تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 50
ایک ضروری نوٹ اور قابل ذکر
امریکہ میں اردو دان اور پاکستان کمیونٹی میں حضور انور کے خطبہ جمعہ کی اشاعت
امریکہ میں نیویارک سے پاکستانی اردو اخبارات ایک کثیر تعداد میں اشاعت ہوتے ہیں۔ نیویارک کےعلاوہ شکاگو، ہیوسٹن، لاس اینجلس اور سان فرانسسکو سے بھی کئی اخبارات نکلتے ہیں۔ خاکسار مکرم ملک عبدالقدیر صاحب کی مدد سے (جو ان دنوں سیکرٹری تعلیم القرآن اور وقفِ عارضی تھے) ہر منگل کے الفضل سے حضور انور کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ دوبارہ اردو میں کمپوز کر کے ان تمام اخبارات کو بھجواتا۔ جس سے دو فائدے مدنظر ہوتے ہیں ایک تویہ کہ پاکستانی کمیونٹی کے افراد کو ان شہروں میں جماعت احمدیہ کے خلیفہ کی آوازپہنچ جائے۔ کیونکہ آئے دن پاکستان اور یہاں کے بعض اخبارات میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبات اور آپ جو راہنمائی فرما رہے ہیں کے بارے میں یہ اپنے اخبارات میں غلط فہمی پھیلا رہے ہوتے ہیں اور اس طرح یہی چاہتے ہیں کہ انہیں صحیح بات کا علم ہو جائے۔ دوسرے اگر وہ شائع نہ کریں تب بھی ایڈیٹر کی نظر سے یہ تحریرات گزریں گی تو ہو سکتا ہے کہ ان کےد ل بدل جائیں اور یہ اپنی اوچھی حرکات سے باز آجائیں اور غلط فہمیاں جو احمدیت کے بارے میں وہ پھیلاتے ہیں اس میں کمی کر دیں کیونکہ یہ زمانہ قلم کا زمانہ ہے۔ مخالف کی باتوں کا جواب تحریر سے دینے کا زمانہ ہے۔
اور پھر اگر یہ شائع کر دیں تو پاکستان کی کمیونٹی پڑھے گی اور اس کے شکوک و شبہات دو ر ہوں گے اور احمدیت کی تعلیم سے انہیں آگاہی ہو گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہو بھی رہا ہے کیونکہ لوگ انہیں پڑھنے کے بعد ہمیں فون کرتے ہیں اور مزید سوالات کرتے ہیں اور ان کے شکوک کا ازالہ کرنے کی پوری پوری کوشش خداتعالیٰ کے فضل سے کی جاتی ہے اور اکثریت فون کرنے والوں کی پھر ایسی ہوتی ہے جو اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ واقعۃً یہی اسلامی تعلیم ہے جو آپ کے خلیفہ بیان کرتے ہیں۔
دو اخبارات پاکستان ایکسپریس اور نیویارک عوام حضور کے خطبہ کا خلاصہ ایک ایک پورے صفحہ کا شائع کرتے رہے ہیں۔ شروع شروع میں ان کی سخت مخالفت بھی ہوئی مگر خداتعالیٰ کے فضل سے یہ اپنے موقف پر قائم رہے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ثُمَّ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
الاخبار نے اپنی اشاعت 6 اکتوبر 2010 صفحہ23 پر ہماری اس عنوان سے خبر شائع کی۔
’’عیسائیوں کی کلیئر مونٹ متحدہ چرچ، اسلامی ہمسایوں کے ساتھ کھڑی ہے۔‘‘
کلیئر مونٹ کیلیفورنیا
عیسائیوں کی کلیئر مونٹ متحدہ چرچ (CUCC) اب قرآن کی قابلِ فخر مالک ہے۔ یہ اسلامی مقدس کتاب مسجد بیت الحمید چینو کے امام شمشاد ناصر نے پیش کی اور CVCC سے پاسٹر راب پاٹن نے قبول کی۔ پچھلے اتوار، 12 ستمبر کے مجمع میں، یہ پیشکش امام ناصر صاحب کے مجمع سے مہمانی خطاب کا حصہ تھی۔
میں اور میرے بہت سے ساتھی اس سے بہت مایوس ہوئے ہیں اور نہ صرف مایوس ہوئے ہیں بلکہ ان کی ان بیان بازیوں سے غصہ میں ہیں اور دیگربے ہودہ امور سے جو اس ملک میں ہو رہی ہیں۔
