• 4 مئی, 2024

مجلس انصار اللہ کا قیام اور اس کے مقاصد

جماعت احمدیہ میں ذیلی تنظیموں کا قیام سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی خداداد ذہانت و فطانت اور علمی و انتظامی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے۔ آپ نے افراد جماعت کے مرد و زن و بچوں کو اپنی عمر کے لحاظ سے ذیلی تنظیموں میں تقسیم کر کے ان کی روحانی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور جسمانی ترقی کے سامان منظم صورت میں پیدا فرما دیئے۔ یہ حضرت مصلح موعودؓ کا جماعت پر عظیم الشان احسان ہے۔

لجنہ اماء اللہ اور خدام الاحمدیہ کے قیام کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 26 جولائی 1940ء کو اپنے خطبہ جمعہ میں مجلس انصاراللہ کے قیام کا اعلان فرمایا اور حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کو اس کا پہلا صدر مقرر فرمایا۔ ابتدائی طور پراس کے لئے قادیان کے انصار کی تنظیم سازی کی گئی اور پھر اس کو پورے ہندوستان اور بیرون ممالک تک پھیلا دیا گیا۔

آغاز میں مسجد مبارک قادیان میں تنظیم انصار اللہ کے اجلاسات ہوئے تھے۔ جن کا ریکارڈ محترم شیخ عبدالرحیم صاحب شرما (سابق کشن لعل) رکھتے تھے۔ جنوری 1943سے مجلس انصاراللہ کا دفتر گیسٹ ہاؤس دارالانوار کے ایک کمرہ میں قائم کر دیا گیا۔ تقسیم ملک کے بعد مجلس کا دفتر جودھامل بلڈنگ لاہور میں منتقل ہوا اورنئےمرکز کے قیام کے بعد یہ دفتر ربوہ میں قائم ہو گیا۔

مجلس انصار اللہ کے باقاعدہ دفاتر کا سنگ بنیاد حضرت مصلح موعودؓ نے 20فروری 1956ء کو ربوہ میں رکھا۔ ان مرکزی دفاتر کی مختلف ادوار میں توسیع ہوتی رہی۔ مجلس انصار اللہ کا پہلا دستور اساسی 1943ء کو منظور ہوا۔ مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا پہلا سالانہ اجتماع 25 دسمبر 1944ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں ہوا۔ پاکستان میں پہلا سالانہ اجتماع نومبر 1955ء میں ہوا جس کا افتتاح حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا۔ سر زمین ربوہ میں آخری مرکزی اجتماع 28 تا 30 اکتوبر 1983ء کو مسجد اقصیٰ ربوہ میں ہواجس سے افتتاحی و اختتامی خطابات حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمائے تھے۔ 3نومبر 1989ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے ذیلی تنظیموں کو ان کے ممالک تک محدود فرمایا۔ اور اب دنیا بھر میں ذیلی تنظیمیں اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے افراد جماعت کی روحانی ترقی کے لئے کوشاں ہیں۔

مجلس انصار اللہ کے قیام کے اغراض و مقاصد اور ذمہ داریوں کے حوالہ سے اس مضمون کا مواد بانی تنظیم حضرت مصلح موعودؓ کے الفاظ میں ہی تحریر کیا جائے گا نیز انصار اللہ کے فرائض اور ذمہ داریوں کے بارہ میں خلفائے کرام نے انصار بھائیوں کو جو ہدایات فرمائی ہیں اس بارہ میں خلفائے کرام کے چند ارشادات پیش کروں گا۔ ان شاء اللہ

مجالس کے قیام کی غرض

حضرت مصلح موعودؓ ذیلی تنظیموں کے قیام کی غرض بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
‘‘ان مجالس کا قیام میں نے تربیت کی غرض سے کیا ہے۔ چالیس سال سے کم عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ اور چالیس سال سے اوپر عمر والوں کے لئے انصاراللہ اور عورتوں کے لئے لجنہ اماء اللہ ہے۔ ان مجالس پر دراصل تربیتی ذمہ داری ہے۔ یاد رکھو کہ اسلام کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ ایک شعر لکھ رہے تھے۔ ایک مصرعہ آپ نے لکھا کہ

ہر ایک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے

اسی وقت آپؑ کو دوسرا مصرعہ الہام ہوا جو یہ ہے کہ

اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

اس الہام میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ اگر جماعت تقویٰ پر قائم ہوجائے تو پھروہ خود ہر چیز کی حفاظت کرے گا۔ نہ وہ دشمن سے ذلیل ہوگی، اور نہ اسے کوئی آسمانی یا زمینی بلائیں تباہ کرسکیں گی۔ اگر کوئی قوم تقویٰ پر قائم ہوجائے تو کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی۔۔۔ پس مجلس انصاراللہ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماءاللہ کا کام یہ ہے کہ جماعت میں تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے پہلی ضروری چیز ایمان بالغیب ہے۔ انہیں اللہ تعالیٰ، ملائکہ، قیامت، رسولوں اور ان شاندار عظیم الشان نتائج پر جو آئندہ نکلنے والے ہیں، ایمان پیدا کرنا چاہئے۔ انسان کے اندر بزدلی اور نفاق وغیرہ اسی وقت پیدا ہوتے ہیں جب دل میں ایمان بالغیب نہ ہو۔ اس صورت میں انسان سمجھتا ہے کہ میرے پاس جو کچھ ہے یہ بھی اگر چلاگیا تو پھر کچھ نہ رہے گا اور اس لئے وہ قربانی کرنے سے ڈرتاہے۔

(سبیل الرشاد جلد اوّل صفحہ51تا55)

نوٹ:حضرت مصلح موعودؓ نے تقویٰ پیدا کرنے کے لئے ایمان بالغیب کے بعد اقامۃ الصلوٰۃ، انفاق فی سبیل اللہ، ایمان بالقرآن، بزرگان دین کا احترام اور یقین بالآخرت کو ضروری قرار دیا۔

