• 3 مئی, 2024

اخلاق صحابہ رسولﷺ۔ سیرت رسول کے عکس جمیل

اٴَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ۔ اَللّٰہُ اَللّٰہُ فِیْ اٴَصْحَابِیْ
اخلاق صحابہ رسولﷺ۔ سیرت رسول کے عکس جمیل
تاریخ کا وہ مطہر ترین گروہ جنہوں نے آسمان پر اپنے لئے خزانے جمع کئے

انصار بھائیوں کے لئے ایک خصوصی تحریر۔ اللہ تعالیٰ ہم سب انصار کو صحابہ رسولؐ کے نقش قدم پر چلائے

ہمارے سید و مولیٰ حضرت اقدس محمد رسول اللہﷺ نے نور صداقت اور عشق الہی کی جو لازوال شمع روشن کی تھی وہ آپؐ نے ہزاروں سینوں میں جلا دی کیونکہ آپؐ سراج منیر تھے بیسیوں چاند اور لاکھوں ستارے آپؐ کی روشنی سے منور ہوئے اور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ آپؐ نے روحانی دنیا کی سب سے بڑی کہکشاں تخلیق کی جس میں سب سے پر نور آپؐ کے صحابہؓ تھے جنہوں نے آپؐ کے رخ روشن کو دیکھا آپؐ کے حسن کردار کی تجلیات مشاہدہ کیں آپؐ کی قوت قدسیہ سے جھولیاں بھریں اور اس نور مجسم کے ساتھ مل کر خود بھی اس نور کا حصہ بن گئے اور خدائے ذو العرش نےروحانیت کے ان قطروں کو بحر محمدیت کا حصہ بنا دیا اور فرمایا

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَالَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰٮہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ

(الفتح: 30)

پس سیرت صحابہ بھی سیرت رسولﷺ کا ایک ذیلی عنوان ہے۔ اس بحر ناپیدا کنار کے محض چند قطرے پیش خدمت ہیں۔

ایمان کی خاطر قربانیاں

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو جن المناک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ان کے چند نمایاں باب یہ ہیں۔جانیں قربان کیں، تیروں اور تلواروں سے شہید کیا گیا، صلیب دے کر شہید کیا گیا، جلتے انگاروں پر لٹایا گیا، الٹا لٹکا کر نیچے آگ جلا دی گئی۔ لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں کھڑا کیا گیا، بھوک اور پیاس میں مبتلا رکھا گیا۔ عین دوپہر کے وقت گرم پتھروں پر گھسیٹا گیا، زدوکوب کیا گیا اور مار مار کر لہولہان کر دیا گیا، جوتیوں سے اتنا مارا گیا کہ پہچانے نہ جاتے تھے۔ شیرخوار بچوں کو دودھ سے محروم رکھا گیا۔ مسلمان ماؤں سے ان کے چھوٹے بچے جدا کر دیئے گئے، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، سوشل بائیکاٹ کیا گیا، ہر قسم کے تعلقات قطع کر دیئے گئے، شوہروں نے مسلمان بیویوں کو طلاق دے دی۔ وطن سے بے وطن کیا گیا، مسلمانوں کی محنتوں کا معاوضہ ضبط کرلیا گیا، مقدس حاملہ عورتوں کے حمل گرائے گئے، نام بگاڑے گئے، عبادت گاہیں گرا دی گئیں، خدائے واحد کی عبادت کرنے سے روکا گیا۔ غرضیکہ ہر روز نئے ستم ایجاد کئے گئے۔ ہر رات نئے ظلم تراشے گئے۔ صبح و شام کو مصائب و آلام کی چکیوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ زندگی کی ہر گھڑی موت کا الارم سناتی تھی، ہر سانس زہر ہلاہل تھا۔

غزوہ اُحد کے قریب زمانہ میں دس صحابہ کو بے قصور ظالمانہ طور پر موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا۔ مگر کسی نے صداقت سے منہ نہ موڑا۔ ان میں سے ایک صحابی حضرت خبیبؓ نے شہادت سے قبل دو نفل ادا کئے اور یہ شعر پڑھتے ہوئے تختہ دار کو چوم لیا۔

لست ابالی حین اقتل مسلماً۔ علی ای جنب کان للّٰہ مصرع وذالک فی ذات الالہ وان یشا۔ یبارک علیٰ اوصال شلو ممزع

یعنی جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جاؤں تو مجھے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ میں کس پہلو پر گرتا ہوں۔ میری یہ سب قربانی اللہ کی رضا کے لئے ہے۔ وہ اگر چاہے گا تو میرے ریزہ ریزہ اعضاء میں بھی برکت ڈال دے گا۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی)

اسی زمانہ میں ستر صحابہ کو دھوکہ سے تبلیغ کے بہانے بلایا گیا مگر انتہائی سفاکی کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ ان کے سردار حضرت حرام بن ملحانؓ کو پشت کی طرف سے نیزہ مارا گیا جو جسم سے پار ہوگیا۔ جب خون کا فوارہ پھوٹا تو حضرت حرامؓ نے اس سے چلو بھر کر منہ اور سر پر پھیرا اور فرمایا: فُزْتُ بِرَبِّ الْکَعْبَة کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة الرجیع)

حضرت عروہ بن مسعود ثقفیؓ نے 9 ہجری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قوم کی طرف واپس جانے کی اجازت چاہی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آغاز میں انکار کیا مگر ان کے اصرار پر اجازت دے دی۔ وہ عشاء کے وقت اپنی قوم کے پاس پہنچے اور جب ان کے قبیلہ ثقیف کے لوگ ان سے ملنے کے لئے آئے تو حضرت عروہ بن مسعود نے انہیں اسلام کی طرف دعوت دی۔ مگر انہوں نے حضرت عروہؓ پر الزام لگائے اور بہت نازیبا کلمات کہے اور واپس چلے گئے۔ مگر وہ حضرت عروہؓ کی موت کا فیصلہ کرچکے تھے۔ صبح فجر کے وقت حضرت عروہؓ نے اپنے گھر کے صحن میں کھڑے ہو کر اذا ن دی تو ایک بدبخت وہاں پہنچا اور تیر سے انہیں شہید کردیا۔

(مستدرک حاکم جلد3 صفحہ615 کتاب معرفۃالصحابہ مکتبہ النصر الحدیثہ۔ ریاض)

کب نکلتا ہے کوئی دل میں اتر جانے کے بعد
اس گلی کے دوسری جانب کوئی رستہ نہیں

حضرت فروہ بن عمروؓ فلسطین کے علاقہ میں معان اور قرب و جوار میں قیصر روم کے عامل تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو بغیر کسی پس و پیش کے اسلام لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چند تحائف بھی بھجوائے۔ جب قیصر روم کو ان کے اسلام لانے کی اطلاع ہوئی تو انہیں دربار میں بلایا اور قید کردیا اور جب اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو انہیں صلیب پر لٹکا کر شہید کر دیا مگر حضرت فروہ نے جادۂ حق سے ہٹنا گوارا نہ کیا۔

(شرح زرقانی علی المواہب اللدنیہ جلد4 صفحہ44 مطبع از ہریہ مصریہ۔ طبع اولیٰ 1327ھ)

ایک روایت میں ہے کہ وہ قید کی حالت میں فوت ہوگئے تھے۔ ان کے مرنے کے بعد انہیں صلیب پر لٹکایا گیا۔

(طبقات ابن سعد جلد نمبر7 صفحہ435 بیروت 1958)

