاؤں تک میری مکمل تلاشی لی تو اس وقت کے صدر مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان بہت پریشان ہوئے کہ مجھے اس طرح سے چیک کیا گیا ہے اور میرے سے معذرت کی، لیکن مجھے ہرگز برا نہیں لگا۔ جب وہ تلاشی مکمل ہوئی تو میں اندر گیا اور مسجد کے پچھلے حصے میں جہاں میں اکثر بیٹھتا تھا جا کر بیٹھ گیا۔‘‘
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ آج خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی احمدی احباب جو بے نفس ہو کر نہایت خلوص اور محبت سے جماعت کی خدمت کرتے ہیں اور باوجود یہ کہ وہ حضور انور کے ساتھ قریبی رشتہ داروں کا تعلق رکھتے ہیں وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ وہ تمام قواعد و ضوابط کو اختیار کریں اور ان پابندیوں کو بھی جو دوسروں کے لیے لگائی گئی ہوں۔
امسال جلسہ سالانہ یو کے، کے موقع پر محترم ناظر اعلیٰ صاحب ربوہ مکرم سید خالد احمد شاہ صاحب پاکستان سے خاص طور پر جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ جب آپ حدیقۃالمہدی میں جلسہ کے پہلے روز تشریف لائے تو آپ کی فیملی میں سے ایک فرد کا کرونا ٹیسٹ مثبت آیا۔ اس کے نتیجہ میں اگرچہ آپ خود negative تھے۔ آپ اپنی رہائش گاہ واپس تشریف لے گئے اور آپ نے اور آپ کی فیملی نے اس جلسہ سالانہ کے جملہ ایام آئسولیشن میں گزارے اور اسی وجہ سے جلسہ سالانہ میں شامل نہ ہو سکے۔ کوئی خاص اجازت نہ دی گئی کہ آپ ناظر اعلیٰ ہیں یا حضور انور کی اہلیہ کے بھائی ہیں۔
اسی طرح دورہٴ امریکہ کے دوران دوسرے ہفتے میں ہمیں پتہ چلا کہ محترم امیر صاحب امریکہ ڈاکٹر مکرم ڈاکٹر مرزا مغفور احمد صاحب کا کرونا ٹیسٹ positive آیا ہے۔ یہ ایک پریشان کن خبر تھی، خاص طور پر ایسے حالات میں جب محترم امیر صاحب ہر وقت ماسک پہننے کے حوالہ سے بہت احتیاط کررہے تھے۔ پھر بھی جونہی ان کا ٹیسٹ positive آیا وہ isolation میں چلے گئے اور اس وقت تک الگ رہے جب تک آپ پوری طرح صحت مند نہیں ہوگئے۔ نہ تو آپ نے کوئی خاص اجازت چاہی اور نہ ہی آپ کو کسی خاص اجازت سے نوازا گیا۔ باوجود یہ کہ آپ حضور انور کے بڑے بھائی اور امیر جماعت امریکہ بھی ہیں۔
ایسے لوگ ہمیشہ ہوتے ہیں جو جماعت میں گروپ بندی کے قائل ہوتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد یا سینیئر عہدیداران سے امتیازی سلوک روا رکھا جانا چاہیے۔ تاہم حقیقت اور سچائی اس سے قدرے مختلف نظر آتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے افراد کے حوالہ سے اپنے دور خلافت میں حضور انور نے بار بار بطور خلیفہٴ وقت اور فیملی کے بزرگ کی حیثیت سے اس بات کی یقین دہانی کی کوشش فرمائی ہے کہ وہ سب بحیثیت احباب جماعت اپنے فرائض ادا کرنے والے ہوں اور دوسروں کے لیے مثالی نمونہ بنیں۔
(حضور انور کا دورہٴ امریکہ ستمبر- اکتوبر 2022ء از ڈائری عابد خان صاحب)
(باتعاون: مظفرہ ثروت۔ جرمنی)
مترجم: ابو سلطان)