• 1 مئی, 2024

دعا ایک موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’وہ دعا جو معرفت کے بعداور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔ وہ فنا کرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے۔ وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔ وہ ایک تندسیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے۔ ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے۔ ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے۔

مبارک وہ قیدی جو دعا کرتے ہیں۔ تھکتے نہیں کیونکہ ایک دن رہائی پائیں گے۔ مبارک وہ اندھے جو دعاؤں میں سست نہیں ہوتے کیونکہ ایک دن دیکھنے لگیں گے۔ مبارک وہ جو قبروں میں پڑے ہوئے دعاؤں کے ساتھ خدا کی مدد چاہتے ہیں کیونکہ ایک دن قبروں سے باہر نکالے جائیں گے۔ مبارک تم جب کہ دعا کرنے میں کبھی ماندہ نہیں ہوتے، اور تمہاری روح دعا کے لئے پگھلتی اور تمہاری آنکھ آنسو بہاتی اور تمہارے سینے میں ایک آگ پیدا کر دیتی ہے اور تمہیں تنہائی کا ذوق اٹھانے کے لئے اندھیری کو اور سنسان جنگلوں میں لے جاتی ہے۔ اور تمہیں بے تاب اور دیوانہ اور از خود رفتہ بنا دیتی ہے کیونکہ آخر تم پر فضل کیا جاوے گا۔ وہ خدا جس کی طرف ہم بلاتے ہیں نہایت کریم و رحیم، حیا والا، صادق، وفادار، عاجزوں پر رحم کرنے والا ہے۔ پس تم بھی وفادار بن جاؤ۔ اور پورے صدق اور وفا سے دعا کرو کہ وہ تم پر رحم فرمائے گا۔ دنیا کے شوروغوغا سے الگ ہو جاؤ اور نفسانی جھگڑوں کا دین کو رنگ مت دو۔ خدا کے لئے ہار اختیار کر لو اور شکست کو قبول کر لو تا بڑی بڑی فتحوں کے تم وارث بن جاؤ۔ دعا کرنے والوں کو خدا معجزہ دکھائے گا۔ اور مانگنے والوں کو ایک خارق عادت نعمت دی جائے گی۔ دعا خدا سے آتی ہے اور خدا کی طرف ہی جاتی ہے۔ دعا سے خدا ایسا نزدیک ہو جاتا ہے جیسا کہ تمہاری جان تم سے نزدیک ہے۔ دعا کی پہلی نعمت یہ ہے کہ انسان میں پاک تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ پھر اس تبدیلی سے خدا بھی اپنی صفات میں تبدیلی کرتا ہے اور اس کے صفات غیرمتبدل ہیں مگر تبدیلی یافتہ کے لئے اس کی ایک الگ تجلی ہے۔ جس کو دنیا نہیں جانتی گویا وہ اَور خدا ہے حالانکہ اور کوئی خدا نہیں۔ مگر نئی تجلی نئے رنگ میں اس کو ظاہر کرتی ہے۔ تب اس خاص تجلی کے شان میں اس تبدیل یافتہ کے لئے وہ کام کرتا ہے جو دوسروں کے لئے نہیں کرتا۔ یہی وہ خوارق ہے۔

غرض دعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشت خاک کو کیمیا کر دیتی ہے۔ اور وہ ایک پانی ہے جو اندرونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔ اس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آستانہ حضرت احدیت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے۔ اور سجدہ بھی کرتی ہے اور اسی کی ظل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھلائی ہے‘‘۔

(لیکچر سیالکوٹ۔ روحانی خزائن جلد20 صفحہ222تا224)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مئی 2021