حضرت حبیب بن زیؓد انصاری صحابی تھے۔ مسیلمہ کذاب نے اپنی بغاوت کے زمانے میں انہیں پکڑ لیا اور کہا کیا تم شہادت دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ حضرت حبیبؓ نے فرمایا:ہاں۔ پھر اس نے پوچھا: کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ تو آپؓ نے فرمایا: نہیں۔ میں یہ بات سننا بھی نہیں چاہتا اس بات پر کئی دفعہ تکرار ہوئی مگر حضرت حبیبؓ نے اسے رسول ماننے سے اور رسول اللہ کا انکار کرنے سے مسلسل انکار کیا۔ اس پر مسیلمہ نے ان کا ایک ایک عضو کاٹ کر انہیں شہید کردیا۔

(سیرة النبی ابن ہشام جلد2 صفحہ110 مطبع مصطفی البابی الحلبی۔ مصر 1963)

حضرت سعد بن عبادہؓ نے بیعت عقبہ ثانیہ میں اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل کی۔ وہاں سے واپسی پر دشمنوں نے پکڑ لیا۔ ان کے ہاتھ ان کی گردن سے باندھ دیئے، ان کے بال کھینچے، زدوکوب کیا اور سخت اذیت دیتے ہوئے گھسیٹ کر مکہ میں لے آئے۔ ظلم و ستم کا سلسلہ جاری تھا کہ مطعم بن عدی نے آکر انہیں نجات دلائی۔

(سیرة ابن ہشام جلد2 صفحہ91)

حضرت ابوذرغفاریؓ اسلام لانے سے قبل مخالفین سے اتنے خوفزدہ تھے کہ آپ قبیلہ غفار سے مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی تلاش میں آئے مگر کسی سے آپؐ کا پتہ نہ پوچھتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت علیؓ نے بڑی حکمت سے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا اور آپؓ نے اسلام قبول کرلیا۔ مگر اسلام قبول کرتے ہی ایسی شجاعت پیدا ہوئی کہ مسجد حرام میں جا کر ببانگ دہل کلمہ توحید کا اعلان کیا تو دشمن ان پر پل پڑے اور مارتے مارتے بے حال کردیا۔ یہاں تک کہ جب وہ بے دم ہو کر زمین پر گر پڑے تو سمجھا کہ ان کا کام تمام ہوگیا ہے۔آپؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے جب ہوش آیا تو میں سر سے پاؤں تک لہولہان ہوچکا تھا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ جب آپؓ مرنے کے قریب ہوگئے تو حضرت عباسؓ نے آکر دشمنوں سے چھڑایا مگر آپ پھر دوسرے دن اسی طرح مسجد حرام میں جا کر توحید کی منادی کرنے لگے تو دشمنوں نے پہلے کی طرح زدوکوب کرنا شروع کر دیا اور حضرت عباسؓ نے اس ظلم و ستم سے نجات دلائی مگر آپ کے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہ آئی۔

(مستدرک حاکم جلد3 صفحہ338۔ صحیح بخاری کتاب بنیان الکعبہ باب اسلام ابی ذر)

حضرت ولید۔ؓ خالد بن ولید کے بھائی تھے۔ وہ اسلام لائے تو انہیں حضرت سلمہؓ اور عیاشؓ بن ابی ربیعہ کے ساتھ قید کر دیا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تینوں کی رہائی کے لئے دعا کیا کرتے تھے۔ ولیدؓ کسی طرح قید سے چھوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باقی دو ساتھیوں کا حال پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سخت اذیت اور مصیبت میں ہیں۔ ایک کا پاؤں دوسرے کے پاؤں کے ساتھ باندھا ہوا ہے۔ رسول اللہﷺ کے ارشاد پر حضرت ولیدؓ مکہ گئے اور ایک خفیہ طریق سے ان دونوں کو لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ خالد بن ولید نے پیچھا کیا مگر یہ بچ کر مدینہ پہنچ گئے۔

(طبقات ابن سعد جلد4 صفحہ129 تا133 داربیروت۔ بیروت 1957)

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت عبداللہ بن حذافہؓ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں رومیوں کے ساتھ ایک جنگ میں گرفتار ہوگئے۔ ان کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ اصحاب محمدؐ میں سے ہیں۔ بادشاہ نے اولاً تو انہیں لالچ دیا اور کہا:اگر تم عیسائی ہو جاؤ تو میں تمہیں اپنی حکومت اور سلطنت میں شریک کرلوں گا۔ حضرت عبداللہؓ نے ان سے کہا کہ اگر تم اپنی ساری سلطنت اور دولت بھی مجھے اس شرط پر دے دو کہ میں دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پھر جاؤں تب بھی میں یہ بات ایک لمحہ کے لئے بھی قبول نہیں کروں گا۔ تب بادشاہ نے انہیں موت کی دھمکی دی تو انہوں نے کہا:یہ تیرا اختیار ہے تو جو مرضی کر۔

چنانچہ بادشاہ کے حکم سے انہیں صلیب پر لٹکا دیاگیا اور اس نے تیراندازوں سے کہا:ان پر اس طرح سے تیر چلاؤ کہ ان کو نہ لگیں، ہاتھوں اور پاؤں کے قریب سے گزر جائیں۔ اس کے ساتھ ہی بادشاہ کہہ رہا تھا کہ اگر تم عیسائی ہو جاؤ تو بچ جاؤ گے مگر وہ مسلسل انکار کرتے رہے۔ آخر بادشاہ نے ایک اور چال چلی۔ ان کو صلیب سے اتروا لیا۔ ایک دیگ منگوائی اور اس کو لبالب پانی سے بھروایا، نیچے آگ جلوائی اور خوب جوش دلوایا۔ پھر دو مسلمان قیدیوں کو بلوایا۔ ان میں سے ایک کو دیگ میں پھینکنے کا حکم دیا اور اسے پھینک دیا گیا۔ اس طرح بادشاہ نے اپنے خیال میں حضرت عبداللہؓ پر اذیت ناک موت کا خوف طاری کرکے انہیں پھر عیسائی ہو جانے کا مشورہ دیا مگر انہوں نے اسے پائے حقارت سے ٹھکرا دیا۔

تب بادشاہ نے کہا کہ انہیں بھی اسی دیگ میں ڈال دیا جائے جب ان کو لے جایا جانے لگا تو حضرت عبداللہؓ رو پڑے۔ بادشاہ کو پتہ لگا تو وہ سمجھا کہ موت سے خوفزدہ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ انہیں قریب بلاکر پھر عیسائیت کا پیغام پیش کیا تو انہوں نے انکار کر دیا۔ اس پر بادشاہ نے تعجب سے کہا کہ پھر رونے کی کیا وجہ تھی۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا:میں نے سوچا کہ ابھی مجھے دیگ میں ڈال دیا جائے گا اور میری ایک ہی جان ہے جو چلی جائے گی۔ میری خواہش تو یہ ہے کہ میرے جسم کے بالوں جتنی تعداد میں یعنی ہزاروں لاکھوں جانیں ہوتیں جو سب کی سب راہ خدا میں آگ میں ڈال دی جاتیں۔ اس صدمہ سے مجھے رونا آگیا۔بالآخر بادشاہ نے ان سے کہا کہ اگر تم میرے سر پر بوسہ دو تو میں تمہیں چھوڑدوں گا۔ اس پر حضرت عبداللہؓ نے تمام مسلمان قیدیوں کی رہائی کا وعدہ لیا اور سوچا کہ اس کے سر کو بوسہ دینے سے میرے تمام ساتھیوں کو بریت نصیب ہوتی ہے تو اس میں کیا حرج ہے۔ چنانچہ تمام قیدی رہا ہو کر حضرت عمرؓ کے پاس پہنچے اور انہیں یہ سارا واقعہ بتایا گیا تو حضرت عمرؓ نے فرمایا:ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ عبداللہ بن حذافہؓ کے سر کو بوسہ دے اور اس کا آغاز میں کروں گا۔

