• 26 اپریل, 2024

کتنا بدل گیا ہے ’’لاہور‘‘

بلاشبہ لاہور ایک ایسا شہر ہے جہاں دیکھنے اور کھانے کو اتنا کچھ ہے کہ آپ سوچ نہیں سکتے بس جیب بہت بھاری ہونی چاہیے ۔ اتوار اور چھٹی والے دن تگڑا ناشتہ اور دوپہر و شام کے مزیدار کھانے آپ کے منتظر ہوتے ہیں ، جی ہاں ، حلوہ پوری، نان چھولے، بونگ پائے، سری پائے ،نہاری، دہی کی لسی، مرغ چنے، چکڑ چھولے ، حلیم نان، چنے انڈہ، بریانی،کڑاہی گوشت، بار بی کیو کے ساتھ ساتھ فاسٹ فوڈ بھی مل سکتا ہے، لاہور میں کسی بھی طرف نکل جائیں یہ سب سوغاتیں آپ کو مل جائیں گی لیکن اگر ساتھ تفریح بھی کرنی ہے تو پھر لذیذ کھانوں کے مخصوص مقامات پر چلے جائیں ، جیسا کہ لکشمی چوک، ایم ایم عالم روڈ گلبرگ، اندرون لاہور بھاٹی گیٹ، فوڈ سٹریٹ گوالمنڈی، پرانی انار کلی، بیڈن روڈ ، یہ سبھی کھانوں کے مشہور مرکز ہیں جہاں کھانوں کی بھینی بھینی خوشبو اور مہک ہر طرف پھیلی ہوتی ہے ۔ دیکھنے کو ہر طرح کی عمارتیں اور تاریخی مقامات اس قدر لاہور میں ہیں کہ ان کو دیکھنے کے لئے کئی دن درکار ہیں ان میں قدیم، تاریخی اور جدید مقامات اور عمارتیں شامل ہیں ، ایک حسین مرقع اور امتزاج ہے ۔ ان میں شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد،عجائب گھر، مینار پاکستان ،شالامار باغ، نور جہان کا مقبرہ وغیرہ اور مال روڈ پر واقع دیگر اہم تاریخی عمارتیں شامل ہیں۔ خوبصورت پارکوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ اورنج ٹرین کے اجراء نے لاہور کو مکمل طور پر بدل ڈالا ہے، جدید لاہور نے پرانے لاہور کو نگل لیا ہے۔ اندرون لاہور کی حالت زار یقیناً مؤرخین اور تاریخ دانوں کو دعوتِ فکر دیتی ہے۔ کبھی مال روڈ سمیت لاہور کی سڑکوں پر تانگوں کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آوازیں سننے کو ملا کرتی تھیں اور اکّا دکّا موٹر کار اور سائیکل سوار نظر آیا کرتا تھا ، ایک وقت تھا کہ لاہور کی سڑکوں کی دلکشی ڈبل ڈیکر بسیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب یہ مناظر پرانی تصاویر میں ہی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں لاہور ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے، اور آج گاڑیوں کے ہارنوں اور انجنوں کے شور نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے ۔ اب یہاں اوور برج، انڈر پاسوں اور فلائی اووروں کی بہتات ہو چکی ہے ۔ اوپر نیچے، دائیں ، بائیں ہر طرف ٹریفک ہی ٹریفک دکھائی دیتی ہے ۔ موٹر سائیکلوں ، چمکتی قیمتی کاروں اور دیگر ٹرانسپورٹ کا رش سڑکوں پر ہر وقت دکھائی دیتا ہے ،لاہور پاکستان کا دوسرا اور دنیا کا اٹھارواں بڑا شہر ہے۔ یہ شہر زندہ دلان لاہور کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ اس کو ’’کالجوں کا شہر‘‘، ’’پھولوں کا شہر‘‘، ’’پارکوں کا شہر‘‘، ’’داتا کی نگری‘‘ اور پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے۔ لاہور کے بارے میں کچھ کہاوتیں بھی مشہور ہیں ان میں ایک یہ ہے کہ ’’ست دن تے اٹھ میلے، گھر جاواں کیہڑے ویلے‘‘ اور دوسری یہ کہ ’’جنے لاہور نہیں ویکھیا، او جمیا ای نئیں‘‘ دریائے راوی کے کنارے آباد ’’لاہور‘‘۔ نوجوان نسل اور اوورسیز شاید نہیں جانتے کہ آج کے لاہور کے اندر بھی ایک لاہور موجود ہے اور حقیقت میں وہی اصلی لاہور ہے ۔ اس اندرون لاہور کو ’’پرانا لاہور‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ اس گمنام شدہ پرانے لاہور کے آثار آج بھی موجود ہیں ، پرانی حویلیاں ، پرانے دروازے، پرانے گھر، پرانے وقتوں کی ایسی یادگاریں ہیں جن کو دیکھ کر انسان صدیوں سال پیچھے چلا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اس کے نام بھی ہر زمانہ میں بدلتے رہے ہیں ۔ تاریخ کی کتب میں جو نام درج ہیں ان میں لھور، لہانور، لوہاور، لوھور، لوھاوؤر، لاوھور، لا ھاور، لانہور، لھاوار شامل ہیں ۔ لاہور کے نام کی طرح اس کی تاریخ بھی بہت پرانی اور قدیم ہے صدیاں گزرجانے کے بعد بھی آج بھی اس کا شمار دنیا کے اہم شہروں میں ہوتا ہے ۔ 630 عیسوی میں چین کے ایک باشندے نے ہندوستان جاتے ہوئے لاہور کا ذکر اپنی تحریر میں کیا تھا ۔ یہیں سے اس شہر کے قدیم۔ ہونے کا پتہ چلتا ہے ۔ علامہ احمد بن یحیٰ بن جابر بلازی کی کتاب ’’فتوح البلدان‘‘ میں لاہور کا ذکر ملتا ہے جس میں 664 عیسوی کے اہم واقعات کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ لاہور شہر کی تاریخ کو اگر چند سطروں میں لکھا جائے تو کچھ یوں لکھا جائے گا ۔ تاریخ کی کتب کے مطابق رام کے بیٹے ’’لوہ‘‘ نے شہر لاہور کی بنیاد رکھی اور یہاں ایک قلعہ تعمیر کرایا، دسویں صدی تک یہ شہر ہندوؤں راجاؤں کے زیر تسلط رہا ۔ 11ویں صدی میں سلطان محمود غزنوی نے پنجاب فتح کیا تو ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا ۔ 1186 میں شہاب الدین غوری نے لاہور پر قبضہ کرلیا ۔ 1290 میں خلجی خاندان،1320 میں تغلق خاندان،1414 میں سید خاندان اور1451 میں لودھی خاندان کے قبضے میں رہا ۔ ظہیرالدین بابر نے 1526 میں ابراہیم لودھی کو شکست دی اور برصغیر میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی ۔

