• 4 مئی, 2024

صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ کی لازوال قربانیاں

انصار کے لئے خصوصی تحریر۔ تا ’’صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا‘‘ کی تصدیق ہو

تاریخ انسانیت ایک کھلی کتاب کی طرح اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ جب بھی اللہ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئےکسی کو مبعوث کیا گیا تو شیطان اور اس کے پجاری پوری طاقت سے اس چراغ کو بجھانے کے در پے ہو گئے۔ ان کے پیروکاروں کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ انہیں ابتلاوں میں ڈالا گیا۔ ان پر زمین تنگ کردی گئی۔ لیکن وہ اور ان کے ساتھی جان، مال، وقت اور عزت کی قربانیاں دے کر اخلاص و وفا کی ایسی داستانیں رقم کر گئے جو وقت کی پیشانی سے مٹائی نہیں جا سکیں گی۔

آنحضورﷺ اور آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم کی قربانیاں اسی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ لیکن حضورؐ نے آنے والے مسیح و مہدی علیہ السلام کی جماعت کے بارے میں بھی یہی پیشگوئی فرمائی تھی کہ مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِی ان کی حالت بھی یہی ہوگی جو میری اور میرے صحابہؓ کی ہے۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓ نے بھی ایسی ہی قربانیوں کی ایک تاریخ چھوڑی ہے جسے پڑھ کر اہل ایمان کے حوصلے بلند ہوجاتے ہیں اور یہ قربانیاں آنے والوں کے لئے ایک مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓ کی ان قربانیوں کے پیشِ نظر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔
’’ہماری جماعت کے دوستوں میں کتنی ہی کمزوریاں ہوں، کتنی ہی غفلتیں ہوں۔ لیکن اگر موسیٰؑ کے صحابی ہمارے سامنے اپنا نمونہ پیش کریں تو ہم ان کے سامنے اس گروہ کا نمونہ پیش کر سکتے ہیں۔ اسی طرح عیسیٰؑ کے صحابی اگر قیامت کے دن اپنے اعلیٰ کارنامے پیش کریں۔ تو ہم فخر کے ساتھ ان کے سامنےاپنے ان صحابہؓ کو پیش کر سکتے ہیں اور یہ جو رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ میں نہیں کہہ سکتا۔ میری امّت اور مہدی کی امّت میں کیا فرق ہے۔میری امّت زیادہ بہتر ہے یا مہدی کی امّت زیادہ بہتر۔تو درحقیقت ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے فرمایا ہے۔یہ وہ لوگ تھے جو ابوبکرؓ اور عمرؓ اور عثمانؓ اور علیؓ اور دوسرے صحابہؓ کی طرح ہر قسم کی قربانیاں کرنے والے تھے۔اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کے مصائب برداشت کرنے کے لئے تیار رہتے تھے‘‘

(الفضل قادیان 28 اگست 1941ء جلد 29 نمبر 196 صفحہ 6-7)

ان میں سے چند صحابہ کا ذکر کرنا مقصود ہے۔

حضرت مولوی عبد الرحمٰن شہیدؓ

حضرت مولوی عبدالرحمٰنؓ حضرت صاحبزادہ عبداللطیفؓ شہید کے ہونہار شاگرد تھے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کو جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ مسیحیت و مہدویت کی خبر ملی تو آپؓ نے حضرت مولوی عبدالرّحمٰن صاحب کو 1894 یا 1895ء سے وقتاً فوقتاً حضور علیہ السلام کی خدمت میں قادیان بھجوانا شروع کر دیا۔ آپ کئی کئی ماہ تک قادیا ن میں رہ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے فیض پاتے، کتب کا مطالعہ کرتے اور ایمان کی تازگی کے ساتھ واپس لوٹتے۔ آخری مرتبہ دسمبر 1900ء (کے غالباً آواخر میں) میں آپ قادیان تشریف لائے۔ اس وقت افغانستان کی سرحد (ڈیورنڈ لائن) پراختلافات کی وجہ سے بعض سرحدی قبائل نے انگریزوں کے خلاف شورش برپا کر رکھی تھی۔ علماءنے جہاد کے نام پر انگریزوں کے قتل کے فتوے جاری کردئیے۔جہاد کی اس غلط تشریح سے اسلام اور مسلمانوں کی بہت بدنامی ہو رہی تھی۔ حضرت مولوی صاحب نے جہاد سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تشریح کے مطابق اسلامی تعلیم سے مکمل اتفاق کیا۔ 1901ء میں قادیا ن سے واپسی پر افغانستان کے بعض علماء نے آپ کے خلاف اس معاملے کو ہوا دی اور امیر کابل سے شکایت کر دی کہ انہوں نے ایک پنجابی کی بیعت کر لی ہے جو اپنے آپ کو مسیح موعود ظاہر کرتا ہے اور جہاد کا مخالف ہے۔ اس پہ آپؓ کو گرفتار کر کے پہلے نظر بند رکھا گیا اور پھر دکھ اور تکالیف دیتے ہوئے گردن میں کپڑا ڈال کر گلا گھونٹ کر شہید کر دیا گیا۔ اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام آپ کے بارے میں پورا ہوا کہ شَاتَانِ تُذْبَحَانِ۔ (کہ دو بکرے ذبح کئے جائیں گے)۔ علم التعبیر میں ’’شاۃ‘‘ (بکری) کی تعبیر مطیع اور فرمانبردار رعایا کی بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا اس الہام سے ظاہر ہوتا تھا کہ دو بکری کی طرح معصوم اور اپنے بادشاہ کی فرمانبرداری کرنے والے بغیر کسی جرم شہید کر دئے جائیں گے۔

حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہیدؓ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے اور اس کے نتیجے میں انتہائی درجہ کےظلم و ستم اور بربریّت برداشت کرتے ہوئے اپنی جان، مال، وقت اور عزّت کی قر بانی پیش کرنے والوں میں حضرت صاحبزادہ عبداللطیفؓ شہید کا نام ایک روشن ستارے کی طرح آسمانِ روحانیت پر چمکتا رہے گا۔ آپؓ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری ؒ کی اولاد میں سے تھے۔ آباؤ اجداد ہجرت کر کے افغانستان آگئے۔آپ افغانستان کے صوبہ خوست میں پیدا ہوئے۔ بہت بڑی جائیداد کے مالک، ایک اعلیٰ درجہ کے عالم دین اور امیر کابل کے مشیر تھے۔افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمٰن کی وفات پہ نئے بادشاہ امیر حبیب اللہ خان کی رسم تاجپوشی آپؓ کے ہاتھوں ہی انجام پائی۔

آپؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور کی خبر مل چکی تھی اور اپنے شاگرد رشید حضرت مولوی عبدلرّحمٰنؓ شہید کے ذریعہ حضورؑ کی تعلیمات سے آگاہی ہو چکی تھی اور حضورؑ کی صداقت کا یقین کر چکےتھے۔ آپ حج کرنے کی نیّت سے بادشاہ سے چھ ماہ کی رخصت لے کر 1902ء کے آواخر میں مکّہ مکرمہ روانہ ہوئے۔ لیکن لاہور پہنچنے پر معلوم ہوا کہ طاعون کی وجہ سے حج کا سفر روک دیا گیا ہے۔ اس پہ آپؓ نے قادیان جانے کا ارادہ کر لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت کرلی اور اپنی رخصت کے ایّام قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں گزارے۔ 1903ء میں واپسی کی اجازت لے کر افغانستان تشریف لائے۔ امیر کابل کو آپ کی شکایت کردی گئی اور علماء نے آپ کے خلاف کفر وارتداد کے فتوے دئے اور بادشاہ کو آپ کے خلاف بہت بھڑکا یا گیا۔ جس کی بناء پر آپ کو گرفتار کر کے ایک قلعہ میں قید کر دیا گیا۔ایک غرغراب نامی زنجیر کمر تک آپ کو پہنا دی گئی جس کا وزن ایک من چوبیس سیر تھا۔ پاؤں میں آٹھ سیر وزنی بیڑی لگا دی گئی۔اسی قید بامشقّت کی حالت میں آپ نے صبر و استقامت سے چار ماہ عبادت اور ذکر الٰہی کرتے ہوئے گزارے۔بادشاہ کی طرف سے متعدد مرتبہ آپؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کرنے کے بدلہ میں رہائی کی پیشکش ہوتی رہی جسے آپؓ حقارت سے ٹھکراتے رہے۔ تاہم آپ نے بادشاہ سے کہا کہ میری علماء سے بحث کروا ئی جائے۔ اگر میں جھوٹا ثابت ہو جاؤں تو بے شک مجھے سزا دی جائے۔ اس پہ مسجد شاہی میں آٹھ مفتیوں سے بحث کروانے کا فیصلہ کیا گیا اور ایک لاہوری ڈاکٹر جو پہلے سے ہی سخت مخالف تھا ثالث مقرر کر دیا گیا۔ مباحثہ تحریری تھا۔ جس میں صرف تحریر لکھی جاتی اور سامعین کو کچھ بھی دکھایا یا سنایا نہ جاتا۔ لہٰذا اس مباحثہ کا حال کسی کو بھی معلوم نہیں۔ آپؓ زنجیروں میں قید کی حالت میں تھے۔ جبکہ دشمن نہ صرف آزاد تھے بلکہ آٹھ آدمی برہنہ تلواریں لئے آپؓ کے سر پہ کھڑے رہے۔صبح سات بجے سے سہہ پہر تین بجے تک مباحثہ جاری رہا۔ پھر عصر کے بعد فتویٰ لگا دیا گیا اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو دوبارہ پا بہ زنجیر قید خانہ بھجوا دیا گیا۔ رات کو وہ فتویٰ بادشاہ کو بھجوا دیا گیا لیکن یہ چالاکی کی گئی کہ مباحثہ کے اصل کاغذات بادشاہ کو نہ دکھا ئے گئے۔ اور بادشاہ نے بھی اصل کاغذات طلب کرنے کی زحمت تک گوارہ نہ کی اور آپ کو قید خانہ بھجوا دیا گیا