(کنزالعمال کتاب الفضائل جلد7 صفحہ62)

اللہ، رسولؐ اور قرآن سے عشق

اللہ نےرسول اللہﷺ کو ایسے صحابہ دیے جو آپؐ کے تتبع میں خدا کے عشق میں مست تھے۔ خدا گواہی دیتا ہے کہ ان کو کوئی تجارت اور دنیا کا کوئی سودا ذکر الٰہی سے روک نہیں سکتا تھا رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ

(النور: 38)

یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اَللّٰہُ اَللّٰہُ فِیْ اٴَصْحَابِیْ

(جامع ترمذی کتاب المناقب۔ باب فی من سب اصحاب النبیؐ)

یعنی میرے صحابہ میں خدا ہی خدا نظر آئے گا۔

ان میں حضرت بلالؓ اور ان کے ساتھی بھی شامل تھےجو تپتی ریت اور ابلتے پتھروں کا بوجھ اٹھا کر بھی احد احد کہتے تھے وہ خبابؓ بھی جنہوں نے محنت سے جمع کردہ سرمائے کی قربانی دے کر خدا کی خاطر ہجرت کی توفیق پائی۔

(صحیح بخاری کتاب البیوع باب ذکر القین والحداد)

وہ اصحاب صفہ بھی تھے جو رسول اللہﷺ سے کلام الہی سننے کے لیے مسجد نبوی میں چبوترے پر دھونی مار کر بیٹھ گئے تھے ان میں سے بعض دن میں جنگل میں جا کر لکڑیاں کاٹتے اور روزی کماتے اور رات کو دیر تک دین کا علم اور قرآن سیکھتے۔ انہی کے بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَسۡعٰی نُوۡرُہُمۡ بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَبِاَیۡمَانِہِمۡ یعنی ان کا نور ان کے آگے بھی دوڑے گا اور بائیں بھی یعنی ہر طرف نور ہوگا۔

(الحدید: 12)

حضرت اسید بن حضیرؓ رسول اللہﷺ کے بہت مقرب صحابی تھے اسلام پر بہت فخر کرتے تھے۔ ایک دفعہ رسول کریمﷺ کے پاس کچھ دشمن آئے ہوئے تھے اور ان کے ساتھ بات چیت ہو رہی تھی۔ اس موقعہ پر حضرت اسیدؓ نے جو رائے دی تھی وہ ان کفار کے مخالف تھی۔ اس پر ایک کافر نے کہا کہ تمہارا باپ تم سے اچھا تھا۔ انہوں نے کہا نہیں میرا باپ مجھ سے اچھا کیسے ہو سکتا ہے۔میں تم سے بھی اچھا ہوں اور اپنے باپ سے بھی اچھا ہوں کیونکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ماننے والا ہوں اور مسلمان ہوں۔ میرا باپ تو کفر کی حالت میں مر گیا تھا۔

ایک رات آپؓ نماز میں تلاوت قرآن کریم کر رہے تھے۔ قریب ہی ایک گھوڑا بندھا ہوا تھا۔ جب آپ تلاوت کرتے تھے تو گھوڑا اچھلنے لگتا تھا جیسے خوشی سے اچھل رہا ہے۔ تلاوت ختم کی تو گھوڑا رک گیا۔ پھر آپؓ نے تلاوت شروع کی تو پھر وہ خوشی سے اچھلنا شروع ہو گیا۔ تین چار مرتبہ ایسا ہوا۔ صبح انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا یا کہ اس طرح ہوا تھا۔آپؐ نے فرمایا کہ فرشتے تمہاری تلاوت اور قراء ت سننے کے لئے آئے تھے اور اگر تم صبح تک قرآن پڑھتے رہتے تو ہو سکتا تھا کہ تم فرشتوں کو بھی دیکھ لیتے۔

(بخاری)

حضرت تمیم داریؓ کا شمار ان صحابہ میں ہوتا ہے جو زہد وتقویٰ اور عبادت و ریاضت میں ضرب المثل تھے آپؓ کی نماز تہجد میں شاید ہی کبھی ناغہ ہوتااور تہجد میں بسا اوقات ایک آیت اتنی بار دہراتے کہ پوری رات ختم ہو جاتی ایک مرتبہ تہجد میں سورة الجاثیہ کی آیت نمبر 22 أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ …ساری رات تلاوت کرتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔

(اسد الغابہ از ابن اثیر جزری جلد1 صفحہ215 مکتبہ اسلامیہ طہران)

حضرت شمعونؓ کے متعلق لکھا ہے كَانَ يُكْثِرُ السُّجُودَ کہ وہ بہت نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ ایک غزوہ سے واپس آئے کھانا کھایا اور وضو کرکے سجدہ شکر ادا کرنے کے لئے مسجد میں چلے گئے۔ کوئی سورت پڑھنی شروع کی اور رات بھر وہی پڑھتے رہے فجر کے بعد جب گھر تشریف لائے تو بیوی نے کہا غزوہ سے واپسی پر کچھ آرام کرلیتے تو فرمایا مجھے یاد الٰہی میں کوئی دوسری یاد نہیں آتی میں قرآن کریم میں غور فکر کرتا رہا۔ یہاں تک کہ صبح کی اذان ہوگئی۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ از ابن حجر عسقلانی جلد2 صفحہ153 مطبع مصطفی محمد مصر 1939ھ)

حضرت سعد بن معاذؓ فرماتے ہیں کہ میں تو بہت کمزور انسان ہوں لیکن تین باتوں کا میں ہمیشہ خیال رکھتا ہوں۔

  1. جو بات بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا ہوں اسے میں منجانب اﷲ سمجھتا ہوں۔ کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور آپؐ نے اپنے نفس سے کوئی بات نہیں بنائی۔ہر بات آپؐ کی خدا کی طرف سے ہے اور سچی ہے اور پوری ہو کر رہے گی۔
  2. جب میں نماز پڑھتا ہوں تو پوری توجہ نماز کی طرف ہوتی ہے اور کسی دوسری طرف توجہ نہیں جاتی۔
    جب بھی میں کسی جنازہ کے ساتھ جاتا ہوں تو اپنا محاسبہ کر تا ہوں اور اپنے آپ کو قبر کے لئے تیار کرتا ہوں۔
  3. صحابہؓ کی زندگی میں بھی اللہ تعالی نے بیسیوں معجزانہ نظارے بھی دکھائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے رات گئے دو صحابہ نکلے تو سخت اندھیرا تھا اور کچھ سجھائی نہ دیتا تھا کہ اچانک ایک نورظاہر ہوا اور دونوں کے آگےان کے مطلوبہ راستے پر چلنے لگا اور جب دونوں صحابہ اپنے اپنے گھروں کے لئے جدا ہونے لگے تو وہ نور دو حصوں میں تقسیم ہوگیا اور گھروں تک پہنچا کر ختم ہوا۔

(بخاری کتاب المناقب باب منقبۃ اسید بن حضیرؓ حدیث نمبر 3805)

یہ سب ذکر الہی اور محبت الہی کی برکات تھیں۔ دنیا والے فانی اموال جمع کرتے ہیں مگر خدا والوں نے سب کچھ دے کر خدا کو پالیا۔

