• 30 جون, 2025

تعارف سورۃالتحریم (66 ویں سورۃ)

تعارف سورۃالتحریم (66 ویں سورۃ)
(مدنی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 13 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)

وقت نزول اور سیاق و سباق

اس سورۃ پر ان سورتوں کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے جو سورۃ الحدید سے شروع ہوا تھا۔ اس سورۃ کا ایک حصہ ساتویں یا آٹھویں ہجری سال میں نازل ہوا اور ایک حصہ بعد میں نازل ہوا جیساکہ اس سورۃ میں مذکور واقع سے پتہ چلتا ہے۔ سابقہ سورۃ میں طلاق کے چند پہلوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جو میان بیوی کے درمیان مستقل علیحدگی ہے۔ موجودہ سورۃ میں عارضی علیحدگی کے مضمون کو لیا گیاہے یعنی کسی بحث یا گھریلو معاملہ کی وجہ سے اگر مرد اپنی بیوی سے ازدواجی تعلقات قطع کر دے یا قسم کھا لے کہ وہ کسی حلال چیز کو استعمال میں نہیں لائے گا۔ اس سورۃ کے آغاز میں آپ ﷺ کو بلاواسطہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ کسی ایسی چیز کو حرام قرار نہ دیں جو اللہ تعالیٰ نے حلال قرار دی ہوئی ہے۔ جس معین واقع کا ذکر اس سورۃ کے آغاز میں ہوا ہے وہ بتاتا ہے کہ کسی غلط فہمی کی بناء پر یا کسی پریشان کن جھگڑے کی وجہ سے، گو عارضی طور پر گھریلو امن اور سلامتی کو گزند پہنچ سکتا ہے حتی کہ ایک نبی کے نہایت پر امن اور سلامتی والے گھر کے ماحول میں بھی تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ حکم جو آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ کے لئے ہے کہ ایسی عارضی بد امنی کے موقع پر (طلاق وغیرہ) کے انتہائی قدم نہیں لینے چاہئیں۔ آپ ﷺ کی ازواج کو متنبہ کیا گیا ہے کہ انہیں آپ ﷺ کا بلند مرتبہ بطور خدا کے نبی کے کبھی نہیں بھولنا چاہیئے اور آپ ﷺ سے ایسے مطالبے نہیں کرنے چاہیئیں جو آپ ﷺ کے شایان شان نہ ہوں۔ پھر آپ ﷺ کے صحابہ کو بتایا گیاہےکہ اپنے اہل و عیال کا بھی خیال رکھیں تاکہ وہ سیدھے راستے سے بھٹک کر خود کو کسی مصیبت میں نہ ڈال لیں۔ جیساکہ یہ سورۃ آپ ﷺ اور آپ کی ازواج کے درمیان ایک واقع سے شروع ہوتی ہے یہ موزوں طور پر ایسی تشبیہ پر ختم ہوتی ہے کہ کفار کو دو نبیوں یعنی حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کی مانند قرار دیا گیا ہے اور مؤمنوں کو فرعون کی بیوی کے مشابہ قرار دیا گیا ہے اور ان میں سے متقی اور زیادہ بلند مرتبہ اور مقام والوں کو حضرت مریم علیھا السلام جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ تھیں، کے مشابہ قرار دیا گیا ہے۔

تعارف سورۃالملک (67ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 31آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق

اس سورۃ سے سورتوں کا ایک ایسا تسلسل شروع ہوتا ہے جو قرآن کریم کے اختتام تک چلتا ہے، جو مکی دور کی ہیں سوائے سورۃ النصر کے ، جو ہے تو مدنی دور کی مگر مکہ میں نازل ہوئی جب آنحضور ﷺ نے آخری حج ادا کیا۔ پورا قرآن چونکہ خداکے اپنے الہام کردہ الفاظ ہیں جن کی نظیر لانا ممکن نہیں اور مضامین کی رفعت، انداز اور زبان دانی کو پہنچنا انسانی وسعت سے باہر ہے۔ تاہم نبوت کے ابتدائی سالوں میں مکی دور میں نازل ہونے والی سورتوں کی عظمت اور شان و شوکت اپنی مثال آپ ہے۔ اس دور میں نازل ہونے والی سورتوں کا ترنم اور زیر و بم انسانی بساط سے باہر ہے۔

