• 29 اپریل, 2024

دنیا میں عدل اور انصاف قائم کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے

دنیا میں عدل اور انصاف قائم کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے
کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس دنیا میں عدل اور انصاف قائم کرنے کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔ اس کے علاوہ کبھی وہ اعلیٰ معیار قائم ہو ہی نہیں سکتا جو دنیا سے نا انصافی اور ذاتی غرضوں کے حصول کو ختم کر سکے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک اور جگہ فرمایا کہ:
’’تمام قویٰ کا بادشاہ انصاف ہے۔ اگر یہ قوت انسان میں مفقود ہے تو پھر سب سے محروم ہونا پڑتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ24 ایڈیشن 2003ء)

پس عدل و انصاف کا وصف انسان میں ہونا اُس کی خوبیوں کو روشن تر کر دیتا ہے۔ اس آیت میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے، اگر اس پر عمل ہو یعنی انصاف قائم کرنے کے لئے انسان اپنے خلاف گواہی دینے سے بھی گریز نہ کرے، اپنے والدین کے خلاف گواہی دینے سے بھی گریز نہ کرے اور قریبیوں کے خلاف بھی گواہی دینے سے نہ رُکے تو ایک حسین معاشرہ قائم ہو جاتا ہے جس کی مثال نہیں مل سکتی۔ جب فریقین میں مسئلہ پیدا ہو تو گواہیوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ایسی صورت میں یا خود فریقین سے اپنے اپنے بیان دینے کے لئے کہا جاتا ہے یا بعض گواہوں کو پیش کیا جاتا ہے تا کہ مسئلہ کی حقیقت واضح ہو اور فیصلہ کرنے اور عدل و انصاف کرنے میں آسانی پیدا ہو۔ اگر گواہیاں ہی جھوٹی ہوں، اپنے بیانوں کو توڑ مروڑ کر ناجائز حق لینے کے لئے پیش کیا جا رہا ہو تو پھر ہو سکتا ہے کہ فیصلہ کرنے والے کا فیصلہ بھی صحیح نہ ہو۔ صرف یہ نہیں کہ صحیح نہ ہو بلکہ بہت زیادہ غلط بھی ہو سکتا ہے اور ایسی صورت میں پھر گناہ گواہیاں دینے والوں کے سر ہے، فیصلہ کرنے والے کے سر نہیں ہے۔

بعض گواہ اپنے ذاتی فائدے کے لئے نہیں تو اپنے عزیزوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے غلط گواہی دے جاتے ہیں۔ فیصلہ کرنے والے ادارے کو غلط راستہ پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور پھر نتیجۃً گناہگار بنتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی غلط بیان دے کر میرے سے بھی غلط فیصلہ کرواتا ہے تو ایسا ہی ہے جیسا میں اُسے آگ کا ٹکڑا دلوا رہا ہوں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 8 صفحہ 642-643 حدیث اُمّ سلمۃ زوج النبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیث نمبر 27253 عالم الکتب بیروت 1998ء)

پس جھوٹے بیان اور جھوٹی گواہیاں دے کر آگ کے ٹکڑے حاصل کرنے سے ہر ایک کو بچنا چاہئے۔ حقیقی مومن وہی ہے جو اس سے بچے۔

سورۃ نساء کی یہ آیت جو مَیں نے پڑھی تھی اس میں آگے پیچھے عائلی معاملات کے احکامات بھی آتے ہیں۔ پس وہ لوگ جوخاوند ہو یا بیوی ہو خاص طور پر اپنے ناجائز حقوق لینے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح طلاق کی صورت میں، خلع کی صورت میں مرد یا عورت کے عزیز یا رشتہ دار غلط گواہی دے کر بعض ناجائز فائدے اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ عدل کا خون کر رہے ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ اس سے دنیاوی عارضی فائدہ تو اُٹھا لیتے ہیں لیکن جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آگ کا ٹکڑا ہے جو وہ لے رہے ہوتے ہیں جو قیامت کے دن پھر بد انجام کی طرف لے جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس طرح فریقین بھی اور گواہان بھی اپنی خواہشات کی پیروی کر کے عدل سے دُور جا رہے ہیں۔ پس خواہشات کی پیروی نہ کرو، بلکہ عدل قائم کرنے کی کوشش کرو، انصاف قائم کرنے کی کوشش کرو۔

(خطبہ جمعہ 9؍اگست 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جولائی 2022