• 6 مئی, 2024

سلیمان ابراہیم اشولا آف بینن کی یاد میں

مکرم سلیمان ابراہیم 31؍مارچ 2022ء کو بقضائے الٰہی وفات پاگئے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے اور اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ ان کا فیملی نام سلیمان تھا اور کیتو (Keto) کے رہنے والے تھے۔ ابتدائی عمر میں تو نابینا نہ تھے مگر رفتہ رفتہ بیماری کے باعث نابینا ہو گئے۔ میں نے انہیں 1991۔1992 میں نابینا ہی دیکھا تھا۔ انکی کچھ زمینیں IDOGO اور IGANA میں تھیں جہاں یہ کاشت کرتے تھے۔

قبولیتِ احمدیت

ان کی قبولیت احمدیت کا واقعہ بہت ہی ایمان افروز ہے۔ 1984ء کی بات ہے کہ مانگری کے ایک احمدی آفو یٰسین جو ان کے قریبی علاقے میں شفٹ ہو چکے تھے کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوئے چنانچہ تقریبِ عقیقہ میں احمدی احباب کے ساتھ ساتھ بعض غیر احمدی احباب بھی شامل تھے جن میں سے ایک ابراہیم اشولا صاحب بھی تھے۔ یہاں انہیں جماعت کے بارے میں علم ہوا۔ پروگرام میں ہی طے پایا کہ کیتو (Keto) شہر میں بھی ایک تبلیغی پروگرام کا انعقاد کیا جائے چنانچہ مقررہ دن، جمعہ کے روز گھانا سے مکرم عبدالوہاب آدم صاحب امیر گھانا، پورتونوو سے سکیرو داؤدا اور دیگر احمدی احباب یہاں پہنچ گئے۔ دوسری طرف کیتو شہر کے اماموں نے جماعت کے خلاف اس پروگرام کو ناکام بنانے کے لئے پیسہ دیکر بھی لوگوں کو آنے سے منع کیا ہوا تھا۔ 25 افراد جنہوں نے وہاں آنے کا وعدہ کیا تھا ان میں سے بھی چند ایک اور بابا اشولا صاحب ہی وہاں آئے۔ جماعت کا تعارف اور باتیں سن کر کہا کہ میں بیعت کرنے کے لئے تیار ہوں، امیر صاحب گھانا نے حالات کے پیشِ نظر کہا کہ آپ بیعت آئندہ کرلیں جس پر بابا اشولا صاحب نے پُر جذبات الفاظ میں جواب دیا کہ اگر میں اسی دوران مر جاؤں تو خدا کو کیا جواب دوں گا۔ حق کے واضح ہونے کے بعد کون مجھے خدا کی ناراضگی سے بچائے گا۔

بیعت کے بعد کے حالات

کیتو (Keto) کے علماء نے سخت مخالفت کی، گھر کو مسمار کر دیا، تین بیویاں اور بچے دور ہو گئے اور یہ کیتو سے نکل کر IDOGO اپنی زمینوں پر چلے گئے، آہستہ آہستہ بینائی بھی ضائع ہو گئی جس پر دشمن طعنہ زنی کرتے رہتے مگر اس مردِ مجاہد کے پاؤں میں کوئی لغزش نہ آئی۔

خاکسار کی بابا اشولا سے ملاقات

خاکسار 1991،1992 میں ان کے اس گاؤں گیا۔ پورتونوو سے تقریباً 60 کلومیٹر کا راستہ ہے جس میں سے 40 کلومیٹر کا راستہ بالکل کچا اور پُرپیچ جنگل کا راستہ تھا۔ ہم 12 بجے ان کے گاؤں پہنچے، کھانا ہم نے اپنے ساتھ ہی رکھا ہوا تھا۔ بہت پُرتپاک طریق پر ملے اور خوش آمدید کیا۔ ہم نے مل کر کھانا تناول کیا اور نمازیں ادا کیں۔

چندہ کی ادائیگی کی طرف توجہ

دوران ملاقات میں نے نظامِ چندہ اور اس کی برکات کے متعلق بتایا تو کہنے لگے کہ تفصیل سے مجھے اس بارہ میں سمجھائیں کہ چندہ کیا ہوتا ہے۔ جب میں نے بتایا تو مجھے ہاتھ سے پکڑ کر اپنے کنویں کی طرف لے گئے کہ پانی ناپید ہے تو کھیتی بالکل نہیں اور پھر اپنا ریوڑ دکھایا کہ بوجہ تنگ دستی جانور بھی نہیں ہیں لیکن آپ کی توجہ دلانے سے میں کوشش کرتا ہوں۔ خاکسار ان کی مسجد میں بیٹھ گیا، تین، چار گھنٹے تک خاکسار وہیں بیٹھا رہا کہ بلآخر بابا اشولا ہاتھ میں 10 فرانک کا ایک سکّا لئے مسجد میں آگئے اور دکھایا کہ فی الحال تو یہی ملا ہے۔ میں نے سکّا لیکر زمین پر رگڑ کر صاف کیا، رسید کاٹی اور دعائیں دیتے ہوئے شکریہ کے ساتھ وہاں سے روانہ ہوا۔

