• 28 اپریل, 2024

اجتماعات اور ذیلی تنظیموں کو نصیحت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس ذیلی تنظیمیں یاد رکھیں کہ اگر حقیقت میں اجتماع میں شامل ہونے والوں اور ایم ٹی اے۔ٹی وی کے ذریعے سے سننے والوں پر دنیا میں کہیں بھی کوئی اثر ہوا ہے تو یہ لوہا گرم ہے اس کو اُس مزاج کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں جس مزاج کو پیدا کرنے کے لئے اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو بھیجا ہے۔

ایم ٹی اے۔ ٹی وی پر سننے والوں کی مَیں نے بات کی ہے تو اُن کی طرف سے بھی مجھے اظہارِ جذبات کے خطوط مل رہے ہیں بلکہ بعض بچوں کے والدین کے تاثرات بھی مل رہے ہیں کہ ہمارے بچوں نے، اطفال نے آپ کا خطاب سنا تو اُن دس گیارہ سال کے بچوں کے چہروں پر شرمندگی کے آثار تھے۔ بلکہ ایک بچے کی ماں نے مجھے بتایا کہ میرا بچہ جب خطاب سُن رہا تھا تو اُس نے منہ کے آگے cushion رکھ لیا کہ میں بعض وہ باتیں کرتا ہوں جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔ میرے متعلق کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ ایم ٹی اے۔ٹی وی پر مجھے دیکھ دیکھ کر یہ باتیں کر رہے ہیں، خطاب کر رہے ہیں تو مَیں نے منہ چھپا لیا کہ نظر نہ آؤں۔ پس یہ سعید فطرت ہے، یہ وہ روح ہے جو اللہ تعالیٰ نے آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے بچوں میں بھی پیدا کی ہوئی ہے کہ نصیحتوں پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے بلکہ شرمندہ ہو کر اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ بعضوں نے اپنے موبائل فون بند کر دئیے ہیں۔ سکول میں بیٹھ کر بجائے پڑھائی پر توجہ دینے کے بعض بچے اس سوچ میں رہتے تھے کہ ابھی بریک ہوئی یا ابھی چھٹی ہو گی تو پھر اپنے موبائل پر کوئی گیم کھیلیں گے یا اور اس قسم کی فضولیات میں پڑ جائیں گے جو فونوں پر آجکل مہیا ہوتی ہیں۔ اب جب میری باتیں سنی ہیں تو انہوں نے کہا یہ سب فضولیات ہیں، ہم اب اس کو استعمال نہیں کریں گے، ان کھیلوں کو نہیں کھیلیں گے۔ یہ کھیلیں ایسی ہیں جو صحت نہیں بناتیں، جو دماغی ورزش بھی نہیں ہے بلکہ ایک نشہ چڑھا کر مستقل انہی چیزوں میں مصروف رکھتی ہیں، ایک پاگل پن (یا انگلش میں جسے craze کہتے ہیں) وہ ہو جاتا ہے۔ لیکن ہم صرف اس بات پر خوش نہیں ہو سکتے۔ جو ہوشمند اور بڑے ہیں اُن کو تو خود اپنی حالتوں کے جائزے لینے کی ضرورت ہے اور مستقل مزاجی سے ان جائزوں کی ضرورت ہے۔ ان جائزوں کو لیتے چلے جانا ہے اور اسی طرح والدین کو مستقل اپنے بچوں کو یاددہانی کروانے کی ضرورت ہے کہ جب ایک اچھی عادت تم نے اپنے اندر پیدا کر لی ہے تو پھر اُسے مستقل اپنی زندگی کا حصہ بناؤ۔ ماحول سے متاثر نہ ہو جاؤ۔

پس ہمیشہ یاد رکھیں کہ ہمارے لئے عارضی خوشیاں کوئی خوشیاں نہیں ہیں بلکہ جب تک ہماری خوشیاں، ہماری نیکیاں، ہمارے اندر پاک تبدیلیاں، ہمارے اندر مستقل رہنے کا ذریعہ نہیں بنتیں ہم چین سے نہیں بیٹھ سکتے۔ جبتک ہم مستقل اپنی حالتوں کے جائزے نہیں لیتے رہتے، ہم عظیم انقلاب کا حصہ نہیں بن سکتے۔ پس جیسا کہ میں نے اجتماع میں بھی کہا تھا کہ اچھے معیار حاصل کر لینا پہلے سے زیادہ فکر کا باعث بنتا ہے، خود ہر فردِ جماعت پر بھی، ذیلی تنظیموں پر بھی اور نظامِ جماعت پر بھی پہلے سے زیادہ ذمہ داریاں ڈالتا ہے۔