صبح آپؓ کو امیر کے دربار میں اسی حالت میں لایا گیا اور بادشاہ نے آپ سے کہا کہ آپ پر کفر کا فتویٰ لگ چکا ہے۔ اب بتاؤ توبہ کرو گے یا سزا پاؤ گے؟ تو آپ نے صاف لفظوں میں انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ میں حق سے توبہ نہیں کر سکتا۔ کیا میں جان کے خوف سے باطل کو مان لوں؟ مجھ سے یہ نہیں ہوگا۔اور آپ اپنے ایمان پر ڈٹے رہے۔ اور فرمایا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں سچائی سے توبہ کروں۔ اس پر امیر نے ایک لمبا چوڑا حکم نامہ لکھا جس میں مولویوں کا فتویٰ بھی درج کیا کہ ایسے کافر کی سزا سنگسار کرنا ہے۔

اس کے بعد امیر نے حکم دیا کہ آپؓ کے ناک میں چھید کر کے رسّی ڈال دی جائے۔اور کھینچ کر مقتل گاہ پہنچا یا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور اسی حالت میں لوگوں کا ایک جم غفیر، جس میں قاضی، مفتی اور دیگر اہلکار بھی شامل تھے، ہنسی، ٹھٹھہ، گالیاں اور لعنت ملامت کرتے ہوئے آہنی زنجیروں میں جکڑے ہوئے اس ایمان مجسم وجود کو مقتل تک لے آئے۔ مقتل میں پہنچ کر عظم و ہمّت کی چٹان اور صبر و استقا مت کے اُس شہزادے کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا۔ اس حالت میں امیر پھر آپ کے پاس آیا اور کہا کہ اگر تو قادیانی کا جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، انکار کردے تو میں اب بھی تمہیں بچا لیتا ہوں۔یہ آخری موقع ہے۔ اپنی جان اور اہل و عیال پر رحم کر۔ تب آپؓ نے جواب دیا کہ سچائی سے انکار کیونکر ہو سکتا ہے۔ جان کی کیا حقیقت اور عیال و اطفال کیا چیز ہیں جن کے لئے ایمان چھوڑ دوں؟ میں حق کے لئے مروں گا۔

اس پہ وہاں موجود قاضیوں اور فقیہوں نے کافر کافر کا شور مچایا اور سنگسار کرنے کا مطالبہ کیا۔ تو امیر نے قاضی کو کہا کہ چونکہ تم نے کفر کا فتویٰ دیا ہے لہٰذا پہلا پتھر تم مارو۔ قاضی نے کہا آپ بادشاہ ہیں آپ چلائیں۔ بادشاہ نے کہا شریعت کے آپ بادشاہ ہیں اور فتویٰ بھی آپ کا ہے۔ اس میں میرا دخل نہیں۔ اس پہ قاضی نے جو گھوڑے پہ سوار تھا، گھوڑے سے اتر کر پتھر چلایا جس سے آپؓ کو ایک کاری زخم لگا اور گردن ایک طرف جھک گئی۔پھر اس کے بعد امیر نے پتھر چلایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس ہجوم کی طرف سے آپؓ پر پتھروں کی بارش کر دی گئی اور چشم فلک نے ایک نیک اور متقی بزرگ، ایک عالم با عمل، نازو نعمت میں پلے شہزادے کو محض اپنے خدا اور اس کے مأمور سے وفاداری کے جرم میں پتھروں کے ڈھیر میں زندہ دفن ہوتے اور اپنی جان جان آفرین کے سپرد کرتے ہوئے دیکھا۔

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا، وہ شان سلامت رہتی ہے
اس جان کی تو کوئی بات نہیں، یہ جان تو آنی جانی ہے

آپؓ کی شہادت پہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔
’’وہ درحقیقت ان راستبازوں میں سے تھاجو خدا سے ڈر کر اپنے تقویٰ اور اطاعت الٰہی کوانتہاء تک پہنچا دیتے ہیں۔ اور خدا کے خوش کرنے کے لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان اور عزّت اور مال کو ایک ناکارہ خس و خاشاک کی طرح اپنے ہاتھ سے چھوڑ دینے کو طیار ہوتے ہیں۔اس کی ایمانی قوّت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر میں اس کو ایک بڑے سے بڑے پہاڑ سے تشبیہ دوں تو میں ڈرتا ہوں کہ میری تشبیہ ناقص نہ ہو‘‘

(تذکرہ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ10)

نیز فرمایا
’’اے عبداللطیف! تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا‘‘

