خلاصہ خطبہ جمعہ
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 03؍جون 2022ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے
آنحضرتؐ کے الفاظ وَ هَلْ تَسْتَطِيْعُ اَنْ تُغَيِّبَ وَجْهَكَ عَنِّیْ، کیا تمہارے لئے ممکن ہے کہ تم میرے سامنے نہ آؤ، بہت بلند اخلاق کے آئینہ دار ہیں۔وحشی سے خواہش کا اظہار کیاہے۔۔۔ یہ لب و لہجہ آمرانہ نہیں بلکہ التماس کا لب و لہجہ ہے اور اِس سے اُس محبت و عزت کا پتا چلتا ہے جو حضرت حمزہؓ کے لئے آپؐ کے دل میں تھی، ایک منتقم مزاج انتقام لے کر دل ٹھنڈا کر سکتا تھا مگر آپؐ نے عفو سے کام لیا صرف اتنا چاہا کہ وہ آپؐ کے سامنے نہ آئے تا حضرت حمزہ ؓکی دردناک شہادت کی یاد سے آپؐ کے دل کو ٹھیس نہ پہنچے
حضور انور ایدہ الله نے تشہد، تعوذ اور سورۃالفاتحہ کی تلاوت بعدجنگ یمامہ کے تناظر میں مسلمانوں کے مختلف گروہوں کے عَلَم برداروں کی بہادری کے تذکرہ کی بابت ارشاد فرمایا۔انصار کا جھنڈا حضرت ثابتؓ بن قیس اور مہاجرین کا جھنڈا حضرت زیدؓ بن خطاب کے پاس تھا۔
حضرت زیدؓ بن خطاب کے بارہ میں آتا ہے
آپؓ حضرت عمرؓ بن خطاب کے سوتیلے بھائی، قدیم الاسلام، بدر اور اِس کے بعد کے غزوات میں شریک رہے، جنگ یمامہ میں حضرت خالدؓ نے جب لشکر کو ترتیب دیا تو ایک حصہ کا سپۂ سالار آپؓ کو بنایا اور اِسی طرح اِس جنگ میں مہاجرین کا پرچم بھی آپؓ کے ہاتھ میں تھا۔ آپؓ پرچم لئے آگے بڑھتے رہے اور بڑی بے جگری سے لڑے یہاں تک کہ شہید ہو گئے تو پرچم گر گیا، سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی الله عنہما نے پرچم تھام لیا۔ اِس معرکہ میں آپؓ نے مُسَیْلمہ کے دست راست اور ایک بہادر شہ سوار رَجّال بن عُنْفُوَہ کو قتل کیا۔ آپؓ کو ابومریم حنفی نے شہید کیا، اِس کے بعد وہ مسلمان ہو گیا اور ایک مرتبہ جب حضرت عمرؓ نے اُس سے کہا کہ تم نے میرے بھائی کو قتل کیا تھا تو اُس نے کہا، اے امیر المؤمنین! الله تعالیٰ نے میرے ہاتھوں زید رضی الله عنہ کو شرف بخشا اور اُن کے ہاتھوں مجھے ذلیل نہیں کیا۔
زیدؓ دو نیکیوں میں مجھ سے آگے نکل گیا تھا
حضرت عمرؓ بن خطاب کے بیٹے حضرت عبداللهؓ بھی جنگ یمامہ میں شامل ہوئے تھے، وہ جب واپس مدینہ آئے تو حضرت عمرؓ نے اپنے اِس شہید ہونے والے بھائی کے غم میں اُن کو کہاکہ جب تمہارے چچا زیدؓ شہید ہو گئے تو تم واپس کیوں آگئے اور کیوں اپنا چہرہ مجھ سے چھپا نہ لیا۔ جب زیدؓ کے قتل کی خبر حضرت عمر رضی الله عنہ کو پہنچی تو فرمایا! زید ؓ دو نیکیوں میں مجھ سے آگے نکل گیا تھا، مجھ سے پہلے اسلام قبول کیا اور مجھ سے پہلے شہید ہو گئے۔
جب باد صبا چلتی ہے تو زید رضی الله عنہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے
مالک بن نُوَیْرَہ کو جب حضرت خالدؓ نے قتل کر دیا تو اُس کا بھائی متمم بن نُوَیْرَہ اکثر اُس کی جدائی میں روتا رہتا اور شعر کہتا۔ ایک مرتبہ جب حضرت عمرؓ سے اُس کی ملاقات ہوئی اور اُس نے بھائی کا مرثیہ آپؓ کو سنایا تو آپؓ نے اُس سے کہا! اگر مَیں شعر کہنا جانتا تو تمہاری طرح مَیں بھی اپنے بھائی زیدؓ کے لئے شعر کہتا۔ اِس پر اُس نے عرض کیا، اگر میرے بھائی کی موت ایسی ہوتی جیسی موت آپؓ کے بھائی کی ہوئی ہے یعنی شہادت کی موت تو مَیں کبھی بھی اپنے بھائی پر غمگین نہ ہوتا۔ آپؓ نے فرمایا! جس خوبصورت انداز میں میرے بھائی کی تعزیت تم نے کی ہے اور کسی نے نہیں کی۔