اس مرتبہ مَیں لجنہ سے اس لحاظ سے بھی متاثر ہوا ہوں کہ بچیاں بھی اور خواتین بھی بڑی خاموشی سے اور توجہ سے میری لجنہ میں جو تقریر تھی اُسے سنتی رہی ہیں۔ عموماً میں عورتوں کے مزاج کی وجہ سے کوشش کرتا ہوں کہ چالیس پینتالیس منٹ میں اپنی بات ختم کر دوں اس سے زیادہ وقت نہ لوں لیکن اس مرتبہ لجنہ کے اجتماع پہ جب میں نے وقت دیکھا تو تقریباً سوا گھنٹہ گزر چکا تھا۔ لیکن چھوٹی بچیاں بھی، جوان بچیاں بھی، بڑی عمر کی عورتیں بھی پورا وقت بڑے انہماک سے میری باتوں کو سنتی رہی ہیں۔ خدا کرے کہ میری باتیں اُن پر اثر ڈالنے والی بھی ہوں۔ یعنی مستقل اثر ہو اور لجنہ کی تنظیم اس بات پر خوش نہ ہو جائے کہ ہمارا اجتماع بڑا اچھا ہوا اور ہماری تعریف ہو گئی، بلکہ مستقل اور مسلسل عمل کے لئے ان باتوں کو اپنے لائحہ عمل میں شامل کریں۔ عہدیدار اپنے بھی جائزے لیں اور ممبروں کے بھی جائزے لیں تبھی ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مددگار بن سکتے ہیں۔ تبھی ہم اُس زمانے میں شمار ہونے والے کہلا سکیں گے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، ایک روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اُمت ایک مبارک اُمت ہے یہ نہیں معلوم ہو سکے گا کہ اِس کا اوّل زمانہ بہتر ہے یا آخری۔

(ترمذی کتاب الامثال باب 6حدیث نمبر2869)

(یعنی دونوں زمانےاپنی الگ الگ شان رکھنے والے ہیں)

یہ آخری زمانہ کونسا ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو پہلے زمانے کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جوڑا ہے۔ یہ زمانہ جو آخری زمانہ ہے یہ آخرین کا زمانہ ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے۔ جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق اور غلام صادق نے مبعوث ہو کر آخرین کو اوّلین سے ملانا تھا۔ دین کوثریّا سے واپس لانا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت کو دنیا پر قائم کرنا تھا۔ اس کا نعوذ باللہ یہ مطلب نہیں ہے کہ مقام کے لحاظ سے آنے والا جو نبی ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ہو گا اور یہ پہچان مشکل ہو جائے گی کہ یہ بہتر ہے یا وہ بہتر ہے۔ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔ ایک آقا ہے اور دوسرا غلام ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح مَیں نے اپنے زمانے میں ایک اندھیرے زمانے کے بعد، ہدایت کی روشنی دنیا میں پھیلائی جس کا مسلم کی حدیث میں ایک جگہ یوں ذکر ملتا ہے، بہت ساری حدیثیں ہیں اس بارے میں، ایک حدیث یہ ہے کہ حضرت عمران بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بہتر لوگ میرے زمانے کے ہیں پھر وہ جو اُن کے بعد آئیں گے۔ عمران کہتے ہیں کہ مجھے یادنہیں کہ آپ نے دو دفعہ یا تین دفعہ فرمایا۔ بہر حال آپ نے اس کے بعد فرمایا۔ ان لوگوں کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جو بِن بلائے گواہی دیں گے، خیانت کے مرتکب ہوں گے، دینداری چھوڑ دیں گے، نذریں مان کر پوری نہیں کریں گے۔ عہد کے پابندنہیں رہیں گے اور عیش و آرام کی وجہ سے موٹاپا اُن پر چڑھ جائے گا۔

(مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم …حدیث نمبر6475)

پس ایسے لوگوں کے بعد پھر جیسا کہ دوسری حدیثوں سے بھی ثابت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد سے بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جو اُمّتِ مسلمہ پر سے اندھیروں کے بادل چھٹنے کا زمانہ ہو گا۔ جس میں آخرین میں مبعوث ہونے والا مسیح و مہدی اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت کے ساتھ جگہ جگہ روشنی کے مینار کھڑا کرتا چلا جائے گا اور ہر طریق سے راہِ ہدایت کے پھیلانے کے سامان کرتا چلا جائے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو اس طرح بھی بیان فرمایا ہے کہ جو دین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کامل ہوا، جو ہدایت کی نعمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اپنے کمال کو پہنچی وہ اس زمانے میں جبکہ ذرائع اور وسائل نے دنیا کو قریب لا کر جسے انگریزی میں کہتے ہیں کہ Global Village بنا دیا ہے، رابطوں کی وجہ سے تمام کرّہ ارض ایک شہر ہی بن گیا ہے۔ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اتری ہوئی کامل ہدایت کی تکمیلِ اشاعت ہو رہی ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تکمیلِ ہدایت کا زمانہ تھا اور مسیح محمدی کا زمانہ تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کا زمانہ ہے۔ پس چاہے اُمت کا اول زمانہ ہو یا اُمت کا آخری زمانہ۔ دونوں زمانے اس لئے مبارک ہیں کہ ان دونوں زمانوں کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلدنمبر2 صفحہ 49-50۔ ایڈیشن 2003ء)

پس جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے منسوب ہوتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں تو تکمیلِ اشاعتِ ہدایت کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہم پر ڈالی جاتی ہے اور اشاعتِ ہدایت اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب ہم خود بھی اپنی ہدایت کے سامان کرنے والے ہوں۔ ہم اپنے عہدوں کی تجدید کرتے ہوئے اُس دَور کی مثالوں کو دیکھنے والے ہوں جب تکمیلِ ہدایت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور قرونِ اُولی کے مسلمانوں نے اپنے آپ کو اُس ہدایت اور تعلیم کا نمونہ بنایا تھا۔ اپنے قول و فعل سے اُس کا اظہار کیا تھا اور اُن کے نمونے دیکھ کر، اُن کے عمل دیکھ کر اُن کا خدا تعالیٰ سے تعلق دیکھ کر، اُن کے اعلیٰ اخلاق دیکھ کر ایک زمانہ اُن کا گرویدہ ہو گیا تھا۔

(خطبہ جمعہ 23؍ ستمبر 2011ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جولائی 2021