نظام جماعت کو بیدار رکھنے کے لئے
ذیلی تنظیموں کا قیام

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں ’’میں نے جماعت میں خدام الاحمدیہ اورانصاراللہ دو الگ الگ جماعتیں قائم کیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں ایسا ہوسکتا ہے کہ کبھی حکومت کے افراد سُست ہوجائیں اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کبھی عوام سُست ہوجائیں۔ عوام کی غفلت اوران کی نیند کو دور کرنے کے لئے جماعت میں ناظر وغیرہ موجود تھے۔ مگر چونکہ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ کبھی ناظر سُست ہوجائیں اور وہ اپنے فرائض کو کما حقہ ادا نہ کریں۔ اس لئے ان کی بیداری کے لئے بھی کوئی نہ کوئی جماعتی نظام ہونا چاہئے تھا جو ان کی غفلت کو دور کرتا اور اس غفلت کا بدل جماعت کو مہیا کرنے والا ہوتا۔ چنانچہ خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ اور لجنہ اماء اللہ اسی نظام کی دو کڑیاں ہیں اور ان کواسی لئے قائم کیا گیا ہے تاکہ وہ نظام کو بیدار رکھنے کا باعث ہوں۔ میں سمجھتا ہوں اگر عوام اورحکام دونوں اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں تو جماعتی ترقی کے لئے خداتعالیٰ کے فضل سے یہ ایک نہایت ہی مفید اور خوش کن لائحہ عمل ہوگا۔ اگر ایک طرف نظارتیں جو نظام کی قائم مقام ہیں عوام کو بیدار کرتی رہیں اور دوسری طرف خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ جوعوام کے قائم مقام ہیں، نظام کو بیدار کرتے رہیں۔ تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کسی وقت جماعت کلّی طور پر گر جائے اور اس کا قدم ترقی کی طرف اٹھنے سے رک جائے۔ جب بھی ایک غافل ہوگا دوسرا اسے جگانے کے لئے تیار ہوگا۔ جب بھی ایک سُست ہوگا دوسرا اسے ہوشیار کرنے کے لئے آگے نکل آئے گا۔ کیونکہ وہ دونوں ایک ایک حصہ کے نمائندے ہیں۔ ایک نمائندہ ہیں نظام کے اور دوسرے نمائندہ ہیں عوام کے۔

(سبیل الرشاد جلد اوّل صفحہ80-81)

حقیقی انصاراللہ دائمی خلافت کے ضامن

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔ ’’یاد رکھو تمہارا نام انصار اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار۔ گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ ازلی اور ابدی ہے۔ اس لئے تم کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ابدیت کے مظہر ہوجاؤ۔ تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لئے قائم رکھتے چلے جاؤ اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بعد نسل چلتا چلا جاوے اوراس کے دو ذریعے ہوسکتے ہیں۔ ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے۔ اسی لئے مَیں نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی تھی اور خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ اطفال اور خدام آپ لوگوں کے ہی بچے ہیں۔ اگر اطفال الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی۔ تو خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی اور اگر خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی تو اگلی نسل انصاراللہ کی اعلیٰ ہوگی۔ میں نے سیڑھیاں بنادی ہیں۔ آگے کام کرنا تمہارا کام ہے۔ پہلی سیڑھی اطفال الاحمدیہ ہے۔ دوسری سیڑھی خدام الاحمدیہ ہے۔ تیسری سیڑھی انصار اللہ ہے اور چوتھی سیڑھی خدا تعالیٰ ہے۔ تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرو اور دوسری طرف خداتعالیٰ سے دعائیں مانگو تو یہ چاروں سیڑھیاں مکمل ہوجائیں گی۔ اگر تمہارے اطفال اور خدام ٹھیک ہوجائیں اور پھر تم بھی دعائیں کرو اور خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرلو۔ تو پھر تمہارے لئے عرش سے نیچے کوئی جگہ نہیں اور جو عرش پر چلاجائے وہ بالکل محفوظ ہوجاتاہے۔ دنیا حملہ کرنے کی کوشش کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ سو دوسو فٹ پر حملہ کرسکتی ہے۔ وہ عرش پر حملہ نہیں کرسکتی۔ پس اگر تم اپنی اصلاح کرلوگے اور خداتعالیٰ سے دعائیں کروگے تو تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوجائے گا اور اگر تم حقیقی انصاراللہ بن جاؤ اور خداتعالیٰ سے تعلق پیدا کرلو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی طور پر رہے گی اور وہ عیسائیت کی خلافت سے بھی لمبی چلے گی۔

(سبیل الرشاد جلد اوّل صفحہ114-115)

خلافت کے ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ قائم رکھیں

سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت تھی۔ وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ دشمن آپؐ کی ذات پر حملہ آور ہو۔ اس لئے وہ بے جگری سے حملہ کرتے اور کفار کا منہ توڑ دیتے۔ ان کے اندر شیر کی سی طاقت پیدا ہوجاتی تھی اور وہ اپنی جان کی کوئی پرواہ نہیں کرتے تھے۔

یہ سچی محبت تھی جو صحابہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی۔ آپ لوگ بھی ان جیسی محبت اپنے اندر پیدا کریں۔ جب آپ نے انصار کا نام قبول کیاہے توان جیسی محبت بھی پیدا کریں۔ آپ کے نام کی نسبت اللہ تعالیٰ سے ہے اور خداتعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اس لئے تمہیں بھی چاہئے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھو اور ہمیشہ دین کی خدمت میں لگے رہو۔ کیونکہ اگر خلافت قائم رہے گی تو اِس کو انصار کی بھی ضرورت ہوگی۔ خدام کی بھی ضرورت ہوگی اور اطفال کی بھی ضرورت ہوگی۔ ورنہ اکیلا آدمی کوئی کام نہیں کرسکتا۔ اکیلا نبی کوئی کام نہیں کرسکتا۔ دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حواری دیے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے صحابہؓ کی جماعت دی۔ اسی طرح اگر خلافت قائم رہے گی تو ضروری ہے کہ اطفال الاحمدیہ، خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ بھی قائم رہیں اور جب یہ ساری تنظیمیں قائم رہیں گی تو خلافت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی۔ کیونکہ جب دنیا دیکھے گی کہ جماعت کے لاکھوں لاکھ آدمی خلافت کے لئے جان دینے پر تیار ہیں تو جیسا کہ میور کے قول کے مطابق جنگ احزاب کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ پر حملہ کرنے کی وجہ سے حملہ آور بھاگ جانے پرمجبور ہوجاتے تھے۔ اسی طرح دشمن ادھر کا رخ کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ وہ سمجھے گا کہ اس کے لئے لاکھوں اطفال، خدام اور انصار جانیں دینے کے لئے تیار ہیں۔ اس لئے اگر اس نے حملہ کیا تو وہ تباہ وبرباد ہوجائے گا۔ غرض دشمن کسی رنگ میں بھی آئے جماعت اس سے دھوکہ نہیں کھائے گی۔‘‘