اور بلکہ ہمارے اپنے ہی پچھلے صحن میں مسلمان بھائیوں اور بہنوں نے بتایا کہ وہ اپنے آپ کو عیسائی کہلانے والے لوگوں کو کہ پاسٹرپاٹن نے کہا کہ ’’حضرت عیسیٰؑ نے کبھی بھی خوف کو حکمتِ عملی کے طور پر استعمال نہیں کیا اور حضرت عیسیٰؑ نے جبر کی کبھی بھی تحریک نہیں کی۔
حضرت عیسیٰؑ (جن کو ماننے کا ہم دعویٰ کرتے ہیں) نے کبھی بھی نفرت کو نہیں اپنایا اور نہ ہی فساد کو ایمان کا ذریعہ بنایا ہے۔
امام ناصر صاحب نے عربی میں قرآن پڑھا اور پھر اس کا انگریزی میں ترجمہ پیش کیا اور پھر خطاب کیا۔ مسجد میں ان کے ساتھ، ان کی جماعت کے درجنوں افراد بھی تھے۔
امام ناصر صاحب نے مزید کہا ’’ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہم عیسائی اور مسلمان یہاں موجود ہیں‘‘ پھر انہوں نے توجہ دلائی کہ اگر کوئی مسلمان امن کے لئے کھڑا نہیں ہوتا تو وہ مسلمان نہیں ہے۔ ہم جو چاہیں دعویٰ کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے عمل کو ہمارے الفاظ کا ثبوت دینا چاہئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے اندر بھی اختلافات ہیں۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اگر مجھے آپ سے اختلاف ہے تو مجھے آپ کی کتاب جلا دینی چاہئے۔
امام شمشاد کا دورہ صرف CUCC کی ان تقریبات کا حصہ تھا جو پچھلے ہفتہ کو ہوئی تھیں۔
امن اور دوستی کی اس walk میں پچھلے اتوار کی شام 5 بجے مختلف مذاہب والوں نے حصہ لیا۔ دوسرے مذاہب کے ساتھ اور یکجہتی کو ظاہر کرنے کے لئے۔
اس سے پہلے پچھلے جمعہ کو امام شمشاد نے اپنی مسجد میں رمضان کے روزہ کی افطاری پر CUCC چرچ کو مدعو کیا تھا۔ پاسٹر پاٹن اور دوسرے ممبران اس میں شامل ہوئے تھے۔
پچھلے ہفتہ کا آخر، دہشت گردی کے عمل کی یاد دلاتا ہے۔ جس سے بے اعتمادی اور نفرت بڑھتی ہے۔ پاٹن نے کہا ’’ہمارا خیال ہے کہ یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس قسم کی سرگرمیوں میں شامل رکھیں جس سے اعتماد اور پیار بڑھے۔‘‘
عیسائیوں کی متحدہ کلیئر مونٹ چرچ ایک ایسا عام چرچ ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ تمام لوگ اکٹھے ہیں۔ جس میں تمام لوگ، نسل، اخلاقی، ہر عمل، ہر جنس کے لوگ بلا امتیاز و تفریق سب کو خوش آمدید کرتا ہے۔
اردو نیوز یو ایس اے نے اپنی اشاعت 13اکتوبر تا 19 اکتوبر 2010ء صفحہ 6 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’مسلمان صلح حدیبیہ سے سبق حاصل کریں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس مضمون کا خلاصہ گزشتہ دیگر اخبارات کے حوالہ سے پہلے گزر چکا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے۔
الانتشار العربی نے اپنے عربی سیکشن کی اشاعت 14 اکتوبر 2010ء صفحہ 19 پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ حضور انور کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے یہ خطبہ جمعہ حضور انور نے 21 مئی 2010ء مسجد بیت الفتوح لندن میں ارشاد فرمایا تھا۔ جس کا عنوان اخبار نے یہ دیا۔
انبیاء علیہم السلام کے راستے میں تکالیف
اور دشمنیوں کا سامنا
