• 8 جولائی, 2025

حضرت مولانا دوست محمد شاہد مرحوم

قرآن کريم ميں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلِکُلٍّ وِّجۡہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّیۡہَا فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ

(البقرہ: 149)

ترجمہ: سو (تمارا مطمع نظر يہ ہو کہ) تم نيکيوں کے (حصول) ميں ايک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔

اس آيت ميں جس طرف توجہ دلائی گئی ہےوہ يہ ہے کہ اصل ميں نيکياں ہی ہيں جو انسان کو خدا سے ملا کر اسے دائمی جنت کا وارث بنا ديتی ہيں اور يہ ہی انسان کا مقصود ہے کہ وہ اپنے پيدا کرنے والے سے جا ملے۔ پس دنياوی مال و متاع ميں ايک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوئی حيثيت نہيں۔ ان نيکيوں کے حصول اور دائمی جنت کا وارث بننے کے لئے انسان کے اندر عاجزی و انکساری کا ہونا نہايت ضروری ہے۔

ہمارے نبی کريم ﷺ اس پاکيزہ تعليم کے زندہ و جاويد مظہر تھے۔ صحيح مسلم ميں روايت ہے کہ آپ نے فرما يا: مَا تَوَ ا ضَعَ اَ حَدٌ لِّلّٰہِ اِلَّا رَفَعَہُ اللّٰہُ کہ بندہ جب خدا کے لئے انکساری کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کو رفعت عطا کرتا ہے۔

امام دوراں حضرت مسیح موعود عليہ السلام کی زندگی کا نمونہ ہمارے سامنے موجود ہےجس کے بارے ميں خود اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمايا:تيری عاجزانہ راہيں اسے پسند آئيں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمديہ کو بھی ايک کثير تعداد ايسے مخلصين کی عطا کی ہے جنہوں نے اپنے آقا و مولا حضرت محمد ﷺ کے اسوہٴ حسنہ پر عمل کرتے ہوئے اعلیٰ اخلاق کا وہ نمونہ پيش کيا جو ہمارے لئےمشعل راہ ہے۔ خدا تعالیٰ کے انہی برگذيدہ بندوں ميں سے ايک حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحبؒ مرحوم بھی ہيں جو کسی تعارف کے محتاج نہيں۔ جماعت ميں ا ٓپ کی بے شمار خدمات ہيں۔ آپ کی شخصيت کے بارے ميں لکھنا گويا ايک سمندر کو کوزے ميں بند کرنے کے مترادف ہے۔

آپ کا مختصر تعارف پيش کرنے کے بعد احباب جماعت کی خدمت ميں ايک ايسی ملاقات کا ذکر کرنا چاہوں گی جس نے ہميشہ آپ کی ياد کوزندہ رکھا۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کس قدر منکسرالمزاج شخصيت کے مالک تھے۔

تعارف

مولانا دوست محمد شاہد صاحب مرحوم مؤرخہ 3مئی 1927ء کو اپنے آبائی قصبہ پنڈی بھٹياں ميں پيدا ہوئے۔ آپ 1935ء ميں مدرسہ احمديہ قاديان ميں داخل ہوئے اور 1944ء ميں جامعہ احمديہ ميں تعليم کا آغاز کيا۔ 1946ء ميں مولوی فاضل کا امتحان پاس کيا اور پنجاب يونيورسٹی ميں تيسرے نمبر پر آئے۔ 29؍اکتوبر 1951ء کو جامعۃالمبشرين ربوہ کی طرف سے پہلی کامياب ہونے والی شاہد کلاس ميں آپ بھی شامل تھے۔ آپ نے اگست 1952ء سے روزنامہ الفضل ميں ايک صفحہ پر مشتمل شذرات کا کالم شروع کيا جو فروری 1953ء تک قبول عام کی سند کے ساتھ جاری رہا۔ موٴرخہ 25 جون 1953ء کو حضرت خليفۃ المسیح الثانیؓ نے محترم مولانا صاحب کو تاريخ احمديت کی تدوين کی ذمہ داری سونپی۔ آپ کی چاليس سے زائد تاليف مختلف موضوعات پر چھپ چکی ہيں جن کے ديگر زبابوں ميں تراجم ہو چکے ہيں۔ قومی اسمبلی پاکستان ميں 1974ء ميں سيدنا حضرت خليفۃ المسیح الثالث ؒ کی قيادت و سيادت ميں جو نمائندہ وفد گيا تھا اس ميں آپ کو بھی شموليت کی سعادت ملی۔ آپ کی خدمات سلسلہ کا دائرہ بہت وسيع ہے۔ آپ ايک علمی، ادبی اور روايتی رکھ رکھاؤ والی شخصيت تھے۔ تحرير اور تقرير ميں اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص ملکہ عطا فرما رکھا تھا۔

