• 24 اپریل, 2024

پس اس کا ایک ہی حل ہے کہ پہلے مسیح موعودؑ کو مانیں اور پھر آپ علیہ السلام کے بعد آپؑ کی جاری خلافت کو مانیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں اپنی صحیح قدروں کی پہچان کرنی ہو گی۔ اب آج کل کی صورتِ حال کس قدر فکر انگیز ہے۔ کہاں تومومن کو یہ حکم ہے کہ مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔ ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو دوسرے کو تکلیف ہوتی ہے۔ قرآنِ کریم بھی یہ فرماتا ہے کہ اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ (الحجرات: 11) کہ مومن تو بھائی بھائی ہیں۔ لیکن بعض ملکوں میں مثلاً مصر سے بھی اور دوسرے ملکوں سے بھی یہ خبریں آئی ہیں کہ حکومت نے قانونی اختیار کے تحت عوام کے خلاف جو کارروائی کی ہے وہ تو کی ہے لیکن اسی پر بس نہیں بلکہ عوام کو بھی آپس میں لڑایا گیا ہے۔ جو حکومت کے حق میں تھے اُنہیں اسلحہ دیا گیا۔ گویا رعایا، رعایا سے لڑی اور اُس میں حکومت نے کردار ادا کیا۔ مسلمان ملک اگر جمہوری طرزِ حکومت اپنانے کا اعلان کرتے ہیں تو پھر جب تک عوام کسی قسم کے پُرتشدد احتجاج کا اظہار نہیں کرتے، اُس وقت تک حکومت کو بھی برداشت کرنا چاہئے۔ لیکن خبروں کے مطابق تو ایسا ردّعمل احتجاج پر بھی حکومتوں کی طرف سے ظاہر ہوا ہے جس نے سینکڑوں جانیں لے لی ہیں۔ تو ایک طرف تو مغرب کی نقل میں جمہوریت کا نعرہ ہے اور دوسری طرف برداشت بالکل نہیں ہے اور پھر مُستزاد یہ کہ مسلمان مسلمان پر ظلم کر رہا ہے۔ اگر جمہوریت کی نقل کرنی ہے توپھر برداشت بھی پیدا کرنی چاہئے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کو جو کردار ادا کرنا چاہئے تھا وہ بھی انہوں نے نہیں کیا۔ کوئی اصلاح کی کوشش نہیں ہوئی۔ یہ سب کچھ گزشتہ چند ہفتوں میں مصر، تیونس یا لیبیا وغیرہ دوسرے ملکوں میں ہوا یا ہو رہا ہے۔ یا جو کچھ ایک لمبے عرصے سے شدت پسندوں کے ہاتھوں افغانستان اور پاکستان میں ہو رہا ہے، یہ سب عالمِ اسلام کی بدنامی کا باعث ہے۔ یہ سب اُس بھائی چارے کی نفی ہو رہی ہے جس کا مسلمانوں کو حکم ہے کہ بھائی چارہ پیدا کرو۔ یہ سب اس لئے ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا ہے کہ ’’اس وقت تقویٰ بالکل اُٹھ گیا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ22 مطبوعہ ربوہ)

پس اس وقت اسلام کی ساکھ قائم کرنے کے لئے، ملکوں میں امن پیدا کرنے کے لئے، عوام الناس اور اربابِ حکومت و اقتدار میں امن کی فضا پیدا کرنے کے لئے تقویٰ کی ضرورت ہے جس کی طرف کوئی بھی توجہ دینے کو تیار نہیں۔ توجہ کی صرف ایک صورت ہے کہ توبہ اور استغفار کرتے ہوئے ہر فریق خدا تعالیٰ کے آگے جھکے۔ تقویٰ کے راستے کی تلاش کرے۔ یہ دیکھے کہ جب ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم: 42) یعنی خشکی اور تری میں فساد کی سی صورت حال پیدا ہو جائے تو کس چیز کی تلاش کرنی چاہئے۔ قرآنِ کریم میں بھی اُ س کا حل لکھا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس بات کو خوب کھول کر بیان فرمایا ہے کہ اس فساد کو دور کرنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ ہے اس زمانے میں آپؐ کے مسیح و مہدی کو قبول کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام پہنچانا۔ جب تک اس طرف توجہ نہیں کریں گے، دنیاوی لالچ بڑھتے جائیں گے۔ اصلاح کے لئے راستے بجائے روشن ہونے کے اندھیرے ہوتے چلے جائیں گے۔ اس کے علاوہ اب اور کوئی ذریعہ نہیں ہے کہ تقویٰ کا حصول خدا تعالیٰ سے تعلق کے ذریعے سے ہی ملنا ہے۔ اور خدا تعالیٰ سے تعلق اُس اصول کے تحت ملے گا جس کی رہنمائی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دی، اللہ تعالیٰ نے فرما دی۔

گزشتہ دنوں کسی نے مجھے ایک website سے ایک پرنٹ نکال کر بھیجا جو انگلش میں تھا، جس میں حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کوئی مسلمان تنظیم ہے، اُن کی طرف سے یہ توجہ دلائی گئی تھی کہ اس صورتِ حال کا جو آج اسلامی ملکوں میں پیدا ہو رہی ہے، مستقل حل کیا ہے؟

