• 25 اپریل, 2024

عورتیں پڑوسیوں سے حقارت آمیزسلوک نہ کریں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نصیحت فرمائی:۔
پھر آپؐ نے خاص طور پر عورتوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ کوئی عورت اپنی پڑوسن سے حقارت آمیز سلوک نہ کرے۔اب یہ عورتوں کا خاص ذکر کیوں ہے؟ یہ بھی اس لئے کہ عورتوں میں عموماً تفاخر اور تکبر زیادہ ہوتا ہے۔ اپنی نیکی یا پیسے یا اور چیز جو پاس ہو اور دوسرے کے پاس نہ ہو اس کا اظہار زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً زیور کپڑے وغیرہ ہی ہیں۔

فرمایا کہ:عورتیں دوسری عورتوں پر جو ان سے مالی لحاظ سے کمزور ہیں ان سے حقارت آمیز سلوک نہ کریں۔ بلکہ اپنے اس رویے کو بہتر کرنے کے لئے تحفے بھیجو، چاہے چھوٹی سے چھوٹی سے چیز ہی ہو۔ حدیث میں ہے چاہے بکری کا پایہ ہی ہو۔ اس سے تمہارے اندر دوسرے کے لئے حقارت کا جذبہ بھی کم ہو گا۔ تم بھی دین میں اس کو اپنی بہن سمجھو گی۔ تمہارے دل میں انسانیت کے ناطے اس کے لئے ایک عزت قائم ہو گی انسانیت کے ناطے احترام قائم ہو گا۔ پس یہ عیدعورتوں کو بھی خاص طور پر اپنی بہنوں سے، اپنی پڑوسنوں سے، محلے والیوں سے پیار محبت سے منانی چاہئے۔ اور پھر اس نیکی کو جاری رکھنا چاہئے۔ یہی نیکیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنانے والی ہیں۔

ارد گرد کے لوگوں سے نیک سلوک کریں

اپنے ساتھ بیٹھنے والوں، اپنے ساتھیوں، اپنے ساتھ دفتر میں کام کرنے والوں بلکہ جو سفر میں اکٹھے ہوں ان سے بھی نیک سلوک کرو۔ اس سے جہاں نیک سلوک کرنے والے کے اخلاق بہتر ہو رہے ہوں گے۔ وہاں وہ اللہ تعالیٰ سے ثواب بھی حاصل کر رہا ہو گا اور پھر ایک احمدی کے لئے تو اس طرح تبلیغ کے راستے مزید کھل رہے ہوں گے۔ اب عید کے دن ہیں،مختلف لوگوں کے دفتر میں، کام کرنے والی جگہوں پر، ہمسائے وغیرہ ہیں، ان مغربی ممالک میں اگر ایسے ہمسایوں کو عید کے حوالے سے تحفے وغیرہ بھجوائے جائیں، چاہے چھوٹی سی کوئی چیز ہو، چاہے مٹھائی وغیرہ یاکچھ اس قسم کی چیز۔ اور پھر اس طرح تعارف بڑھائیں اور ذاتی تعلق قائم ہوں تو تبلیغ بھی کر رہے ہوں گے۔ اب یہیں UK میں مثلاً اگر دو ہزار گھر ہیں احمدیوں کے، شاید اس سے زیادہ ہوں گے۔ وہ اپنے ہمسایوں کو یا اپنے کام کرنے کی جگہ کے ساتھیوں کو کوئی چھوٹا سا تحفہ ہی بھیجیں۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ سو کوس تک ہمسائیگی ہے تو سو کوس نہ سہی اگر پانچ چھ گھر تک بھی جاری رکھیں اور ایک دو کام کرنے والی جگہوں کے ساتھیوں کو چن لیں تو دس سے پندرہ ہزار گھروں تک ایک تعارف حاصل ہو جاتا ہے۔ اس حوالے سے پھر احمدیت کی تبلیغ کی طرف رستے کھلتے ہیں۔ ذاتی رابطے جو ہیں یہی کار آمد ہوتے ہیں۔ پھر یہ تعداد بڑھ سکتی ہے۔ اسی طرح باقی دنیا کے ممالک ہیں۔ مغربی ممالک میں خاص طور پر آپ ایسے رابطے کریں جہاں آپ خوشیاں منا رہے ہوں گے وہاں تبلیغ کا حق بھی ادا کر رہے ہوں گے اس کے بھی میدان حاصل کر رہے ہوں گے۔ کچھ لوگ اس طرح کرتے بھی ہوں گے۔مَیں یہ نہیں کہتا کہ کوئی نہیں کرتا لیکن اگر باقاعدہ بڑی تعداد میں اس طرف توجہ دی جائے تو تعارف بہت بڑھ سکتا ہے۔ محلے میں،علاقے میں جو اسلام کے خلاف بعض دفعہ اظہار ہو رہا ہوتا ہے، مسلمانوں کے خلاف اظہار ہو رہا ہوتا ہے، ایشین سوسائٹی کے خلاف اظہار ہو رہا ہوتا ہے۔ تو چاہے وہ ایشین ہوں، افریقن ہوں، یورپین ہوں، جب آپس میں اس طرح تعلقات بڑھائیں گے اور احمدی کی حیثیت سے بڑھائیں گے توہر جگہ ایک احمدی کا تصور ابھر رہا ہو گا۔ اور جہاں کہیں بھی ایسی باتیں ہوں گی اس تعلق کی وجہ سے اور ایک دوسرے سے ہمدردی کی وجہ سے انہیں لوگوں میں سے ایسے لوگ ان محلوں میں، جگہوں میں، علاقوں میں پیدا ہو جائیں گے جو آپ کی طرف داری کر رہے ہوں گے، آپ کے ساتھ ہمدردی کر رہے ہوں گے اور آپ کی طرف سے جواب دے رہے ہوں گے۔