(تذکرہ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 60)

حضرت نواب محمد علی خان ؓ

آپؓ مالیر کوٹلہ کے نواب خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک پہ شاہانہ زندگی ترک کر کے قادیان آگئے اور ساری زندگی یہیں بسر کی۔ آپ کہ پہلی بیوی کی 1898ء میں وفات ہوگئی۔ دوسری شادی کی لیکن 1906ء میں دوسری اہلیہ کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد آپ کی تیسری شادی حضرت صاحبزادی نواب مبارکہ بیگم رضی اللہ عنہا سے ہوئی۔

عام طور پہ دیکھا جاتا ہے کہ بڑے بڑے نواب، زمیندار اور مالدار گھرانے اپنی جاہ حشمت کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے دینی معاملات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ لیکن حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کا طرز عمل اس کے بالکل برعکس تھا۔ اسلام اور احمدیت کی خاطر آپ نے کبھی کسی قسم کی قربانی کرنے سے دریغ نہیں کیا اور اس سلسلہ میں کبھی خاندان، مال ودولت یا ظاہری عزّت و وجاہت کو راہ میں حائل نہیں ہونے دیا۔ آپ ہر مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے۔ اس وقت جب انجمن کی مالی حالت بہت کمزور تھی اور باتنخواہ ملازم نہ رکھ سکتی تھی۔ تو آپ نے بعض مبلغین کا خرچ خود اُٹھایا۔ تحریک شدھی میں پیرانہ سالی کے باوجود خود تشریف لے گئے اور خوب محنت کی اور اپنے ساتھیوں سمیت سارا خرچ خود برداشت کیا۔

ایسے بڑے خاندانوں میں رشتہ کرتےوقت عموماً جائیداد کا بہت خیال رکھا جاتا ہے۔آپؓ کی صاحبزادی محترمہ زینب بیگم صاحبہ کے ساتھ حضرت مرزا شریف احمد رضی اللہ عنہ کے نکاح کی تجویز ہوئی تو آپ کے رشتہ داروں نے آپؓ کو بہت روکا کہ اس طرح مالیر کوٹلہ کی جائیداد سے حصّہ دینا پڑے گا۔ لیکن آپؓ نے اس کی قطعاً کوئی پرواہ نہ کی اور فرمایا کہ جب میں ایک شخص کو مسیح موعود مان چکا ہوں تو ان کو رشتہ دینے سے کیسے انکار کر سکتا ہوں؟ نیز فرمایا کہ
’’جو میں نے دیکھا ہے وہ آپ کو نظر نہیں آ سکتا۔ اتنا آپ سن لیں کہ اگر شریف احمد ٹھیکرا لے کر گلیوں میں بھیک بھی مانگ رہا ہو تا تب بھی شریف احمد کوہی بیٹی دیتا‘‘

(رفقاء احمد جلد2 صفحہ256)

یہ وہ وجود تھے جنہیں اپنی دنیوی وجاہت سے کوئی غرض نہ تھی بلکہ سب کچھ فدا کرکے صرف اور صرف دین کو زندہ رکھنا ہی اپنا مقصود و مطلوب سمجھتے تھے۔

حضرت مولانا برہان الدین جہلمیؓ

حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی رضی اللہ عنہ 1830ء میں پیدا ہوئے۔ دینی علوم خصوصاً حدیث اور فقہ کے ماہر تھے۔ 1886ء میں ہوشیار پور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنی فہم و فراست سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بیعت کی درخواست کی لیکن حضورؑ نے فرمایا کہ ابھی بیعت کی اجازت نہیں ہے۔ پھر بعد میں 1892ءمیں بیعت کرلی۔

حضرت مستری نظام الدین صاحب سیالکوٹی سنایا کرتے تھے کہ 1904ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیالکوٹ تشریف لے گئے تو مولوی صاحب بھی وہاں پہنچ گئے۔ حضورؑ اپنے خدّام کے ہمراہ جا رہے تھے کہ کھڑکی سے کسی عورت نے حضورؑ پر راکھ ڈالی۔ حضور تو (بحفاظت) گزرگئے مگر راکھ مولوی صاحب کے سر پہ پڑی۔آپ پر محویّت طاری ہو گئی اور نہایت خوشی سے فرمانے لگے۔ ’’پا اے مائے پا‘‘ یعنی اے بوڑھی ماں اور راکھ ڈال۔