وہ لکھتا ہے، (مختصراً بیان کر دیتا ہوں۔ مصر اور تیونس کی انہوں نے مثال لی ہے) کہتے ہیں کہ پوری دنیا کے مسلمان مصر اور تیونس کے بھائی بہنوں کی اپنے ممالک کے ظالم حکمرانوں کے خلاف جدّوجہدِ آزادی دیکھ کر بہت خوش ہیں (یہ ترجمہ مَیں نے کیا ہے اُس کا)۔ ہم اِن واقعات پر چند خیالات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔ تو پہلی بات اُس نے یہ لکھی کہ یہ بات واضح ہو گئی ہے اور ہم سب اس کے گواہ ہیں کہ اس وقت اسلام کو ضرورت ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف آواز اٹھائی جائے۔ مصر اور تیونس کے واقعات نے دنیا کو بتا دیا کہ بد عنوان حکمرانوں کو ہٹایا جا سکتا ہے۔

پھر آگے مغربی میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ اسلام کے خلاف ایسی اصطلاحات استعمال کرتا ہے جس سے اسلام ایک خوفناک مذہب کے طور پر دکھائی دیتا ہے۔ لکھتا ہے کہ حالانکہ یہ لوگ نظامِ خلافت کو قبول کرنے کو تیار نہیں جس سے قرآن و حدیث کے تحت نظامِ زندگی کا تصور دیا جاتا ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ اسلامی طرزِ زندگی سے بددل کرنے کا یہ پروپیگنڈہ ہم گزشتہ دس سال سے دیکھ رہے ہیں۔ یہ حملہ پردہ، قرآنِ مجید (یعنی بُرقعہ اور قرآنِ مجید) اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور شریعت کی عزت و حُرمت پر کیا جاتا ہے جو روز مرّہ کی زندگی سے لے کر سیاست کے ایوانوں تک اثر انداز ہوتا ہے۔پھر کہتے ہیں کہ اسلامی ریاست میں مقامِ خلافت یا اسلامی طرزِ حکومت چونکہ مرکزی کردار کا حامل ہے، اس لئے ہمارے دین کی جان ہے۔ اس سے اسلام میں اتحاد کی امید وابستہ ہے جو مصر، غزہ اور سوڈان جیسے ممالک میں اتحاد پیدا کر سکتی ہے۔ پھر کہتا ہے کہ اسلامی طرزِ حکومت میں صرف خلافت ہی ہے جو حکمرانوں پر کڑی نظر رکھ سکتی ہے۔ جہاں وہ حکمران منتخب کئے جاتے ہیں جو ریاست کو جواب دِہ ہوتے ہیں۔ آزاد عدلیہ اور میڈیا کا نظام ہوتا ہے۔ جہاں عورت کو ماں، بیوی اور بہن کا مقامِ بلند دلایا جاتا ہے۔ جہاں کسی گورے کو کالے پر فوقیت نہیں ہوتی۔ جہاں بِلا امتیاز مذہب و ملّت امیر اور غریب کے لئے ایک ہی قانون ہوتا ہے۔ جہاں ریاست عوام کے لئے روٹی، کپڑا اور مکان مہیا کرتی ہے۔ یہی ایک راہ ہے جس پر چل کر اُمّت ایک بار پھر اسلام کی اخلاقی اور روحانی قدروں کا نور دنیا میں پھیلا سکتی ہے۔

پھر اُس نے مسلمانوں کو اس بات پر اُبھارنے کی کوشش کی ہے کہ اسلامی نظام کے حق میں پروپیگنڈہ کریں اور اس کے برخلاف جو دنیاوی نظام ہے، اُس کے خلاف آواز اُٹھائیں۔ خلافت کے قیام کی کوشش کریں کیونکہ اس کے بغیر مسلم اُمہ میں اور دنیا میں تبدیلی نہیں آ سکتی۔