اخبار نے لکھا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا مسرور احمد نے خطبہ جمعہ میں سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 32 تلاوت کی اور بتایا کہ جب دنیا میں انبیاء آتے ہیں تو انبیاء اور ان کی جماعتوں سے یہ سلوک ہوتا ہے کہ ان کی مخالفت کی جاتی ہے۔ جس آیت کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں قرآن کریم نے اس بات کا نقشہ کھینچا ہے۔
پس جب آنحضرت ﷺؑ کی مخالفت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بھی فرمایا کہ مخالفتیں مجرموں کا کام ہے۔ دشمنان دین ہمیشہ ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں کہ نبی کے پیغام کی مخالفت کریں لیکن یہ مخالفتیں، یہ تکلیفیں، یہ قتل مخالفین کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ آخر کار انبیاء ہی جیتا کرتے ہیں اور مخالفین اللہ تعالیٰ کے عذاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
حضرت مرزا مسرور احمد نے آنحضرت ﷺ کے زمانے کے صحابہ کی تکالیف کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا کہ مکہ میں آپ ﷺ کے ماننے والوں پر ہر قسم کی تکلیف اور ایذا روا رکھا گیا۔ تاریخ میں بڑے دردناک واقعات ہیں ایک واقعہ حضرت عمار اور ان کے والد یاسر اور والدہ سمیّہ کا آتا ہے جن پر بے انتہاء ظلم کیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ ان کو تکلیف دی جارہی تھی اور آپ ﷺ کا وہاں سے گزر ہوا تو آپ نے فرمایا اے آل یاسر! صبر کرتے رہو۔ تمہارے صبر پر اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے جنت تیار کر رکھی ہے۔ یاسر تو اسی وقت ان تکالیف سے شہید ہو گئے۔ حضرت سمیّہ کو ابوجہل نے نیزہ مارا جو ان کے پیٹ کے نچلے حصہ میں لگا اور انہوں نے بھی وہیں تڑپتے تڑپتے جان دے دی! ان تکالیف پر پھر بعض مسلمان صحابہ نے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ اور آخر کار پھر صحابہ نے مدینہ کی طرف بھی ہجرت کی۔
پھر خداتعالیٰ کے فضل سے اسلام کا پیغام مدینہ میں پھیلا۔ پس مخالفت سے گھبرانا نہیں چاہئے یہی مخالفت برسوں بعد کھاد کا کام دیتی ہے اور اس سے ترقی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الفرقان آیت 31 میں فرماتا ہے اے میرے رب میری قوم نے اس قرآن کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا ہے۔ اس آیت میں اس طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت خود قرآن کریم کی تعلیم کو بھلا دے گی۔ اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود اور آپ کی جماعت کو بھی تسلی دلائی ہے کہ خدا اور قرآن کے نام پر جو تمہاری مخالفتیں کی جارہی ہیں یہ قرآن کریم کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہیں لیکن فکر کی بات نہیں۔ انبیاء سے یہی سلوک ہو تا آیا ہے اور وہ تمہارا نصیر اور مددگار ہے۔
الامام مرزا مسرور احمد نے قرآن کریم کی آیت (النساء: 95) بھی پڑھی کہ جو تم پر سلام بھیجے اسے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو۔
آج کل پاکستان کے لوگ نام نہاد علماء کے پیچھے چل کر مسلمانوں نے احمدیوں کو تکلیفیں دینا عین خدمتِ اسلام سمجھا ہوا ہے لیکن یہ سب مخالفیں ایک دن ان مخالفین پر ہی لوٹائی جائیں گی۔