ماتحتوں سے ہمدردی اور احسان کریں

پھر حکم ہے کہ جو تمہارے ماتحت ہیں جو تمہارے ملازم ہیں جو مالی حیثیت میں کم طبقہ ہے تمہارے زیرنگیں ہیں ان کا بھی خیال رکھو۔ ان سے بھی ہمدردی اور احسان کا سلوک کرو۔ تو یہ نیکیاں جو تم کر رہے ہو گے تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہو گے۔ اس عاجزی اور نیکی کی وجہ سے خداتعالیٰ کا قرب پانے والے ہو گے۔ پس ابھی رمضان کے بعد ہر ایک کے دل میں تازہ تازہ عبادتوں اور نیکیوں کا اثر قائم ہے اس کو ہمیشہ تازہ رکھیں اور عید کے دن سے ہی تازہ رکھیں۔ نمازوں میں، تلاوت قرآن کریم میں، اعلیٰ اخلاق میں کبھی کمی نہ آنے دیں۔ اصل نیکی یہ ہے کہ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھیں اور صر ف اپنے حقوق پر زور نہ دیں۔ کیونکہ بڑی نیکی یہی ہے کہ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھا جائے نہ کہ اپنے حقوق کا خیال رکھا جائے۔ بلکہ کوشش یہ ہو کہ اپنے ذمہ کسی کا حق نہ رہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ ہونا چاہئے کہ صرف اپنے غموں کو ہی نہ روتے رہیں، اپنی تکلیفوں اور پریشانیوں کو ہی نہ روتے رہیں، بلکہ دوسروں کے غموں دکھوں اور تکلیفوں کو بھی محسوس کریں۔ جب ہم اس طرح کر رہے ہوں گے تو نہ صرف یہ ایک دن کی عید منا رہے ہوں گے بلکہ ہمارا ہر دن روز ِعید ہو گا۔……

(خطبہ عید فرمودہ 4نومبر2005ء)(الفضل انٹرنیشنل 25نومبر تا یکم دسمبر 2005ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اگست 2020