• 23 اپریل, 2024

مسلمان لیڈر، بنک بیلنس بنانے کی بجائے عوام کاخیال رکھنے والے ہوں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اس تعلیم کو اگر دنیا کے وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے تو کسی بھی ملک کے عوام بھوکے نہیں رہ سکتے، اُن کے حقوق کبھی پامال نہیں ہو سکتے۔ وہ ننگے نہیں رہیں گے۔ ٹی وی پر مختلف افریقن ممالک کی تصویریں دکھائی جاتی ہیں۔ بچے فاقوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بہت سارے خوراک کی کمی کی وجہ سے قریب المرگ ہیں یا بڑھوتری اُن کی صحیح نہیں ہے۔ مالنورشڈ (Malnourished) ہیں۔ مائیں بھوکی ہیں۔ چھوٹے بچوں کو دودھ نہیں پلاسکتیں۔ پس اگر وسائل پر قبضہ کرنے کی سوچ کے بجائے حقوق کی ادائیگی پر توجہ دی جائے، محسنین بنتے ہوئے دوسروں کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے۔ خود غریبوں کو اُن کے پاؤں پر کھڑا کیا جائے تو یہ مسائل جو دنیا میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ اگر مسلمان حکومتیں بھی اپنے ملکوں میں اس بات کا خیال رکھنے والی ہوں اور لیڈر اپنے بنک بیلنس بنانے کی بجائے عوام کا خیال رکھنے والے ہوں، محسنین بننے کی کوشش کرنے والے ہوں، تقویٰ پر چلنے والے ہوں تو اس خوبصورت تعلیم کے بعد کبھی ہمارے مسلمان ملکوں میں بے چینی اور غربت اور افلاس کی یہ حالت نہیں ہو سکتی۔ لیکن بدقسمتی سے سب سے زیادہ مسلمان ملکوں میں یہ حال ہے اور پھر غیر بھی اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ تو جب بھی مَیں نے لوگوں کے سامنے یہ بیان کیا کہ اگر یہ صورتحال ہو، اور تم لوگ بھی اگر انصاف سے کام لیتے ہوئے کام کرو تو یہ مسائل جو دنیا میں پیدا ہوئے ہوئے ہیں یہ خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ اس پر اکثر یہی کہتے ہیں کہ اصل یہی چیز ہے اور یہ اسلام کی بڑی خوبصورت تعلیم ہے۔ لیکن جب اپنی مجلسوں میں واپس جاتے ہیں تو پھر ذاتی مفادات آڑے آجاتے ہیں۔ یعنی ملکی اور قومی مفادات کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے۔ ملکی مفادات ضرور ہونے چاہئیں اگر وہ حق اور انصاف پر قائم رہتے ہوئے ہوں۔ دوسروں کا حق مار کے نہ ہوں تو پھر ضرور اُن پر عمل ہونا چاہئے۔ اور ظاہر ہے کہ پہلے خود انسان اپنے آپ کو سنبھالتا ہے۔ اسی طرح ملکوں کا فرض ہے کہ اپنے آپ کو سنبھالیں۔ لیکن دوسروں کی دولت پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے ملکی مفادات کی آڑ کے بہانے بنانا یہ چیز غلط ہے۔ دوسروں کے مفادات پامال کر کے اپنے نام نہاد حق کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا یہ غلط ہے۔ یہ سب چیزیں خود غرضی دکھانے والی ہیں۔ یا ایسی باتیں ہیں جو صرف فسادات کو فروغ دیتی ہیں۔ بہر حال ہر احمدی کا کام ہے کہ وہ تقویٰ پر چلتے ہوئے اور محسنین میں شمار ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے قرب کے نظارے دیکھنے کی کوشش کرے۔ اللہ تعالیٰ کی معیت میں آنے کی کوشش کرے اور یہی ایک صورت ہے جس سے ہم اپنی اصلاح کرنے والے بھی ہو سکتے ہیں اور معاشرے کو بھی اپنے محدود دائرے میں فساد سے بچا سکتے ہیں۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ صِبْغَۃَ اللّٰہِ بنتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفات اپنے دائرے میں، اپنی استعدادوں کے مطابق اختیار کرنے کی کوشش کریں۔ حقوق العباد کی ادائیگی کیلئے تیار رہیں تو یہ دنیا کی نعمتیں ہماری خادم بن جائیں گی۔ ہماری زندگی میں ان دنیاوی چیزوں کی حیثیت ثانوی ہو جائے گی اور پھر وہی بات کہ جب خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خاطر انسان یہ کام کر رہا ہو گا تو پھر تقویٰ میں ترقی ہو گی۔ غرض کہ جس زاویے سے بھی ہم دیکھیں، خدا تعالیٰ کی رضا ہماری سوچوں کا محور ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو کہ احسان کرنے والوں کو وہ کس طرح نوازتا ہے، قرآنِ کریم میں ایک جگہ اس طرح بیان فرمایا ہے۔ فرماتا ہے بَلٰی ٭ مَنۡ اَسۡلَمَ وَجۡہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحۡسِنٌ فَلَہٗۤ اَجۡرُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ۪ وَ لَا خَوۡفٌ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا ہُمۡ یَحۡزَنُوۡنَ۔ (البقرہ: 113) جان لو یہ سچ ہے کہ جو بھی اپنے آپ کو خدا کے سپرد کر دے اور وہ احسان کرنے والا ہو تو اُس کااجر اُس کے رب کے پاس ہے۔ اور اُن لوگوں پر کوئی خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میری ذات تمہارا محور ہو جائے گا، صرف میرے ارد گرد تم گھومو گے تومیری رضا کا حصول ہو جائے گا۔ کلیۃً جب ایک مومن، متقی بندہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ خود اُس کا متکفّل ہو جاتا ہے۔ اس کے تمام غم ختم ہو جاتے ہیں۔ اُس کی تمام فکریں اور خوف بے حیثیت ہو جاتے ہیں۔ جو شخص اپنا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے سپرد کرتے ہوئے اُس کے آگے خالص ہو کر جھکنے والا بن جائے، محسن ہوتے ہوئے اپنی تمام تر صلاحیتیں خدمتِ خلق اور خدمتِ انسانیت کے لئے صَرف کر دے تو اُس کو کیا غم اور خوف ہو گا؟ یہ دونوں کام ایسے ہیں جو حقیقی تقویٰ کی پہچان ہیں۔

(خطبہ جمعہ 3 فروری 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 اگست 2021

اگلا پڑھیں

مکرم ضمیر احمد ندیم کی یاد میں