حضور علیہ السلام جب سیالکوٹ سے واپس تشریف لے گئے تو آپؓ حضور کو الوداع کہنے کے بعد پیچھے رہ گئے اور بعض شریروں نے آپ کو پکڑ لیا اورہنسی، تمسخر اور ٹھٹھہ کرتے ہوئے آپ کی بہت بے عزّتی کی اور مارا پیٹا حتّٰی کہ آپ کے مونہہ میں گوبر تک ٹھونس دیا۔لیکن آپ نے اس تکلیف پر بھی بشاشت سے فرمایا کہ ’’او بر ہانیاں! ایہہ نعمتاں کتھوں‘‘۔ یعنی آپؓ کو معلوم تھا کہ انبیاء کرام اور ان کے متّبعین سے مخالفین کا کیا سلوک ہوتا ہے اور اس پر صبر و استقامت اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول کتنی بڑی نعمت ہے۔ یہ نعمت تو نصیب والوں کو ہی ملتی ہے۔ لہٰذا سنّتِ انبیاء میں اس تضحیک آمیز رویّہ پر بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہو ئے اسے نعمت قرار دیا۔

(تاریخ احمدیت جلد2 صفحہ 409-410)

حضرت مولانا شیر علیؓ

حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے 1897ء میں قریباً 22 سال کی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی۔ انگلینڈ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود سب کچھ چھوڑ کر قادیان میں دربار مسیح پہ حاضر ہو گئے پھر واپس پلٹ کے دنیا کی طرف نہیں دیکھا۔جماعت کی خدمت میں آپ کی انگریزی اور اردو زبان میں اعلیٰ پائے کی تحریریں آپ کے تبحر علمی کا مونہہ بولتا ثبوت ہیں۔ جن میں سب سے بہترین تحریر آپ کا انگریزی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ ہے۔

اس دور میں تعلیم یافتہ لوگوں کی کمی تھی۔ اور یونیورسٹی سے گریجویشن کر لینا تو بہت ہی بڑے اعزاز کی بات سمجھی جاتی تھی۔ یو نیورسٹی سے بی۔اے کرنے بعد آپؓ قادیان میں تھے تو آپؓ کو اعلیٰ صلاحیتوں کی بناء پرگورنمنٹ کی طرف سے جج کے عہدہ کی پیشکش ہوئی۔ آپؓ نے وہ چٹھی اپنے والد صاحب کو بتائے بغیر ہی پھاڑ کر پھینک دی تاکہ والد صاحب وہاں جانے پر مجبور نہ کریں اور قادیان کا روحانی ماحول چھوڑنا نہ پڑے۔ آپؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہ کر خدمت دین کرنا اتنا پسند کرتے تھے کہ اس پہ دنیا کی نعمت کو قربان دینا معمولی خیال کرتے تھے۔ اور دنیا کی نعماء سے مونہہ موڑ کر فقیرانہ زندگی کو پسند فرماتے تھے۔

آپؓ رسالہ ریویو آف ریلیجینز کے ایڈیٹر تھے۔ ایک مرتبہ دو انگریز افسر قادیان آئے۔ آپؓ باہر حضرت نواب صاحبؓ کی کوٹھی کے قریب سادہ سے کپڑوں میں ملبوس اپنی بھینس چرا رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے آپؓ سے پوچھا کہ ہم نے ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر صاحب سے ملنا ہے۔ آپؓ نے فرمایا چلیئے میں آپ کو لے چلتا ہوں۔ انہیں اپنے گھر میں لاکر بیٹھک میں بٹھایا اور فرمایا کہ آپ تشریف رکھیں میں انہیں بلا کے لاتا ہوں۔انہوں نے کہا کہ نہیں آپؓ ہمیں ان کے گھر ہی لے چلیں۔ اس پہ آپؓ نے فرمایا ’’ریویو کا ایڈیٹر تو میں ہی ہوں‘‘۔ وہ دونوں افسر یہ سن کر ہکّا بکّا رہ گئے اور بے ساختہ ان کے مونہہ سے نکلا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ اس رسالہ کا ایڈیٹر کوئی انگریز ہو گا۔

(سیرت حضرت مولانا شیر علیؓ از ملک نذیر احمد، صفحہ189-190)

ملک فرید احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ معروف صحافی میاں محمد شفیع صاحب المعروف ’’م۔ش‘‘ جلسہ سالانہ کی رپورٹنگ کے لئے قادیان آئے۔ مجھے کہنے لگے کہ ملک صاحب کوئی ولی اللہ دکھلائیں۔ میں نے کہا کہ سب سے بڑے ولی اللہ تو ہمارے امام ہی ہیں۔ کہنے لگے ہاں وہ تو ہوئے۔ لیکن پھر بھی میں کسی فقیر ولی اللہ کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ اسی اثناء میں حضرت مولوی شیر علی صاحب کندھے پہ بھورے رنگ کا موٹا اور کھردرا سا کمبل ڈالے ہمارے قریب سے گزرے۔ میں نے کہا یہ ہمارے مولوی شیر علی صاحب ہیں 1902ء میں گریجویٹ ہوئے اور یورپ میں تین سال رہ کر آئے ہیں۔ انگریزی زبان کے بڑے ماہر ہیں۔ برسوں سے رسالہ ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر ہیں۔ میاں صاحب کہنے لگے میں ایسے ہی فقیر کو دیکھنا چاہتا تھا۔ اور جب تک مولوی صاحبؓ نظروں سے اوجھل نہ ہوگئے ان کی نظریں حضرت مولوی صاحب کا تعاقب کرتی رہیں۔