ایسی جملہ سورتیں بالعموم عقائد اور ایمانیات کا بیان کرتی ہیں جیسے اسلام کے شاندار مستقبل کے بارے میں پیشگوئیاں، ہستی باری تعالیٰ اور صفات باری تعالیٰ ، الہام اور حیات بعد الموت کو تمثیلی زبان میں یوں بیان کیا گیاہے کہ مادی اور روحانی دنیا کو ہم اپنی عقلوں کے مطابق سمجھ سکیں۔ ثقہ روایات کے مطابق یہ سورۃ مکی دور کے وسط کی ہےغالباً نبوت کے آٹھویں سال میں نازل ہوئی۔

مضامین کا خلاصہ

جیساکہ اوپر بیان ہوا ہے کہ مکی سورتیں ایمانیات کے مضمون کو بیان کرتی ہیں۔ موجودہ سورۃ فطری طور پر خدا تعالیٰ کی بادشاہی ، قدرت اور غالب قوت کی صفات کو بیان کرتی ہے اور ان صفات سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیاہےکہ خدا زندگی اور موت کا بنانے والاہے اور ساری کائنات کا بھی جو ایسی بے عیب ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے ذرات سے لے کر بڑے سے بڑے سیارے تک، اس کی تنظیم میں ایک خوبصورتی اور ترتیب پائی جاتی ہے۔ تخلیق کائنات اور اجسام فلکی میں پائی جانے والی خوبصورت تنظیم اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا نے انسان کو ایک اعلیٰ مقصد کے لئے پیدا کیا ہے۔

لیکن انسان گمراہی کے باعث اور ناشکری کی وجہ سے ہمیشہ خدا کے رسولوں کی تردید کرتا آیا ہے اور نتیجۃ خدا کے غضب کا نشانہ بنتا ہے۔ اس سورۃ میں خدا تعالیٰ کی بیشمار نعمتوں اور فضلوں کا شمار کیا گیاہے جن کے بغیر انسان ایک لمحہ بھی زندہ نہیں رہ سکتا اور یوں اس کو سمجھایا گیاہے کہ ان نعمتوں کا درست استعمال کرے تاکہ اپنے مقصد پیدائش کو سمجھ سکے۔ اس سورۃ کا اختتام اس خوبصورت وعظ پر ہوا ہے کہ جیساکہ انسان کو اپنی ظاہری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے پانی کی ضرورت ہے ویسے ہی روحانی زندگی وحی و الہام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

تعارف سورۃالقلم (68 ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 53آیات ہیں)

وقت نزول اور سیاق و سباق اور مضامین کا خلاصہ

یہ سورۃ ان پہلی چار یا پانچ سورتوں میں سے ہے جو مکہ میں نبوت کی ابتدا میں نازل ہوئیں۔ بعض مستند راویوں کے نزدیک یہ سورۃ ، سورۃ العلق کے معاً بعد نازل ہوئی تھی، جو سب سے پہلی نازل ہونے والی قرآنی سورۃ تھی جبکہ بعض دوسرے ثقہ راوی اس سورۃ کو سورۃ المزمل اور سورۃ المدثر کے بعد نازل ہونے والی سورۃ شمار کرتے ہیں۔ تاہم اس حوالہ سے کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ یہ سورتیں تھوڑے عرصہ میں اور قریب کے زمانہ میں نازل ہوئی تھیں کیونکہ ان کے مضامین میں ایک گہرا ربط پایا جاتا ہے۔

جملہ مکی سورتوں کی طرح جو ایمانیا ت و عقائد کو بیان کرتی ہیں، موجودہ سورۃ آپ ﷺ کے دعویٰ نبوت کی سچائی کو ثابت کرتی ہے اور اس کی تصدیق کے لئے مضبوط اور قاطع دلائل فراہم کرتی ہے۔ اس سورۃ کا ایک بڑا حصہ کفار کے خلاف لڑائی پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور اس بد انجام پر بھی جس پر وہ پہنچتے ہیں اور ان کی حق کی مخالفت کی وجوہات بیان کرتی ہےاور یہ کہ کیسے وہ حق کے خلاف اپنی ساری قوت اور طاقت آزماتےہیں اور جب ان کی ساری کوششوں کا پھل نکلنے کا وقت آتا ہے تو صرف حسرتیں باقی رہ جاتی ہیں۔ جبکہ حق جس کا دم گھٹا جا رہا ہوتا ہے وہ اچانک پھیلنے اور پھولنے لگتا ہے اور غالب آنے لگتا ہے۔

اپنے اختتام پر اس سورۃ میں آنحضرت ﷺ کو یہ حکم دیا گیاہےکہ نہایت حوصلہ اورتحمل سے کفار کے استہزاء ، ظلم و تعدی اور مخالفت کو برداشت کریں جس کا آپ ﷺ کو نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ آپ ﷺ کا مشن بہر حال کامیاب ہونے والا ہے۔

(ابو سلطان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مئی 2021