احمدی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے، اللہ تعالیٰ، اس کے رسول ﷺ اور قرآن پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور تمام ارکان اسلام اور ارکان ایمان پر یقین رکھتے ہیں اور یہ ایمان رکھتے ہوئے نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ حقیقی مومن ہیں کیونکہ احمدی ہی ہیں جنہوں نے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کو پورا کرتے ہوئے زمانے کے امام کو بھی سلام پہنچایا ہے اور ان کی جماعت میں شامل ہیں۔
فرمایا: پاکستان میں آج کل مخالفت زوروں پر ہے، پاکستان کے احمدیوں کے لئے بھی باہر کے احمدی دعا کریں اور پاکستانی احمدیوں کو بھی میں دعا کے لئے یاددہانی کراتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کی بقا بھی احمدیوں کی دعاؤں میں ہے۔ نام نہاد علماء نے کفر کے فتووں سے اس طرح عوام الناس کی عقلیں چکرا دی ہیں کہ ان کی عقل بالکل ہی مار دی ہے۔
الامام مرزا مسرور احمد نے ایک حوالہ سے کہ احمدیوں کو قتل کیا جارہا ہے اس پر قرآن کریم کی آیت (النساء 94) پڑھی کہ جان بوجھ کر کسی مومن کو قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے وہ اس میں لمبا عرصہ رہنے والا ہے اور اللہ اس پر غضب ناک ہوا اور اس پر لعنت کی اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کیا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ شہیدوں کے بارے میں فرماتا ہے (اٰل عمران: 170) اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ان کو ہرگز مردہ گمان نہ کرنا بلکہ وہ تو زندہ ہیں اور انہیں ان کے رب کے ہاں رزق دیا جاتا ہے۔
پس شہیدوں کے لئے تو اخروی نعمتوں کا فیضان جاری ہے اس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور ہمیشہ کی زندگی ان کا مقدر بن گئی ہے لیکن مخالفین کے بارے میں فرماتا ہے وَتَجۡعَلُوۡنَ رِزۡقَکُمۡ اَنَّکُمۡ تُکَذِّبُوۡنَ (الواقعہ: 83)کہ اپنا حصہ رزق تم نے صرف جھٹلانا بنا لیا ہے۔ تم مولویوں کی روٹی بھی اسی لئے ہے اور سیاستدانوں کی بھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب کی جائے۔
گویا یہ ان کا رزق بن گیا ہے اور حقیقی رازق کو وہ بھول چکے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میری روزانہ زندگی کا آرام اسی میں ہے کہ میں اسی کام میں لگا رہوں بلکہ میں اسکے بغیر جی ہی نہیں سکتا کہ میں اس (یعنی خدا) کا اور اس کے رسول ﷺ کا اور اس کے کلام کا جلال ظاہر کروں، مجھے کسی کی تکفیر کا اندیشہ نہیں اور نہ کچھ پرواہ۔ میرے لئے یہ بس ہے کہ وہ راضی ہو جس نے مجھے بھیجا ہے‘‘
حضور نے فرمایا کہ پس کیا ایسے شخص کے بارے میں یہ بے ہودہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ وہ اپنے آپ کو خاتم النبیین سمجھتا ہے اور اس کا مقام آنحضرت ﷺ سے اونچا ہے؟ ہم ہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کو سمجھتے ہوئے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے حقیقی معانی کو سمجھنے والے ہیں۔ ہم ہیں جو آنحضرت ﷺ کے مقام ختم نبوت کو سمجھنے والے ہیں۔
وقتاً فوقتاً احمدیوں پر الزام تراشی کرتے ہوئے ہمارے خلاف جو نام نہاد علماء مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں یا حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ان حقائق کو سامنے رکھ کر مسلمانوں کو چاہئے کہ دیکھیں اور پرکھیں۔