تو یہ اُس کی باتوں کا خلاصہ ہے۔ مسلمانوں کو ایک کرنے کے لئے، انصاف قائم کرنے کے لئے، دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے یقینا ًنظامِ خلافت ہی ہے جو صحیح رہنمائی کر سکتا ہے۔ حکمرانوں اور عوام کے حقوق کی نشاندہی اور اس پر عمل کروانے کی طرف توجہ یقینا ًخلافت کے ذریعے ہی مؤثر طور پر دلوائی جا سکتی ہے۔ یہ لکھنے والے نے بالکل صحیح لکھا ہے لیکن جو سوچ اس کے پیچھے ہے وہ غلط ہے۔ جو طریق انہوں نے بتایا ہے کہ عوام اٹھ کھڑے ہو جائیں اور نظامِ خلافت کا قیام کر دیں، یہ بالکل غلط ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نظامِ خلافت سے وابستگی سے ہی اب مسلم اُمہ کی بقا ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا اس تنظیم نے مسلمانوں کی حیثیت منوانے اور اُن کو صحیح راستے پر چلانے کے لئے بہت صحیح حل بتایا ہے لیکن اس کا حصول عوام اور انسانوں کی کوششوں سے نہیں ہو سکتا۔ کیا خلافتِ راشدہ انسانی کوششوں سے قائم ہوئی تھی۔ باوجود انتہائی خوف اور بے بسی کے حالات کےاللہ تعالیٰ نے مومنین کے دل پر تصرف کر کے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لئے کھڑا کر دیا تھا۔ پس خلافت خدا تعالیٰ کی عنایت ہے۔ مومنین کے لئے ایک انعام ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کچھ عرصہ تک خلافتِ راشدہ کے قائم ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ اور اس کے بعد ہر آنے والا اگلا دور ظلم کا دور ہی بیان فرمایا تھا۔ پھر ایک امید کی کرن دکھائی جو قرآنی پیشگوئی وَآخَرِیْنَ مِنْہُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ (الجمعۃ:4) میں نظر آتی ہے اور اس کی وضاحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح و مہدی کے ظہور سے فرمائی جو غیر عرب اور فارسی الاصل ہو گا۔ جس کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور مُہر کے تحت غیر تشریعی نبوت کا مقام ہو گا۔ پس اگر مسلمانوں نے خلافت کے قیام کی کوشش کرنی ہے تو اِس رہنما اصول کو سامنے رکھتے ہوئے کریں۔ ایک روایت میں آتا ہے۔ حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے فرمایا: تم میں نبوت قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر وہ اس کو اُٹھا لے گا اور خلافت علی منہاج النبوت قائم ہو گی۔ پھر اللہ تعالیٰ جب چاہے گا اس نعمت کو بھی اُٹھا لے گا۔ پھر اُس کی تقدیر کے مطابق ایذا رساں بادشاہت قائم ہو گی جس سے لوگ دل گرفتہ ہوں گے اور تنگی محسوس کریں گے۔ جب یہ دَور ختم ہو گا تو اس کی دوسری تقدیر کے مطابق اُس سے بھی بڑھ کر جابر بادشاہت قائم ہو گی۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا رحم جوش میں آئے گا اور اس ظلم و ستم کے دَور کو ختم کر دے گا۔ اُس کے بعد پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔ یہ فرما کر آپ خاموش ہو گئے۔

(مسند احمد بن حنبل جلدنمبر6 صفحہ285 مسند النعمان بن بشیر حدیث 18596عالم الکتب بیروت 1998)

پس خلافت کے لئے اللہ تعالیٰ کے رحم نے جوش مارنا تھا نہ کہ حکومتوں کے خلاف مسلمانوں کے پُر جوش احتجاج سے خلافت قائم ہونی تھی۔ کیا ہر ملک میں خلافت قائم کریں گے؟ اگر کریں گے تو کس ایک فرقے کے ہاتھ پر تمام مسلمان اکٹھے ہوں گے۔ نماز میں امامت تو ہر ایک فرقہ دوسرے کی قبول نہیں کرتا۔

پس اس کا ایک ہی حل ہے کہ پہلے مسیح موعودؑ کو مانیں اور پھر آپ علیہ السلام کے بعد آپؑ کی جاری خلافت کو مانیں۔ یہ وہ خلافت ہے جو شدت پسندوں کا جواب شدّت پسندی کے رویّے دکھا کر قائم نہیں ہوئی۔ مسلم اُمہ کے دو گروہوں کے درمیان گولیاں چلانے اور قتل و غارت کرنے سے حاصل نہیں ہوئی بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے رحم کو جوش دلانے سے قائم ہونے والی خلافت ہے۔ اور جو خلافت اللہ تعالیٰ کے رحم اور اس کی عنایت سے ملے گی تو وہ نہ صرف مسلم اُمّہ کے لئے محبت پیار کی ضمانت ہو گی بلکہ کُل دنیا کے لئے امن کی ضمانت ہو گی۔ حکومتوں کو اُن کے انصاف اور ایمانداری کی طرف توجہ دلائے گی۔ عوام کو ایمانداری اور محنت سے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائے گی۔

پس جماعتِ احمدیہ تو ہمیشہ کی طرح آج بھی اس تمام فساد کا جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے ایک ہی حل پیش کرتی ہے کہ خیرِ اُمّت بننے کے لئے ایک ہاتھ پر جمع ہو کر، دنیا کے دل سے خوف دور کر کے اُس کے لئے امن، پیار اور محبت کی ضمانت بن جاؤ۔ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر کے اپنی دنیا و آخرت سنوارنے والے بن جاؤ۔ اس یقین پر قائم ہو جاؤ کہ خدا تعالیٰ اب بھی جسے چاہے کلیم بنا سکتا ہے تا کہ خیرِ اُمّت کا مقام ہمیشہ اپنی شان دکھاتا رہے۔ یہ سب کچھ زمانے کے امام سے جُڑنے سے ہو گا۔ اور یہی ایک ذریعہ ہے جس سے مسلمانوں کی حالت بھی سنورے گی۔

(خطبہ جمعہ 25؍ فروری 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اپریل 2021