(سیرت حضرت مولانا شیر علیؓ از ملک نذیر احمد صفحہ 56-57)

حضرت مولانا محمد ابرہیم بقا پوریؓ

آپؓ 1873ء میں چک چٹھہ ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ مدرسّہ رحیمیہ نیلا گنبد لاہور سے اپنی دینی تعلیم مکمل کی۔ 1905ء میں قادیان جاکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پہ بیعت کا شرف حاصل کیا ۔1914ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی تحریک پر زندگی وقف کی اور تبلیغی جہاد کا سلسلہ تادم آخر جاری رہا۔

آپؓ کے تایا مکرم چراغ دین صاحب مرحوم ایک نیک، متقی، تہجد گزار اور ولی اللہ آدمی تھے۔ ان کے متعلق حضرت مولوی صاحب کی والدہ محترمہ نے بتایا کہ وہ کہتے تھے کہ ابراہیم تمہارے گھر میں ایک نور لائے گا جسے تم وقت پر سمجھ لو گے۔ اس سے مراد اُن کی احمدیت تھی۔ کیونکہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے خاندان میں پہلا احمدی ہوں۔

(حیات بقا پوری، صفحہ6)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے واپس اپنے ننہیا ل قصبہ مرالی آئے اور نماز پڑھانے کے بعد اپنی بیعت کا اعلان کر دیا۔ تو لوگوں نے شدید مخالفت کی۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ایک تھانیدار (جو نماز پڑھنے آیا تھا) کہنے لگا کہ بس خبردار اب جو تو ہمارے مصلّیٰ پہ کھڑا ہوا۔ میں مصلّے سے الگ ہو گیا اور کہا یہ لو۔۔۔نہ اب میں تمہارا امام اور نہ ہی تم میرے مقتدی۔کیونکہ اب میں امام الزماں حضرت مہدی علیہ السلام کو مان چکا ہوں اور تم اس امام کے منکر ہو اور جو امام کا منکر ہو وہ فاسق ہوتا ہے۔۔۔پس میں تو متقیوں کا امام بننا چاہتا ہوں، فاسقوں کا نہیں۔ وَجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَاماً۔ میرے اس اعلان پر قصبہ میں شور پڑ گیا اور میری مخالفت شروع ہو گئی۔۔۔مولویوں نے میرا بائیکاٹ کروادیا عوام کالانعام مجھے علانیہ گالی گلوچ دینےپر اتر آئے۔میرا ماموں جو میرا خسر بھی تھا میرے خلاف ہو گیا اور کہنے لگا میرے گھر سے نکل جاؤ۔۔۔میں نے مصمّم ارادہ کر لیا تھا کہ لوگ خواہ مجھے کتنی ہی تکالیف پہنچائیں میں تبلیغ کرنا نہیں چھوڑوں گا۔۔۔اور ان کی مخالفت کی کوئی پرواہ نہ کروں گا۔

(حیات بقا پوری صفحہ15)

اپنے خسر (آپؓ کے ماموں بھی تھے) کے گھر سے نکال دینے کے بعد آپؓ اپنے گاؤں موضع بقا پور آگئے تو گھر والوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ گھر میں بڑے بھائی کے سوا (جو قادیان ساتھ گئے تھے لیکن بیعت نہ کی) سب گھر والے بھی مخالف ہو گئے۔اور برا بھلا کہتے رہے۔ ایک ماہ کے بعد آپ کی والدہ صاحبہ نے اپنے خاوند سے کہا کہ اس کو کیوں برا بھلا کہتے ہو؟ یہ تو پہلے سے زیادہ نمازیں پڑھتا ہے اور تہجد کا بھی پابند ہے۔ والد نے کہا کہ اس نے مرزا کو مان لیا ہے جو مہدی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ والدہ نے کہا کہ امام مہدی کے معنی تو ہدایت یافتہ لوگوں کے امام کے ہیں۔ ان کے ماننے سے تو میرے بیٹے کو زیادہ ہدایت نصیب ہو گئی ہے۔ اور اس کا ثبوت اس کے عمل سے ظاہر ہے۔ اورساتھ ہی آپؓ سے کہا کہ بیٹا! میری بیعت کا بھی خط لکھ دو۔اور اس طرح آپؓ کی والدہ محترمہ اور پھر خاندان کے دیگر افراد بھی بیعت کر کے نور ہدایت سے منوّر ہو گئے۔

آپ فرماتے ہیں کہ
’’بقا پور میں 1905ء سے 1908ء تک تین سال ہر طرح کی مالی اور بدنی ابتلاؤں کے گزرے۔ کئی کئی دن فاقہ کشی بھی کرنی پڑی لیکن باوجود جسمانی تکلیفوں کے روحانی مسرّت زیادہ سے زیادہ حاصل ہوتی رہی اور اب بھی وہ دن یاد آتے ہیں تو اس خاص زمانے کو یاد کر کے جذبات میں ایک طلاطم برپا ہو جاتا ہے‘‘