جہاں تک احمدیوں کا سوال ہے، احمدی اپنی جانوں کو تو قربان کر سکتے ہیں لیکن کبھی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے حقیقی معنی سمجھ کر پھر اس سے منہ نہیں موڑ سکتے یہ جو کلمے مٹائے جاتے ہیں، یہ جو کلمے کی حفاظت کے نام پر احمدیوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے، شہید کیا جاتا ہے، یہی کلمہ مرنے کے بعد ہمارے حق میں گواہی دے گا کہ یہی حقیقی کلمہ گو ہیں۔ پس ہم خوش قسمت ہیں جنہیں یہ خوشخبری دی گئی ہے۔
ہفت روزہ یو ایس اردو نیوز نے اپنی اشاعت 20تا 26 اکتوبر 20101ء صفحہ6 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’تاریخ اسلام کا ایک سنہری ورق۔ اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں، مسلمان صلح حدیبیہ سے سبق حاصل کریں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع ہوا۔ یہ مضمون اس سے قبل دیگر اخبارات میں بھی شائع ہو چکا ہے اور نفس مضمون وہی ہے۔
نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 15تا 21 اکتوبر 2010ء صفحہ 14 پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’دائرہ اسلام سے خارج‘‘ خاکسار کی تصویرکے ساتھ شائع ہوا۔
اس مضمون میں خاکسار نے لکھا:
’’قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا‘‘ یہ شہ سرخی یا ہیڈلائن مشرق اخبار کی ہے جس میں 1974ء میں قومی اسمبلی نے احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا اور اس قسم کی شہ سرخیوں سے باقی اخبارات نے بھی خبریں شائع کیں۔ اس ہیڈلائن کے نیچے اخبار نے مزید لکھا:
’’آئین اور قانون کی رو سے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے بعد ہر شکل اور ہر معنی میں نبوت کے دعوے دار اور اسے پیغمبر یا مصلح ماننے والے افراد غیرمسلم ہیں۔‘‘
احمدیوں کو کیوں غیرمسلم اقلیت قرار دیا گیا کیونکہ احمدی حضرات یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ امام مہدی اور مسیح موعود تشریف لا چکے ہیں۔ آئیے اس خبر کے تناظر میں کچھ مزید باتوں کی تشریح کریں۔
اس قانون کی رو سے جو قومی اسمبلی پاکستان نے 1974ء میں متفقہ طور پر منظور کیا اب حضرت عیسیٰ تشریف نہیں لا سکتے اور نہ ہی امام مہدی کیونکہ قانون کی رو سے کوئی مصلح یا ریفارمر اب نہیں آسکتا۔
اس آئین اور قانون کی رو سے حضرت عیسیٰؑ کی آمد کے قائل بھی غیرمسلم قرار پا گئے۔
اس قانون کی رو سے بالفرض اگر حضرت عیسیٰ کسی اور ملک میں بھی تشریف لے آئیں تو وہ پاکستان میں نہیں آجاسکتے۔ کم از کم وہ پاکستان اور سعودی عرب کا دورہ نہ کر سکیں گے۔
سب سے ضروری بات سمجھنے والی یہ ہے کہ قادیانیوں کو جو غیرمسلم قرار دیا گیا وہ مذہب یا قرآن یا حدیث کی رو سے غیرمسلم قرار نہیں دیا گیا کیونکہ اسمبلی تو ایک سیاسی اسمبلی ہے سب لوگ سیاستدان تھے۔ سیاسی حضرات کا علم قرآن و حدیث کے بارے میں کتنا پختہ ہوتا ہے یہ تو سبھی جانتے ہیں اور وہ خود کس قدر قرآن و سنت کے عامل ہوتے ہیں یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ جنہیں اس بات کا اختیار تھا کہ وہ کسی کے مذہب میں دخل اندازی کریں۔
پھر ایک اور دیکھنے اور سمجھنے والی بات یہ ہے کہ اس اسمبلی کی شرعی حیثیت کیا تھی۔ کیا اسمبلی کو یہ اختیار ہے کہ وہ کسی کے مذہب میں دخل اندازی کرے۔
