• 8 مئی, 2024

پنڈت لیکھرام کی ہلاکت اور پیشگوئی مصلح موعود کی عظمت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
آج دنیا گواہ ہے کہ اس موعود بیٹے نے دنیا کے کناروں تک شہرت پائی ہے اور بیرونِ ہندوستان یا بیرونِ قادیان دنیا کا ہر مشن آپؑ کی سچائی کا ثبوت ہے۔ بہت سارے مشن دنیا میں حضرت مصلح موعودؓ کے زمانے میں قائم ہوئے تھے اور وہی سلسلہ، اسی نظام کا سلسلہ آج تک چل رہا ہے۔

بعض لوگوں کا یہ بھی اعتراض تھا کہ مصلح موعودؓ بعد کے کسی عرصے میں پیدا ہوں گے سو سال بعد دو سو سال بعد یا تین سو سال بعد۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہ کس وجہ سے حضرت مسیح موعوؑ دنے نشان مانگا تھا اور کیوں آپؑ کے زمانہ میں یہ پیدا ہونا اور نشان پورا ہونا چاہیے تھا، حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ
’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ مصلح موعود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی آئندہ نسل سے تین چار سو سال کے بعد آئے گا۔‘‘ یہاں بھی نسل کا ذکر ہے کہ آئندہ نسل سے کوئی تین چار سو سال کے بعد آئے گا۔ ’’موجودہ زمانہ میں نہیں آ سکتا مگر ان میں سے کوئی شخص خدا کا خوف نہیں کرتا کہ وہ پیشگوئی کے الفاظ کو دیکھے اور ان پر غور کرے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو لکھتے ہیں اس وقت اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اسلام اپنے اندر نشان نمائی کی کوئی طاقت نہیں رکھتا۔ چنانچہ پنڈت لیکھرام اعتراض کر رہا تھا کہ اگر اسلام سچا ہے تو نشان دکھایا جائے۔ اِندرمَن اعتراض کر رہا تھا کہ اگر اسلام سچا ہے تو نشان دکھایا جائے۔ آپؑ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا! تُو ایسا نشان دکھا جو ان نشان طلب کرنے والوں کو اسلام کا قائل کر دے۔ تُو ایسا نشان دکھا جو اِندرمَن مرادآبادی وغیرہ کو اسلام کا قائل کر دے اور یہ معترض ہمیں بتاتے ہیں۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں کہ یہ اعتراض کرنے والے کہتے ہیں ’’یہ معترض ہمیں بتاتے ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کی تو خدا نے آپؑ کو یہ خبر دی کہ آج سے تین سو سال کے بعد ہم تمہیں ایک بیٹا عطا فرمائیں گے جو اسلام کی صداقت کا نشان ہو گا۔ کیا دنیا میں کوئی بھی شخص ہے جو اس بات کو معقول قرار دے سکے؟‘‘ انتہائی نامعقول بات ہے۔ ’’یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص سخت پیاسا ہو اور کسی شخص کے دروازہ پر جائے اور کہے بھائی! مجھے سخت پیاس لگی ہوئی ہے خدا کے لیے مجھے پانی پلاؤ اور وہ گھر والا آگے سے یہ جواب دے کہ صاحب! آپ گھبرائیں نہیں۔ مَیں نے امریکہ خط لکھا ہوا ہے وہاں سے اسی سال کے آخر تک ایک اعلیٰ درجہ کا ایسنس آ جائے گا۔‘‘ شربت آ جائے گا ’’اور اگلے سال آپ کو شربت بنا کر پلا دیا جائے گا۔ کوئی پاگل سے پاگل بھی ایسی بات نہیں کر سکتا۔ کوئی پاگل سے پاگل بھی ایسی بات خدا اور اس کے رسول کی طرف منسوب نہیں کر سکتا۔ پنڈت لیکھرام، منشی اندرمن مرادآبادی اور قادیان کے ہندو تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے متعلق یہ دعویٰ کہ اس کا خدا دنیا کو نشان دکھانے کی طاقت رکھتا ہے ایک جھوٹا اور بے بنیاد دعویٰ ہے۔ اگر اس دعویٰ میں کوئی حقیقت ہے تو ہمیں نشان دکھایا جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے خدا! مَیں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تُو مجھے رحمت کا نشان دکھا۔ تُو مجھے قدرت اور قربت کا نشان عطا فرما۔ پس یہ نشان تو ایسے قریب ترین عرصہ میں ظاہر ہونا چاہیے تھا جبکہ وہ لوگ زندہ موجود ہوتے جنہوں نے یہ نشان طلب کیا تھا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ 1889ء میں ’’eighteen eighty nine میں‘‘ جب میری پیدائش اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے ماتحت ہوئی تو وہ لوگ زندہ موجود تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ نشان مانگا تھا۔ پھر جوں جوں مَیں بڑھا اللہ تعالیٰ کے نشانات زیادہ سے زیادہ ظاہر ہوتے چلے گئے۔‘‘