(روزنامہ الفضل، 27 اگست2009)

تين اپريل تا تين مئی 1990 گوجرانوالہ سنٹرل جيل ميں نو ديگر احمدی احباب کے ساتھ آپ اسير راہ مولا بھی رہے۔ سيدنا حضرت خليفۃ المسیح الربؒع نے آپ کے فرزند مکرم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب فضل عمر ہسپتال کو ايک مکتوب ميں تحریر فرمايا کہ شير پنجرے ميں بھی شير ہی رہتا ہے۔ اللہ کے شيروں کو ملنے جاؤ تو ميرا محبت بھرا سلام دينا۔ آپ کو جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر 1976ء سے لے کر 1983ء تک تقارير کرنے کا موقع ملا۔ ان مواقع پر کی گئی آپ کی تمام تقارير شائع شدہ ہيں۔ آپ نے بطور قاضی سلسلہ خدمت کی۔ مجلس افتاٗء اور ريسرچ سيل کے ممبر تھے۔ 20صدی کے آخری عشرہ ميں کيمبرج کے ايک عالمی ادارے انٹرنيشنل ببليوگرافيکل کی طرف سے احمديت کے اس خادم کو مين آف دی ايئر 1992-1993ء کا اعزاز ديا گيا۔ يہ اعزاز ايسی خاص علمی شخصيات کو ديا جاتا ہے جن کی صلاحیتوں، کاميابيوں اور قيادت کا عالمی سطح پر اعتراف کيا جاتا ہے۔پاکستان کے تمام بڑے اور مؤقر اخبارات نے اس اعزاز کی خبريں ديں۔

(روزنامہ الفضل 28؍اگست 2009ء)

خليفہ وقت سے ملاقات اور دعائيہ خطوط لکھنے کے ساتھ ساتھ بزرگان جماعت سے بچوں کا تعارف کروانے کی طرف بھی توجہ رہی۔ آپ سے تعلق کا سلسلہ خط کےذريعے قائم ہوا۔ اپنا اور خاندان کے بزرگ صحابہؓ کا تعارف کرواتے ہوئے بچوں کے لئے دعا کی درخواست کی۔ جواباً آپ کی جانب سے جو خط موصول ہوا وہ احباب جماعت کی خدمت ميں پيش ہے۔ اس خط ميں آپ نے احسن رنگ ميں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ اصل دعا خليفہ وقت ہی کی ہے۔ اصل خط کے ساتھ آسانی کے لئے يہ خط دوبارہ تحرير کياگيا ہے۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

عزيزہ محترمہ عظمیٰ ربانی صاحبہ

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ

آپ کا 8 جولائی 1999ء کا مراسلہ ملا۔ يہ معلوم کر کے بے انداز مسرت ہوئی کہ آپ کے دادا حضرت شيخ مبارک اسمعٰيل ہيں جو حضرت عرفانی کے چچا زاد بھائی تھے۔

ايں سعادت بزور بازو نيست
تا بخشند خدائے بخشند

حضرت مسیح موعود کے ملفوظات ميں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پاک بندوں کی سات نسلوں تک کو اپنی نظر رحمت و شفقت ميں رکھتا ہے۔ مبارک ہو۔

يقين ہے حضرت خليفۃ المسیح الربعؒ کے حضور دعا کے لئے عرض کر رہے ہونگے۔ اللہ تعالیٰ حضور کی دعاؤں کو جلد شرف قبوليت بخشے۔ آمين