روزہ

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ صائم الد ہر رہتے تھے یعنی کسی وقفہ کے بغیر مسلسل روزے رکھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی تو آپؐ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو۔ چونکہ ہر نیکی کی جزاء دس گنا ہے اس لئے تیس روزوں کا اجر ملے گا اور اس طرح تم خدا کی نظر میں مسلسل روزہ دار قرار پاؤ گے۔ حضرت عبداللہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ فرمایا دو دن کے وقفہ کے بعد ایک روزہ رکھ لیا کرو۔ عرض کیا میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو فرمایا حضرت داؤد علیہ السلام کی طرح روزے رکھو یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن ناغہ اور یہ سب سے زیادہ متوازن طریق ہے۔ حضرت عبداللہؓ نے پھر عرض کیا کہ میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زیادہ اجازت عطا نہ فرمائی۔ حضرت عبداللہؓ ایک لمبے عرصہ تک اسی حکم کے مطابق صوم داؤدی پر عمل پیرا رہے۔

(بخاری کتاب الصوم باب صوم الدہر حدیث نمبر1840 و حق الجسم فی الصوم حدی)

حضرت عبداللہ بن حارثؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل کر گئے ایک سال بعد دوبارہ حاضر خدمت ہوئے تو صورت اس قدر بدل چکی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پہچان نہ سکے۔ آپؐ نے فرمایا تمہاری صورت تو بہت اچھی تھی تمہیں کیا ہوا تو انہوں نے کہا جب سے آپؐ سے مل کر گیا ہوں صرف رات کو کھانا کھاتا ہوں یعنی مسلسل روزے رکھتا ہوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اپنے نفس کو کیوں اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے۔ رمضان کے روزے رکھو اور ہر ماہ ایک روزہ رکھو۔ انہوں نے کہا مجھ میں زیادہ طاقت ہے کچھ اور بڑھائیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو روزے رکھو۔ پھر ان کے اصرار پر تین روزوں کی اجازت دی۔ انہوں نے مزید اصرار کیا تو فرمایا حرمت والے مہینوں یعنی ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم میں روزے رکھو۔ اس طرح کہ تین دن روزہ رکھو اور پھرتین دن ناغہ کرو۔

(سنن ابو داؤد کتاب الصوم باب فی صوم اشھرالحرم حدیث نمبر2073)

حضرت ابو امامہ الباھلیؓ نے متعدد غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شہادت کی دعا کی درخواست کی مگر آپؐ نے سلامتی کی دعا کی۔ ایک غزوہ سے واپسی پر انہوں نے عرض کی کہ مجھے ایسا عمل بتائیں جس سے خدا مجھے نفع دے تو آپؐ نے فرمایا روزے رکھا کرو کیونکہ اس کا کوئی بدل نہیں۔چنانچہ ابو امامہؓ اور ان کی بیوی اور ان کا خادم روزوں کا خاص اہتمام کرتے تھے حتیٰ کہ روزہ ان کے گھر کی امتیازی علامت بن گئی اور اگر کسی دن ان کے گھر میں آ گ یا دھواں نظر آتا تو لوگ سمجھ لیتے کہ ان کے ہاں کوئی مہمان آیا ہوا ہے۔ جس کے لئے گھر میں کھانا پک رہا ہے۔ انہوں نے اپنے طریق کار سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ نے انہیں مزید خوشخبریاں دیں۔

(مسند احمد حدیث نمبر21171)

حضرت ابو طلحہ انصاریؓ عہد رسالت میں غزوات میں شرکت کی وجہ سے روزے نہ رکھ سکے اس لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد انہوں نے اس کی تلافی کرنی شروع کی اور 40برس روزوں کا اہتمام کرتے رہے۔

(اسد الغابہ جلد نمبر2 صفحہ233)

ایک شخص نے پوچھا کہ میری ماں فوت ہو گئی ہے اس پر ایک ماہ کے روزے فرض تھے کیا میں اس کی طرف سے رکھوں۔ تو رسول اللہﷺ نے اجازت دی۔ ابن عباس کے مطابق ایک عورت نے ماں کی طرف سے نذر کے 15 روزے رکھنے کی اجازت مانگی۔

(بخاری کتاب الصوم باب من مات وعلیہ صوم حدیث نمبر 1953)

شجاعت اور شوق جہاد

حضرت سلمہ بن اکوعؓ شجاعت و بہادری خصوصاً پیدل تیز دوڑنے میں صحابہ میں ممتاز تھے۔ صاحب اصابہ لکھتے ہیں كَانَ مِن الشُّجْعانِ وَيَسْبِقُ الفَرْسَ عَدْوًا یعنی وہ بہادروں میں سے ایک تھے اور دوڑ میں گھوڑوں سے مقابلہ کرتے تھے اور ان سے آگے بڑھ جاتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سواروں میں بہتر ابو قتادہ اور پیادوں میں سلمہ بن اکوع ہیں، اس تعریف کے بعد سلمہ کو دو حصے دیے، سوار کا الگ اور پیدل کا الگ۔

(الاصابہ جلد2 صفحہ67)

حضرت سلمہؓ کی دوڑ کے کئی واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں7ھ میں غزوہ ذی قرد میں حضرت سلمہؓ کی شجاعت اور تیز رفتاری کا ایک عجیب واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ غابہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیس اونٹنیاں چرتی تھیں۔ حضرت ابو ذر غفاریؓ ان اونٹنیوں کی دیکھ بھال پر مامور تھے۔ ایک رات اچانک بنو فزارہ کے سردار عیینہ بن حصن الفزاری نے چالیس سواروں کے ساتھ وہاں حملہ کیا۔ وہ لوگ اونٹنیوں کو لے کر کر اپنے علاقہ کی طرف روانہ ہو رہے تھے۔ (سیرت حلبیہ غزوہ ذی قرد) نماز فجر کی اذان سے پہلے اتفاقاً حضرت سلمہ بن الاکوعؓ وہاں گئے۔ گھوڑے پر ان کے ساتھ آنحضرتﷺ کا غلام رباح بھی سوار تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ فزاری ڈاکو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کو چرا کرلے جا رہے ہیں۔ یہ دیکھ کر سلمہؓ نے رباح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا اور خود ایک ٹیلے پر چڑھ کر مدینہ کی طرف منہ کرکے بآواز بلند تین مرتبہ وَا صَبَاحَاهُ پکارنے لگے۔ (اس کلمہ سے صبح کے وقت کی مصیبت سے خبردار کرنا مقصود تھا)۔ یہ آوازیں دے کر سلمہؓ ان فزاری ڈاکوؤں کے پیچھے ہو لئے۔ باوجود اس کے کہ وہ تن تنہا تھے، جب پورے اعتماد کے ساتھ دشمن پر جھپٹے تو ان کے سامنے وہ چالیس فزاری ڈاکو اپنی سواریوں سمیت بے بس ہو گئے۔ حضرت سلمہؓ ان پر تیر برساتے اور ساتھ یہ رجز کہتے واَنا ابن الاکوَع الیوم یوم الرضّع میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن کمینوں کے انجام کا دن ہے۔

