ظہور مہدی آخر زماں ہے
سنبھل جاؤ کہ وقت امتحاں ہے
محمد میرے تن میں مثل جاں ہے
یہ ہے مشہور جاں ہے تو جہاں ہے
گیا اسلام سے وقت خزاں ہے
ہوئی پیدا بہار جاوداں ہے
اگر پوچھے کوئی عیسی کہاں ہے
تو کہہ دو اس کا مسکن قادیاں ہے
ہر اک دشمن بھی اب رطب اللساں ہے
مرے احمد کی وہ شیری زباں ہے
مقدر اپنے حق میں عزوشاں ہے
جو ذلت ہے نصیب دشمناں ہے
مسیحا زمیں کا یاں مکاں ہے
زمین قادیاں دارالاماں ہے
فدا تجھ پہ مسیحا میری جاں ہے
کہ تو ہم بے کسوں کا پاسباں ہے
مسیحا سے کوئی کہہ دو یہ جا کر
مریض عشق تیرا نیم جاں ہے
نہ پھولو دوستو دنیائے دوں پر
کہ اس کی دوستی میں بھی زیاں ہے
دورنگی سے ہمیں ہے سخت نفرت
جو دل میں ہے جبیں سے بھی عیاں ہے
ترے اس حال بد کو دیکھ کر قوم
جگر ٹکڑے ہے اور دل خوں فشاں ہے
جسے کہتی ہے دنیا سنگ پارس
مسیحا کا وه سنگ آستاں ہے
دیا ہے رہنما بڑھ کر خضر سے
خدا بھی ہم پہ کیسا مہرباں ہے
فلک سے تا مناره آئیں عیسی
مگر آگے تلاش نرد باں ہے
ترقی احمدی فرقہ کی دیکھے
بٹالہ میں جو اک پیر مغاں ہے
نہ یوں حملہ کریں اسلام پر لوگ
ہمارے منہ میں بھی آخر زباں ہے
مخالف اپنے ہیں گو زور پر آج
مگر ان سے قوی تر پاسباں ہے
(کلام محمود صفحہ33)