(حیات بقا پوری صفحہ19)

حضرت مولوی حسن علی بھاگلپوریؓ

آپ 22 اکتوبر 1852ء کو بھاگل پور میں پیدا ہوئے اور11جنوری 1894ء میں بیعت کی۔313 صحابہؓ میں شامل ہیں۔ آپؓ انگلش، عربی، فارسی، اردو، ہندی اور بنگلہ زبانوں کے ماہر تھے۔ پٹنہ میں اسکول میں ہیڈماسٹر رہے۔ آپؓ ایک شعلہ بیان مقرر تھے۔ اپنے انداز بیان سے مجمع پر چھا جاتے۔ لیکن دنیوی زندگی سے مطمئن نہ ہونے کی وجہ سے ملازمت سے استعفیٰ دے کر دین اسلام کی خدمت میں مشغول ہو گئے اور ہندوستان کے اعلیٰ پائے کے مبلغین اسلام میں شمار ہونے لگے۔ اس دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے اور آپؑ خدمت میں قادیان جانے کا موقع ملا تو یہی سوال ذہن میں اُٹھا کہ ہندوستان میں بطور واعظ جو عزّت و تکریم ملی ہوئی ہے، اسے قائم رکھا جائے یا اس جلیل القدر امام کا متبع ہو کر تکفیر اور ملامت کا ٹوکرہ سر پہ اُٹھا لیا جائے؟ تو دل نے فیصلہ کیا کہ جب سچائی کھل گئی ہے تو اپنی صحت روحانی کا دشمن بن کر اندرونی پلیدگی اور منافقانہ زندگی میں ڈوبا رہنے کا کیا فائدہ۔ بالآ خر 11،جنوری 1894ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پہ بیعت کر کے آپؑ کی غلامی میں آگئے۔

بیعت کے بعد آپؓ لاہور آئے اور ایک لیکچر میں قادیان سے حاصل کردہ فیوض و برکات کا کھول کر ذکر کیا۔ اس کے بعد جب واپس مدراس پہنچے تو وہی کچھ ہوا جو عاشقان صدق و وفا کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ اس سلسلہ میں خود بیان فرماتے ہیں کہ
’’مسجد میں واعظ کرنے سے روکا گیا۔ ہر مسجد میں اشتہار کیا گیا کہ حسن علی سنّت الجماعت سے خارج ہے۔ کوئی اس کا واعظ نہ سنے۔ پولیس کو اطلاع دی گئی کہ میں فساد پھیلانے والا ہوں۔ وہ شخص جو چند ہی روز پہلے شمس الواعظین جناب مولانا صاحب واعظ اسلام کہلاتا تھا، صرف حسن علی لیکچرار کے نام سے پکارا جانے لگا۔ پہلے واعظوں میں ایک ولی سمجھا جاتا تھا، اب مجھ سے بڑھ کر شیطان دوسرا نہ تھا۔ جدھر جاتا انگلیاں اُٹھتیں۔ سلام کرتا جواب نہ ملتا۔ مجھ سے ملاقات کرنے کو لوگ خوف کرتے۔ میں ایک خوفناک جانور بن گیا‘‘

(تائید حق، از حضرت مولوی حسن علیؓ بھاگلپوری صفحہ69-70)

حضرت مولوی احمد علی صاحب بھاگلپوری لکھتے ہیں کہ
’’آپ مدراس لوٹے تو سارے علماء مدراس نے آپ کی تکفیر کی اور آپ کو دجّال اور کرسٹان (عیسائی) کہنے لگے‘‘

(اصحاب احمد جلد14 صفحہ55)

رسالہ ‘‘معاصر’’ پٹنہ نے آپ کے بارے میں لکھا کہ
’’قادیانی مذہب قبول کرتے ہی مولوی صاحب کی مقبولیت عامہ کو سخت دھچکا لگا۔ اب وہ صرف مبلغ احمدیت ہو کے رہ گئے۔ عام مسلمانوں نے ان کا بائیکاٹ کیا او ر ان کو مسجدوں میں تقریر کرنے کی اجازت نہ دی‘‘

(اصحاب احمد جلد14 صفحہ30)

حضرت مولوی عبداللہ بوتالویؓ

حضرت مولوی صاحبؓ 20 مئی 1881ء کو جھنڈا سنگھ والا ضلع گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ 17 فروری 1901ء کو بیعت کی۔ 3؍مئی 1952ء کو 71 سال کی عمر میں وفات پائی۔بہشتی، مقبرہ ربوہ کے احاطہ خاص میں پہلی قبر آپؓ کی ہے۔