لاہور شہر اپنے اندر ماضی کے حکمرانوں کے عروج و زوال کو سموئے ہوئے ہے۔ ہر دور میں یہ شہر حکمران وقت کی توجہ اور حکومت کا مرکز رہا ہے اور صوبے کا صدر مقام رہا ہے ۔ لاہور کی بربادی اور آباد کاری کی داستان جہاں بہت طویل ہے وہیں سبق آموز بھی ہے۔ بیرونی حملہ آوروں نے یہاں کے باسیوں کولوٹا اور اجاڑا ۔ بالآخر مغلیہ دور جب آیا تو انہوں نے انہی حملوں سے بچانے اور اس کو خوبصورت بنانے کا فیصلہ کیا، یوں لاہور کے گرد پہلی بار نہ صرف مضبوط بلند فصیل قائم کی گئی جس کی بلندی30 فٹ تھی جو سکھوں کے دور میں کم ہوکر15,20 فٹ کی رہ گئی تھی ۔ اس کے داخلی اور خارجی راستوں کے لئے 12دروازے بھی تعمیر کئے گئے تھے، 1 چھوٹا دروازہ بھی الگ تعمیر کیا گیا تھا، یہ سب نقش وکنندہ کاری کے سبب خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھے ۔ ان دروازوں کو باقاعدہ نام دیئے گئے تھے۔ ان میں 1دہلی دروازہ، 2 اکبری دروازہ، 3 موتی دروازہ، 4شاہ عالمی دروازہ، 5لوہاری دروازہ، 6موری دروازہ، 7بھاٹی دروازہ، 8ٹکسالی دروازہ، 9روشنائی دروازہ، 10مستی دروازہ، 11کشمیری دروازہ، 12خضری دروازہ اور 13یکی دروازہ شامل ہیں۔ دہلی دروازہ اس دور میں سب سے زیادہ مصروف گزرگاہ ہوا کرتی تھی، کیونکہ اس کا منہ دہلی کی طرف تھا اسی لیے شاہی قافلے اور سواریاں اسی راستے سے لاہور میں داخل ہوا کرتی تھیں۔

اب بہت سے دروازے تجاوزات کی زد میں آکر اپنا وجود کھو چکے ہیں لیکن چند دروازے آج بھی موجود ہیں اور عظیم عہد رفتہ کی یاد دلاتے ہیں ۔ پرانے لاہور کو راستہ انہی دروازوں سے ہو کر جاتا تھا اور یہ دروازے سرشام ہی بند کر دیئے جاتے ہیں ۔ اندر تنگ گلیوں اور بازاروں والا حقیقی لاہور بستا تھا ۔ آج کل اسی پرانے لاہور کو از سر نو زندہ کرنے کی سرکاری کوششیں ہو رہی ہیں۔ ’’والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی‘‘ کے نام کا ایک اداراہ اندرون لاہور کی صدیوں پرانی رونقیں بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے، ’’پرانے لاہور‘‘ کو زندہ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہے، چار دیواری کے اندر موجود تنگ گلیوں ، پرانے قدیم طرز کے مکانوں اور حویلیوں پر مشتمل لاہور کی تزئین و آرائش ہو نے کے بعد ایک میلہ سجایا گیا ہے۔ جس میں قدیم لاہور کی تنگ گلیوں کی نمائش کی گئی ہے اور لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے پرانے لاہور کی قدیم شان و شوکت کو دیکھا اور انتہائی پسند کیا ہے اور اب لاہور سیاحت کے لئے جانے والوں کے لئے نئے سیاحتی مقام کی حیثیت رکھتا ہے۔

(منور علی شاہد(جرمنی))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اپریل 2021