بہرحال جنگ کا ذکر ہورہا ہے
حضور انور ایدہ الله نے بیان فرمایا! مُسَیْلمہ کذّاب ابھی تک ثابت قدم اور کافروں کی جنگ کا مرکز بنا ہوا تھا، حضرت خالدؓ نے یہ تجزیہ کیا کہ جب تک مُسَیْلمہ کو قتل نہ کیا جائے گا جنگ ختم نہیں ہو گی، اِس لئے آپؓ اکیلے اُن کے سامنے آئے اور ایک ایک کو انفرادی جنگ کی آواز نیزمسلم شعار کا نعرہ یَا مُحَمَّدَاہ لگایا۔ پس جو بھی مقابلہ کے لئے نکلا آپؓ نے اُس کو قتل کر دیا، پھر مسلمانوں نے بڑے جوش سے جنگ کی، آپؓ نے مُسَیْلمہ کو مقابلہ کے لئے آواز دی، اُس نے قبول کر لی تو آپؓ نے اُس پر اُس کی خواہش کے مطابق چند چیزیں پیش کیں پھر اُس پر حملہ آور ہوئے، وہ ساتھیوں سمیت بھاگ گیا تو آپؓ نے مسلمانوں کو پکار کر کہا! خبردار، اب کوتاہی نہ کرنا، آگے بڑھو اور کسی کو بچ کر جانے نہ دو۔ اِس پر مسلمان اُن پر چڑھ دوڑے، صحابہ کرامؓ نے اِس معرکہ میں انتہائی صبرو استقامت کا ایسا ثبوت دیا جس کی مثال نہیں ملتی اور برابر دشمن کی طرف بڑھتے رہے یہاں تک کہ الله تعالیٰ نے دشمنوں کے خلاف فتح عطاء فرمائی اور کفار پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
حدیقۃ الموت یعنی موت کا باغ
مسلمانوں نے اُن کا پیچھا کیایہاں تک کہ اُنہیں ایک باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا، میدان جنگ کے قریب ہی بہت وسیع باغ جس کے گرد دیواریں تھیں اور وہ مُسَیْلمہ کی ملکیت تھا، اِس کو حدیقۃ الرحمٰن کہا جاتا تھا جس طرح مُسَیْلمہ کو رحمٰن الیمامہ لیکن دورانِ جنگ اِس میں کثرت سے دشمنوں کے مارے جانے کی وجہ سے اِس باغ کو حدیقۃ الموت کہا جانے لگا۔ مُسَیْلمہ کذّاب بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اِس باغ میں چلا گیا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ بن ابوبکرؓ نے دیکھا کہ بنو حنیفہ کا ایک سردار محکم بن طفیل خطاب کر رہا ہے، اُنہوں نے اُس پر تیر چلا کر اُسے قتل کر دیا، بنو حنیفہ نے باغ کا دروازہ بند کر لیا اور صحابہؓ نے چاروں طرف سے اِس باغ کا محاصرہ کر لیا۔ مسلمان کوئی جگہ تلاش کرنے لگے کہ کسی طرح اِس کے اندر جایا جا سکے لیکن یہ قلعہ نما باغ تھا باوجود تلاش کے اِس کے اندر جانے کی کوئی جگہ نہ مل سکی۔
حضرت براء ؓ بن مالک کی انتہائی بہادری
آخر کار بہت بہادر، غزوۂ اُحد اور خندق میں رسول اللهؐ کے ساتھ حصہ لینے والے حضرت براءؓ بن مالک (بھائی حضرت انسؓ بن مالک) نے کہا! مسلمانو، اب صرف ایک طریقہ ہے کہ تم مجھے اُٹھا کر باغ میں پھینک دو، مَیں اندر جا کر دروازہ کھول دوں گا۔ آپؓ کے شدید اصرار اور الله کی قسم دینے پر آخر مجبور ہو کر مسلمانوں نے اُنہیں باغ کی دیوار پر چڑھا دیا، اِس پر جب اُنہوں نے دشمن کی بڑی تعداد کو دیکھا تو ایک لمحہ کے لئے رُکے لیکن پھر الله کا نام لے کر باغ کے دروازہ کے سامنے کود پڑے اور دشمنوں سے لڑتے اور قتل کرتے دروازہ کی طرف بڑھنے لگے، بالآخر دروازہ پر پہنچے میں کامیابی پر اُسے کھول دیا۔ مسلمان باہر دروازہ کھلنے کے ہی منتظر تھے، جونہی دروازہ کھلا وہ باغ میں داخل ہو گئے اور دشمنوں کو قتل کرنے لگے، بنو حنیفہ مسلمانوں کے سامنے سے بھاگنے لگے لیکن وہ باغ سے باہر نہیں نکل سکتے تھے، نتیجتًا ہزاروں آدمی مسلمانوں کے ہاتھ قتل ہو گئے۔
