• 19 اپریل, 2024

بدی اور گناہ سے پرہیز

حضرت مسیح موعودؑ فرماتےہیں۔
’’آدمی کئی قسم کے ہیں بعض ایسے کہ بدی کر کے پھر اس پر فخر کرتے ہیں- بھلا یہ کونسی صفت ہے جس پر ناز کیا جاوے- شر سے اس طرح پرہیز کرنا نیکی میں داخل نہیں ہے- اور نہ اس کا نام حقیقی نیکی ہے- کیونکہ اس طرح تو جانور بھی سیکھ سکتے ہیں-

میاں حسین بخش تاجر ایک شخص تھا اس کے پاس ایک کتا تھا وہ اسے کہہ جاتا کہ روٹی کو دیکھتا رہ تو وہ روٹی کی حفاظت کرتا- اسی طرح ایک بلی کا سنا ہے کہ اسے بھی ایسا ہی سکھایا ہوا تھا – جب بعض لوگوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے امتحان کرنا چاہا اور ایک کوٹھڑی کے اندر حلوہ، دودھ اور گوشت وغیرہ ایسی چیزیں رکھ کر جس پر بلی کو ضرور لالچ آوے اس بلی کو چھوڑ کر دروازہ بند کر دیا کہ دیکھیں اب وہ ان اشیا میں سے کھاتی ہے کہ نہیں- پھر جب ایک دو دن کے بعد کھول کر دیکھا تو ہر ایک شے اسی طرح پڑی تھی اور بلی مری ہوئی تھی اور اس نے کسی شے کو ہلایا تک بھی نہیں تھا- اس لئے اب شرم کرنی چاہیے کے اس نے حیوان ہو کر انسان کا حکم ایسا مانا اور یہ انسان ہو کر الله تعالی کا حکم نہیں مانتا- نفس کو تنبیہ کرنے کے واسطے ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں- اور بہت سے وفادار کتے بھی موجود ہیں مگر افسوس اس کے لئے جو کتے جتنا مرتبہ بھی نہیں رکھتا تو بتلا دے کہ کہ پھر وہ خدا سے کیا مانگتا ہے؟

انسان کو تو خدا نے وہ قویٰ عطا کئے ہیں کہ اور کسی مخلوق کو عطا نہیں کئے- شر سے پرہیز کرنے میں تو بہائم بھی اس کے شریک ہیں – بعض گھوڑوں کو دیکھا ہے کہ چابک آقا کے ہاتھ سے گر پڑی تو منہ سے اٹھا کر اس کو دیتے ہیں اور اس کے کہنےسے لیٹتے ہیں اور بیٹھتے ہیں اور اٹھتے ہیں پوری اطاعت کرتے ہیں- تو یہ انسان کا فخر نہیں ہو سکتا کہ چند گنے ہوئے گناہ ہاتھ پاؤں وغیرہ دیگر اعضاء کے جو ہیں ان سے بچا رہے- جو لوگ ایسے گناہ کرتے ہیں وہ تو بہائم سیرت ہیں جیسے کتے بلیوں کا کام ہے کہ ذرا برتن ننگا دیکھا تو منہ ڈال لیا اور کوئی کھانے کی شے ننگی دیکھی تو کھا لی- تو ایسے انسان کتے بلی کے جیسے ہوتے ہیں- انجام کار پکڑے جاتے ہیں- جیل خانوں میں جاتے ہیں- جا کر دیکھو تو ایسے مسلمانوں سے زندان بھرے پڑے ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلدچہارم صفحہ397-396)

پچھلا پڑھیں

حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت قاضی فیروز الدین ؓ (کوٹلی آزاد کشمیر)

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