• 18 مئی, 2024

سانحہ ارتحال محترمہ محمودہ باسط مرحومہ

میری اہلیہ محترمہ محمودہ باسط صاحبہ مئی 1941ء میں ہوشیارپور، انڈیا میں میاں چراغ دین صاحب کے یہاں پیدا ہوئیں۔ آپ مولوی محمد صدیق صاحب مرحوم (لائبریرین خلافت لائبریری) اور مولوی محمد شریف صاحب مرحوم (مبلغ بلادِ عربیہ) کی بھانجی تھیں۔

1960ء میں ہماری شادی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے چھ بچوں سے نوازا۔ خاکسار نے جب افریقہ میں پندرہ سال خدمت کی توفیق پائی تو اس دوران بیشتر وقت مرحومہ نے ربوہ میں رہ کر چھ بچوں کی اکیلے پرورش کی۔

ہر طرح سے میرے عہدِ وقفِ زندگی کو نباہنے میں ممد و مددگار رہیں۔ جہاں جہاں میرے ساتھ رہیں، وہاں اپنے نیک نمونے سے میری مساعی میں سہولت پیدا کی۔

پابندِ صوم و صلوٰۃ اور دعا گو خاتون تھیں۔ قرآن کریم سے بے حد محبت تھی۔ جس جس شہر اور ملک میں رہیں، مقامی بچوں کو قرآن کریم ناظرہ سکھاتی رہیں۔ سینکڑوں بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھایا۔ افریقہ میں بعض ناخواندہ خواتین کو بھی پہلے یسرنالقران پڑھنا سکھایا اور پھر قرآن کریم ناظرہ۔

خلافت سے محبت اور عقیدت کا گہرا تعلق تھا۔ دوسروں کو بھی خلیفہ وقت کی اطاعت کی تلقین کرتیں۔ خلیفۂ وقت کی ہر تحریک پر لبیک کہتیں۔

اسلامی تعلیمات کی پابندی کرتیں۔ میرے ساتھ کچھ سال زیمبیا میں گزارے۔جب وہاں پہنچیں تو کسی خاتون نے اشارۃً کہا کہ یہاں ربوہ والا روایتی پردہ نہیں چلے گا لہذا اپنا پردہ کچھ ’’آسان‘‘ کرلیں۔ انہوں نے فوراً جواب دیا کہ میرے شوہر بحیثیت مربی پردہ کی تلقین کرتے ہیں۔ میں اپنے عملی نمونے سے ان کا ساتھ دینے کے لیے آئی ہوں۔ میرا پردہ ایسا ہی رہے گا۔

اسی طرح ایک مرتبہ کلر کہار میں ایک مزار کے پاس سے گزرہوا۔ وہاں لوگ روایتی مشرکانہ رسوم میں مصروف نظر آئے۔ مرحومہ کچھ عورتوں کے پاس گئیں اور انہیں کہا کہ میں قرآن کریم پڑھتی بھی ہوں پڑھاتی بھی ہوں۔ مجھے تو کہیں مزار پرستی کی کوئی تعلیم نظر نہیں آئی۔ تم نے مزاروں کو سجدہ کرنا کس اسلام سے سیکھا ہے؟

جماعت احمدیہ مسلمہ کے لیے بہت غیرت رکھتی تھیں۔ 1974ء میں پاکستانی حکومت کے بدنامِ زمانہ فیصلے کے وقت ہم حیدرآباد، سندھ میں تھے۔ آئے دن مشن ہاؤس کے باہر دھمکی آمیز پوسٹر چسپاں کردیے جاتے۔ طرح طرح سے ڈرایا دھمکایا جاتا۔ ہماری بڑی دو بچیاں اس وقت سکول میں پڑھ رہی تھیں۔ انہیں غیر مسلم ہونے کے طعنے دیے جانے لگے۔ مرحومہ ان کے سکول گئیں اور ہیڈمسٹرس کو کہا کہ میری بچیاں آپ کے سکول کی ہر تقریب میں قرآن کریم کی تلاوت کرتی رہی ہیں۔ تلاوتِ قرآن کریم کے مقابلہ میں سب سے سبقت لیتی ہیں۔ آج ایسا کیا ہوگیا کہ انہیں غیر مسلم کہہ کر تکلیف دی جارہی ہے؟ حکومت جو بھی کہے،یہ مسلمان ہیں اور یہ تمہیں بھی معلوم ہے۔

عرصہ سات برس dementia کے مرض کا شکار رہیں۔ عمر بھر صابرہ اور شاکرہ رہی تھیں اوریہ بیماری بے حد صبر آزما تھی۔ یوں آخری دم تک صابرہ رہنے کی توفیق پائی۔ مورخہ 16؍اگست 2022ء، بعمر 81 سال بقضائے الٰہی وفات پاگئیں۔ پسماندگان میں اپنے شوہر کے علاوہ چار بیٹیاں اور دو بیٹے چھوڑے ہیں۔ دو پوتے مربیانِ سلسلہ ہیں۔ عزیزم نبیل احمد باسط صاحب آسٹریا میں بطور مربی سلسلہ تعینات ہیں۔ عزیزم رومان محمود باسط صاحب حال ہی میں جامعہ احمدیہ یوکے سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ آپ مکرم آصف محمود باسط آف لندن کی والدہ محترمہ تھیں۔

مورخہ 23 اگست بروز منگل حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسلام آباد میں مرحومہ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ اسی روز Eashing , Godalming کے احمدیہ قبرستان کے قطعۂ موصیان میں تدفین عمل میں آئی اور قبر تیار ہونے پر مکرم عبد السلام ظافر نے دعا کروائی۔

(مولانا عبدالباسط شاہد۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 5 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