جب وہ لوگ ایک تنگ گھاٹی میں سے گزرے تو یہ بھاگ کر ان سے پہلے اس چٹان پر چڑھ گئے اور تاک کر ان پر پتھر برسائے۔ یہ مسلسل ان کے پیچھے پڑے رہے یہاں تک کہ ان کو عاجز کر دیا اور ان سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریباً ساری اونٹنیاں بھی چھڑوا لیں لیکن ان کا تعاقب پھر بھی جاری رکھا۔ فزاریوں نے اپنے بوجھ ہلکے کرنے کے لئے اپنے تیس سے زائد نیزے اور چادریں تک بھی پھینک دیں۔ وہ جو چیز پھینکتے اس پر سلمہ، پتھر سے نشان لگا دیتے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو حقیقت حال کا علم ہوتا رہے۔ اسی اثناء میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے حضرت بلالؓ نے ایک اونٹنی ذبح کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس کی کلیجی اور کوہان بھونی۔

(مسلم کتاب الجہاد و السیر باب غزوہ ذی قردو ابن سعد و زرقانی غزوہ ذی قرد)

جنگ احد کے وقت سفر کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کم عمر بچے جو جہاد کے شوق میں ساتھ آ گئے تھے واپس کئے۔ چنانچہ عبداللہ بن عمرؓ۔ اسامہ بن زیدؓ۔ ابو سعید خدریؓ وغیرہ سب واپس کئے گئے۔ رافع بن خدیجؓ ان بچوں کے ہم عمرتھے مگر تیر اندازی میں اچھی مہارت رکھتے تھے ان کی اس خوبی کی وجہ سے ان کے والد نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں ان کی سفارش کی کہ ان کو شریک جہاد ہونے کی اجازت دی جاوے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے رافع کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ سپاہیوں کی طرح خوب تن کر کھڑے ہو گئے تاکہ چست اور لمبے نظر آئیں؛ چنانچہ ان کا یہ داؤ چل گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت مرحمت فرما دی۔ اس پر ایک اور بچہ سمرہ بن جندب نامی جسے واپسی کا حکم مل چکا تھا اپنے باپ کے پاس گیا اور کہا کہ اگر رافع کو لیا گیا ہے تو مجھے بھی اجازت ملنی چاہئے کیونکہ میں رافع سے مضبوط ہوں اور اسے کشتی میں گرا لیتا ہوں۔ باپ کو بیٹے کے اس اخلاص پر بہت خوشی ہوئی اور وہ اسے ساتھ لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آنحضرتﷺنے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ رافع اور سمرہ کی کشتی کرواؤ، تاکہ معلوم ہو کہ کون زیادہ مضبوط ہے؛ سمرہ نے پل بھر میں رافع کو اٹھا کر دے مارا۔ جس پر آنحضرتﷺ نے سمرہ کو بھی ساتھ چلنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

(تاریخ طبری جلد2 صفحہ61)

انفاق فی سبیل اللہ

حضرت سعید بن عامرؓ ایک دفعہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہو گئے۔ حضرت عمرؓ کا دور خلافت تھا جب ان کو معلوم ہوا تو انہوں نے ایک ہزار دینار حضرت سعیدؓ کو بھجوا دئیے۔ وہ یہ دینار لے کر اپنی بیوی کے پاس آئے اور واقعہ بتایا۔ بیوی نے کہا آپ اس رقم سے کچھ کھانے پینے کا سامان اور غلہ خرید لیں۔ فرمانے لگے کیا میں تجھے اس سے بہتر بات نہ بتاؤں۔ ہم اپنا مال اس کو دیتے ہیں جو ہمارے لئے تجارت کرے اور ہم اس کی آمدنی سے کھاتے رہیں اور اس مال کی ضمانت بھی وہی دے۔ بیوی نے کہا بالکل ٹھیک ہے۔ حضرت سعید بن عامرؓ نے وہ تمام دینار اللہ کی راہ میں خرچ کر دیے اور تنگی اورترشی میں گزارہ کرتے رہے۔

(حلیۃ الاولیاء جلد 1صفحہ 244)

حضرت دکین بن سعیدؓ فرماتے ہیں کہ ہم آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہم 440آدمی تھے اور ہم نے حضورﷺ سے غلہ مانگا۔ آپؐ نے حضرت عمرؓ سے فرمایا اٹھو اور انہیں دو۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے پاس تو صرف اتنا ہے جو میرے اور میرے بچوں کے لئے گرمی کے موسم میں کفایت کرے۔ آپؐ نے فرمایا اٹھو اور دو۔ چنانچہ حضرت عمرؓ ان سب لوگوں کو ساتھ لے کرگھر آئے۔ کمرہ کھولا تو وہاں کھجوروں کا چھوٹا سا ڈھیر تھا۔ ہم میں سے ہر آدمی نے اپنی ضرورت کے مطابق اس میں سے لے لیا۔ مگر خدا کی قدرت کہ اس ڈھیر میں ذرہ برابر کمی نہ آئی۔

(حلیۃ الاولیاء جلد1 صفحہ365)

ایک دفعہ حضرت علیؓ کے پاس کسی سائل نے آ کر سوال کیا تو آپؓ نے حضرت حسنؓ یا حسینؓ سے فرمایا کہ اپنی ماں سے جاکر کہو کہ میں ان کے پاس چھ درہم چھوڑ آیا ہوں۔ ان میں سے ایک درہم دے دیں۔ چنانچہ وہ صاحبزادے گئے اور واپس آ کر کہا کہ اماں جان کہتی ہیں کہ آپ نے آٹا خریدنے کے لئے وہ چھ درہم چھوڑے ہیں۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ بندے کا ایمان سچا نہیں ہو سکتا جب تک کہ بندہ کو اس چیز پر جو اللہ کے قبضہ میں ہو، زیادہ اعتماد نہ ہو۔ بہ نسبت اس چیز کے جو بندے کے قبضہ میں ہو۔ جا کر اپنی ماں سے وہ چھ درہم لے آؤ۔ حضرت فاطمہؓ نے وہ رقم بھیجی اور حضرت علیؓ نے وہ چھ کے چھ درہم اس سائل کو دے دئیے۔

(کنز العمال جلد3 صفحہ310)

حضرت عثمانؓ مالی قربانیوں میں ہمیشہ پیش پیش تھےحضرت نبی اکرمﷺ نے ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور غزوہ تبوک کی ضرورتوں کی طرف توجہ دلائی۔ حضرت عثمانؓ نے عرض کیا کہ میں سو اونٹ مع ان کے پالان اور کجاوہ کے دوں گا۔ آنحضرتﷺ نے پھر دوبارہ ارشاد فرمایا تو حضرت عثمانؓ نے مزید سواونٹوں کا وعدہ کیا۔ آپؐ نے پھر مزید توجہ دلائی تو حضرت عثمان نے مزید سو اونٹوں کا وعدہ کیا۔ تب آنحضورﷺ نے آپؓ کے لئے دعا کی۔ اے میرے اللہ عثمان کو بھول نہ جانا عثمان پر کوئی مواخذہ نہیں اگر آج کے بعد وہ کوئی عمل نہ کرے۔ غزوہ تبوک میں انہوں نے ایک ہزار سواریاں پیش کیں اور غزوہ کے کل خرچ کا ایک تہائی پیش کردیا۔ یہاں تک کہ کہا جانے لگا کہ لشکروالوں کو کوئی حاجت باقی نہیں رہی جو انہوں نے پوری نہ کردی ہو۔

(حلیۃ الاولیاء جلد1 صفحہ59)

حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ بھی خدا کی راہ میں قربانیاں کرنے میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔ بلکہ صف اول کی قربانی کرنے والوں میں تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے سات سو اونٹ مع سامان تجارت کے صدقہ کئے۔ ایک بار چارہزار درہم پھر چالیس ہزار درہم پھر چالیس ہزار دینار، پھر پانچ سو اونٹ، پھر ڈیڑھ ہزار اونٹنیاں صدقہ کیں۔ کئی سوگھوڑے جہاد کے لئے پیش کئے اور یہ سارا مال وہ تجارت سے حاصل کرتے تھے۔