(مَیں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں، انوارالعلوم جلد17ص223۔ 222)

پس یہ نشان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں اور ان لوگوں کی زندگی میں جو اسلام پر اعتراضات کرتے تھے ظاہر ہونا ضروری تھا جنہوں نے یہ نشان مانگا تھا اور یہ ظاہر ہوا۔ یہ بھی بڑی اہم بات ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ اس پیشگوئی کی اغراض کیا تھیں اور کیوں حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں ان اغراض کا حصول ضروری تھا۔ کچھ تو ابھی مَیں نے مختصر بیان کیا اور کیوں آپؑ کے یہ بیٹے جو آپؑ کی جسمانی اور خونی اولاد اور آپؑ کا وہ بیٹا ہےجس کے جسمانی باپ آپؑ تھے اس کے حق میں یہ نشان پورا ہونا ضروری تھا۔ بہرحال ان اغراض کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ آپؓ فرماتے ہیں کہ
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے 20؍فروری 1886ء کے اشتہار میں ذکر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ ظاہر فرمایا ہے کہ یہ پیشگوئی جو دنیا کے سامنے کی گئی اس کی کئی اغراض ہیں۔ اول یہ پیشگوئی اس لیے کی گئی ہے کہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت سے نجات پائیں اور جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آئیں‘‘ یعنی روحانی طور پر مردہ ہو چکے ہیں زندہ ہوں۔ ’’اگر یہ سمجھا جائے کہ اس پیشگوئی نے چار سو سال کے بعد پورا ہونا ہے۔‘‘ آپؓ مزید وضاحت فرما رہے ہیں۔ ’’تو اس کے معنے یہ بنیں گے کہ مَیں نے یہ پیشگوئی اس لیے کی ہے کہ جو آج زندگی کے خواہاں ہیں وہ بیشک مرے رہیں چار سو سال کے بعد ان کو زندہ کر دیا جائے گا۔ یہ فقرہ بالبداہت باطل اور غلط ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں یہ چلہ اس لیے کیا گیا ہے تا کہ وہ لوگ جو دین اسلام سے منکر ہیں ان کے سامنے خدا تعالیٰ کا ایک زندہ نشان ظاہر ہو اور جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت کا انکار کر رہے ہیں ان کو ایک تازہ اور زبردست ثبوت اس بات کا مل جائے کہ اب بھی خدا تعالیٰ اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں اپنے نشانات ظاہر کرتا ہے۔ وہ الہامی الفاظ جو اس پیشگوئی کی غرض وغایت پر روشنی ڈالتے ہیں یہ ہیں کہ ’خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں‘۔ اب اگر ان لوگوں کے نظریہ کو صحیح سمجھ لیا جائے جو یہ کہتے ہیں کہ مصلح موعود تین چار سو سال کے بعد آئے گا تو اس فقرہ کی تشریح یوں ہوتی ہے کہ یہ پیشگوئی اس لیے کی گئی ہے تاکہ وہ لوگ جو آج زندگی کے خواہاں ہیں مرے رہیں۔ چار سو سال کے بعد ان کی نسلوں میں سے بعض لوگوں کو زندہ کر دیا جائے گا۔ مگر کیا اس فقرہ کو کوئی شخص بھی صحیح تسلیم کر سکتا ہے؟

دوسرے یہ پیشگوئی اس لیے کی گئی تھی تا دین اسلام کا شرف ظاہر ہو اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر عیاں ہو۔ اس فقرہ کے صاف طور پر یہ معنی ہیں کہ دین اسلام کا شرف اس وقت لوگوں پر ظاہر نہیں۔ اسی طرح کلام اللہ کا مرتبہ اس وقت لوگوں پر ظاہر نہیں۔ مگر کہا یہ جاتا ہے کہ خدا نے یہ پیشگوئی اس لیے کی ہے تا دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ آج سے تین سو سال کے بعد یا چار سو سال کے بعد جب یہ لوگ بھی مر جائیں گے، ان کی اولادیں بھی مر جائیں گی اور ان کی اولادیں بھی مر جائیں گی لوگوں پر ظاہر کیا جائے۔ جب نہ پنڈت لیکھرام ہو گا نہ منشی اندرمن مرادآبادی ہو گا نہ ان کی اولادیں ہوں گی اور نہ ان کی اولادوں کی اولادیں ہوں گی اس وقت دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کیا جائے گا۔ بتاؤ کہ کیا کوئی بھی شخص ان معنوں کو درست سمجھ سکتا ہے؟‘‘ ان میں کوئی عقل ہے؟