(سبیل الرشاد جلد اوّل صفحہ 121)

جماعت کی دماغی نمائندگی انصاراللہ کرتے ہیں

بانی تنظیم انصاراللہ حضرت مصلح موعودؓ نے 1955ء کے سالانہ اجتماع انصاراللہ مرکزیہ سے خطاب کرتے ہوئے انصاراللہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کی دماغی نمائندگی انصاراللہ کرتے ہیں اور اس کے دل اور ہاتھوں کی نمائندگی خدام الاحمدیہ کرتے ہیں۔ جب کسی قوم کے دماغ، دل اور ہاتھ ٹھیک ہوں تو وہ قوم بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ پس میں پہلے تو انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو یا صحابی ہیں یا کسی صحابی کے بیٹے ہیں یا کسی صحابی کے شاگرد ہیں، اس لئے جماعت میں نمازوں، دعاؤں اور تعلق باللہ کو قائم رکھنا ان کا کام ہے۔ ان کو تہجد، ذکر الٰہی اور مساجد کی آبادی میں اتنا حصہ لینا چاہیئے کہ نوجوان ان کو دیکھ کر خود ہی ان باتوں کی طرف مائل ہو جائیں۔ اصل میں تو جوانی کی عمر ہی وہ زمانہ ہے، جس میں تہجد، دعا اور ذکر الٰہی کی طاقت بھی ہوتی ہے اور مزہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن عام طور پر جوانی کے زمانہ میں موت اور عاقبت کا خیال کم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے نوجوان غافل ہو جاتے ہیں لیکن اگر نوجوانی میں کسی کو یہ توفیق مل جائے تو وہ بہت ہی مبارک وجود ہوتا ہے۔ پس ایک طرف تو میں انصاراللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نمونہ سے اپنے بچوں، اپنے ہمسایہ کے بچوں اور اپنے دوستوں کے بچوں کو زندہ کریں اور دوسری طرف میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اتنا اعلیٰ درجہ کا نمونہ قائم کریں کہ نسلاً بعد نسل اسلام کی روح زندہ رہے۔‘‘

(سبیل الرشاد جلد اوّل صفحہ 191-192)

اشاعتِ قرآن کا فریضہ

اشاعت قرآن انصاراللہ کا اوّلین فریضہ ہے۔ اس بارے میں توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ فرماتے ہیں:۔ ’’پھر فرمایا بِاَیْدِیْ سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ اور اس میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ اگر تم عزت حاصل کرنا چاہتے ہو اور نیکیوں میں ترقی کرنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم پر تمہارا Grasp (گراسپ) ہو۔ عبور ہو (بِاَیْدِیْ میں اسی طرف اشارہ ہے) اور قرآن کریم کے لکھنے اور پھیلانے میں تم کوشاں رہو۔ کیونکہ اشاعتِ قرآن انسان کو نیک بھی ٹھہراتی ہے اور پاک بھی ٹھہراتی ہے اور با عزت بھی ٹھہراتی ہے۔ جو آدمی قرآن کریم کو چھوڑتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت نہیں پا سکتا اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں عزت پانا چاہتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی نگاہ میں نیک ٹھہرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے عمل اور اپنےفعل اور اپنے قول سے قرآن کریم کی اشاعت کرنے والا ہو۔

جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے انصار اللہ کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ اشاعتِ قرآن کے لئے کوشاں رہیں۔ میں پھر دوبارہ بطور یاددہانی آج یہ نصیحت اس لئے کرنا چاہتا ہوں کہ جب آپ واپس جائیں اور جہاں بھی آپ ہوں دعائیں کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے توفیق پا کر قرآن کریم کی اشاعت کی طرف متوجہ رہیں۔‘‘

(سبیل الرشاد جلددوم صفحہ 212)

جماعت کو بیدار رکھنے کی ذمہ داری

جماعت کو بیدار رکھنے کی ذمہ داری انصار اللہ پر ہے۔ اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔ ’’جماعت میں بیداری قائم رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جماعت کا ہر فرد بڑا بھی اور چھوٹا بھی۔ مرد بھی اور عورت بھی۔ جماعت کےاخبار اور رسالوں کو پڑھنے کی عادت ڈالے یا جو نہیں پڑھ سکتے ان کو سنانے کا انتظام کیا جائے۔ جب تک جماعت کے دوستوں کو یہ پتہ ہی نہیں لگے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں اور فضلوں کے نزول کے ساتھ ترقیات کی راہوں پر کس طرح کس تیزی کے ساتھ اور بلندیوں کی کس سمت میں ہمیں لے جا رہا ہے۔ ہم اس کا شکر بجا نہیں لا سکتے۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے ہمارے دلوں میں وہ جذبہ ہی نہیں ہو سکتا۔

تو جماعت کو بیدار رکھنے کے لئے مرکز کے اخباروں اور رسالوں کا پڑھنا ضروری ہے اور ان اخباروں اور رسالوں کو پڑھنا اور پڑھوانا یہ انصار اللہ کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری انصار اللہ پر ہے کہ انہوں نے جماعت کو بیدار رکھنا ہے۔‘‘