قریباً 6 ماہ بعد ایک دن اپنے بچے لیکر میرے پاس پورتونوو مشن ہاؤس آئے۔ مجھے مہمان نوازی کا موقع ملا۔ جانے سے قبل ایک ہزار فرانک چندہ ادا کیا اور بتایا کہ میری ہر چیز میں خدا نے برکت کی ہے۔ وہ باتیں جو آپ نے کہیں تھیں میں حقیقت میں مشاہدہ کرتا ہوں۔ میری آمدن میں ترقی ہوئی ہے۔ بینن کے احباب جانتے ہیں کہ کیسے ان 10 فرانک نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا اور ان کی افلاس کو امارت سے بدلا۔ اس کے بعد دوبارہ ہماری ملاقات 6 ماہ بعد بینن کے نیشنل جلسہ کے موقع پر ہوئی تو بہت زیادہ خوشی اور پُرتپاک انداز میں ملے اور 10,000 فرانک چندہ ادا کرتے ہوئے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن سے ان کی خوشی اور مسرت بیان کر سکوں۔

2017ء میں ملاقات

1996ء میں خاکسار کا تقرر واپس پاکستان کے لئے ہوا۔ خاکسار کے قیام کے دوران موصوف ہر سال 10,000 سیفا تک چندہ ادا کرتے رہے۔2017ء میں بینن کی پچاس سالہ تقریبات کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خاکسار مع فیملی کی شمولیت کو منظور فرمایا اور اجازت عطا فرمائی۔ جلسہ سالانہ کے موقع پر بابا اشولا سے آخری ملاقات ہوئی۔

ملاقات کا حال

خاکسار نے جلسہ کے موقع پر ایک سیشن کی صدارت کی۔ مکرم بابا اشولا صاحب کو معلوم پڑا کہ میں ہوں اس خوشی میں کہ میں جلسہ پر آیا ہوں تو اُٹھ کر میری طرف دوڑ پڑے۔ دوستوں نے سہارا دیکر مجھ سے ملوایا، بغلگیر ہوئے اور فرطِ جذبات میں زار زار رونے لگے۔ جب کچھ سنبھلے تو حال احوال کے بارے میں استفسار کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ امیر صاحب آپ نے مجھے کیا نسخہ دیا تھا۔ ہر سال چندہ ادا کرتا ہوں اور خدا کے ان گنت فضلوں کا مشاہدہ کرتا ہوں۔ کیتو (Keto) شہر جہاں سے ایک وقت نکلنا پڑا تھا وہاں اپنا مکان تعمیر کر چکا ہوں۔ اللہ نے بہت نوازا ہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ

یہ ایمان افروز ملاقات میرے ذہن میں نقش ہوچکی تھی۔ اس کی لذت اس 10 فرانک کے ایک زنگ لگے سکے سے شروع ہوئی تھی جو ہزاروں اور پھر لاکھوں میں بدلتی گئی اور کبھی کم نہیں ہوئی۔ اب جبکہ بابا اشولا اس دنیا میں نہیں رہے تو اس واقعہ کی لذت ان کی یاد کو تازہ رکھتی ہے۔

مرحوم اپنے نام اشولا یعنی برکتوں کا سر چشمہ (Source of Fountain of bounties) جماعت کے لئے ثابت ہوئے۔ نہایت عاجزی، انکساری اور بہادری سے زندگی گزاری۔ بینن میں اب ہر طرف جماعتیں ہی جماعتیں پھیل گئی ہیں۔ بینن میں 300 سے زائد پُختہ خوبصورت مساجد تعمیر ہوچکی ہیں- سینکڑوں کی تعداد میں جماعتیں ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسے ایسے فدائی وجود عطا فرمائے ہیں جن کی قربانیاں رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔

اللہ تعالیٰ میرا بھی انجام بخیر کرے اور دلی آرزو ہے کہ افریقہ کی کسی زمین پر ایسی سعید روحوں کی آبیاری کرتے جان خدا کے حضور پیش ہو اور وہیں مقبرہ بنے۔ آمین

(صفدر نذیر گولیکی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 4 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