• 7 مئی, 2024

نعت رسول مقبولؐ

تُو ہی مصطفٰی ہے، تُو ہی مجتبیٰ ہے
میرے سامنے جو ترا نقشِ پا ہے

زمان و مکاں کا جو یہ سلسلہ ہے
رقم ہے ترا نام لوح و قلم پر

تری ذات میں عکسِ ربّ العُلیٰ ہے
تری عظمتوں کو خدا جانتا ہے

جو تُو رہنما ہے، جو تُو مقتدا ہے
وسیلہ ہے تُو ہی، تُو ہی واسطہ ہے

پریشانیوں کو سکوں مل گیا ہے
ترے عشق کا جو خزانہ ملا ہے

ترے حسنِ کامل کی کیفیتوں کو
ترے خُلق کا جو دیا ہے فروزاں

یہ غارِ حرا میں جو آنسو گرا ہے
اِسے تُو نے لکھا ہے خونِ جگر سے

ترے عکس ِکامل کا سورج چڑھا ہے
تری نعت کا ذوق جس کو ملا ہے

تخیل جو اتنا معطر ہوا ہے
ترے نام کی جب بھی آئی ہے خوشبو

دکھا دوں گا دنیا کو میں تیرا بن کر
فقط تیری خاطر ہے یہ دل کی دھڑکن

ترے ہجر کی تاب لاؤں کہا ں سے
مدینے میں جانے کا ہو اذن مجھ کو

تجھی کو خدا نے یہ رتبہ دیا ہے
یہی میری منزل، یہی راستہ ہے

فقط تیری خاطر یہ قائم ہوا ہے
یہی ابتدا ہے، یہی انتہا ہے

اسی نے بنایا تجھے آئینہ ہے
کہ تُو اس کا بھیجا ہوا رہنما ہے

تو ملنا خدا کا ہاں دشوار کیا ہے
خدا مل گیا، جس کو تُو مل گیا ہے

ترا عشق ہے یا کوئی معجزہ ہے
یہ رب کی عنایت ہے،اس کی عطا ہے

خدا جانتا ہے یا تُو جانتا ہے
بجھے کا کبھی نہ کبھی بجھ سکا ہے

یہ آنسو نہیں ہے، یہ اک زلزلہ ہے
یہ قانون جو تجھ کو حق سے ملا ہے

قمر چھپ گیا، شمس گہنا گیا ہے
وہ چھوٹا سہی، پھر بھی کتنا بڑا ہے

اثر یہ سراسر ترے نام کا ہے
دل و جاں کے اندر چمن کھل گیا ہے

مگر ڈر رہا ہوں، یہ دعویٰ بڑا ہے
یہ دھڑکن نہیں اک قیامت بپا ہے

یہ طاقت ہے مجھ میں نہ یہ حوصلہ ہے
یہی آرزو ہے، یہی التجا ہے

تری نعت گوئی کا چرچا ہے آصف!
اگرچہ سخن کی ترے ابتدا ہے

(آصف محمود ڈار)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