مزید فرمایا:۔ ’’تو بیداری پیدا کرنے اور بیداری قائم رکھنے کی جو ذمہ داری مجلس انصار اللہ پر ہے، اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ مجلس انصار اللہ کے اراکین زیادہ سے زیادہ وقف عارضی کے منصوبہ میں شامل ہوں اور کم از کم سال میں دو ہفتے تو خالصۃً اللہ اور اس کے دین کے لئے وقف کریں۔

اس کے علاوہ مجلس انصاراللہ پر یہ فرض بھی عائد کیا گیا تھا کہ وہ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت جماعتی کاموں کے لئے دیں اور اس کی طرف بھی آپ دوست اپنے اپنے مقامات پر توجہ دیں اور ایسا پروگرام بنائیں کہ ہر رکن مجلس انصار اللہ روزانہ کچھ وقت دین کی راہ میں خرچ کرے۔‘‘

(سبیل الرشاد جلد دوم صفحہ 67-68)

اردو پڑھنا جاننے اور مطالعہ کتب کی ذمہ داری

انصارا للہ کو ان کی دو اہم ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ فرماتے ہیں:۔ ’’انصار اللہ چونکہ اپنے اپنے خاندان کے سر پرست ہیں اس لئے ان پر دو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ایک یہ کہ ہر خاندان کا ہر فرد اردو پڑھنا جانتا ہو۔ ہمیں جماعت میں تعلیم کا یہ کم سے کم معیار قائم کرنا پڑے گا ورنہ وہ برکتیں جو قرآن کریم کے ذریعہ ہمیں ملی ہیں اور جو سمندروں سے بھی زیادہ ہیں، ان سے ہم اپنے آپ کو بھی محروم کر رہے ہوں گے اور اپنی نسلوں کو بھی محروم کر رہے ہوں گے۔ اور دوسرے یہ کہ جو خاندان پڑھنا جانتے ہیں، وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کریں۔‘‘

نیز فرمایا:۔ ’’میں آج آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے گھروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے رکھنے اور ان کا مطالعہ کرنے اور بچوں کو سنانے کا انصاراللہ کے ذریعہ کوئی انتظام ہونا چاہئے اور اس کی کوئی خاطر خواہ نگرانی بھی ہونی چاہئے کہ عملا ً ایسا ہو رہا ہے۔‘‘

(سبیل الرشاد جلد دوم صفحہ 324تا 328)

انصاراللہ کی ذمہ داریاں
باقی تنظیموں سے زیادہ ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ فرماتے ہیں:۔ ’’انصار اللہ کی عمر وہ عمر ہے جس کے بعد کسی اور مجلس میں شامل نہیں ہونا بلکہ دوسری دنیا کی طرف رخصت ہونا ہے۔ اس لئے جو دینی کاموں میں کمزوریاں رہ گئی ہیں ان کو دور کرنا اور ان کا ازالہ کرنا جس حد تک ممکن ہے انصار کو کرنا چاہئے کیونکہ پھر اس کے بعد دوبارہ یہاں واپس نہیں آنا۔ اور اس پہلو سے خدام اور دوسرے ذیلی شعبوں سے مجلس انصاراللہ کو زیادہ مستعد ہونا چاہئے اور زیادہ ان کے دل پر بوجھ پڑنا چاہئے۔ انبیاء کا سب کا یہی حال رہا ہے۔ جوں جوں عمر بڑھتی ہے اور بڑھاپے کی عمر میں وہ داخل ہوتے ہیں کام کی ذمہ داریاں ان پر بڑھتی چلی جاتی ہیں اور پہلے سے زیادہ محنت اٹھاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق بھی یہی روایتیں ہیں کہ آخری ایام میں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی شخص غروب ہوتے ہوئے سورج پر نظر کرتے ہوئے جب کہ ابھی منزل دور ہو بہت تیزی سے قدم اٹھاتا ہے اور بار بار توجہ کرتا ہے کہ کہیں دن غروب نہ ہو جائے۔ اس کیفیت سے آپؑ نے آخری عمر میں کاموں کے بوجھ زیادہ بڑھا لئے اور زیادہ اس احساس کے ساتھ کہ جو کچھ بھی اب مجھ سے ممکن ہے میں کر لوں، ان کی ذمہ داریاں ادا فرمائیں۔ پس انصار کا ایک یہ پہلو ہے جو پیش نظر رہنا چاہئے۔

دوسرا یہ کہ انصار کی ذمہ داریوں میں طبعی طور پر ان سے نچلی تمام نسلوں کی ذمہ داریاں داخل ہیں۔بچوں کی تربیت میں بھی انصار سب سے اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں، خواتین کی تربیت میں بھی انصار سب سے اچھا کردار ادا کرسکتے ہیں اس میں بالعموم نفس کی ملونی کا خطرہ باقی نہیں رہتا۔ اس پہلو سے مجلس انصار اللہ کو مستعد بھی ہونا چاہئے اور اپنی ذیلی تنظیموں کی تربیت پر بھی نظر رکھنی چاہئے۔ تربیت کے لحاظ سے ذمہ داری ادا کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خدام الاحمدیہ کے انتظام میں دخل دیں، لجنہ کے انتظام میں دخل دیں بلکہ گھر کے بڑوں کے طور پر، ایک معزز شہری کے طور پر جس حد تک نیک نصیحت کے ذریعے وہ اپنی سے نچلی نسلوں کی تربیت کے کام سر انجام دے سکتے ہیں ان کو دینے چاہئیں۔‘‘

(سبیل الرشاد جلد سوم صفحہ 426-427)

