• 19 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعودؑ) (قسط 35)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعودؑ)
قسط 35

دعا کے ذریعہ
خدا تعالیٰ کی پاک محبت
حاصل کی جاوے

درستی اخلاق کے بعد دوسری بات یہ ہے کہ دعا کے ذریعہ خداتعالیٰ کی پاک محبت حاصل کی جاوے۔ ہر ایک قسم کے گناہ اور بدی سے دور رہے اور ایسی حالت میسر ہو کہ جس قدر اندرونی آلودگیاں ہیں ان سب سے الگ ہو کر ایک مصفٰی قطرہ کی طرح بن جاوے۔ جب تک یہ حالت میسر نہ ہوگی۔ تب تک خطرہ ہی خطرہ ہے لیکن دعا کے ساتھ تدابیر کو نہ چھوڑے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ تدبیر کو بھی پسند کرتا ہے اور اسی لئے فَالۡمُدَبِّرٰتِ اَمۡرًا (النّازعات: 6) کہہ کر قرآن شریف میں قسم بھی کھائی ہے۔ جب وہ اس مرحلہ کو طے کرنے کے لئے دعا بھی کرے گا اور تدبیر سے بھی اس طرح کام لے گا کہ جو مجلس اور صحبت اور تعلقات اس کو حارج ہیں ان سب کو ترک کردے گا اور رسم عادت اور بناوٹ سے الگ ہو کر دعا میں مصروف ہوگا تو ایک دن قبولیت کے آثار مشاہدہ کرلے گا۔ یہ لوگوں کی غلطی ہے کہ وہ کچھ عرصہ دعا کرکے پھر رہ جاتے ہیں اور شکایت کرتے ہیں کہ ہم نے اس قدر دعا کی مگر قبول نہ ہوئی۔ حالانکہ دعا کا حق تو ان سے ادا ہی نہ ہوا۔ تو قبول کیسے ہو؟ اگر ایک شخص کو بھوک لگی ہو یا سخت پیاس ہو اور وہ صرف ایک دانہ یا ایک قطرہ لے کر شکایت کرے کہ مجھے سیری حاصل نہیں ہوئی۔ تو کیا اس کی شکایت بجا ہوگی؟ ہرگز نہیں۔ جب تک وہ پوری مقدار کھانے اور پینے کی نہ لیگا تب تک کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ یہی حال دعا کا ہے اگر انسان لگ کر اسے کرے اور پورے آداب سے بجالاوے۔ وقت بھی میسر آوے تو امید ہے کہ ایک دن اپنی مراد کو پالیوے۔ لیکن راستہ میں ہی چھوڑ دینے سے صدہا انسان مر گئے (گمراہ ہوگئے) اور صدہا ابھی آئندہ مرنے کو تیار ہیں۔ ایک من پیشاب میں ایک قطرہ پانی کا کیا شے ہے جو اسے پاک کرے۔ اسی طرح وہ بداعمالیاں جن میں لوگ سر سے پاؤں تک غرق ہیں ان کے ہوتے ہوئے چند دن کی دعا کیا اثر دکھا سکتی ہے۔ پھر عُجب، خودبینی، تکبر اور ریا وغیرہ ایسے امراض لگے ہوئے ہوتے ہیں جو عمل کو ضائع کردیتے ہیں۔ نیک عمل کی مثال ایک پرند کی طرح ہے اگر صدق اور اخلاص کے قفس میں اسے قید رکھو گے تو وہ رہے گا ورنہ پرواز کر جاوے گا اور یہ بجز خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل نہیں ہوسکتا۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ131-132 ایڈیشن 1984ء)

اسلام کا خاص امتیاز

انسان کی بڑی سعادت اور اس کی حفاظت کا اصل ذریعہ ہی یہی دعا ہے۔ یہ دعا اس کے لئے پناہ ہے۔ اگر وہ ہر وقت اس میں لگا رہے۔

