ہمیں روزمرہ کی اشیاء ضروریات خریدتے وقت دکانداروں کی طرف سے چیزوں کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ یہ ساری عمر آپ کا ساتھ دے گی یعنی ’’لائف ٹائم گارنٹی ہے‘‘۔لیکن جائزہ لیا جائے تو یہ بات سودا بیچنے کا محض ایک ٹکسالی نسخہ معلوم ہوتی ہے۔ ہر چیز کی ایک میعاد ہوتی ہے اور چیزیں بنانے والے پابند ہیں کہ اپنی مصنوعات پر ان کی مدت درج کریں،بالخصوص خورد و نوش کی اشیاء اور ادویات وغیرہ اور ایسی اشیاء جن کے جلد خراب ہونے کا اندیشہ ہو۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ مصنوعات بنانے والے سب یہی چاہتے کہ ان کی بنائی ہوئی چیزوں کا معیار عمدہ ہو اور وہ تادیر لوگوں کے استعمال میں رہیں۔ لوگوں کا ان پر اعتماد بنا رہے اور ان کی مصنوعات ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوں۔البتہ لائف ٹائم گارنٹی کا جھانسہ جہاں سامان بیچنے کا ایک حربہ ہے وہیں کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کی عمر عمداً کم رکھی جاتی ہے۔ان میں سے ایک روشنی کے لیے استعمال ہونے والے برقی قمقمے(ہیلوجن بلب ) بھی ہیں۔
لیور مور فائر اسٹیشن نمبر 6 کیلیفورنیا جہاں ایک بلب 1901ء سے مسلسل روشن ہے۔ اسے لگتار روشن رکھنے کے لیے جنریٹر اور بیٹریاں بھی رکھی گئی ہیں تاکہ برقی رو میں کسی قسم کا تعطل پیدا نہ ہو۔اپنی پوری زندگی میں اسے صرف ایک بار 1976ء میں 22 منٹ کے لیے بجھایا گیا تھا۔
اس بلب کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیسے ممکن ہے کہ یہ بلب 122 سال سے مسلسل روشن ہے جبکہ ہمارے گھروں میں جلنے والے بلب کچھ عرصہ بعد ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ ایک صدی سے زائد عرصہ سے مسلسل روشن یہ بلب ہاتھ سے اس زمانے میں بنایا گیا تھا جب تجارتی پیمانے پر عام استعمال کے بلب بھی صارفین کے لیے دستیاب تھے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اسی طرح کے کئی اور بلب بھی بنائے گئے تھے جو حقیقت میں لائف ٹائم گارنٹی رکھتے تھے لیکن وہ کبھی عام صارف کے لیے مارکیٹ میں فروخت کی غرض سے نہیں رکھےگئے۔غالب امکان ہے کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ اگر ایسے بلب بنا کر فروخت کیے جاتے جو کبھی خراب ہی نا ہوں تو کچھ عرصہ میں بلب بنانے والی کمپنیاں طلب کھو دیتیں اور طلب و رسد کے فرق کی وجہ سے بلب سازی کی صنعت ٹھپ ہو جاتی۔ظاہر سی بات ہے اگر آپ کے گھر، دکان،دفتر،فیکڑی یا جہاں بھی ایسے بلب روشن ہیں جو کبھی خراب ہی نا ہوں تو آپ نیا بلب کیوں خریدیں گے؟جلد ہی بلب بنانے والی کمپنیوں نے اس حقیقت کو جان لیا اور متفقہ طور پر ایسے بلب بنانے پر اتفاق کیا جن عمر کم ہو۔
بلب سادہ سے سائنسی اصولوں کو بروئے کار لا کر بنائے جاتے ہیں جو شیشے کے ایک گولے کے اندر فلامنٹ کے جلنے سے روشنی پیدا کرتے ہیں۔ان روایتی برقی قمقموں میں بجلی کا صرف 5 فیصد روشنی کی صورت میں حاصل ہوتا ہے جبکہ 95 فیصد توانائی گرمی کی صورت میں خارج ہو جاتی ہے۔ اس فلامنٹ کے اندر درجہ حرارت 2800 کیلون تک ہوتا ہے۔یہ حدت سورج کی سطح پر موجود حدت کا نصف ہے۔ اتنی گرمی پر کئی دھاتیں پگھل جاتی ہیں۔ اور جو دھات اتنی گرمی پر نا پگھلے وہ جلنا شروع ہو جاتی ہے۔ 1840ء میں ایک سائنسدان وارن ڈی لا رونے جلنے والی دھات کو شیشے کے گولے میں قید کرکے ایسا خلاء بنایا جس کے اندر آکسیجن نا ہو تا کہ وہ جلنے کے عمل کے دوران جل کر بھسم نا ہو جائے۔