انصار کی تین اہم ذمہ داریاں

مجلس انصار اللہ جرمنی کے سالانہ اجتماع 2007ء کے موقع پر اپنے پیغام میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے انصار اللہ کو ان کی تین اہم ذمہ داریوں 1۔ قیام نماز 2۔ قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے 3۔تربیت اولاد کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’انصاراللہ کی سب سے اہم ذمہ داری پنجوقتہ نمازوں کا قیام ہے۔ قرآن کریم نے مومنوں کی سب سے پہلی یہی علامت بیان فرمائی ہے کہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلوٰۃَ یعنی وہ نمازوں کو قائم کرتے ہیں۔ اس کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز کی ادائیگی کی بہت تاکید فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ مومن اور کافر میں فرق کرنے والی شئے نماز ہے۔ ایک حدیث میں اس طرح بھی آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نئی جماعت آئی انہوں نے نماز کی معافی کی درخواست کی۔آپ نے فرمایاکہ جس مذہب میں عمل نہیں وہ مذہب کچھ نہیں۔۔۔ حضرت مسیح موعودؑ نے نماز کی ادائیگی کی بہت تاکید فرمائی ہے اور میں آپ کو ذَکِّر فَاِنَّ الذِّکرَ تَنفَعُ المُؤمِنِیْنَ (الذاریات: 56) کے تحت یاددہانی کرواتا ہوں کہ انصاراللہ نے نمازوں کے قیام کے لئے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔خود بھی پنجوقتہ نمازوں پر قائم ہوں اور اپنی بیویوں اور اولادوں کو بھی اس کا عادی بنائیں۔ پانچوں نمازیں وقت پرادا کریں اور انہیں ہرگز ضائع نہ کریں۔نمازیں باربارپڑھیں اور اس خیال سے پڑھیں کہ آپ ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑے ہیں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کرلیوے۔یہ آپ کی نسلوں کی روحانی پاکیزگی کی ضمانت ہے۔ دنیا کے گند اور آلائشوں سے بچانے کا ذریعہ ہے۔یہ سیئات کو دور کرتی ہے۔

دوسری اہم ذمہ داری انصار اللہ کی یہ ہے کہ وہ خود بھی قرآن کریم سیکھیں اور اپنی اولادوں کو بھی سکھائیں۔ اور پھر ہر گھر میں تلاوت قرآن کا اہتمام اورالتزام ہو۔اگر آپ خود روزانہ اس کی تلاوت کریں گے تو آپ کے بچے اس سے نیک اثر لیتے ہوئے تلاوت کے عادی بن جائیں گے۔ میں نے واقفین نو بچوں کو یہ ہدایت کی ہوئی ہے کہ وہ روزانہ کم ازکم دو رکوع کی تلاوت کیاکریں۔آپ نے ان واقفین نو کی تربیت کرنی ہے تو آپ کو اپنا عملی نمونہ ان کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ روزانہ کچھ رکوع تلاوت ضرور کیا کریں کوئی وقت اس کے لئے مقرر کریں سب سے اچھا وقت تو فجر کی نماز کے بعد ہے۔ اس لئے کوشش کریں کہ فجر کے بعد اس کا التزام ہو۔

تیسری ذمہ داری جس کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ بچوں کی تربیت ہے۔ یہ بھی انصاراللہ کا کام ہے کہ وہ احمدی بچوں کی تربیت کی فکر کریں۔ جیسا کہ میں نے نماز اور تلاوت قرآن کریم کا ذکر کیا ہے۔ اگران دو امور پر احمدی بچے قائم ہوجائیں تو ان کی احسن تربیت ہوگی۔ وہ یورپ کے گند اور دنیاوی آلائشوں سے پاک ہوجائیں گے۔ تربیت کے مضمون میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ ماں باپ جتنی مرضی زبانی تربیت کریں اگر ان کا اپنا نمونہ اور کردار ان کے قول کے مطابق نہیں توبچوں کی تربیت نہیں ہوسکتی۔ بچے کمزور پہلوکو لے لیں گے اور مضبوط پہلو کو چھوڑ دیں گے۔ اس لئے آپ کو اپنا عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا۔ نمازوں پر قائم ہونا پڑے گا۔ تلاوت قرآن کریم کا روزانہ اہتمام کرنا ہوگا۔ گھروں میں پاکیزہ ماحول اور پاکیزہ باتیں رواج دینی ہوں گی۔ گھروں میں نظام جماعت کے خلاف باتیں نہ ہوں جن سے بچوں کی تربیت پربُرا اثر پڑے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ وہ گھر جن میں نظام جماعت کے خلاف باتیں ہوتیں ہیں ان کے بچے جماعت سے دور ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ دہریہ ہوجاتے ہیں۔ پس اگر آپ نے اپنے بچوں کو احمدیت، حقیقی اسلام پر قائم رکھنا ہے تو ان کے دلوں میں خلافت احمدیہ اور نظام جماعت کی محبت اور احترام پیدا کریں اور یہ تبھی ہوگا جب یہ محبت اور احترام آپ کے دلوں اور آپ کے عملی نمونہ سے پھوٹ رہا ہوگا۔

(سبیل الرشاد جلد چہارم صفحہ 187تا189)

انصاراللہ سے خلیفہ وقت کی توقعات

ماہنامہ انصاراللہ ربوہ کی اشاعت کے 50سال پورے ہونے پر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغام میں انصار بھائیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’جماعت کی ذیلی تنظیموں کے نظام میں انصاراللہ کی تنظیم ایسی ہے جس کے ممبران اپنی اس عمر کو پہنچ جاتے ہیں جس میں انسان کو اپنی زندگی کے انجام کے آثار نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور بڑی تیزی سے اس انجام کی طرف قدم بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اور اس انجام کا خوف اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ خالص ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور جھکے اور اس کا قرب چاہے۔ اس کا ایک ذریعہ نماز ہے جسے تمام عبادتوں میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ گزشتہ دنوں ہم رمضان کے مہینے سے گزرے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ان دنوں میں کمزوروں میں بھی ایک خاص تبدیلی پیدا ہوئی ہو گی اور نمازوں کی طرف ہر کسی نے توجہ دی ہو گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو عبادت کا مغز قرار دیا ہے۔ اس میں سب دُعائیں آ جاتی ہیں۔ اگر کلمہ طیبّہ مسلمان ہونے کا زبانی اقرار ہے تو نماز اس کی عملی تصویر ہے۔ پس میری پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ نمازوں میں باقاعدگی اختیار کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کیلئے نیک نمونہ قائم کریں۔