یہ بھی یقیناً سمجھو کہ یہ ہتھیار اور نعمت صرف اسلام ہی میں دی گئی ہے۔ دوسرے مذاہب اس عطیہ سے محروم ہیں۔ آریہ لوگ بھلا کیوں دعا کریں گے جبکہ ان کا یہ اعتقاد ہے کہ تناسخ کے چکر میں سے ہم نکل ہی نہیں سکتے ہیں اور کسی گناہ کی معافی کی کوئی امید ہی نہیں ہے۔ ان کو دعا کی کیا حاجت اور کیا ضرورت اور اس سے کیا فائدہ؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آریہ مذہب میں دعا ایک بے فائدہ چیز ہے اور پھر عیسائی دعا کیوں کریں گے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ دوبارہ کوئی گناہ بخشا نہیں جائے گا کیونکہ مسیح دوبارہ تو مصلوب ہو ہی نہیں سکتا۔ پس یہ خاص اکرام اسلام کے لئے ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ امت مرحومہ ہے۔ لیکن اگر آپ ہی اس فضل سے محروم ہوجاویں اور خود ہی اس دروازہ کو بند کردیں تو پھر کس کا گناہ ہے۔ جب ایک حیات بخش چشمہ موجود ہے اور ہر وقت اس میں سے پانی پی سکتا ہے۔ پھر اگر کوئی اس سے سیراب نہیں ہوتا ہے تو خود طالب موت اور تشنہ ہلاکت ہے۔ اس صورت میں تو چاہیئے کہ اس پر منہ رکھ دے اور خوب سیراب ہو کر پانی پی لیوے۔ یہ میری نصیحت ہے جس کو میں ساری نصائح قرآنی کا مغز سمجھتا ہوں۔ قرآن شریف کے 30سپارے ہیں اور وہ سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں۔ لیکن ہر شخص نہیں جانتا کہ ان میں سے وہ نصیحت کون سی ہے جس پر اگر مضبوط ہو جاویں اور اس پر پورا عملدر آمد کریں تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل جاتی ہے۔ مگر میں تمہیں بتاتا ہو ں کہ وہ کلید اور قوت دعا ہے۔ دعا کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر اللہ تعالیٰ ساری مشکلات کو آسان کر دے گا۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اور وہ نہیں سمجھتے کہ دعا کیا چیز ہے۔ دعا یہی نہیں ہے کہ چند لفظ منہ سے بڑبڑالئے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ دعا اور دعوت کے معنیٰ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی مدد کے لئے پکارنا۔ اور اس کا کمال اور مؤثر ہونا اس وقت ہوتا ہے جب انسان کمال دردِ دل اور قلق اور سوز کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اس کو پکارے ایسا کہ اس کی روح پانی کی طرح گداز ہو کر آستانۂ الوہیت کی طرف بہہ نکلے یا جس طرح پر کوئی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو اپنی مدد کے لئے پکارتا ہے تو دیکھتے ہو کہ اس کی پکار میں کیسا انقلاب اور تغیر ہوتا ہے۔ اس کی آواز ہی میں وہ درد بھرا ہوا ہوتا ہے جو دوسروں کے رحم کو جذب کرتا ہے۔ اسی طرح وہ دعا جو اللہ تعالیٰ سے کی جاوے۔ اس کی آواز اس کا لب و لہجہ بھی اور ہی ہوتا ہے۔ اس میں وہ رقت اور درد ہوتا ہے جو الوہیت کے چشمہ رحم کو جوش میں لاتا ہے اس دعا کے وقت آواز ایسی ہو کہ سارے اعضا اس سے متاثر ہوجاویں اور زبان میں خشوع خضوع ہو۔ دل میں درد اور رقت ہو۔ اعضاء اس سے متاثر ہوجاویں اور زبان میں خشوع خضوع ہو۔ دل میں درد اور رقت ہو۔ اعضاء میں انکسار اور رجوع الی اللہ ہو۔ اورپھر سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم پر کامل ایمان اور پوری امید ہو۔ اس کی قدرتوں پر ایمان ہو۔ایسی حالت میں جب آستانۂ الوہیت پر گرے گا۔ نامراد واپس نہ ہوگا۔ چاہیئے کہ اس حالت میں باربار حضور الٰہی میں عرض کرے کہ میں گنہگار اور کمزور ہوں۔ تیری دستگیری اور فضل کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ تو آپ رحم فرما اور مجھے گناہوں سے پاک کر۔ کیونکہ تیرے فضل و کرم کے سوا کوئی اَور نہیں ہے جو مجھے پاک کرے۔ جب اس قسم کی دعا میں مداومت کرے گا اور استقلال اورصبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور تائید کا طالب رہے گا تو کسی نامعلوم وقت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور سکینت اس کے دل پر نازل ہوگی جو دل سے گناہ کی تاریکی دور کردے گی۔ اور غیب سے ایک قوت عطا ہوگی جو گناہ سے بیزاری پیدا کردے گی اور وہ ان سے بچے گا۔ اس حالت میں دیکھے گا کہ میرا دل جذبات اور نفسانی خواہشوں کا ایسا اسیر اور گرفتار تھا کہ گویا ہزاروں ہزار زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا جو بے اختیار اسے کھینچ کر گناہ کی طرف لیجاتے تھے اور یا یک دفعہ وہ سب زنجیر کٹ گئے ہیں اور آزاد ہوگیا ہے اور جیسے پہلی حالت میں وہ محسوس اور مشاہدہ کرے گا کہ وہی رغبت اور رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔ گناہ سے محبت کی بجائے نفرت اور اللہ تعالیٰ سے وحشت اور نفرت کی بجائے محبت اور کشش پیدا ہوگی۔

یہ ایک زبردست صداقت ہے جو اسلام میں موجود ہے۔ اس کا انکار ہرگز نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ اس کا زندہ ثبوت ہر زمانہ میں موجود رہتا ہے۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ اگر انسان اس امر کو سمجھ لے اور وہ دعا کے راز سے آگاہ ہوجاوے تو اس میں اس کی بڑی ہی سعادت اور نیک بختی ہے اور اس صورت میں سمجھو کہ گویا اس کی ساری ہی مرادیں پوری ہوگئی ہیں ورنہ دنیا کے ہمّ و غم تو اس قسم کے ہیں کہ انسان کو ہلاک کردیتے ہیں۔

(ملفوظات جلد نمبر7 صفحہ193-195 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

خدا تعالیٰ تک پہنچنے کے لئے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 جولائی 2022