سب کی خدمت ميں ہديہ سلام

والسلام
نا چيز دوست محمد شاہد

جب بھی پاکستان جانے کا موقع ملتا تو آپ کے دفتر جا کر ملاقات کا شرف حاصل کرتے اور آپ کی صحبت سے فيض ياب ہوتے۔ ايک بار ميرے مياں مکرم عابد ربانی صاحب اور بيٹی عزيزہ ماريہ ربانی پاکستان گئے تو آپ سے ملاقات کرنے آپ کے دفتر بھی گئے مگر آپ کو وہاں موجو د نہ پا کر آپ محترم مولانا محمد اعظم اکسير صاحب مرحوم سے ملاقات کرنے چلے گئے۔کچھ دير کے بعد محترم مولانا صاحب مرحوم نے مولانا دوست محمد شاہد صاحب کو فون کيا تا کہ پتہ کر سکيں کہ آپ اپنے دفتر ميں موجود ہيں۔ آپ نے فون اٹھايا جب آپ کو بتايا گيا کہ ربانی صاحب آئے ہيں اور ملاقات کی خواہش رکھتے ہيں تو آپ نے بڑی خوشی سے فرمايا:آپ ان کو بھيج ديں ميں تو کب سے ان کا انتظار کر رہا ہوں۔ جب ميرے ميا ں اور بيٹی دفتر گئے تو آپ کو دفتر کے باہر دروازے پر منتظر پايا۔ آپ بڑی شفقت سے ميرے مياں کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گئے۔ اپنے ساتھ بٹھايا اور دير تک گفتگو فرمائی۔ايک بار فون پر ميرے مياں سے بات کر رہے تھے۔ دوران گفتگو فرمانے لگے:عابد صاحب! آپ نے تو بزرگوں کی ياد تازہ کر دی ہے۔ہماری چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس طرح دلجوئی فرماتے کہ بہت خوشی محسوس ہوتی۔

يہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ کے نيک بندے چونکہ خدا سے پيار کرتے ہيں اور اسی پيار کے نتيجے ميں وہ اس کے بندوں سےبھی پيار کرتے ہيں۔اسی لئے وہ ہميں دوسروں سے مختلف نظر آتے ہيں اور دل ان کی طرف خود بخود کھنچے جاتے ہيں۔ ہميں ان کے قول و فعل ميں نہ تو کوئی بڑا پن ديکھنے کو ملتا ہے نہ کسی غرور و تکبر کی جھلک نظر آتی ہے اور نہ کوئی دکھاوا۔کيونکہ يہ ہو نہيں سکتا کہ ان کو خدا تعالیٰ سےتو سچا پيار ہو مگر اس کی مخلوق کو چھوٹا سمجھ رہے ہوں اور دل ميں ان کے لئے عزت و احترام نہ ہو۔

اب اس خاص واقعہ کا ذکر کرنا چاہوں گی جس کی وجہ سے دل ميں تحريک پيدا ہوئی اور جس کو ياد کر کے آپ کی قدر و منزلت ہميشہ بڑھتی رہی۔

خاکسار 2006ء ميں اپنی بيٹی عزيزہ ماريہ ربانی کے ہمراہ اپنے والدين سے ملنے پاکستان گئی۔ ايک روز آپ کو فون کيا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد ملاقات کی خواہش کا ا ظہار کيا۔ آپ نے فرمايا جی ضرور آئيں۔عموماً ہم دفتر ميں ہی ملاقات کيا کرتے تھے۔ ميں نے عرض کی:ميں آپ کے گھر آنا چاہتی ہوں۔ آپ نے نہايت خوشی کے ساتھ فرمايا، ضرور آئيں۔طے کردہ وقت کے مطابق اپنی بيٹی ماريہ اور والد صاحب محترم شيخ خالد پرويز صاحب مرحوم کے ہمراہ آپ کے گھر پہنچے۔ ربوہ ميں جون، جولائی کی شديد گرمی کے دن تھے۔ آپ نے دروازے پر خود ہميں ريسيو کيا۔آپ نے سفيد اچکن اور پگڑی پہن رکھی تھی۔ سلام دعا کے بعد آپ نے فرمايا: آپ اندر چلے جائيں۔ جہاں آپ کی بہو محترمہ سائرہ صاحبہ مرحومہ (اہليہ ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب) موجود تھيں۔ آپ والد صاحب کو ساتھ لے کر ليونگ روم کی طرف چلے گئے۔ محترمہ سائرہ صاحبہ مرحومہ بہت پيار سے مليں۔ موسم کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری خاطر تواضع کی۔ آپ ايک نہايت سلجھی ہوئی اعلیٰ اخلاق کی خا تون تھيں اور بالکل بہنوں کی طرح اچھے ماحول ميں ہماری گفتگو رہی۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس ميں اعلیٰ مقام عطا فرمائے (آمين ثم آمين)۔ کچھ دير بعد آپ نے فرمايا: آپ ابا جان سے مل ليں۔