اگر حضرت عیسیٰ اب کہیں آبھی جائیں تو وہ پاکسانیوں کو کم از کم تبلیغ نہیں کر سکتے۔ ورنہ انہیں سزا ملے گی۔
اگر یہ بات ہے تو پھر اب مسلمان حضرت عیسیٰ کی آمد کا انتظار چھوڑ دیں۔ کیونکہ وہ کس ’’مقام‘‘ اور ’’شان‘‘ میں آئیں گے۔ نبی، مصلح، ریفارمر ہوں گے یا نہیں؟
اگر نبی ہوں گے تو پھر آنحضرتؐ کے بعد نبی کیسا؟
اس کے بعد خاکسار نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں آپ کاجو مقام ہے وہ قرآن کریم سے لکھا ہے۔ مثلاً یہ کہ آپؑ یہودیوں (بنی اسرائیل) کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے۔ اب قرآن تو کہتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کے رسول ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو اسلام سکھائیں گے۔
یہ خصوصیت صرف آنحضرت کو ہے کہ آپ سب دنیا کی طرف آئے اور حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں قرآن کریم نے بتایا کہ وہ صرف اور صرف یہودیوں کے لئے ہیں۔
پھر احمدی تو قرآن کریم سے یہ بات مانتے ہیں کہ ضرت عیسیٰ اس جسم کے ساتھ آسمان پر نہیں گئے۔ نہ ہی قرآن کریم سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ آپ 2 ہزار سال سے آسمان پر بیٹھے ہیں۔
اس کے بعد خاکسار نے چند مزید قرآن کریم کی آیات لکھی ہیں جن میں حضرت عیسیٰ کے بارے میں ہے۔ جہاں تک عقیدے کا تعلق ہے اب (دیگر مسلمان) بھی اس بات کو مانتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت عیسیٰ اور حضرت امام مہدی نے آنا ہے۔ ہم احمدی مسلمان بھی یہی مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس نے آنا تھا وہ آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آچکا ہے۔
خاکسار نے لکھا کہ حیرت کی بات ہے کہ جو عقیدہ آپ رکھیں وہ ٹھیک ہے اور وہی عقیدہ احمدی رکھیں تو غلط۔ آپ کا یہ عجیب پیمانہ ہے۔ خاکسار نے حضرت عیسیٰ کی وفات کا ذکر کر کے یہ شعر بھی درج کیا ہے۔
غیرت کی جا ہے عیسیٰ ہو زندہ آسمان پر
مدفوں ہو زمین میں شاہ جہاں ہمارا
اس کے بعد خاکسار نے تذکرۃ الشہادتین سے حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ایک حوالہ بھی درج کیا ہے۔
’’اے تمام لوگو! سن رکھو یہ اس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا۔ وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلا دے گا………‘‘
اس حوالہ کے بعد خاکسار نے لکھا کہ پس ہم قرآن مجید کو ماننے والے ہیں، ہم آنحضرت ﷺ کو خاتم النبین ماننے والے ہیں۔ ہم کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پر ایمان لانے والے ہیں۔ ہمیں کسی اسمبلی یا حکومت کی طرف سے احمدیوں کے مسلمان ہونے کا لائسنس یا سرٹیفیکیٹ نہیں چاہئے۔ اگر آپ کو اپنے لئے چاہئے تو مبارک ہو۔ اصل تو خدا کی نگاہ میں مسلمان بننا ہے نہ کہ لوگوں کی نگاہ میں۔
اس وقت جو احمدیوں کے خلاف دہشت گردی ہو رہی ہے وہ بھی اس 1974ء کے قانون کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ خاکسار نے حضرت مسیح موعودؑ کی کتب ’’مسیح ہندوستان میں‘‘، ’’راز حقیقت‘‘ اور ’’ازالہ اوہام‘‘ کے نام لکھے ہیں کہ ان کا مطالعہ کریں۔
(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)
(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)