(حلیۃ الاولیاء جلد1 صفحہ98 تا99)

حضرت قیس بن سعدؓ نہایت فیاض صحابی تھے۔ ایک غزوہ میں وہ قرض لے کر صحابہ کے کھانے کا بندوبست کرتے رہے۔ حضرت ابوبکرؓ اور عمرؓ نے مشورہ کیا کہ اگر ان کو اسی حال پر چھوڑ دیا گیا تو یہ اپنے والد کا سارا سرمایہ خرچ کردیں گے۔ مگر ان کے والد حضرت سعدؓ کو جب یہ مشورہ معلوم ہوا تو انہوں نے اس کا برامنایا اور کہا کہ مجھے غربت کا کوئی خوف نہیں۔

(اسدالغابہ جلد4 صفحہ215)

حضرت سعد بن عبادہؓ بہت فیاض تھے۔اصحاب صفہ کو بعض اوقات اپنے ساتھ لے جاتے اور 80,80 صحابہ کو ساتھ لے کر جاتے تھے۔ جب ان کی والدہ کی وفات ہوئی تو آپؓ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ میں اپنی والدہ کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر رسول اللہﷺ نے کہا کہ ایک کنواں خرید کر وقف کردو۔رسول اللہﷺ کے کہنے پر آپ نے کنواں وقف کیا۔ والدین کی طرف سے مالی قربانی اسی سنت سے شروع ہوئی ہے۔

ایثار

ایک صحابی حضرت ربیعہ الاسلمیؓ غربت کی وجہ سے شادی نہ کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کا رشتہ کروایا۔ ولیمہ کا وقت آیا تو حضورؐ نے انہیں فرمایا۔ عائشہ کے پاس جاؤ اور آٹے کی ٹوکری لے آؤ وہ فرماتے ہیں میں حضرت عائشہؓ کے پاس گیا تو انہوں نے بتایا کہ اس ٹوکری میں تھوڑا سا آٹا ہے اور اس کے علاوہ کھانے کی کوئی اور چیز نہیں لیکن چونکہ حضور نے فرمایا ہے اس لئے لے جاؤ۔ چنانچہ اس آٹے سے ولیمہ کی روٹیاں پکائی گئیں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد4 حدیث نمبر 15982)

حضرت ابو بصرہ غفاریؓ بیان کرتے ہیں کہ میں قبول اسلام سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے مجھے بکری کا دودھ پیش کیا جو آپؐ کے اہل خانہ کے لئے تھا۔ حضورؐنے مجھے سیر ہو کر وہ دودھ پلایا اور صبح میں نے اسلام قبول کر لیا۔ بعد میں مجھے پتہ لگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ نے وہ رات بھوکے رہ کر گزاری جبکہ اس سے پچھلی رات بھی بھوکے گزاری تھی۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 6 حدیث نمبر25968)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ ایک بار بیمار تھے۔ آپؓ نے فرمایا میرا دل مچھلی کھانے کو چاہتا ہے۔ بڑی تلاش کے بعد صرف ایک مچھلی ملی۔ اس مچھلی کو ان کی بیوی حضرت صفیہ بنت عبیدؓ نے کھانے کے لئے تیار کر دیا۔ اتنے میں ایک مسکین آیا اور حضرت ابن عمرؓ کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔ انہوں نے وہ مچھلی اٹھا کر اسے دے دی۔ گھر والوں نے عرض کیا کہ آپ نے تو ہمیں اس مچھلی کی تلاش میں تھکادیاتھا۔ ہم مسکین کو درہم دے دیتے ہیں وہ درہم اس کے لئے مچھلی سے زیادہ مفید ہو گا۔ آپ مچھلی کھا کر اپنی خواہش پوری کیجئے۔ مگر حضرت ابن عمرؓ نے فرمایا کہ اس وقت میرے نزدیک یہی مچھلی محبوب ہے اور اسے ہی صدقہ کروں گا۔

(حلیۃالاولیاء جلد 1صفحہ 297)

اسی طرح ایک مسکین نے حضرت عائشہؓ سے کچھ مانگا۔ اس دن آپ روزہ سے تھیں اور گھر میں سوائے ایک چپاتی کے اور کچھ نہ تھا۔ آپؓ نے اپنی خادمہ سے فرمایا یہ روٹی سائل کو دے دو۔ خادمہ نے کہا کہ پھر آپ کس چیز سے روزہ افطار کریں گی حضرت عائشہ نے فرمایا کہ روٹی ضرور اس سائل کو دے دی جائے۔

(مؤطا امام مالک۔ کتاب الجامع باب الترغیب فی الصدقة)

پڑوسی کے حقوق

ایک شخص محمد بن جہم نے کسی مجبوری سے اپنے گھر کو بیچنے کا ارادہ کیا لیکن قیمت وہ لگائی جو مارکیٹ ریٹ سے بہت زیادہ تھی۔ لوگوں نے اعتراض کیا تو اس نے کہا میرے پڑوسی صحابی رسولﷺ حضرت سعید بن العاصؓ ہیں اگر ان کے ساتھ برائی کرو گے تب بھی وہ بھلائی کریں گے۔ جو ان سے مانگو گے وہ دیں گے۔ تو یہ قیمت مکان کی نہیں پڑوسی کی ہے۔ حضرت سعید بن عاصؓ کو معلوم ہوا تو انہوں نے پڑوسی کو ضرورت کے مطابق رقم بھجوائی اور کہا مکان فروخت نہ کرو اور اطمینان سے رہو۔

(امن کا راستہ صفحہ12)

صحابی رسول حضرت عائذ بن عمروؓ اپنے گھر کا پانی باہر نہیں نکلنے دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوگی۔ اور میں یہ ہرگز پسند نہیں کرتا۔

(الاصابہ جلد2 صفحہ252)

حضرت امام حسینؓ کا ایک پڑوسی ان کے پاس آیا اور کہا اے فرزند رسول مجھ پر 400 درہم قرض ہے۔ حضرت حسینؓ اندر گئے 400 درہم لا کر اسے دے دیئے اور وہ چلا گیا تو زاروقطار رونے لگے کسی نے وجہ پوچھی تو فرمایا۔ میں اس لئے رو رہا ہوں کہ اپنے پڑوسی کے حال سے بے خبر رہا اور اس کو مجھ سے سوال کرنا پڑا۔

(بحوالہ الفضل 26 مئی 2001ء)

صفائی اور نظافت کا خیال

حضرت بلالؓ جب بھی حوائج ضروریہ کے لئے جاتے تھے وضو کر لیتے تھے۔ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوک کا دھبہ مسجد کی دیوار پر دیکھا تو اس قدر غصہ آیا کہ چہرۂ مبارک سرخ ہوگیا۔ ایک انصاری عورت نے دھبے کو مٹایا اور خوشبو لا کر اس جگہ ملی تو بہت خوش ہوئے اور اس عورت کی تعریف فرمائی۔

(نسائی کتاب المساجد باب تخلیق المساجد حدیث 720)

ایک خاتون ام محجن مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتی تھیں۔ ایک رات وہ فوت ہوگئیں۔ صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کا خیال کرکے آپ کو اطلاع نہ دی اور انہیں دفن کر دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چند دن اسے نہ دیکھا تو صحابہ سے اس کے متعلق دریافت کیا۔ صحابہ نے واقعہ بتایا تو آپ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور اس کے لئے دعا کی۔

