• 5 مئی, 2024

رمضان المبارک برکتوں کا مہینہ

قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يايها الذين امنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح ان لوگوں پر فرض کئے گئے جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ تم تقویٰ اختیار کرسکو۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا ’’جس نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے رکھے اس کے سب گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔‘‘

(بخاری کتاب الصوم)

حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ’’روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خداتعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدنظر رکھنا چاہئے اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہیے کہ خداتعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔

جو لوگ محض خدا کے لیے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد۹ صفحہ123-122)

پھر حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن 186-2 سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لیے عمدہ مہینہ ہے۔ کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے۔ پس اُنزِلَ فیہ القراٰن میں یہی اشارہ ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ روزہ کا اجر عظیم ہے لیکن امراض و اغراض اس نعمت سے انسان کو محروم رکھتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جوانی کے ایام میں میں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا روزہ رکھنا سنتِ اہلِ بیت ہے۔ میرے حق میں پیغمرِ خدا ﷺ نے فرمایا سلمان منا اھل البیت سلمان یعنی الصلحان کہ اس شخص کے ہاتھ سے دو صلح ہوں گی۔ ایک اندرونی دوسری بیرونی اور یہ اپنا کام رِفق سے کرے گا نہ کہ شمشیر سے اور میں جب مشربِ حسین پر نہیں ہوں کہ جس نے جنگ کی بلکہ مشربِ حسن پر ہوں کہ جس نے جنگ نہ کی تو میں نے سمجھا کہ روزہ کی طرف اشارہ ہے چنانچہ میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے۔ اسی اثناء میں میں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جارہے ہیں۔ یہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پر جاتے تھے یا میرے قلب سے لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہوسکتا ہے اور اگر میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ254-251)

روزہ کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے حضور اقدس علیہ السلام نے فرمایا:
’’خدا تعالیٰ کے احکام دو قسموں میں تقسیم ہیں۔ ایک عبادتِ مالی، دوسرے عبادتِ بدنی، عباداتِ مالی تو اسی کے لیے ہیں جس کے پاس مال ہو اور جن کے پاس نہیں وہ معذور ہیں اور عباداتِ بدنی کو بھی انسان عالم جوانی میں ہی ادا کرسکتا ہے ورنہ ساٹھ سال جب گزرے تو طرح طرح کے عوارضات لاحق ہوتے ہیں۔ نزول الماء وغیرہ شروع ہو کر بینائی میں فرق آجاتا ہے۔ کسی نے یہ ٹھیک کہا ہے کہ پیری و صد عیب۔ اور جو کچھ انسان جوانی میں کر لیتا ہے اس کی برکت بڑھاپے میں بھی ہوتی ہے اور جس نے جوانی میں کچھ نہیں کیا اسے بڑھاپے میں بھی صدہا رنج برداشت کرنے پڑتے ہیں۔

؂ موئے سفید از اجل آرد پیام

انسان کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ حسبِ استطاعت خدا کے فرائض بجا لاوے۔ روزہ کے بارے میں خداتعالیٰ فرماتا ہے وان تصوموا خیرلکم 2:185 یعنی اگر تم روزہ رکھ بھی لیا کرو تو تمہارے واسطے بڑی خیر ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ258)

لفظ رمضان کے معنی

حضور اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں۔ رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لیے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے۔ روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا۔ اہلِ لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینہ میں آیا اس لیے رمضان کہلایا میرے نزدیک یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ عرب کے لیے یہ خصوصیت نہیں ہوسکتی۔ روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارتِ دینی ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ209،210)

فدیہ اور توفیق روزہ

حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ایک دفعہ میرے دل میں خیال آیا کہ فدیہ کس کے لیے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو۔ خداتعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خداتعالیٰ ہی سے طلب کرنی چاہیے۔ خداتعالیٰ تو قادرِ مطلق ہے وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کرسکتا ہے۔ تو فدیہ سے یہی مطلب ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جائے اور یہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے۔ پس میرے نزدیک خوب ہے کہ انسان دعا کرے کہ الٰہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ۔ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کرسکوں یا نہ۔ اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خداتعالیٰ طاقت بخش دے گا۔‘‘

فرمایا ’’اگر خداتعالیٰ چاہتا تودوسری امتوں کی طرح اس امت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اس نے قیدیں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں۔ میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینہ میں مجھے محروم نہ رکھ تو خداتعالیٰ اسے محروم نہیں رکھتا اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہِ رمضان میں بیمار ہو جائے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہوتی ہے کیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پر ہے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خداتعالیٰ کی راہ میں دلاور ثابت کردے۔ جو شخص کہ روزے سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت دردِ دل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لیے گریاں ہے تو فرشتے اس کے لیے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ جو نہ ہو تو خداتعالیٰ اسے ہرگز ثواب سے محروم نہ رکھے گا۔