مسلمان مرتدین سے قتال کرتے ہوئے مُسَیْلمہ تک پہنچ گئے
وہ ایک دیوار کے شگاف میں کھڑا ہوا تھا جیسے خاکستری رنگ کا اونٹ ہو، وہ بچاؤ کے لئے اِس دیوار پر چڑھنا چاہتا اور غصہ سے پاگل ہو چکا تھا، وحشیؓ بن حرب، جنہوں نے غزوۂ اُحد میں حضرت حمزہ رضی الله عنہ کو شہید کیا تھا، اُس کی طرف بڑھے اور آپ نے اپنا وہی برچھا جس سے حضرت حمزہ رضی الله عنہ کو شہید کیا تھا اُس کی طرف پھینکا اور وہ اُسے جا لگا اور دوسری طرف سے پار ہو گیا۔ پھر جلدی سے ابو دُجانہ سِماکؓ بن خَرشہ اِس کی طرف بڑھے، اُس پر تلوار چلائی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیا۔ قلعہ سے ایک عورت نے آواز دی، ہائے! حسینوں کے امیر کو ایک سیاہ فارم غلام نے قتل کر دیا۔
دعائیہ تحریک و تین مرحومین کا تذکرۂ خیر
آخر پر حضور انور ایدہ الله نے پاکستان، الجزائر اور افغانستان کے احمدیوں کے لئے دعائیہ تحریک فرمائی، اِسی طرح خطبۂ ثانیہ سے قبل درج ذیل تین مرحومین کا تذکرۂ خیرنیز بعد از نماز جمعۃ المبارک اِن کی نماز جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔ (1) مکرم نسیم مہدی صاحب مبلغ سلسلہ ابن مکرم مولانا احمد خان نسیم صاحب :آپ کی غیر معمولی و گراں قدر جماعتی خدمات اور اوصاف حمیدہ کا تفصیلی ذکرخیر کرنے کے بعد حضور انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا! الله تعالیٰ اِن سے مغفرت و رحم کا سلوک اور بلندیٔ درجات فرمائے، اپنے پیاروں کے قدموں میں جگہ دے، اِن کے بچوں اور بیوی کو بھی صبر وحوصلہ نیز اِن کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے، جس طرح اِنہوں نے وفاء سے زندگی گزاری اِن کی اولاد بھی اِسی طرح وفاء سے زندگی گزارنے والی ہو۔ (2) عزیزم محمد احمد شارم آف ربوہ : بقضائے الٰہی وفات پانے والا سولہ سالہ موصی فدائی خلافت، ایک ہنس مکھ اور ہر دلعزیز بچہ تھا۔ (3) مکرمہ سلیمہ قمر صاحبہ اہلیہ رشید احمد صاحب مرحوم:مرحومہ کےوالد جماعتی بزرگ شخصیت چوہدری محمد صدیق صاحب مولوی فاضل کو لمباعرصہ بطور انچارج خلافت لائبریری و صدر عمومی ربوہ خدمت کی توفیق ملی نیز زیر ہدایت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی الله عنہ قیام ربوہ کے موقع پر خیمہ لگانے اور پہلی رات ربوہ میں بسر کرنے کا اعزاز بھی نصیب ہوا۔ مرحومہ کو لمبا عرصہ تک مختلف شعبہ جات میں خدمت کی توفیق ملی، بشمول دیگر 1987ء تا 2018ء اکتیس سال بطور مدیرہ رسالہ مصباح خدمت کا موقع ملا اور اِس دوران اِنہوں نے باوجود نا مساعد حالات کے مصباح کو بڑے اچھی طرح چلایا۔ نہایت نیک سیرت، عبادت گزار، دعا گو اور سادہ طبیعت کی مالک تھیں۔
(قمر احمد ظفر۔ نمائندہ روزنامہ الفضل آن لائن جرمنی)