1879ء میں ایڈیسن نے سوتی دھاگے کو فلامنٹ کی جگہ استعمال کرتے ہوئے ایک بلب بنایا جو 14 گھنٹے تک روشن رہا۔ کئی دوسرے سائنسدان فلامنٹ کے طور پر مختلف اشیاء کو آزماتے رہے۔اس طرح تدریجاً بلب کی عمر اضافہ ہوتا رہا حتی کہ 1920ء تک ایسے بلب بنا لیے گئے جن کی عمر 2000 سے 25000 گھنٹوں تک ہوتی تھی۔1924ء میں جینیوا میں بلب بنانے والی چوٹی کی کمپنیوں کے سربراہان اکھٹے ہوئے اور ایک خفیہ میٹنگ کی۔ان میں مشہور زمانہ فلپس، جنرل الیکٹرانکس،ٹوکیو الیکٹرانکس، جرمن کمپنی اورسم اور اے ای آئی جس کا تعلق برطانیہ سے تھا شامل تھیں۔انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر اتفاق کیا اور بلب کی عمر کے حوالہ سے چند قواعد وضوابط وضع کیے۔
برقی قمقوں کا معیار دن بہ دن بہتر ہو رہا تھا اور انہیں اپنے ہی بنائے ایسے برقی قمقوں سے خطرہ تھا جو تاحیات روشنی دینے کی صلاحیت رکھتےہوں۔بلب کی عمر میں ہونے والے اضافے کی بدولت بڑی کمپنیوں کی فروخت میں ہر سال مسلسل کمی واقع ہو رہی تھی۔جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1923ء میں اورسرم نے 63 ملین بلب فروخت کیے اور یہ تعداد اگلے سال کم ہو کر 28 ملین رہ گئی۔ اس میٹنگ میں تمام کمپنیوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ایسے بلب بنائے جائیں جن کی عمر 1000گھنٹوں تک محدود ہو۔ لیکن سب کو اس بات کا پابند کرنا ایک مشکل امر تھا کیونکہ ہر ایک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اچھی اور معیاری چیز بنائے تاکہ ان کی مصنوعات زیادہ فروخت ہوں۔تمام بڑی کمپنیوں نے اس اتفاق کے بعد کم عمر کے بلب بنانے شروع کیے اور سب نے اپنے اپنے نمونوں کی ایک ساتھ آزمائش کی۔ اگر کسی کمپنی کا بنایا ہوا بلب 1000 گھنٹوں سے زیادہ چلتا تو اسے بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑتا۔اگر کوئی بلب 3000 گھنٹے تک چلتا تو کمپنی کو ہر 1000 بلب کی فروخت کے بدلے 200 سوئس فرانک جرمانہ ادا کرنا پڑتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی انجینئر جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ لمبی عمر والے بلب بنائیں انہیں کہا گیا کہ اب وہ ایسے بلب بنائیں جو اپنی مدت پوری کرکے جلدی خراب ہوجائیں۔چنانچہ وہ ایسی چیزوں پر تجربات کرنے لگے جن سے نکمے بلب بنا کر ان کی عمر کم کی جا سکے۔اگر اس دور پر نظر کی جائے تو یہ بات عیاں ہوگی کہ کمپنیاں اپنی اس کوشش میں کامیاب رہیں اور برقی قمقموں کی عمر مسلسل کم ہونے لگی۔ چنانچہ 1934ء تک ایک اوسط بلب کی عمر 1200 گھنٹے تک آ گئی۔عمر کم ہونے سے برقی قمقوں کی فروخت میں ایک بار پھر سے اضافہ ہونے لگا۔اور اس متفقہ معاہدے کے صرف چار سال کے اندر 25 فیصد تک فروخت میں اضافہ دیکھا گیا۔حیرت انگیز طور پر اس وقت لوگ اس بات سے آگاہ نہیں تھے کہ برقی قمقوں کی کم ہوتی عمر کے پیچھے بلب ساز کمپنیوں کی کوئی ملی بھگت ہے لیکن اس بارے میں تشویش میں ضرور مبتلاء تھے۔اس کا جواز کمپنیوں نے یہ فراہم کیا کہ ہم نے انہیں پہلے سے زیادہ مضبوط، زیادہ روشن اور استعمال میں آسان بنایا ہے جس کی وجہ سے ان کی عمر کم ہوئی ہے۔
صرف بلب ہی نہیں ایسی کئی اشیاء ہو سکتی ہیں جن کو بناتے وقت ان کی معیاد عمداً کم رکھی جاتی ہو تاکہ طلب میں کمی کی وجہ سے ان کے کاروبار کو نقصان نا ہو۔
(مدثر ظفر)