دوسری بات قرآن کریم کی تلاوت، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ ہے۔ ہر مرتبہ پڑھنے سے نئے نئے معنی کھلتے ہیں۔ یہ مطالعہ جہاں آپ کو معرفت میں بڑھائے گا وہاں اس سے آپ کے بچوں کیلئے بھی ایک نیک نمونہ قائم ہو گا اور آپ کا یہ علم دعوت الی اللہ کے میدان میں بھی آپ کا مددگار ثابت ہو گا۔

تیسری بات دین کی خاطر مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینا ہے۔ میں نے صف دوم کے انصار کونظامِ وصیت میں شامل ہونے کی طرف توجہ دلائی تھی۔ ہر مجلس کی سطح پر اس کیلئے کوشش ہونی چاہئے۔ اس نظام میں شامل ہونے والوں کیلئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دُعائیں کی ہیں۔ اسی طرح دوسری مالی تحریکات بھی ہیں۔ ان میں بھی حصہ لیں اور اس حوالے سے اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم انصاراللہ ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں؟

انصاراللہ کا ایک اور اہم کام خلافت سے وابستگی اور اُس کے استحکام کیلئے کوشش کرنا ہے۔ جماعت اور خلافت ایک وجود کی طرح ہیں۔ افراد جماعت اس کے اعضاء ہیں تو خلیفئہ وقت دل و دماغ کے طور پر ہیں۔ کیا کبھی ایسا ممکن ہوا ہے کہ انسانی دماغ ہاتھ کو کوئی حکم دے اور ہاتھ اُسے ردّ کر کے اپنی مرضی کے مطابق حرکت کرے۔ اگر آپ اس تعلق کو سمجھ جائیں اور اگر یہ سوچ ہر ایک میں پیدا ہو جائے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی فرد جماعت اپنے فیصلوں اور اپنے علمی نکتوں اور اپنے عملوں پر اصرار کریں۔ پس آپ کی ہر حرکت و سکون خلیفئہ وقت کے تابع ہونی چاہئے۔

انصاراللہ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ آپ کے عملی نمونے اور پاک تبدیلیاں دوسری تنظیموں اور افراد جماعت سے بڑھ کر ہونی چاہئیں۔ ہمارے بڑوں نے انصاراللہ ہونے کا حق ادا کیا اور بے نفس ہو کر دین کی خاطر قربانیاں کیں تو آج ہمارا فرض ہے کہ ایک جُہدِ مسلسل اور دُعاؤں کے ساتھ اپنے پیچھے آنے والوں کیلئے نیکی کے راستے ہموار کرتے جائیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کو پلے باندھ لیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر سچی تبدیلی اور خوفِ خدا اپنے دل میں پیدا کرے اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ کر کے دکھاوے۔ اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زندگیاں اس نہج پر چلانے والے ہوں۔ آمین

(ماہنامہ انصاراللہ ربوہ اکتوبر 2010ء صفحہ 8-9)

مغربی معاشرے میں بالخصوص انصار کا اپنے گھر میں سلوک مثالی ہو

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سالانہ اجتماع برطانیہ 2004ء کے آخری روز مورخہ 26ستمبر کو اپنے خطاب میں انصار اللہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے، جہاں ہر قسم کی آزادی ہے، انصاراللہ کی ذمہ داری بہت بڑھ گئی ہے۔ جہاں آپکو اپنے بچوں کی طرف، اپنے گھروں کی طرف توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے، بیوی کی طرف بھی توجہ دینے کی بہت ضرورت ہے۔ بیوی سے اگر حسنِ سلوک ہوگا تو وہ یکسوئی سے آپکے بچوں کی صحیح تربیت کی طرف توجہ کرے گی۔ ورنہ تو وہ بچوں کی تربیت کی بجائے گھر میں ہر وقت ان بچوں کے سامنے ایسے خاوند، ایسے باپ جو صحیح طرح اپنے بیوی بچوں کی طرف توجہ نہیں دیتے،ان کے رویّوں کا ذکرہی ہوتا رہے گا، ان کی شکایتیں ہی ہوتی رہیں گی۔ بچے اور ماں ایک دوسرے سے اپنے باپوں کے بارے میں رونے ہی روتے رہیں گے۔ اور پھر ایسی صورت کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کے بچے آپ سے پیچھے ہٹتے چلے جائیں گے۔ چالیس سال کی عمر کے انصار جو ہیں ان کے بچے ابھی چھوٹی عمرکے ہوتے ہیں، اس سے بڑی عمر کے انصار ہیں ان کے بچوں کی نوجوانی میں شادیاں ہوگئیں، ان کے آگے بچے ہیں، تو ہر عمر کے انصار کے گھر کا جو ماحول ہے، اس میں اگر اس کا رویہّ اپنے گھر والوں سے ٹھیک نہیں تو وہ بعض دفعہ ٹھوکر کا باعث بن سکتا ہے۔ اورپھر آپ سے جب پرے ہٹیں گے توپھر دین سے بھی پرے ہٹتے چلے جائیں گے۔

نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ کے حوالہ سے ذمہ داریاں

اگر بچوں میں یہ احساس پیدا ہو گیاکہ ہمارا باپ یا ہمارا دادا یا ہمارا نانا دین کے بڑے خدمت گاروں میں شمار ہوتا ہے لیکن گھر کے اندر وہ اعلیٰ اخلاق جو ایک دیندار کے اندر ہونے چاہیں ان کا اظہار نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ کی عبادت کے جو نظارے ان بزرگوں میں نظر آنے چاہئیں وہ نظر نہیں آتے، تلاوتِ قرآن کریم کی طرف توجہ جس طرح ہونی چاہئے وہ توجہ نہیں ہوتی۔ پھر بچے یہ بھی سوچتے ہیں کہ ہماری ماں کے ساتھ جو حسنِ سلوک اس گھر میں ہونا چاہئے وہ نہیں ہوتا تو باہر جا کر جس دین کی خدمت کا ایسا شخص نعرہ لگاتا ہے بچے کے ذہن میں یہی رہے گا کہ وہ سب ڈھکوسلا ہے۔ تو پھر جیسا کہ میں نے کہا ایسے بچے دین سے بھی دُور ہو جاتے ہیں۔ اور معاشرے میں اس ماحول میں شیطان تو پہلے ہی اس تاک میں بیٹھاہوا ہے کہ کب کوئی ایسی ذہنی کیفیت والانظر آئے اور کب میں اس کو اپنے جال میں پھنساؤں۔ پھرایسے بگڑتے ہوئے بچے جب شیطان اپنے جالوں میں ان کو پھنسا لیتا ہے تو بعض اوقات خدا کی ذات کے بھی انکاری ہو جاتے ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ کی ذات پہ بھی یقین نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے خدا کے نام پر اپنے باپوں کو اپنے بزرگوں کو دوہرے معیار قائم کرتے دیکھا ہوتا ہے، دوعملی کرتے ہوئے دیکھا ہوتا ہے۔ جب ان کے بچوں کے ذہن میں شیطان یہ بات ڈال دے کہ اگر خدا ہوتا تو تمہارا باپ جو یہ دوعملیاں کر رہا ہے اس کو پکڑ نہ لیتا۔ تو دیکھیں اس کے بڑے بھیانک نتائج سامنے آ سکتے ہیں اگر انسان سوچے تو خوفزدہ ہو جاتا ہے۔ اسلئے ہر احمدی کو اور خاص طور پر انصاراللہ کو جو عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں اب صحت مزید کمزور ہونی ہے، قویٰ جو ہیں مزید کمزور ہونے ہیں اورکچھ ایسی عمر کے بھی ہیں، پتہ تو نہ جوان کا ہے نہ بچے کا، لیکن کسی وقت بھی خدا کی طرف سے بلاوا آسکتا ہے۔ تو اگر ہم نے اب بھی اپنے رویّوں کو بدلنے کی کوشش نہ کی، اگر اب بھی ہم نے اپنے گھر کے رَاعی بننے کا حق ادا نہ کیا، اگر اب بھی ہم نے ان کی نگرانی اور حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی تو مرنے کے بعد خداتعالیٰ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے حضور جب حاضر ہوں گے توخداتعالیٰ پوچھے گا نہیں کہ تم نے دعویٰ تو یہ کیا تھا کہ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ ہم اللہ کے انصار ہیں۔ کیا اللہ کے انصار ایسے ہوتے ہیں۔ تم اللہ تعالیٰ کے کاموں میں مددگار بننے کی بجائے اپنی اولادوں کو بھی اللہ تعالےٰ سے دور ہٹانے والے بن رہے ہو۔ جب تمہارے اپنے گھروں میں تربیت کی طرف پوری توجہ نہیں بلکہ تمہارے نمونہ کی وجہ سے تمہاری اولادوں میں نمازوں کی عادت نہیں پڑی، تمہاری اولادوں میں قرآن کریم پڑھنے کی عادت نہیں پڑی، تمہاری اولادوں میں دین کی غیرت نہیں ابھری، ایسی غیرت کہ وہ نوجوانی میں بھی اپنی ذاتی اناؤں اور ذاتی خواہشات کو قربان کرنے والے ہوں۔ اگر تمہاری بیوی، تمہاری بہو، تمہارے حسن سلوک اور عبادت گزاری کی گواہی نہیں دیتیں تو صرف مختلف مواقع پر یہ اعلان کر دینا کہ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ۔ اس کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔

نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللّٰہِ کے معافی پر
غور اور عبادتوں کو زندہ کریں

ہر ایک کو ہم میں سے اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا نَحنُ اَنصَارُ اللّٰہِ کا نعرہ لگانے سے پہلے غور بھی کیا ہے کہ یہ کتنا گہرا اور وسیع نعرہ ہے۔ کیا کیا قربانیاں دینی پڑیں گی اس کے لئے اور قربانیاں ہیں کیا، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کوئی جنگ، توپ، گولہ نہیں ہے، کسی گولے کے آگے کھڑا ہونا نہیں ہے،کسی توپ کے منہ کے سامنے کھڑے ہونا نہیں ہے، تیروں کی بوچھاڑ کے آگے کھڑے ہونا نہیں ہے۔ صحابہ کرام، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ تھے ان کی طرح گردنیں کٹوانا نہیں ہے۔ ہاں یہ قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ کبھی کبھار اکا دکا لے لیتا ہے۔ نمونے قائم رکھنے کے لئے اس طرح کرتا ہے۔ لیکن قربانی جو اس زمانے میں کرنی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی عبادتوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے ہیں۔ اپنے معاشرہ کے حقوق ادا کرنے ہیں۔ اپنے مالوں کی قربانیاں دینی ہیں۔

پس انصار اللہ کا فرض بنتا ہے اور میں بار بار کہتا ہوں کہ اپنی عبادتوں کو زندہ کریں، اپنے لئے، اپنی اولادوں کیلئے، اپنے معاشرہ کیلئے، دکھی انسانیت کیلئے، غلبہٴ اسلام کیلئے ایک تڑپ سے دعا مانگیں۔ آخرت کی فکر اپنے دلوں میں پیدا کریں جب آخرت کی فکر زیادہ ہو گی تو معاشرہ کے حقوق ادا کرنے کی طرف بھی توجہ زیادہ ہوگی، قرآن کریم کے پڑھنے، پڑھانے کی طرف بھی توجہ کریں۔

(سبیل الرشاد جلد چہارم صفحہ49تا52)

پچاس فیصد انصار کے ہاں الفضل آتا ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی ٰ کے ساتھ مجلس عاملہ انصار اللہ جرمنی کی میٹنگ منعقدہ 3 ستمبر 2005ء میں قائد اشاعت کو حضور انور نے ہدایت کرتے ہوئے فرمایا:۔ ’’الفضل انٹر نیشنل کتنے انصار پڑھتے ہیں۔ کتنے انصار کے گھروں میں الفضل آتا ہے۔ آپ کی مجلس عاملہ، ریجنل عاملہ اور مقامی مجالس عاملہ کو بھی آنا چاہئے۔ پندرہ صد کی تعداد میں اس کی خریداری بڑھائیں، پچاس فی صد انصار ایسے ہونے چاہئیں جن کے ہاں الفضل آتا ہو۔‘‘