(بخاری کتاب الصلوٰة باب کنس المسجد حدیث نمبر 438)

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے مسجد کی صفائی کی بدولت اس عورت کو جنت میں دیکھا۔

(الترغیب والترھیب۔کتاب الصلوٰة باب الترغیب فی تنظیف المساجد)

غلاموں اور خادموں سے سلوک

صحابی رسول حضرت ابوذر غفاریؓ نے ایک غلام پر کچھ سختی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر ناراض ہوئے اور فرمایا:
یہ لوگ تمہارے بھائی اور خدمت گار ہیں جنہیں خدا نے تمہاری نگرانی میں دیا ہے۔ پس جس شخص کے ماتحت اس کا بھائی ہو وہ اسے وہی کھلائے جو خود کھاتا ہے اور وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے اور ان سے ان کی طاقت سے زیادہ کام نہ لو اور اگر کوئی مشکل کام ان کے سپرد کردو تو ان کی مدد کرو۔

(صحیح بخاری کتاب الایمان باب المعاصی من امر الجاھلیة حدیث نمبر 29)

یہی ابوذر غفاریؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تعمیل اس طرح کرتے تھے کہ آقا اور غلام ایک ہی طرح کے کپڑے پہنتے تھے اور ایک ہی طرح کا کھانا کھاتے تھے۔

حضرت سلمان فارسیؓ ایک دفعہ آٹا گوندھ رہے تھے۔ کسی نے پوچھا خادم کہاں ہے فرمایا اس کو کسی کام سے بھیجا ہے۔ مجھے یہ اچھا معلوم نہیں ہوتا کہ اس پر زیادہ بوجھ ڈالوں۔

(طبقات ابن سعد جلد4 صفحہ90)

راز امانت

حضرت عمرؓ کی بیٹی حضرت حفصہؓ کے خاوند خنیس بن حذافہؓ جنگ بدر کے بعد فوت ہوگئے تو حضرت عمرؓ نے ان کی شادی کا ارادہ کیا۔ وہ حضرت عثمانؓ سے ملے اور انہیں اپنی بیٹی حضرت حفصہ کا رشتہ پیش کیا۔ حضرت عثمانؓ نے معذوری ظاہری کی۔ پھر حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے یہی درخواست کی تو وہ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت عمرؓ نے دل میں اس کا برا منایا لیکن ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت حفصہؓ کے لئے نکاح کا پیغام بھیجا۔ جب شادی ہوگئی تو حضرت ابوبکرؓ نے اپنی خاموشی کی وجہ بتائی اور فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حفصہ سے شادی کا ذکر فرمایا تھا اس لئے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا راز فاش کرنا پسند نہیں کیا لیکن اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ شادی نہ کرتے تو پھر میں ضرور حفصہ سے شادی کرلیتا۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی غزوہ بدر)

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ تشریف لائے۔ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔آپؐ نے مجھے اپنے ایک کام کے لئے بھیجا اور اس وجہ سے میں گھر دیر سے پہنچا۔ میری ماں نے مجھ سے دیر سے آنے کی وجہ پوچھی تو میں نے جواب دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا تھا۔ میری ماں نے پوچھا۔ وہ کیا کام تھا؟ میں نے جواب دیا۔ ایک راز کی بات تھی۔ میری ماں نے کہا۔ تو پھر رسول اللہ کا راز کسی کو نہ بتائیو۔ حضرت انسؓ نے یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنے ملازم ثابت سے فرمایا اے ثابت! اگر وہ راز کی بات میں کسی کو بتا سکتا تو تجھے ضرور بتا دیتا۔

(مسلم کتاب الفضائل باب فضائل انس)

عفو اور صلح جوئی

63ھ میں اہالیان حرم رسول اللہ نے اعلانیہ یزید سے فسخ بیعت کر کے حضرت عبداللہ ابن حنظلہ انصاری کے ہاتھ پر بیعت کی۔ سرکاری لشکر سے مقابلہ پیش آیا۔ جس میں اہل مدینہ کو ہزیمت ہوئی اور حضرت عبداللہؓ نہایت جانبازی سے لڑکر مارے گئے۔ اس وقت عجیب تشویش اور اضطراب کاعالم تھا۔ وہ مقام جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کی طرح حرام کیا تھا۔ اہل شام کے ہاتھ قتل و غارت گری کا مرکز بنا ہواتھا۔ صحابہؓ سے یہ بے حرمتی دیکھی نہیں جاتی تھی اس لئے حضرت ابوسعید خدریؓ پہاڑ کی ایک کھوہ میں چلے گئے تھے لیکن یہاں بھی پناہ نہ تھی ایک فوجی بلائے بے درماں کی طرح پہنچ گیا اور اندر اتر کر تلوار اٹھائی۔ انہوں نے بھی دھمکانے کی خاطر تلوار کھینچ لی مگر وہ آگے بڑھا تو حضرت ابو سعیدؓ نے تلوار رکھ دی اور یہی آیت پڑھی جو آدم کے ایک بیٹے نے دوسرے بیٹے کے سامنے پڑھی تھی لَئِنۡۢ بَسَطۡتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقۡتُلَنِیۡ مَاۤ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیۡکَ لِاَقۡتُلَکَ ۚ اِنِّیۡۤ اَخَافُ اللّٰہَ رَبَّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۲۹﴾

(مائدہ: 30)

شامی فوجی یہ سن کر سناٹے میں آگیا پیچھے ہٹا اور کہا خدا کے لئے بتایئے آپ کون ہیں؟ فرمایا ابوسعید خدری۔ بولا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی؟ کہا ہاں، یہ سن کر وہ غار سے نکل کر چلا گیا۔

(تاریخ طبری حالات 63ھ)

حضرت ابو سعید خدری نے خون کا ایک قطرہ بہائے بغیر فتح حاصل کرلی۔

قرض داروں پر شفقت

حضرت ابوقتادہؓ کا ایک مسلمان پر قرض تھا۔ یہ مانگنے کے لئے جاتے۔ مگر ملاقات نہ ہوتی اور ممکن ہے وہ عمداً سامنے نہ آتا ہو۔ ایک روز یہ گئے تو بچے نے باہر آکر بتایا کہ میرے والد صاحب گھر پر موجود ہیں۔ آپؓ نے آواز دی اور کہا کہ مجھے علم ہوگیا ہے کہ تم گھر میں ہو اس لئے ضرور باہر آجاؤ۔ آخر وہ آیا تو آپؓ نے پوچھا کہ چھپنے کی کیا وجہ تھی اس نے کہا بات دراصل یہ ہے کہ مَیں بہت تنگ دست ہوں۔ عیال دار آدمی ہوں آمدنی محدود ہے۔ اس لئے قرض ادا نہیں کرسکا اور ندامت کی وجہ سے سامنے بھی نہیں ہوتا رہا۔ آپؓ نے کہا۔ تمہیں خدا کی قسم واقعی تمہاری یہی حالت ہے؟ اس نے قسم کھا کرکہا تو آپ آبدیدہ ہوگئے اور سارا قرض اسے معاف کر دیا۔

(مسند احمد جلد5)

ایک دن حضرت صفوانؓ مسجد میں چادر بچھا کر سورہے تھے اتنے میں ایک شخص آیا اور ان کی چادر چرا کر لے جانا چاہا۔ مگر حضرت صفوانؓ کی آنکھ کھل گئی اور انہوں نے اسے پکڑ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت کے مطابق چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ تو حضرت صفوانؓ کا دل گداز ہوگیا۔ عرض کیا۔کیا صرف تیس درہم کی چادر کے لئے اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے؟ مَیں یہ چادر اس کے ہاتھ فروخت کردیتا ہوں۔ قیمت یہ جب چاہے اداکردے۔