یہ ایک باریک امر ہے کہ اگر کسی شخص پر اپنے نفس کے کسل کی وجہ سے روزہ گراں ہے اور اپنے خیال میں گمان کرتا ہے کہ میں بیمار ہوں اور میری صحت ایسی ہے کہ اگر ایک وقت نہ کھاؤں تو فلاں فلاں عوارض لاحق ہوں گے اور یہ ہوگا اور وہ ہوگا تو ایسا شخص خداتعالیٰ کی نعمت کو خود اپنے اوپر گراں گمان کرتا ہے، کب اس ثواب کا مستحق ہوگا۔ ہاں وہ شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آگیا اور میں اس کا منتظر تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بیماری کے روزہ نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ258،259)

مسائل رمضان
بیمار اور مسافر روزہ نہ رکھے

حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں ’’جو شخص مریض اور مسافر ہونے کی حالت میں ماہِ رمضان میں روزہ رکھتا ہے وہ خداتعالیٰ کے صریح حکم کی نافرمانی کرتا ہے۔ خداتعالیٰ نے صاف فرما دیا ہے کہ مریض اور مسافر روزہ نہ رکھے۔ مرض سے صحت پانے اور سفر کے ختم ہونے کے بعد روزے رکھے۔ خداتعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرنا چاہیے کیونکہ نجات فضل سے ہے کہ اپنے اعمال کا زور دکھا کر کوئی نجات حاصل کرسکتا ہے۔ خداتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرض تھوڑی ہو یا بہت اور سفر چھوٹا ہو یا لمبا ہو بلکہ حکم عام ہے اور اس پر عمل کرنا چاہیے۔ مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ431)

سوال ہوا۔ مزدوروں سے جن کا گزارہ مزدوری پر ہے روزہ نہیں رکھا جاتا۔ ان کی نسبت کیا ارشاد ہے؟

فرمایا ’’الاعمال بالنیات یہ لوگ اپنی حالتوں کو مخفی رکھتے ہیں۔ ہر شخص تقویٰ و طہارت سے اپنی حالت سوچ لے۔ اگر کوئی اپنی جگہ مزدوری پر رکھ سکتا ہے تو ایسا کرے ورنہ مریض کے حکم میں ہے۔ پھر جب میسر ہو رکھ لے۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ894)

سوال: کیا روزہ نہ رکھنے کی صورت میں صرف فدیہ دینا کافی ہے اور بعد میں روزے نہ رکھے جائیں؟

حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا ’’صرف فدیہ تو شیخ فانی یا اس جیسوں کے واسطے ہوسکتا ہے جو روزہ کی طاقت کبھی بھی نہیں رکھتے۔ ورنہ عوام کے واسطے جو صحت پاکر روزہ رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں صرف فدیے کا خیال کرنا اباحت کا دروازہ کھول دینا ہے۔ جس دین میں مجاہدات نہ ہوں وہ دین ہمارے نزدیک کچھ نہیں۔ اس طرح خداتعالیٰ کے بوجھوں کو سر پر سے ٹالنا سخت گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ میری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ان کو ہی ہدایت دی جائے گی۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ423)

روزہ دار کو آئینہ دیکھنا جائز ہے کہ نہیں؟

فرمایا ’’جائز ہے‘‘

سوال ہوا، روزہ دار کی آنکھ بیمار ہو تو اس میں دوائی ڈالنی جائز ہے کہ نہیں؟

فرمایا ’’یہ سوال ہی غلط ہے۔ بیمار کے واسطے روزہ کا حکم نہیں۔‘‘

سوال ہوا، روزہ دار کو خوشبو لگانا جائز ہے کہ نہیں؟

فرمایا جائز ہے۔

سوال ہوا، روزہ دار کو آنکھوں میں سرمہ ڈالنے کی اجازت ہے؟

فرمایا ’’مکروہ ہے اور ایسی ضرورت ہی کیا ہے کہ دن کے وقت سرمہ لگائے۔ رات کو سرمہ لگا سکتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد9 صفحہ171،172،173)

سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام روزہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں۔ طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی۔ یہ مبارک دن ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل و رحمت کے نزول کے دن ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ203)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو رمضان المبارک کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق دے اور ہم سب اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کے وارث ہوں۔ آمین

(خواجہ مظفر احمد مبلغ سلسلہ تنزانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 مئی 2021