تیسرے آپؑ نے فرمایا یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’یہ پیشگوئی اس لیے کی گئی ہے تا کہ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے۔ اس کے معنی بھی ظاہر ہیں کہ حق اس وقت کمزور ہے اور باطل غلبہ پر ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ایسا نشان ظاہر ہو کہ عقلی اور علمی طور پر دشمنانِ اسلام پر حجت تمام ہو جائے اور وہ لوگ اس بات کو ماننے پر مجبور ہو جائیں کہ اسلام حق ہے اور اس کے مقابل میں جس قدر مذہب کھڑے ہیں وہ باطل ہیں۔ چوتھی غرض اس پیشگوئی کی یہ بیان کی گئی تھی کہ تا لوگ سمجھیں کہ مَیں قادر ہوں اور جو چاہتا ہوں کرتا ہوں۔ اب یہ غور کرنے والی بات ہے کہ لوگ خدا تعالیٰ کو اس صورت میں کس طرح قادر سمجھ سکتے تھے۔ اگر یہ کہہ دیا جاتا کہ تین سو سال کے بعد یا چار سو سال کے بعد ایک ایسا نشان ظاہر ہو گا جس سے تم یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاؤ گے کہ اسلام کا خدا قادر ہے۔ ایسی پیشگوئی کو لیکھرام کیا اہمیت دے سکتا تھا یا وہ لوگ جو اس وقت دین اسلام پر اعتراضات کر رہے تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات کو باطل قرار دے رہے تھے، اسلام کو ایک مردہ مذہب قرار دے رہے تھے ان پر کیا حجت ہو سکتی تھی کہ تم چار سو سال کے بعد خدا تعالیٰ کو قادر سمجھنے لگ جاؤ گے چار سو سال کے بعد پوری ہونے والی پیشگوئی سے وہ لوگ خدا تعالیٰ کو کس طرح قادر سمجھ سکتے تھے۔ وہ تو یہی کہتے کہ ہم ان زبانی دعوؤں کو تسلیم نہیں کر سکتے کہ چار سو سال کے بعد ایسا ہو جائے گا۔ یہ تو ہر کوئی کہہ سکتا ہے۔ بات تب ہے کہ ہمارے سامنے نشان دکھایا جائے اور اسلام کے خدا کا قادر ہونا ثابت کیا جائے۔‘‘ پس یہ نشان آپؑ کی زندگی میں پورا ہونا تھا۔ ’’پانچویں غرض یہ بیان کی گئی تھی کہ تا وہ یقین لائیں کہ مَیں تمہارے ساتھ ہوں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ ’’اگر اس پیشگوئی نے چار سو سال کے بعد ہی پورا ہونا تھا تو اس زمانہ کے لوگ یہ کس طرح یقین کر سکتے تھے کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ہے۔ چھٹی غرض یہ بیان کی گئی تھی کہ تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور اس کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے۔ اس کے معنی بھی یہی بنتے ہیں کہ وہ لوگ جو میرے زمانہ میں اسلام کی تکذیب کر رہے ہیں۔‘‘ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ’’ان کے سامنے میں یہ پیشگوئی کرتا ہوں کہ انہیں اسلام کی صداقت کی ایک بڑی کھلی نشانی ملے گی مگر ملے گی چار سو سال کے بعد۔ جب موجودہ زمانہ کے لوگوں بلکہ ان کی اولادوں اور ان کی اولادوں میں سے بھی کوئی زندہ نہیں ہو گا۔‘‘ اب یہ بھی کوئی عقل کی بات نہیں ہے۔ ’’ساتویں آپؑ نے بیان فرمایا کہ یہ پیشگوئی اس لیے کی گئی ہے تا کہ مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے اور پتہ لگ جائے کہ وہ جھوٹے ہیں۔ چار سو سال کے بعد آنے والے وجود سے اس زمانہ کے لوگوں کو کیونکر پتا لگ سکتا ہے کہ وہ (مجرم) جھوٹ بول رہے تھے۔‘‘

(الموعود۔ انوارالعلوم جلد17 صفحہ 542 تا 544)

پس یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی اولاد سے متعلق تھی اور جیسا کہ پیشگوئی کے الفاظ ہیں کہ تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت اور نسل کا ہو گا۔ بعد کی نسل میں سے نہیں۔ یہ آپؑ کے بیٹے کے بارے میں تھی جو بڑی شان سے پوری ہوئی اور باون سال تک حضرت مصلح موعودؓ کی خلافت ایک روشن چمکتے نشان کی طرح دنیا پر ظاہر ہوئی اور آپؓ کے علم و معرفت کا جو کام ہے اس کے غیر بھی معترف ہوئے جس کی تفصیل جماعت کے لٹریچر میں موجود ہے اگر بیان کرنے لگوں تو کافی وقت لگ جائے۔

(خطبہ جمعہ 21؍ فروری 2020ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مارچ 2021