حضرت مولانا دوست محمد صاحبؒ شاہد مرحوم ہميں ازراہ شفقت اپنے گھر کے پچھلے حصے ميں موجود لائبريری میں لے آئے۔لائبريری کيا تھی علم کا خزانہ تھا۔بڑے بڑے اونچے کتابوں کے شلف تھے جن ميں ہزاروں کی تعداد ميں کتب موجود تھيں۔ آپ فرمانے لگے اس ميں پانچ ہزار کتب موجود ہيں اور سب ميری نظر سے گذری ہيں (2006ء ميں ان کتب کی تعداد پانچ ہزار تھی جبکہ 2009ء ميں آپ کی وفات کی بعد الفضل ميں ان کی تعداد آٹھ ہزار شائع ہوئی ہے)۔ ميرے ہاتھ ميں ويڈيو کيمرہ ديکھ کر آپ نے مجھے فرمايا:آپ بے شک ان کی فلم بنا ليں۔ جس کی مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ لائبريری کی چھوٹی سی فلم بنانے کے بعد آپ نے فرمايا:اب آپ اسے بند کر ديں اور تشريف رکھيں۔ ميں نے کيمرہ بند کر ديا اور بڑے انہماک سے آپ کی گفتگو سننےکے لئے بيٹھ گئی۔آپ نے اپنی پگڑی اتار کر سائيڈ پر رکھی۔ اور گفتگو کا آغاز کيا۔ جو لوگ حضرت مولانا دوست محمد شاہد صاحبؒ مرحوم کی شخصيت سے واقف ہيں وہ جانتے ہيں کہ آپ تو علم کا ايک سمندر تھے۔آپ نے جب بولنا شروع کيا تو مجھ جيسی ناچيز تو صرف آپ کو ديکھتی رہی۔ علم و حکمت کی باتيں جو آپ بيان فرما رہے تھے ہم سب خاموشی سے سن کر ان سے فيض ياب ہو رہے تھے۔ کچھ دير کے بعد ہم نے جانے کے لئے رخصت چاہی۔اس ملاقات کی وہ اہم بات جو ميرے دل پر نقش ہوئی اور جس نے ہميشہ کے لئے آپ کی عزت و مرتبہ بلند کيا وہ آپ کا خود ہميں دروازے تک چھوڑنے آنا تھا۔ آپ کا مقام جو جماعت احمديہ عالمگير ميں ہے اسے ديکھا جائے تو ميں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتی ہوں کہ اتنی شفقت کا سلوک ہمارے ساتھ تھا۔آپ اپنی چھڑی تھامے آہستہ آہستہ چلتے دروازے تک آئے اور گاڑی کے چلنے تک وہاں ہی موجود رہے اور آپ کی منکسرالمزاجی ہميشہ ہميش کے لئے ميرے دل پر گہرا اثر چھوڑ گئی۔

اسلام احمديت کا يہ شير 26 اگست 2009ء کو 82 سال کی عمر ميں اپنے مالک حقيقی سے جا ملا۔ اللہ تعالیٰ آپ کی روح پر ہزار ہزار رحمتيں و برکتيں نازل فرمائے (آمين ثم آمين)۔

آپ کی وفات پر حضرت خليفۃ المسیح الخامس ايدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزيز نے خطبہ جمعہ ميں آپ کا ذکر خير کرتے ہوئے فرمايا:آپ جماعت کے چوٹی کے عالم تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ آپ مورٔخ احمديت کہلاتے تھے۔ تاريخ احمديت آپ نے لکھی۔ جس کی 20جلديں شائع ہو چکی ہيں۔ ليکن ميں سمجھتا ہوں کہ صرف مورٔخ احمديت ہی نہيں تھے بلکہ آپ تاريخ احمديت کا ايک باب بھی تھے اور ايک ايسا روشن وجود تھے جو احمديت يعنی حقيقی اسلام کی روشنی کو ہر وقت جب بھی موقع ملے پھيلانے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ بہت ہی بے نفس اور اپنے وقت کو زيادہ سے ذيادہ دين کی خاطر صرف کرنے والے بزرگ تھے۔ واقف زندگی تھے۔ خلافت سے بے انتہا کا تعلق تھا۔ايک ايسے عالم تھے جو يقيناً ايک عالم با عمل کہلانے کے حقدار تھے۔

(روزنامہ الفضل 28اگست 2009)

اللہ تعالیٰ نا صرف ہميں بلکہ اسلام احمديت کی آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی ان نيکيوں کو احسن رنگ ميں جاری رکھنے کی توفيق عطا فرمائے (آمين ثم آمين)۔

جو خاک ميں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے يہ نسخہ بھی آزما

(عظمیٰ ربانی۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 جولائی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