حضرت مولوی عبداللہ صاحبؓ انصاف پسند طبیعت کے مالک تھے۔احمدیت قبول کرنے سے قبل ہی حق کی جانب جھکاوٴ رکھتے تھے۔ اور لوگوں کو آپ کا اس طرف جھکاؤ بھی پسند نہ تھا۔ 1901ء میں آپ نے صداقت کو پوری طرح پہچان لیا اور اس کا کھلے عام اظہار کر نے لگے۔اس کے ساتھ ہی گاؤں میں آپ کی مخالفت کا شور پڑ گیا۔آپؓ کی مخالفت میں تیزی لانے کے لئے ایک مخالف مولوی کو بلایا گیا۔ اس کی تفصل بیان کرتے ہوئے آپؓ فرماتے ہیں۔
’’ایک دن میری عدم موجودگی میں قریب کے گاؤں بھوانی داس سے ایک اہل حدیث مولوی احمد علی کو بلوایا گیا۔۔۔مولوی مذکور سے جمعہ پڑھوایا۔ اثناء واعظ اس مولوی نے لوگوں کو علماء اسلام کا ایک مطبوعہ فتویٰ پڑھ کر سنایا اور اخیر پر مولویوں کی مہریں لگی ہوئیں دکھلا کر کہا کہ دیکھوجس شخص پر اس قدر مولویوں نے کفر کا فتویٰ لگایا ہو وہ یا اس کی پیروی کرنے والا کب مسلمان ہو سکتا ہے۔ یہ کہہ کر لوگوں کو پیغام سلام کے ترک کرنے اور ہر طرح کے تعلقات قطع کردینے کا فیصلہ سنایا۔جب میں شام کو گاؤں واپس آیا تو میں نے سب کے طور بدلے ہوئے دیکھے۔ اور جن لوگوں کے ساتھ آباءو اجداد سے ہمارے گہرے تعلقات رہ چکے تھے ان کی آنکھیں بھری ہوئی ملاحظہ کیں۔ہمارا پانی بھرنے والے ماشکیوں کو پانی بھرنے سے روک دیا گیا اور ہر طرح کا بائیکاٹ کر کے تکلیف دینا چاہی۔ حتّٰی کہ۔۔۔ گاؤں کے چند معتبر اشخاص کا مجمع ہمارے گھر پر آیا اور ہماری ڈیوڑھی میں بیٹھ کر اندر سے میری والدہ مرحومہ کو بلایا۔۔۔ان میں سے ایک شخص جو ہم پر بہت امید رکھتا تھا یو ں گویا ہوا۔ بےبے جی ! آپ کے خاندان کا ہمیں بہت لحاظ ہے لیکن آپ کے بیٹے نے پرانے طریقے کو چھوڑ کر نیا طریقہ اختیار کر لیا ہے۔۔۔اسے سمجھائیں اور اسے باز رکھیں۔اس پر میری والدہ نے نہایت جرأت اور دلیری سے جواب دیا۔۔۔ مجھے اس کے عقیدے اور عمل میں کوئی برائی معلوم نہیں ہوتی۔ اس لئے میں کیوں اس کو منع کروں؟ اب جدھر اس کا راستہ ہے ادھر ہی ہمارا راستہ ہے۔یہ کھرا کھرا جواب سن کر وہ سب اپنا سا مونہہ لے کر واپس چلے گئے۔۔۔ اس کے بعد لوگوں کے مقاطعہ سے میرے دل کو بہت صدمہ ہوا۔۔۔ دوستوں اور آشناؤں کا خشک اور روکھا سلوک میرے جذبات کو بہت ہی صدمہ پہنچانے کا موجب ہوا اور میں ہر وقت اسی سوچ بچار میں افسردہ خاطر رہتاتھا کہ الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔ کیا تھا اور کیا ہو گیا۔۔۔‘‘

(اصحاب احمد جلد7 صفحہ183)

بالآخر مخالفت میں شدّت آجانے اور نت نئے مسائل کے پیدا ہونے پہ آپؓ کو اپنا گاؤں بوتالہ چھوڑنا پڑا۔اور آپؓ بوتالہ سے ہجرت کر کے بھیرہ چلے گئے۔ یہاں آکر پٹواری کا امتحان پاس کیا اور ملازمت اختیار کرلی۔اس طرح اپنا گھر بار،دوست، رشتہ دار چھوڑ دئے لیکن اپنے ایمان کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ان صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق فرماتے ہیں کہ
’’یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے۔۔۔ان کو خدا نے آخری زمانہ کے مامور اور مرسل کا صحابی بننے کی توفیق عطا فرمائی۔اور ان کی والہانہ محبت کے نظارے ایسے ہیں کہ دنیا ایسے نظارے صدیوں میں بھی دکھانے سے قاصر رہے گی‘‘

(الفضل 28 اگست 1941 صفحہ4 کالم3)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اندر ان بزرگ ہستیوں کا سا ایمان اور دینی جذبہ پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(شمشاد احمد قمر۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

انصار اللہ کا عہد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 6 اگست 2022