(سنن ابی داؤد۔ کتاب الحدود باب من سرق من حرز حدیث نمبر3819)

ایفائے عہد

ایرانیوں کا ایک سردار ہرمزان نامی تھا ایرانی جب قادسیہ کے میدان میں شکست کھا کر بھاگے تو اس شخص نے خوزستان کے علاقہ میں اپنی ایک خودمختار حکومت قائم کرلی۔ مسلمانوں نے اسے شکست دی تواس نے اطاعت قبول کرلی لیکن کئی بار بغاوت کی۔ بہت تگ و دو اور لڑائیوں کے بعد اس نے درخواست کی کہ میں پھر صلح کرتا ہوں لیکن شرط یہ ہے کہ مسلمان مجھے مدینہ میں اپنے خلیفہ کی خدمت میں بھیج دیں وہ جو فیصلہ میرے متعلق کریں گے مجھے بسروچشم منظور ہوگا۔ چنانچہ اسے مدینہ بھیجا گیا۔ جب وہ فاروقِ اعظم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس سے دریافت کیا کہ تم نے اتنی مرتبہ کیوں بد عہدی کی ہے؟ تو ہرمزان نے کہا مجھے پیاس لگی ہے چنانچہ پانی لایا گیا تو پیالہ پکڑ کر اس نے کہا کہ آپ مجھے پانی پینے کی حالت میں قتل کردیں گے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ نہیں اس کی کوئی فکر نہ کرو۔ جب تک تم یہ پانی نہ پی لو تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔ یہ سنتے ہی اس نے پیالہ ہاتھ سے رکھ دیا اور کہا کہ مَیں پانی پیتا ہی نہیں اور اس وعدہ کے مطابق اب آپ مجھے قتل نہیں کرسکتے۔ اب دیکھیں یہ بھی کوئی وعدہ ہے عام رنگ میں ایک بات کہی گئی ہے توڑ مروڑ کر فائدہ اٹھایاگیا لیکن پھر بھی حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ گو تم نے میرے ساتھ دھوکہ کیا مگر میں تم کو دھوکا نہ دونگا اور تمہیں قتل نہیں کرونگا۔ بد عہدی کے مقابلہ میں عہد کی پابندی اور باوجود تمام قدرت رکھنے کے حضرت عمرؓ کے عفوواحسان کا اتنا گہرا اثر اس پر ہوا کہ اس نے فوراً کلمۂ توحید پڑھا اور حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔

(الفاروق جلد اول صفحہ119)

سادہ زندگی

حضرت سلمان فارسیؓ مدائن کے گورنر بھی رہے مگر دنیاوی لذات سے ہمیشہ کنارہ کش رہے۔ بطور گورنر جو تنخواہ ملتی وہ ساری مستحقین میں تقسیم کر دیتے اور چٹائی بُن کر اس کی آمد سے گزارہ کرتے۔ عمر بھر گھر نہیں بنایا جہاں کہیں دیوار یا درخت کا سایہ ملتا پڑے رہے۔ ایک شخص نے اجازت چاہی کہ آپ کے لئے مکان بنادوں تو انکار کردیا اور اس کے اصرار کے باوجود اجازت نہ دی۔ آخر اس نے کہا کہ میں آپ کی مرضی کے مطابق گھر بناؤں۔ پوچھا وہ کیسا۔ اس نے کہا اتنا مختصر کہ کھڑے ہوں تو سر چھت سے مل جائے اور لیٹیں تو پیردیواروں سے لگیں۔ فرمایا اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ چنانچہ اس نے ایک جھونپڑی بنادی۔

(الاستیعاب فی اسماء الاصحاب از علامہ ابن عبدالبر مطبع مصطفی محمد مصر 1939ء)

اعلیٰ کردار کی گواہی

حضرت ابو بکر صدیقؓ مکہ میں نہایت عزت سے دیکھے جاتے تھے مگر قبول اسلام کے بعد دشمن کے مظالم اور سب و شتم سے تنگ آکر ہجرت حبشہ کا قصد کیا۔آپ نے آنحضرتﷺ سے اجازت لی اور رخت سفر باندھ کر عازم حبشہ ہوئے۔جب آپؓ مقام برک الغماد میں پہنچے تو ابن الدغنہ قارہ قبیلہ کے رئیس سے ملاقات ہوئی۔اس نے پوچھا ابو بکر کہاں کا قصد ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ قوم نے مجھے جلا وطن کر دیا ہے۔ اب ارادہ ہے کہ کسی اور ملک کو چلا جاؤں اور آزادی سے خدا کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا کہ تم سا آدمی جلا وطن نہیں کیا جا سکتا۔ تم مفلس و بے نوا کی دستگیری کرتے ہو۔ قرابت داروں کا خیال رکھتے ہو، مہمان نوازی کرتے ہو، مصیبت زدوں کی اعانت کرتے ہو۔ میرے ساتھ واپس چلو اور اپنے وطن ہی میں اپنے خدا کی عبادت کرو۔ چنانچہ آپؓ ابن الدغنہ کے ساتھ پھر مکہ واپس آئے۔ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو تسلیم کیا مگر بعد میں اسے برداشت نہ کر سکے اور حضرت ابو بکرؓ نے یہ پنا ہ واپس کر دی۔

(صحیح بخاری باب ہجرت النبی واصحابہ الی المدینۃ)

حضرت نعیم بن عبداللہؓ نہایت فیاض صحابی تھے اور ہجرت سے قبل مکہ میں بنو عدی کی بیواؤں اور یتیموں کی پرورش کرتے تھے۔کفار پر ان کی نیکی کا اتنا اثر تھا کہ جب انہوں نے ہجرت کا ارادہ کیا تو تمام کفار نے روک کر کہا کہ جو مذہب چاہو اختیار کر و مگر یہاں سے نہ جاؤ۔ اگر کوئی تم سے الجھے گا تو سب سے پہلے ہماری جان تمہارے لئے قربان ہو گی۔

(اسد الغابہ جلد5 صفحہ33)

یہ وہ پاک باز گروہ تھا جو محمد رسول اللہﷺ کی قوت قدسیہ نے پیدا کیا اور جن کو عالم انسانیت کے لئے رہنما بنا دیا گیا۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں: ’’ہمارے ہادی ٔ اکمل کے صحابہؓ نے اپنے خدا اور رسول کے لئے کیا کیا جاں نثاریاں کیں، جلاوطن ہوئے۔ ظلم اٹھائے، طرح طرح کے مصائب برداشت کئے جانیں دیں لیکن صدق و وفا کے ساتھ قدم مارتے ہی گئے پس وہ کیا بات تھی جس نے انہیں ایسا جاں نثار بنا دیا۔ وہ سچی محبت الٰہی کا جوش تھا۔ جس کی شعاع ان کے دل میں پڑ چکی تھی، اس لئے خواہ کسی نبی کے ساتھ مقابلہ کرلیا جائے، آپؐ کی تعلیم، تزکیہ نفس، اپنے پیروؤں کو دنیا سے متنفر کرادینا، شجاعت کے ساتھ صداقت کے لئے خون بہا دینا اس کی نظیر کہیں نہیں ملے سکے گی۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ27)

(عبد السمیع خان۔ استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

انصار اللہ کا عہد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اگست 2022