(سبیل الرشاد جلد چہارم صفحہ 99)

قیام نماز کی ذمہ داریاں

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجلس انصار اللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع 2018ء سے مورخہ 30ستمبر 2018ء کو بصیرت افروز خطاب فرمایا اور انصار بھائیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے قیام نماز کی بنیادی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’انصار اللہ کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس بات کی اہمیت کو سمجھیں۔ اِقَامَۃُ الصَّلٰوۃِ کا حق ادا کرنے والے بنیں۔ اپنے بچوں کو اپنے گھر والوں کو نمازوں کی طرف توجہ دلائیں۔ اگر انصاراللہ کی عمر کے لوگوں میں سے جو اپنی متعلقہ مجالس کے عہدیدار بھی ہیں اگر وہ خود اس طرف توجہ کریں کہ انہوں نے قیام نماز کا حق ادا کرنا ہے۔ ہر سطح پر جو عہدیدار ہیں اور بچوں کو بھی اس کی تلقین کرتے ہوئے مساجدمیں لانے کی کوشش کرنی ہے اور اپنے احمدی ہمسایوں کو بھی نماز میں آتے جاتے اس طرف توجہ دلاتے رہنا ہے تو ہم دیکھیں گے کہ ہماری مساجد حقیقت میں بارونق مساجد بن جائیں گی۔

اور اگر تمام انصار اس طرف توجہ کریں تو ایک انقلاب پیدا ہو سکتا ہے۔ پس اس طرف توجہ کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے یہ ایک انسان کے، مومن کے اس مقصد پیدائش کی طرف توجہ دلاتی ہے کہ عبادتوں کے حق ادا کرو اور عبادت کا حق اسی وقت ادا ہوگا جب اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اس کی عبادت کی جائے گی۔ یَعْبُدُوْنَ کا لفظ عبد سے نکلا ہے اور اس کا مطلب ہے کہ عبادت کا حق ادا کرنے والے اور کامل اطاعت کرنے والے۔ پس عبد ہونے کا حق ادا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے اور اس کے حکموں کی کامل اطاعت کرنا ضروری ہے۔

ٹی وی پر گندے پروگرام نہ دیکھیں

فرمایا:۔ ’’گناہ سے بچنے کے لئے جہاں دعائیں کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلے کو ہاتھ سے نہ چھوڑو۔ صرف دعا سے گناہ سے نہیں بچا جاتا تدبیریں بھی ضروری ہیں اور عام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو۔ ایک طرف تو انسان دعائیں مانگ رہا ہو۔ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی معرفت عطا کر اور اس میں مَیں ترقی کروں اور تیرا عبدبنوں دوسری طرف مجلسیں ایسی ہیں جن میں گناہ کی تحریک ہو رہی ہے۔ ٹی وی پر بیٹھے ہوئے ہیں غلط قسم کی فلمیں دیکھ رہے ہیں۔ بڑے انصار اللہ کی عمر کے لوگوں کی بھی رپورٹیں مجھے آتی ہیں۔ عورتوں کی طرف سے، بچوں کی طرف سے اور غلط پروگرام دیکھ رہے ہیں یا بعض مجالس میں بیٹھے ہیں، گپیں مار رہے ہیں اس قسم کے اعتراضات کر رہے ہیں بعض لوگ نظام پر اعتراض کر رہے ہیں ایک دوسرے کی چغلیاں کر رہے ہیں تو یہ ساری مجالس جو ہیں اگر ان میں بیٹھنا نہیں چھوڑو گے تو معرفت بھی حاصل بھی حاصل نہیں ہوگی۔

نیکیوں کا نمونہ دکھانا انصاراللہ کی ذمہ داری

ہم میں سے ہر ایک کا نمونہ جو ہے وہ اپنے گھر والوں کی اصلاح کے لئے ضروری ہے اور یہ نمونہ دکھانا انصاراللہ کا کام ہے اور یہی حقیقی انصاراللہ ہونے کا حقیقی مقصد ہے۔ دعاؤں اور عبادتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’جیسا کہ انسانوں میں سے بھی جو سب سے زیادہ قابل قدر ہے اسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھتا ہے اور یہ وہ لوگ ہوتے ہیں، کون قابل قدر ہیں وہ لوگ ہوتے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا سچا تعلق رکھتے اور اپنے اندرونے کو صاف رکھتے ہیں۔ اندر باہر ایک ہیں اپنے اندرونے کو بھی صاف رکھتے ہیں ایک حقیقی تعلق ہے خدا تعالیٰ سے۔

حقیقی انصاراللہ

فرمایا:۔ ’’آجکل دنیا جس تیزی سے خدا تعالیٰ کو بھُلا رہی ہے اس کی اصلاح صرف اور صرف حضرت مسیح موعودؑ کی جماعت ہی کر سکتی ہے جن کو اس کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بھیجا ہے اگر پُرانے احمدی اس اہمیت کو نہیں سمجھیں گے اور یہاں آکر شکر گزاری کی بجائے دنیا میں ڈوب جائیں گے اپنے بچوں کے لئے مثالیں قائم نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ اور مخلصین حضرت مسیح موعودؑ کو عطا فرما دے گا اور عطا فرما رہا ہے دنیا میں ہر جگہ وہ وہی لوگ ہوں گے پھر جو دین کا عَلَم اور جھنڈا اٹھانے والے ہوں گے حقیقی انصاراللہ ہوں گے۔ پس اس بات کو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ان لوگوں میں شامل ہونا ہے اور اپنی نسلوں کو ان لوگوں میں شامل کرنا ہے جن کی اللہ تعالیٰ پرواہ کرتا ہے تو پھر اپنی نمازوں کی، اپنی عبادتوں کی حفاظت کرنی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ آمین

(خطاب فرمودہ 30ستمبر 2018ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل مورخہ یکم فروری 2019ء)

(ایم۔ایم۔طاہر)

پچھلا پڑھیں

انصار اللہ کا عہد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اگست 2022